القصص آية ۱۴
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰۤى اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا ۗ وَكَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ
طاہر القادری:
اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں،
English Sahih:
And when he attained his full strength and was [mentally] mature, We bestowed upon him judgement and knowledge. And thus do We reward the doers of good.
1 Abul A'ala Maududi
پھر جب موسیٰؑ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اس کا نشوونما مکمل ہو گیا تو ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا، ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور جب اپنی جوانی کو پہنچا اور پورے زور پر آیا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،
3 Ahmed Ali
اور جب اپنی جوانی کو پہنچا اور پورا توانا ہوا تو ہم نے اسے حکمت اور علم دیا اور ہم نیکوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور جب (موسٰی علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے ہم نے انہیں حکمت و علم عطا فرمایا (١) نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔
١٤۔١ حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل اور دانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ما حول میں رہ کر سیکھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب موسٰی جوانی کو پہنچے اور بھرپور (جوان) ہو گئے تو ہم نے اُن کو حکمت اور علم عنایت کیا۔ اور ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے ہم نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا، نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب وہ (بچہ) اپنے پورے شباب کو پہنچ گیا اور (قد و قامت) پورا درست ہوگیا تو ہم نے اس کو (خاص) حکمت و علم عطا کیا اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو صلہ دیتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب موسٰی جوانی کی توانائیوں کو پہنچے اور تندرست ہوگئے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کردی اور ہم اسی طرح نیک عمل والوں کو جزا دیا کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب موسیٰ جوانی کو پہنچے اور بھرپور (جوان) ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عنایت کیا اور ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں
آیت نمبر 14 تا 21
ترجمہ : اور موسیٰ اپنی بھرپور جوانی کو پہنچ گئے اور وہ تیس یا تینتیس سال ہیں اسور توانا اور تندرست ہوگئے یعنی چالیس سال کے ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا یعنی نبی بنائے جانے سے پہلے ہی ان کو حکمت اور دین کی سمجھ عطا کی اور ہم اسی طرح جیسا کہ موسیٰ کو جزاء دی اپنے اوپر احسان کرنے والوں کو جزاء دیتے ہیں اور موسیٰ شہر میں یعنی فرعون کے شہر میں جس کا نام مُنُفُ تھا ایک مدت غائب رہنے کے بعد ایسے وقت میں داخل ہوئے کہ شہر کے لوگ قیلولہ کے وقت غافل تھے یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا یہ ایک تو اس کی برادری کا یعنی اسرائیلی تھا اور دوسرا اس کے دشمن کی برادری کا یعنی قطبی تھا (قبطی) اسرائیلی کو اس بات پر مجبور کر رہا تھا کہ وہ لکڑیوں کو فرعون کے مطبخ لے چلے جو موسیٰ کی برادری کا تھا اس نے اس شخص کے خلاف کہ جو ان کے مخالفین میں سے تھا موسیٰ سے فریاد کی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی سے کہا تو اس کو چھوڑ دے (جانے دے) کہا گیا ہے کہ اس قبطی نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا میں ارادہ کرچکا ہوں کہ لکڑیاں تیرے