النمل آية ۳۲
قَالَتْ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِىْ فِىْۤ اَمْرِىْۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
طاہر القادری:
(ملکہ نے) کہا: اے دربار والو! تم مجھے میرے (اس) معاملہ میں مشورہ دو، میں کسی کام کا قطعی فیصلہ کرنے والی نہیں ہوں یہاں تک کہ تم میرے پاس حاضر ہو کر (اس اَمر کے موافق یا مخالف) گواہی دو،
English Sahih:
She said, "O eminent ones, advise me in my affair. I would not decide a matter until you witness [for] me."
1 Abul A'ala Maududi
(خط سُنا کر) ملکہ نے کہا "“اے سردارانِ قوم میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی ہوں"
2 Ahmed Raza Khan
بولی اے سردارو! میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو میں کسی معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر نہ ہو،
3 Ahmed Ali
کہنے لگی اے دربار والو مجھے میرے کام میں مشورہ دو میں کوئی بات تمہارے حاضر ہوئے بغیر طے نہیں کر تی
4 Ahsanul Bayan
اس نے کہا اے میرے سردار! تم میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو۔ میں کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں کرتی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(خط سنا کر) وہ کہنے لگی کہ اے اہل دربار میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو، جب تک تم حاضر نہ ہو (اور صلاح نہ دو) میں کسی کام کو فیصل کرنے والی نہیں
6 Muhammad Junagarhi
اس نے کہا اے میرے سردارو! تم میرے اس معاملہ میں مجھے مشوره دو۔ میں کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں کیا کرتی
7 Muhammad Hussain Najafi
چنانچہ ملکہ نے کہا: اے سردارانِ قوم! تم مجھے میرے اس معاملہ میں رائے دو (کیونکہ) میں کبھی کسی معاملہ کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم لوگ میرے پاس موجود نہ ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
زعمائ مملکت! میرے مسئلہ میں رائے دو کہ میں تمہاری رائے کے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکتی
9 Tafsir Jalalayn
(خط سنا کر) کہنے لگی کہ اہل دربار میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو جب تک تم حاضر نہ ہو (اور اصلاح نہ دو ) میں کسی کام کو فیصل کرنے والی نہیں
آیت نمبر 32 تا 39
ترجمہ : اے درباریو ! تم میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو میں کسی معاملہ میں اس وقت تک قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس موجود نہ ہو اَلْمَلأُ أفتونِیْ میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور ثانی کی تسہیل یعنی واؤ سے بدل کر ای وَفْتُوْنی ان سب نے جواب دیا کہ ہم بڑے طاقتور اور بڑے لڑنے والے ہیں یعنی جنگ میں بڑی شدت والے ہیں آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی غور فرلیں کہ ہم کو کیا حکم دینا چاہتی ہیں ؟ ہم آپ کی اطاعت کریں گے، بلقیس نے کہا بادشاہ جب کسی بستی میں (فاتحانہ) طور پر داخل ہوتے ہیں تو اسے تخریب کے ذریعہ اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور یہ خط بھیجنے والے بھی ایسا ہی کریں گے (میں سردست) ان لوگوں کے پاس کچھ ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھوں گی کہ قاصد کیا جواب لیکر لوٹتے ہیں ؟ آیا وہ ہدیہ قبول کرتے ہیں یا واپس کردیتے ہیں اگر بادشاہ ہوں گے تو ہدیہ قبول کرلیں گے اور اگر نبی ہوں گے تو قبول نہ کریں گے، چناچہ بلقیس نے ایک ہزار خدام بھیجے جن میں پانچ سو لڑکے اور پانچ سو لڑکیاں تھیں، اور پانچ سو سونے کی اینٹیں اور ایک جواہرات سے جڑا ہوا تاج اور مشک وغیرہ وغیرہ، قاصد کے ہمراہ مع ایک خط کے بھیجے، چناچہ ہُدہُد نے جلدی واپس آکر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو صورت حال کی خبر دی، لہٰذا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے سونے اور چاندی کی اینٹیں بنانے کا حکم دیا اور یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کے محل سے لیکر نو فرسخ تک میدان میں بچھا دی جائیں اور اس کے میدان کے اردگرد سونے چاندی کی اونچی دیوار بنادی جائے (دوسرا ترجمہ) میدان کے اردگرد ایک دیوار بنادی جائے جس کے کنگورے سونے اور چاندی کے ہوں اور یہ کہ خشکی و تری کے بہترین جانور (خدمت کیلئے) معہ جنوں کے بچوں کے میدان کی دائیں وبائیں جانب (کھڑا کر دئیے جائیں) چناچہ جب قاصد ہدیہ لیکر وفد کے دیگر ارکان کے ساتھ سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم مال سے میری مد کرنا چاہتے ہو ؟ اللہ نے نبوت اور ملک جو مجھے عطا فرمایا ہے وہ تمہاری اس دنیا سے بہت بہتر ہے جو تم کو عطا کی ہے، ہاں تم ہی ہدیہ کے لین دین پر فخر کرتے ہوگے، اس لئے کہ دنیا کی زیب وزینت پر تم ہی فخر کرتے ہو (ایک ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے) تم ہی اپنے ہدیہ پر خوش رہو (یعنی تمہارا ہدیہ تم ہی کو مبارک مجھے ضرورت نہیں) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے (امیر وفد سے) کہا اپنا ہدیہ لیکر ان ہی (ہدیہ بھیجنے والوں) کے پا سواپس تشریف لیجاؤ، ہم ان کے مقابلہ کے لئے ایسا لشکر لیکر آئیں گے کہ ان میں اس لشکر کے مقابلہ کی طاقت نہ ہوگی اور ہم ان کو یقیناً اس کے شہر یعنی سبا سے ذلیل و خوار کرکے نکال دیں گے اگر وہ تابعدار ہو کر میرے پاس نہ آئے، ابو قبیلہ کے نام پر شہر کا نام سبا رکھا گیا چناچہ جب قاصد ہدیہ لیکر بلقیس کے پاس واپس گیا تو بلقیس نے اپنے تخت کو اپنے محل کے اندر جو کہ سات محلوں کے اندر تھا سات کمروں کے اندر بند کردیا اور دو دروازوں کو مقفل کردیا نیز دروازوں پر پہرے دار بٹھا دئیے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس یہ دیکھنے کے لئے جانے کی تیاری شروع کردی کہ وہ اس سے کیا کہتے ہیں، چناچہ بلقیس بارہ ہزار سرداروں کے ساتھ روانہ ہوئی اور ہر سردار کے ساتھ ہزار ہا افراد تھے، یہاں تک کہ بلقیس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اتنے قریب پہنچ گئی کہ صرف ایک فرسخ کا فاصلہ باقی رہ گیا، تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی (آمد) کا علم ہوا۔
قال یایھا الملا ایکم حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے سردارو ! تم میں کون ہے ہمزتین میں حسب سابق قرأتیں ہیں جو ان کے مسلمان ہو کر میرے پاس پہنچنے سے پہلے اس کا تخت مجھے لادے یعنی مطیع اور فرمانبردار ہو کر آنے سے پہلے، اس کے مسلمان ہونے سے پہلے میرے لئے اس تخت کا لینا جائز ہے بعد میں نہیں ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا (حال یہ کہ) وہ بڑا قوی اور شدید تھا میں آپ کے اپنی مجلس سے اٹھنے سے پہلے ہی اس کو آپ کے پاس لا دیتا ہوں وہ مجلس کہ جس میں آپ مقدمات کے فیصلہ کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں اور وہ صبح سے دوپہر تک تھی، یقین مانئے کہ میں اس پر یعنی اس کے اٹھانے پر قادر ہوں امین بھی ہوں یعنی جو کچھ ہیرے جواہرات وغیرہ اس میں لگے ہوئے ہیں میں ان پر امین ہوں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : ماذا تأمرین ماذا، تامرین کا مفعول ثانی ہے مفعول اول محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے تأمریننا۔ قولہ : نُطِعْکَ یہ فانظری امر کا جواب محذوف ہے اور جواب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ قولہ : بما یرجِعُون بِمَ ، یرْجع کے متعلق ہے۔ قولہ : مِن قبول الھدیۃِ ، بِمَا میں ما کا بیان ہے فَنَاظِرَۃٌ کا عطف مرسِلۃٌ پر ہے بِمَ کا تعلق بعض حضرات نے ناظرَۃً سے کیا ہے مگر یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ ما استفہامیہ صدارت کو چاہتا ہے جو اس صورت میں فوت ہوجائے گی۔ قولہ : اَذِلَّۃً وھُمْ صَاغِرُوْنَ اَذِلَّۃً ھُمْ سے حال اول ہے اور وھُمْ صَاغِرُوْنَ حال ثانی مؤکدہ ہے۔ قولہ : ای اِنْ لَمْ یأتونِیْ مسلمِیْنَ کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ وَلَنُخْرِجَنَّھُمْ شرط محذوف مؤخر کی جزاء ہے اور اہل سبا کو سبا سے نکالنا بلقیس کے تابع فرمان ہو کر نہ آنے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔
تشریح و تفسیر
اہم امور میں مشورہ کرنا سنت ہے : قالت یایھا الملا (الآیۃ) افتونی فتویٰ سے مشتق ہے جس کے معنی کسی خاص مسئلہ کا جواب دینا، یہاں مشورہ دینا مراد ہے، روح المعانی کی ایک روایت کے مطابق بلقیس کے تین سو بارہ مشیر ان خاص تھے اور ہر مشیر کے ماتحت ایک ایک ہزار افراد تھے اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد کی روایتیں مذکور ہیں، یہ تمام روایتیں مبالغہ سے خالی نہیں ہیں، علامہ آلوسی (رح) نے ان روایات کو صدق کے بجائے کذب کے زیادہ قریب قرار دیا ہے۔
ملکہ بلقیس کے پاس جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط پہنچا تو اس نے اپنے ارکان سلطنت کو جمع کے اس واقعہ کا اظہار کیا اور ان سے اس معاملہ میں مشورہ طلب کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ان کی دل جوئی کے لئے ان سے رائے طلب کرنے سے پہلے یہ بھی کہا کہ میں کسی بھی اہم معاملہ کا قطعی فیصلہ تمہاری موجودگی اور رائے مشورہ کے بغیر نہیں کرتی، اسی کا نتیجہ تھا کہ تمام مشیروں نے یک زبان ہو کر کہا نَحْنُ اُوْلوا قُوَّۃٍ واُوْلوا باسٍ والاَمرُ اِلَیْک، ہم بڑے طاقتور اور بڑے جنگ جو ہیں ہم ہمہ وقت ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ڈرنے یا دبنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے باقی آخری فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے ہم تو خدام اور تابع ہیں جیسا حکم ہوگا بجا لانے کے لئے تیار ہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہم معاملات میں مشورہ کرنے کا دستور بہت پرانا ہے، اسلام نے بھی مشورہ کو خاص اہمیت دی ہے اور ذمہ دار ان حکومت کو مشورہ کا پابند کیا ہے، یہاں تک کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کہ محبط وحی تھے جس کی وجہ سے آپ کو کسی رائے مشورہ کی در حقیقت کوئی ضرورت نہیں تھی مگر مشورہ کی سنت قائم کرنے کے لئے آپ کو بھی حکم دیا گیا وشاورھم فی الامر یعنی آپ اہم امور میں صحابہ سے مشورہ کرلیا کریں، اس میں صحابہ کرام کی دلجوئی بھی ہے اور ہمت افزائی تھی۔
