Skip to main content

فَلَمَّا جَاۤءَ سُلَيْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ فَمَاۤ اٰتٰٮنِيَ اللّٰهُ خَيْرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰٮكُمْۚ بَلْ اَنْـتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ

So when
فَلَمَّا
تو جب
came
جَآءَ
وہ آئے
(to) Sulaiman
سُلَيْمَٰنَ
سلیمان کے پاس
he said
قَالَ
کہا
"Will you provide me
أَتُمِدُّونَنِ
کیا تم مدد دیتے ہو مجھ کو
with wealth?
بِمَالٍ
مال کے ساتھ
But what
فَمَآ
تو جو
Allah has given me
ءَاتَىٰنِۦَ
عطا کیا مجھ کو
Allah has given me
ٱللَّهُ
اللہ نے
(is) better
خَيْرٌ
بہتر ہے
than what
مِّمَّآ
اس سے جو
He has given you
ءَاتَىٰكُم
اس نے عطا کیا تم کو
Nay
بَلْ
بلکہ
you
أَنتُم
تم
in your gift
بِهَدِيَّتِكُمْ
اپنے ہدیے کے ساتھ
rejoice
تَفْرَحُونَ
تم خوش ہوتے ہو

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمانؑ کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا "کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے تمہارا ہدیہ تمہی کو مبارک رہے

English Sahih:

So when they came to Solomon, he said, "Do you provide me with wealth? But what Allah has given me is better than what He has given you. Rather, it is you who rejoice in your gift.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمانؑ کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا "کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے تمہارا ہدیہ تمہی کو مبارک رہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

پھر جب وہ سلیمان کے پاس آیا فرمایا کیا مال سے میری مدد کرتے ہو تو جو مجھے اللہ نے دیا وہ بہتر ہے اس سے جو تمہیں دیا بلکہ تمہیں اپنے تحفہ پر خوش ہوتے ہو

احمد علی Ahmed Ali

پھر جب سلیمان کے پاس آیا فرمایا کیا تم میری مال سے مدد کرنا چاہتے ہو سو جو کچھ مجھے الله نے دیا ہے اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے بلکہ تم ہی اپنے تحفہ سے خوش رہو

أحسن البيان Ahsanul Bayan

پس جب قاصد حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟ (١) مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو (٢)۔

٣٦۔١ یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہرچیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اس ہدئیے سے میرے مال و دولت میں کیا اضافہ کر سکتے ہو؟ یہ دریافت کرنا انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔
٣٦۔٢ یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم اس ہدیئے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لئے کہ ایک تو دنیا میرا مقصود ہی نہیں۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو، جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ تم ہی اپنے تحفے سے خوش ہوتے ہوگے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

پس جب قاصد حضرت سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟ مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

سو جب وہ فرستادہ (یا ملکہ کا سفیر) سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے کہا کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ تو اللہ نے مجھے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے البتہ تم ہی اپنے ہدیہ پر خوش ہو سکتے ہو۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اس کے بعد جب قاصد سلیمان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ تم اپنے مال سے میری امداد کرنا چاہتے ہو جب کہ جو کچھ خدا نے مجھے دیا ہے وہ تمہارے مال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جاؤ تم خود ہی اپنے ہدیہ سے خوش رہو

طاہر القادری Tahir ul Qadri

سو جب وہ (قاصد) سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آیا (تو سلیمان علیہ السلام نے اس سے) فرمایا: کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ سو جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے اس (دولت) سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں عطا کی ہے بلکہ تم ہی ہو جو اپنے تحفہ سے فرحاں (اور) نازاں ہو،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