سر پر رکھ دوں جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو ایک گھونسلہ مار دیا یعنی ہاتھ بند کرکے مکا مار دیا موسیٰ (علیہ السلام) بہت قوی اور سخت گرفت والے تھے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو قتل کردیا حالانکہ اس کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا، اور اس کو ریت میں دفن کردیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ قتل شیطانی حرکت ہوگئی جو میرے غصہ کو بھڑکانے والا ہے بلاشبہ شیطان انسانوں کا کھلا دشمن ہے غلطی میں ڈال دیتا ہے نادم ہو کر عرض کیا اے میرے پروردگار میں نے قبطی کو قتل کرکے خود اپنے اوپر ظلم کرلیا آپ مجھے معاف فرما دیں اللہ نے ان کو معاف کردیا، بلاشبہ وہ غفور و رحیم ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں صفات کے ساتھ ازلاً وابداً متصف ہیں، موسیٰ کہنے لگے اے میرے رب میرے اوپر تیرے مغفرت کا انعام فرمانے کے صدقہ میں میری حفاظت فرما اگر تو نے میری حفاظت کی تو میں آئندہ مجرمین کا مددگار نہ بنوں گا پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے خوف و دہشت کی حالت میں صبح کی یہ انتظار کرتے ہوئے کہ مقتول کی جانب سے ان کو کیا (معاملہ) پیش آتا ہے، تو اچانک (کیا دیکھتے ہیں) کہ وہی شخص جس نے گزشتہ کل موسیٰ سے مدد چاہی تھی ایک دوسرے قبطی کے خلاف موسیٰ کو (مدد کے لئے) پکار رہا ہے تو موسیٰ فرمانے لگے بیشک تو ہی صریح بدراہ ہے، اپنی اس حرکت کی وجہ سے جو تو نے کل اور آج کی چناچہ جب موسیٰ نے اس شخص کی طرف ہاتھ بڑھایا جو دونوں کا دشمن تھا یعنی موسیٰ اور اسرائیلی کا اَنْ زائدہ ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فریادی (اسرائیلی) سے اِنّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ کا جملہ کہا تو فریادی نے یہ سمجھتے ہوئے کہ (شاید آج) وہ میری گرفت کریں گے کہنے لگا اے موسیٰ کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کردیا تھا مجھے بھی قتل کرنا چاہتا ہے بس تم دنیا میں اپنا زور بٹھلانا چاہتے ہو صلح کرانا نہیں چاہتے چناچہ قبطی نے جب یہ بات سنی تو سمجھ گیا کہ (کل کا) قاتل موسیٰ ہے چناچہ قبطی نے فرعون کے پاس پہنچ کر اس کی خبر کردی تو فرعون نے جلا دوں کو موسیٰ کے قتل کا حکم صادر کردیا چناچہ جلاد اس کی طرف روانہ ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا آل فرعون کا ایک مومن شخص شہر کے پرے کنارے سے دوڑتا ہوا یعنی جلا دوں کی بہ نسبت مختصر راستہ سے تیزی سے چلتا ہوا آیا (اور) کہنے لگا اے موسیٰ فرعون کی قوم کے سردار تیرے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں لہٰذا تو شہر سے نکل جا اور میں خروج کے مشورہ کے معاملہ میں تیرا خیر خواہ ہوں پس موسیٰ وہاں سے خوف زدہ ہو کر تلاش کرنے والوں کے پہنچنے (کا اندیشہ کرتے ہوئے) یا اللہ کی مدد کا انتظار کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے کہنے لگے اے میرے پروردگار تو مجھے ظالم قوم یعنی فرعون کی قوم سے بچالے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیر فوائد
قولہ : وَاسْتَوٰی ای بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سنۃً مفسر علام اگر اِسٌتَویٰ کی تفسیر انتھیٰ شبابہ و تکامل عقلہ سے فرماتے تو زیادہ ظاہر اور مناسب ہوتا، اس لئے کہ مدین حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں دس سال قیام کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مصر کی واپسی ہوئی اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر چالیس کی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قیام مصر میں تیس سال رہا اور اگر مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قیام چالیس سال مان لیا جائے جیسا کہ مفسر علام نے فرمایا ہے تو مدین سے واپسی کے وقت موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر پچاس سال ہونی چاہیے حالانکہ صراحت کے خلاف ہے۔