مکتوب سلیمانی کے جواب میں ملکہ بلقیس کا ردعمل : مشورہ کے بعد بلقیس نے خود ہی ایک رائے قائم کی جس کا حاصل یہ تھا کہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا امتحان لے کر وہ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ان کے حکم کا اتباع کیا جائے، یا وہ ایک ملک گیری کے خواہشمند بادشاہ ہیں اور ہم کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تو پھر غور کیا جائے کہ ان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے، اس امتحان کا طریقہ اس نے یہ تجویز کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس کچھ ہدیے تحفے بھیجے اگر وہ ہدیے تحفے لیکر راضی ہوگئے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ ایک بادشاہ ہی ہیں، اور اگر وہ واقع میں نبی اور رسول ہیں تو وہ ایمان اور اسلام کے بغیر کسی چیز پر راضی نہ ہوں گے یہ مضمون ابن جریر نے متعدد اسانید کے ساتھ حضرت ابن عباس مجاہد وغیرہ سے نقل کیا ہے۔ (معارف) یہی مضمون اس آیت میں ہے وَاِنَّی مُرسِلَۃٌ اِلَیْھِمْ بِھدیۃٍ یعنی میں حضرت سلیمان کے پاس ایک ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھوں گی کہ جو قاصد ہدیہ لیکر جائیں گے کہ وہ آکر کیا صورت حال بیان کرتے ہیں ؟
بلقیس کے قاصدوں کی دربار سلیمانی میں حاضری : تاریخی اسرائیلی روایات میں بلقیس کی طرف سے آنے والے قاصدوں اور تحفوں کی اور خود وفد کی بڑی تفصیلات مذکور ہیں جو بقول صاحب روح المعانی سچ سے دور اور جھوٹ سے قریب ہیں، اتنی بات پر تمام روایات متفق ہیں کہ تحفہ میں کچھ سونے کی اینٹیں تھیں کچھ جواہرات، غلاموں اور کنیزوں کی تعداد روایات میں مختلف بیان ہوئی ہے، صاحب جلالین نے پانچ سو غلام اور پانچ سو کنیز بیان کی ہیں اور سونے کی اینٹوں کی تعداد بھی پانچ سو بتائی ہے اور ہیرے جواہرات سے جڑے ہوئے ایک تاج کا بھی ذکر کیا ہے ساتھ میں بلقیس نے ایک خط بھی دیا تھا ادھر جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بھی وفد کے استقبال کی تیاری عجیب و غریب شاہانہ انداز سے کی جو کہ مبالغہ سے خالی نہیں ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ نو فرسخ تقریباً تیس میل کی مسافت تک سونے چاندی کی اینٹوں کا فرش بنادیا جائے اور راستہ میں دو طرفہ عجیب الخلقت جانوروں کو کھڑا کردیا جائے اسی طرح اپنے دربار کو بھی خاص اہتمام سے آراستہ کیا غرضیکہ یمنی وفد نے جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شان و شوکت کو دیکھا تو حیرت زدہ ہوگئے اور اپنے ہدیہ کو قلیل سمجھ کر شرمانے لگے، بعض روایات میں ہے کہ اپنی سونے کی اینٹوں کو وہیں ڈال دیا، جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو آپ نہایت ہی خندہ پیشانی سے پیش آئے اور ان کی شایان شان ضیافت کا انتظام کیا مگر ان کے تحفے واپس کردیئے (ملخصاً از تفسیر قرطبی) اور کہہ دیا کہ تمہارا ہدیہ تم ہی کو مبارک ہو مجھے اس کی ضرورت نہیں میرے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔
کافر کے ہدیہ کے قبول کرنے کا حکم ؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بلقیس کا ہدیہ قبول نہیں فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کا ہدیہ قبول کرنا درست نہیں ہے، مگر تحقیق اس مسئلہ کی یہ ہے کہ کافر کا ہدیہ قبول کرنا اگر اپنی یا مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف ہو یا ان کے حق میں رائے کمزور ہوتی ہو تو ان کا ہدیہ قبول کرنا درست نہیں (روح المعانی) اس کے برعکس اگر کوئی دینی ضرورت ہدیہ کے قبول کرنے کی داعی ہو تو قبول کرنے کی گنجائش ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس معاملہ میں سنت یہی رہی ہے کہ بعض کفار کا ہدیہ قبول فرمالیا اور بعض کا رد فرما دیا، عمدۃ القاری شرح بخاری کتاب الٰہیہ میں اور سیر کبیر میں حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ براء کا بھائی عامر بن ملک مدینہ طیبہ میں کسی ضرورت سے آیا جبکہ وہ مشرک تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دو گھوڑے اور دو جوڑے کپڑے کا ہدیہ پیش کیا آپ نے اس کا ہدیہ یہ کہہ کر واپس فرما دیا کہ ہم مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتے، اور عیاض بن حمار مجاشعی نے آپ کی خدمت میں ایک ہدیہ پیش کیا تو آپ نے اس سے سوال فرمایا تم مسلمان ہو ؟ اس نے کہا نہیں ! آپ نے اس کا ہدیہ بھی یہ کہہ کر رد فرما دیا کہ مجھے اللہ نے مشرک کا ہدیہ لینے سے منع فرمایا ہے، اس کے بالمقابل یہ روایت بھی موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض مشرکین کے ہدایا کو قبول فرمایا ہے، ایک روایت میں ہے کہ ابو سفیان نے بحالت شرک آپکو ایک چمڑا ہدیہ میں بھیجا، آپ نے قبول فرما لیا اور ایک نصرانی نے ایک ریشمی رومال ہدیہ میں پیش کیا آپ نے قبول فرما لیا۔ شمس الائمہ اس کو نقل کرکے فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک سبب یہ تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جن کا ہدیہ رد کرنے میں اس کے اسلام کی طرف مائل ہونے کی امید نہیں تھی وہاں رد کردیا، اور جن کا ہدیہ قبول کرنے میں اس کے مسلمان ہونے کی امید تھی تو قبول کرلیا۔ (عمدۃ القاری کتاب الٰہیہ)
اور بلقیس نے جو رد ہدیہ کو نبی ہونے کی علامت قرار دیا تھا اس کا سبب یہ نہ تھا کہ نبی کے لئے مشرک کا ہدیہ قبول کرنا جائز
نہیں بلکہ سبب یہ تھا کہ اس نے اپنا ہدیہ درحقیقت ایک رسول کی حیثیت سے بھیجا تھا کہ اس کے ذریعہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حملہ سے محفوظ رہے (معارف) ۔
بلقیس کی دربار سلیمان میں حاضری : اِرْجع اِلَیْھِمْ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہدیہ کی واپسی کے ساتھ فَلَنَاتِیَنَّھُمْ بِجُنُوْدٍ لاَ قِبَلَ لَھُمَ بِھَا کہہ کر اعلان جنگ بھی کردیا۔
قرطبی نے تاریخی روایات کے حوالہ سے رکھا ہے کہ بلقیس کے قاصد خود بھی مرعوب اور مبہوت ہو کر واپس ہوئے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اعلان جنگ سنایا تو بلقیس نے اپنے قوم سے کہا کہ پہلے بھی میرا خیال تھا کہ سلیمان دنیا کے بادشاہوں کی طرح بادشاہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ان کو کوئی خاص منصب بھی ملا ہوا ہے لہٰذا ان سے لڑنا اللہ کا مقابلہ کرنا ہے جس کی ہم میں طاقت نہیں، یہ کہہ کر بڑے سازو سامان کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری کی تیاری شروع کردی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ بلقیس کے تین سو بارہ مشیر تھے اور ہر مشیر کے ماتحت دس دس ہزار افراد تھے اس حساب سے تین کروڑ بیس لاکھ افراد ہوئے اور تین سو بارہ مشیر مزید (روی ذٰلک عن قتادۃ، روح المعانی)
ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مشیر ان خاص کی تعداد بارہ ہزار تھی اور ہر مشیر کے ماتحت ایک ایک لاکھ افراد تھے، اس حساب سے بارہ سو کروڑ یعنی ایک ارب 20 کروڑ افراد ہوئے، نیز خود ملکہ بلقیس کے ماتحت چار سو بادشاہ تھے اور ہر بادشاہ کے ماتحت اربع مأۃ الف مقاتل چار سو ہزار مقاتل تھے، صاحب روح المعانی مذکورہ تعداد کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں ھٰذہ الاخبار الی الکذب اقرب منھا الی الصدق آگے تحریر فرماتے ہیں لعمری أن اَرْضَ الیمن لتکاد تضیق عن العدد الذی تضمنہ الخَبٌران اخیران ولیت شعری ما مقدار عدد رعی تھا الباقین الذین تحتاج الی ھٰذا العسکر والقواد والوزراء لسیاستِھِمْ وضبطِ امورھم وتنظیم احوالھم۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تعداد مبالغہ آرائی پر مبنی ہے، یمن ایک بہت چھوٹا سا ملک ہے اس زمانہ میں کل آبادی بھی اتنی نہ ہوگی جتنی کہ مشیروں اور ماتحتوں کی بیان کی گئی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اپنے قیمتی اور مشہور زمانہ تخت شاہی کو محفوظ مکان میں مقفل کرکے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری کی تیار شروع کردی، تخت کی لمبائی چوڑائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا طول 80 ہاتھ اور عرض 40 ہاتھ اور اونچائی 30 ہاتھ تھی اور اس میں موتی، سرخ یاقوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے (واللہ اعلم بالصواب)
اور روز حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دور سے غبار اڑتا ہوا دیکھا تو معلوم کیا کہ یہ کیا ہے ؟ حاضرین نے جواب دیا اے نبی اللہ ملکہ بلقیس اپنے ساتھیوں کے ساتھ آرہی ہے بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک فرسخ یعنی تقریباً تین میل کے فاصلہ پر تھی۔ (معارف)
اس وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے جنود و عساکر کو مخاطب کرکے فرمایا یٰایُّھَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِی بِعَرْشِھَا قَبْلَ أنْ یَّاتُونِیْ مسلِمِیْنَ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ بلقیس مطیع و تابع فرمان ہو کر آرہی ہے تو ارادہ فرمایا کہ شاہانہ قوت و شوکت کے ساتھ ایک پیغمبرانہ معجزہ بھی دیکھ لے تو اس کے ایمان لانے کے لئے زیادہ معاون و مؤثر ہوگا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے تسخیر جنات کا معجزہ بھی عطا فرمایا تھا، باشارہ الٰہی آپ نے ارادہ فرمایا کہ کسی طرح بلقیس کا تخت شاہی اس کے دربار میں پہنچنے سے پہلے پہلے حاضر ہوجائے اس لئے حاضرین کو جن میں جنات بھی تھے تخت کو لانے کے لئے فرمایا جس کو سات محلات شاہی کے وسط میں ایک محفوظ محل کے اندر مقفل کرکے رکھا تھا اور اس کے اوپر پہرہ بھی بٹھا دیا تھا جس کی وجہ سے تخت تک خود اس کے آدمیوں کی بھی رسائی نہیں تھی، اس کا بغیر دروازہ اور قفل توڑے ہوئے منتقل ہوجانا اور اتنی مسافت بعیدہ پر پہنچ جانا حق تعالیٰ شانہٗ کی قدرت کاملہ ہی سے ہوسکتا ہے، تو ایک قوی ہیکل جن نے کہا کہ میں اس تخت کو آپ کے پاس آپ کے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے لاسکتا ہوں۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اس ملکہ کے حزم و احتیاط اور اس کی عقل مندی تھی کہ اس نے سلطنت کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور کہنے لگی :﴿ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي ﴾ ” اے اہل دربار ! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو۔“ یعنی مجھے بتاؤ کہ ہم سلیمان علیہ السلام کو کیا جواب دیں کیا ہم اس کی اطاعت قبول کرلیں یا اس کے علاوہ کچھ اور کریں؟ ﴿ مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ ﴾ یعنی میں تمہاری رائے اور مشورہ کے بغیر اپنی صوابدید کے مطابق احکام جاری نہیں کرتی۔
11 Mufti Taqi Usmani
malka ney kaha : qoam kay sardaro ! jo masla meray samney aaya hai , uss mein mujhay faisla kunn mashwara do . mein kissi maslay ka hatmi faisla uss waqt tak nahi kerti jab tak tum meray paas mojood naa ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
بلقیس کو خط ملا
بلقیس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط انہیں سنا کر ان سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ تم جانتے ہو جب تک تم سے میں مشورہ نہ کرلوں، تم موجود نہ ہو تو میں چونکہ کسی امر کا فیصلہ تنہا نہیں کرتی اس بارے میں بھی تم سے مشورہ طلب کرتی ہوں بتاؤ کیا رائے ہے ؟ سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہماری جنگی طاقت بہت کچھ ہے اور ہماری طاقت مسلم ہے۔ اس طرف سے تو اطمینان ہے آگے جو آپ کا حکم ہو۔ ہم تابعدراری کے لئے موجود ہیں۔ اسمیں ایک حد تک سرداران لشکر نے لڑائی کی طرف اور مقابلے کی طرف رغبت دی تھی لیکن بلقیس چونکہ سمجھدار عاقبت اندیش تھی اور ہدہد کے ہاتھوں خط کے ملنے کا ایک کھلا معجزہ دیکھ چکی تھی یہ بھی معلوم کرلیا تھا کہ حضرت سلیمان کی طاقت کے مقابلے میں، میں میرا لاؤ لشکر کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو علاوہ ملک کی بربادی کے میں بھی سلامت نہ رہ سکوں گی اس لئے اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہا بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی ملک کو فتح کرتے ہیں تو اسے برباد کردیتے ہیں اجاڑ دیتے ہیں۔ وہاں کے ذی عزت لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ سرداران لشکر اور حکمران شہر خصوصی طور پر انکی نگاہوں میں پڑھ جاتے ہیں۔ جناب فاری نے اسکی تصدیق فرمائی کہ فی الواقع یہ صحیح ہے وہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اس کی بعد اسنے جو ترکیب سوچی کہ ایک چال چلے اور حضرت سلیمان سے موافقت کرلے صلح کرلے وہ اس نے انکے سامنے پیش کی کہا کہ اس وقت تو میں ایک گراں بہا تحفہ انہیں بھیجتی ہوں دیکھتی ہوں اس کے بعد وہ میرے قاصدوں سے کیا فرماتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اسے قبول فرمالیں اور ہم آئندہ بھی انہیں یہ رقم بطور جزیے کے بھیجتے رہیں اور انہیں ہم پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اسلام کی قبولیت میں اسی طرح اس نے ہدیے بھیجنے میں نہاپت دانائی سے کام لیا۔ وہ جانتی تھی کہ روپیہ پیسہ وہ چیز ہے فولاد کو بھی نرم کردیتا ہے۔ نیز اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ دیکھیں وہ ہمارے اس مال کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ ؟ اگر قبول کرلیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کردیا تو انکی نبوت میں کوئی شک نہیں پھر مقابلہ سراسر بےسود بلکہ مضر ہے۔