بلقیس نے بہت ہی گراں قدر تحفہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس بھیجا۔ سونا موتی جواہر وغیرہ سونے کی کثیر مقدار اینٹیں سونے کے برتن وغیرہ۔ بعض کے مطابق کچھ بچے عورتوں کے لباس میں اور کچھ عورتیں لڑکوں کے لباس میں بھیجیں اور کہا کہ اگر وہ انہیں پہچان لیں تو اسے نبی مان لینا چاہیے۔ جب یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو آپ نے سب کو وضو کرنے کا حکم دیا۔ لڑکیوں نے برتن سے پانی بہا کر اپنے ہاتھ دھوئے اور لڑکوں نے برتن میں ہی ہاتھ ڈال کر پانی لیا۔ اس سے آپ نے دونوں کو الگ الگ پہچان کر علیحدہ کردیا کہ یہ لڑکیاں ہیں اور یہ لڑکے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس طرح پہچانا کہ لڑکیوں نے تو پہلے اپنے ہاتھ کیے اندرونی حصہ کو دھویا اور لڑکوں نے انکے برخلاف بیرونی حصے کو پہلے دھویا یہ بھی مروی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت نے اس کے برخلاف ہاتھ کی انگلیوں سے شروع کر کے کہنی تک لے گئے۔ ان میں سے کسی میں نفی کا امکان نہیں، واللہ اعلم۔ یہ بھی مذکور ہے کہ بلقیس نے ایک برتن بھیجا تھا کہا اسے ایسے پانی سے پر کردو جو نہ زمین کا ہو نہ آسمان کا تو آپ نے گھوڑے دوڑائے اور ان کے پسینوں سے وہ برتن بھر دیا۔ اسنے کچھ خرمہرے اور ایک لڑی بھیجی تھی آپ نے انہیں لڑی میں پرو دیا۔ یہ سب اقوال عموماً بنی اسرائیل کی روایتوں سے لئے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ البتہ بظاہر الفاظ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس رانی کیے تحفے کی طرف مطلقاً التفات ہی نہیں کیا۔ اور اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ کیا تم مجھے مالی رشوت دے کر شرک پر پاقی رہنا چاہتے ہو ؟ یہ محض ناممکن ہے مجے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ ملک، مال، لاؤ، لشکر سب میرے پاس موجود ہے۔ تم سے پر طرح بہتر حالت میں میں ہوں فالحمدللہ۔ تم ہی اپنے اس ہدیے سے خوش رہو یہ کام تم ہی کو سونپا کہ مال سے راضی ہوجاؤ اور تحفہ تمہیں جھکا دے یہاں تو دو ہی چیزیں ہیں یا شرک چھوڑو یا تلوار روکو۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس سے پہلے کہ اسکے قاصد پہنچیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جنات کو حکم دیا اور انہوں نے سونے چاندی کے ایک ہزار محل تیار کردئے۔ جس وقت قاصد پائے تخت میں پہنچے ان محلات کو دیکھ کر ہوش جاتے رہے اور کہنے لگے یہ بادشاہ تو ہمارے اس تحفے کو اپنی حقارت سمجھے گا۔ یہاں تو سونا مٹی کی وقعت بھی نہیں رکھتا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ بادشاہوں کو یہ جائز ہے کہ بیرونی لوگوں کے لیے کچھ تکلفات کرے اور قاصدوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرے۔ پھر آپ نے قاصدوں سے فرمایا کہ یہ ہدیے انہیں کو واپس کردو اور ان سے کہہ دو مقابلے کی تیاری کرلیں یاد رکھو میں وہ لشکر لے کر چڑھائی کروں گا کہ وہ سامنے آہی نہیں سکتے۔ انہیں ہم سے جنگ کرنے کی طاقت ہی نہیں۔ ہم انہیں انکی سلطنت سے بیک بینی و دوگوش ذلت و حقارت کے ساتھ نکال دیں گے ان کے تخت و تاج کو رونددیں گے۔ جب قاصد اس تحفے کو واپس لے پہنچے اور شاہی پیغام بھی سنادیا۔ بلقیس کو آپ کی نبوت کا یقین ہوگیا فورا خود بھی اور تمام لشکر اور رعایا مسلمان ہوگئے اور اپنے لشکروں سمیت وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوگئے جب آپ نے اس کا قصد معلوم کیا تو بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