قولہ : مُنْفُ اسی شہر کا نام ہے جہاں فرعون رہتا تھا یہ علمیت اور عجمہ یا علمیت اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہے اسی شہر کو منوف بھی کہتے ہیں فقَضَی علَیْہِ یہ اَوْقَعَ القضاء کے معنی میں ہونے کی وجہ سے متعدی بعلی ہے۔ قولہ : وَلَمْ یکن قصدہ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خلاف شرع ایسی جرأت کیوں کی کہ ایک غیر واجب القتل شخص کو قتل کردیا ؟ جواب یہ ہے کہ یہ قتل خطا تھا، اب رہا اس قتل پر استغفار تو یہ حسنات الابرار سیئات المقربین کے قبیل سے تھا۔
قولہ : ھٰذا ای قتلہ ای قتلہ کہہ کر ھٰذا کے مشار الیہ کی طرف اشارہ کردیا کہ مراد فعل قتل ہے اور بعض حضرات نے ھٰذا کا مشار الیہ فعل مقتول کو قرار دیا ہے یعنی مقتول کا فعل یعنی قبطی کا اسرائیلی پر زور زبردستی کرنا یہ فعل شیطانی عمل تھا جو کہ قابل مواخذہ تھا اور بعض حضرات نے ھٰذا کا مشار الیہ خود قبطی کو قرار دیا ہے یعنی قبطی خود شیطانی لشکر اور اس کی جماعت کا فرد تھا، اور موسیٰ (علیہ السلام) کا اِنِّی ظلمتُ نفسی فرمایا تواضع اور کسر نفسی کے طور پر تھا۔
قولہ : قَالَ رَبِّ بِمَا اَنْعَمْتَ بِحَقِّ اِنْعَامِکَ عَلَیَّ مفسر علام نے بِمَا اَنْعَمْتَ کی تفسیر بحق انعامک سے کرکے دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اول یہ کہ ما مصدر یہ ہے یعنی اَنْعمتَ بمعنی انعامک ہے اور کلام حذف مضاف کے ساتھ ہے ای بحق انعامک اور تیسری بات یہ کہ اِعْصِمْنِیْ محذوف مان کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ بِحَقِّ جار با مجرور اِعْصِمْنِیْ محذوف کے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے اِعْصِمْنِیْ بِحَقِّ اِنْعَامِکَ عَلَیَّ بِالمَغفرۃ۔
قولہ : فَلَنْ اکونَ ظَھِیٌرًا للمجرمِیْنَ یہ جملہ شرط محذوف کا جواب ہے تقدیر عبارت یہ ہے اِنْ اعْصَمْتَنِیْ فَلَنْ اَکُوْنَ ظھیراً للمجرمین۔ قولہ : بعد ھٰذہ ای بعد ھٰذہ السرۃ مفسر علام کا مجرمین کی تفسیر کافرین سے کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا اس لئے کہ اس تفسیر کے مطابق اسرائیلی کا کافر ہونا لازم آتا ہے بہتر ہوتا ہے کہ مجرمین کو علی حالہ رہنے دیتے۔ (جمل ملخصاً ) ۔ قولہ : فَاَصْبَحَ فی المدینۃ خائفاً یترقب مدینہ سے وہی شہر مراد ہے جس میں قبطی مقتول ہوا تھا۔ قولہ : خائفاً یہ اصبح کی خبر ہے اور فی المدینۃ اس کے متعلق ہے اور یَتَرَقَّبُ کا مفعول محذوف ہے ای یَتَرَقَّبُ المکروۃ، او الفرج، او الخبر، ھل وصل لفرعون ام لا یعنی یَتَرَقَّبُ کے مختلف مفعول محذوف ہوسکتے ہیں جیسا کہ اوپر ظاہر کر دئیے گئے ہیں۔
قولہ : اِذَا الَّذِیْ اِذا مفاجاتیہ ہے اَلَّذِیْ موصول استنصرہ اس کا صلہ موصول صلہ سے مل کر موصوف محذوف الاسرائیلی کی صفت موصوف صفت سے مل کر مبتداء یَسْتَصْرِخُہٗ خبر، بِالاَمْسِ متعلق ہے استنصرہ کے، تقدیر عبارت یہ ہے اِذَا الإسرائیلی الذی استَنْصَرَہٗ بالامسِ یَسْتَصْرِخُہٗ ۔
قولہ : یَسْعٰی رَجُکٌ کی صفت ہے یَسْعٰی رجل سے حال بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ رجُلٌ من اقصی المدینۃِ سے متصف ہونے کی وجہ سے معرفہ ہوگیا جس کی وجہ سے رجل کا ذوالجلال بننا درست ہے الْمَلَأُ اسم جمع شریف یا سرداروں کی جماعت یَاتَمِرُوْنَ ایتمار (افتعال) سے جمع مذکر غائب وہ مشورہ کر رہے ہیں اِیَّاہ الضمیر راجع الی موسیٰ ۔
تفسیر و تشریح
ولم بلغ۔۔۔۔۔ أشد کے لفظی معنی قوت و شدت کے انتہاء پر پہنچنا ہے یعنی انسان بچپن کے ضعف سے بتدریج قوت و شدت کی طرف بڑھتا ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کے وجود میں جتنی قوت و شدت آسکتی تھی وہ پوری ہوجاتی ہے، اس وقت کو اشد کہا جاتا ہے، اور یہ زمین کے خطوں اور قوموں کے مزاج کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، کسی کا اشد کا زمانہ جلدی آتا ہے اور کسی کا دیر میں، لیکن حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے بروایت عبد بن حمید یہ منقول ہے کہ اشد عمر کے تینتیس سال میں ہوتا ہے اسی کو سن کمال یا سن وقوف کہا جاتا ہے جس میں بدن کا نشو و نما ایک حد پر پہنچ کر رک جاتا ہے اس کے بعد چالیس سال تک وقوف کا زمانہ ہے اسی کو استویٰ کہتے ہیں، چالیس سال کے بعد انحطاط اور ضعف شروع ہوجاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اشد تینتیس سال کی عمر سے شروع ہو کر چالیس سال تک رہتا ہے۔ (روح و قرطبی بحوالہ معارف) خازن نے کہا ہے کہ اشد اٹھارہ سال سے تیس سال تک ہوتا ہے۔
اتیناہ حکما وعلما بعض حضرات نے حکماً و علماً سے حکمت اور تفقہ فی الدین مراد لیا ہے اور یہ دونوں چیزیں قبل البعثت عطا کی گئیں، اور بعض کے نزدیک حکم سے مراد نبوت و رسالت ہے اور علم سے احکام شرعیہ کا علم ہے وَدَخَلَ موسیٰ المدینۃ علیٰ حینِ غفلۃٍ من اھلھا مدینہ سے مراد شہر مصر (منف) ہے اور غفلت کے وقت سے بعض حضرات نے دوپہر کا وقت مراد لیا ہے جبکہ لوگ قیلولہ کرتے ہوتے ہیں اور بعض نے مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت مراد لیا ہے مگر اول راجح ہے، دَخَلَ المدینۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ کہیں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔
قال رب انی ظلمت نفسی الخ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اس قبطی کافر کا قتل جو موسیٰ (علیہ السلام) سے بلا ارادہ صادر ہوگیا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قتل خطاء کو بھی حسنات الابرار سیئات المقربین کے قاعدہ سے جرم عظیم سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔
سوال : یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کافر قبطی شرعی اصلاح کے اعتبار سے حربی تھا جس کا قتل عمداً و قصداً بھی مباح تھا کیونکہ یہ نہ کسی اسلامی حکومت کا ذمی تھا اور نہ موسیٰ (علیہ السلام) کا اس سے کوئی معاہدہ تھا، پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قتل خطا کو عمل شیطان اور گناہ کیوں قرار دیا، اس کا قتل تو بظاہر موجب اجر ہونا چاہیے تھا، کہ ایک مسلمان پر ظلم کر رہا تھا اس کو بچانے کے لئے یہ قتل واقع ہوا۔
جواب : جواب یہ ہے کہ معاہدہ جیسے قولی اور تحریری ہوتا ہے جس کی خلاف ورزی عہد شکنی اور غداری سمجھی جاتی ہے، اسی طرح معاہدہ عملی بھی ایک قسم کا معاہدہ ہی ہوتا ہے، اس کی بھی پابندی لازمی اور خلاف ورزی عہد شکنی کے مرادف ہے۔
معاہدہ عملی کی صورت یہ ہے کہ جس جگہ مسلمان اور کچھ غیر مسلم کسی دوسری حکومت میں باہمی امن و اطمینان کے ساتھ رہتے بستے ہوں، ایک دوسرے پر حملہ کرنا یا لوٹ مار کرنا طرفین سے غداری سمجھا جاتا ہو تو اس طرح کی معاشرت اور معاملات بھی ایک قسم کا عملی معاہدہ ہوتے ہیں ان کی خلاف ورزی جائز نہیں، اس کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ کی وہ حدیث ہے جس کو امام بخاری نے کتاب الشروط میں مفصل روایت کیا ہے، اس کا واقعہ یہ تھا، حضرت مغیرہ بن شعبہ اپنے اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں کفار کی ایک جماعت کے ساتھ مصاحبت و معاشرت اور معاملات رکھتے تھے، ایک روز ان کو قتل کرکے ان کے اموال پر قبضہ کرلیا اور رسول اللہ کی خدمت میں آکر مسلمان ہوگئے اور جو مال ان لوگوں کا لیا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا، اَما الاسلام فاقبلُ واَمّا المال فلست منہ فی شئ اور ابو داؤد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں اما المال فمال غدر لا حاجتہَ لنا فیہ یعنی آپ کا اسلام تو ہمیں قبول مگر یہ مال جو کہ غدر اور عہد شکنی سے حاصل ہوا ہے اس کی ہمیں حاجت نہیں، شارح بخاری ابن حجر نے شرح میں فرمایا کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ کفار کا مال حالت امن میں لوٹ لینا حلال نہیں کیونکہ ایک بستی کے رہنے والے یا ایک ساتھ کام کرنے والے ایک دوسرے سے اپنے کو مامون سمجھتے ہیں ان کا یہ عملی معاہدہ بھی ایک امانت ہے جس کی حفاظت کرنا فرض ہے، اور کفار کے اموال جو مسلمانوں کے لئے حلال ہوتے ہیں تو یہ صرف محاربہ اور مخالبہ کی صورت میں حلال ہوتے ہیں حالت امن وامان میں جبکہ ایک دوسرے سے اپنے کو مامون سمجھتے ہوں کسی کافر کا مال لوٹ لینا جائز نہیں، قسطلانی نے بھی شرح بخاری میں یہی بات لکھی ہے :
خلاصہ یہ کہ قبطی کا قتل اس عملی معاہدہ کی بناء پر اگر بالقصد ہوتا تو جائز نہیں تھا مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ اسرائیلی کو اس کے ظلم سے بچانے کے لئے ہاتھ کی ضرب لگائی جو عادۃً سبب قتل نہیں ہوتی مگر اتفاقاً قبطی اس ضرب سے مرگیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ احساس ہوا کہ اس کو دفع کرنے کے لئے اس ضرب سے کم درجہ بھی کافی تھا یہ زیادتی میرے لئے درست نہ تھی اسی لئے اس کو عمل شیطان قرار دیکر اس سے مغفرت طلب کی۔
قال رب بما انعمت (الآیۃ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس لغزش کو جب معاف فرما دیا تو آپ نے اس کے شکریہ میں یہ عرض کیا کہ میں آئندہ کسی مجرم کی مدد نہ کروں گا اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس اسرائیلی کی مدد کے لئے یہ اقدام کیا تھا دوسرے واقعہ سے معلوم ہوگیا تھا کہ وہ خود ہی جھگڑالو ہے لڑائی جھگڑا اس کی عادت ہے اس لئے اس کو مجرم قرار دے کہ آئندہ کسی ایسے شخص کی مدد نہ کرنے کا عہد فرمایا اور حضرت ابن عباس (رض) سے اس جگہ مجرمین کی تفسیر کافرین کے ساتھ منقول ہے اور قتادہ نے بھی تقریباً یہی فرمایا ہے، صاحب جلالین نے غالباً اسی تفسیر کے پیش نظر مجرمین کی تفسیر کافرین سے کی ہے، اس تفسیر کی بناء پر واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی جس کی مدد موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تھی یہ بھی مسلمان نہ تھا مگر اس کو مظلوم سمجھ کر امداد فرمائی۔
مسئلہ : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس طرز عمل سے دو مسئلہ معلوم ہوتے ہیں مظلوم اگرچہ کافر اور فاسق ہی کیوں نہ ہو اس کی مدد کرنی چاہیے، دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی مجرم ظالم کی مدد کرنا جائز نہیں فَاَصْبَحَ فِی المَدِینۃِ خَائِفًا یَتَرَقَّبُ خائفا ڈرتے ہوئے یعنی گرفتاری کا خوف کرتے ہوئے یترقبُ کے دو معنی ہیں اور مفسرین نے دونوں ہی معنی کو صحیح قرار دیا ہے اول احتیاط کے طور پر ادھر ادھر جھانکتے ہوئے اور اپنے بارے میں اندیشوں میں مبتلا، دوسرے اللہ تعالیٰ کی اعانت اور مدد کی امید کرتے ہوئے۔
جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دوسرے روز اسی اسرائیلی کو ایک دوسرے قبطی سے الجھتے ہوئے دیکھا تو فرمانے لگے تیری ہی شرارت معلوم ہوتی ہے کل بھی تو ایک قبطی سے جھگڑا رہا تھا، اور آج دوسرے سے الجھ رہا ہے، اسرائیلی کو زبانی فہمائش کرنے کے بعد قبطی سے مواخذہ کرنے کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے ہاتھ بڑھایا تو قبطی یہ سمجھا شاید میری گرفت کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہے تو اسرائیلی بول اٹھا، اے موسیٰ أترید اَنْ تَقْتُلَنِیْ (الآیۃ) جس سے قبطی کے علم یہ بات آگئی کہ کل جو قتل ہوا تھا اس کا قاتل موسیٰ ہے اس نے جا کر فرعون کو خبر کردی جس کے نتیجہ میں فرعون نے موسیٰ کے قتل کے لئے ایک سرداروں اور ارکان سلطنت سے مشورہ کرکے موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا حکم صادر کردیا۔
شہر کے باہری کنارے سے ایک شخص جو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خیر خواہ تھا دوڑتا ہوا آیا اور فرعونیوں کے مشورہ کی خبر دی اور یہ بھی کہا کہ تم فوراً مصر چھوڑ دو اور کسی دوسری جگہ چلے جاؤ، شہر کے کنارے سے آنے والا شخص کون تھا ؟ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کا چچا زاد بھائی حز قیل تھا بعض نے شمعون اور بعض نے سمعان بتایا ہے اور در پردہ حضرت موسیٰ کا خیر خواہ اور ہمدرد تھا، بعض کہتے ہیں کہ اسرائیلی تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قریبی رشتہ دار تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ﴾ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی پوری قوت اور عقل و فہم کو پہنچ گئے اور یہ صفت انسان کو غالب طور پر چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہے ﴿وَاسْتَوَىٰ﴾ اور ان مذکورہ صفات میں درجہ کمال کو پہنچ گئے ﴿ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ﴾ ” تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا۔“ یعنی ان کو ایسی دانائی عطا کی جس کی بناء پر انہیں احکام شرعیہ کی معرفت حاصل ہوگئی اور وہ نہایت دانائی کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کرتے تھے اور ان کو بہت سے علم سے نوازا ﴿وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ ” اور اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو۔“ اللہ تعالیٰ ان کے احسان کے مطابق علم اور حکمت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ موسیٰ علیہ السلام کے کمال احسان پر دلالت کرتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab musa apni bharpoor tawanai ko phonchay aur pooray jawan hogaye to hum ney unhen hikmat aur ilm say nawaza , aur naik logon ko hum yun hi sila diya kertay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
گھونسے سے موت
حضرت موسیٰ کے لڑکپن کا ذکر کیا اب ان کی جوانی کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا۔ یعنی نبوت دی۔ نیک لوگ ایسا ہی بدلہ پاتے ہیں، پھر اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مصر چھوڑنے کا باعث بنا اور جس کے بعد اللہ کی رحمت نے ان کار خ کیا یہ مصر چھوڑ کر مدین کی طرف چل دئیے۔ آپ ایک مرتبہ شہر میں آتے ہیں یا تو مغرب کے بعد یا ظہر کے وقت کہ لوگ کھانے پینے میں یا سونے میں مشغول ہیں راستوں پر آمد ورفت نہیں تھی تو دیکھتے ہیں کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ ایک اسرائیلی ہے دوسرا قبطی ہے۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ سے قبطی کی شکایت کی اور اس کا زور ظلم بیان کیا جس پر آپ کو غصہ آگیا اور ایک گھونسہ اسے کھینچ مارا جس سے وہ اسی وقت مرگیا۔ موسیٰ گھبراگئے اور کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان دشمن اور گمراہ ہے اور اس کا دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہونا بھی ظاہر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے لگے اور استغفار کرنے لگے۔ اللہ نے بھی بخشش دیا وہ بخشنے والا مہربان ہی ہے۔ اب کہنے لگے اے اللہ تو نے جو جاہ وعزت بزرگی اور نعمت مجھے عطا فرمائی ہے میں اسے سامنے رکھ کر وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی نافرمان کی کسی امر میں موافقت اور امداد نہیں کرونگا۔