القصص آية ۷۶
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَيْهِمْۖ وَاٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَـتَـنُوْۤاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِى الْقُوَّةِ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ
طاہر القادری:
بیشک قارون موسٰی (علیہ السلام) کی قوم سے تھا پھر اس نے لوگوں پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی کنجیاں (اٹھانا) ایک بڑی طاقتور جماعت کو دشوار ہوتا تھا، جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا: تُو (خوشی کے مارے) غُرور نہ کر بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا،
English Sahih:
Indeed, Qarun was from the people of Moses, but he tyrannized them. And We gave him of treasures whose keys would burden a band of strong men; thereupon his people said to him, "Do not exult. Indeed, Allah does not like the exultant.
1 Abul A'ala Maududi
یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا "پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا
2 Ahmed Raza Khan
بیشک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا پھر اس نے ان پر زیادتی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیے جن کی کنجیاں ایک زور آور جماعت پر بھاری تھیں، جب اس سے اس کی قوم نے کہا اِترا نہیں بیشک اللہ اِترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا،
3 Ahmed Ali
بے شک قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا پھر ان پر اکڑنے لگا اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ اسکی کنجیاں ایک طاقت ور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا اِترا مت بے شک الله اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
4 Ahsanul Bayan
قارون تھا تو قوم موسیٰ سے، لیکن ان پر ظلم کرنے لگا (١) ہم نے اسے (اس قدر) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بمشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے (٢) ایک بار اس کی قوم نے کہا کہ اتر امت (٣) اللہ تعالٰی اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا (٤)۔
٧٦۔١ اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔
٧٦۔٢ تنوء کے معنی تمیل (جھکنا) جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقتور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی۔
٧٦۔٣ یعنی تکبر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کئے ہیں، بخل مت کر۔
۷ ٦ ۔٤ یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
قارون موسٰی کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدّی کرتا تھا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ اُن کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اُٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا کہ اترائیے مت۔ کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
6 Muhammad Junagarhi
قارون تھا تو قوم موسیٰ سے، لیکن ان پر ﻇلم کرنے لگا تھا ہم نے اسے (اس قدر) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقت ور لوگ بہ مشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے، ایک بار اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اترا مت! اللہ تعالیٰ اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا
7 Muhammad Hussain Najafi
بےشک قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا پھر وہ ان کے خلاف سرکش ہوگیا۔ اور ہم نے اسے اتنے خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی چابیاں ایک طاقتور جماعت کو بھی گرانبار کر دیتی تھیں (اس سے مشکل سے اٹھتی تھیں) جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ (اپنی منزلت پر) مت اترا بےشک اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک قارون موسٰی کی قوم میں سے تھا مگر اس نے قوم پر ظلم کیا اور ہم نے بھی اسے اتنے خزانے دے دیئے تھے کہ ایک طاقت ور جماعت سے بھی اس کی کنجیاں نہیں اٹھ سکتی تھیں پھر جب اس سے قوم نے کہا کہ اس قدر نہ اتراؤ کہ خدا اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی کرتا تھا اور ہم نے اسکو اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا کہ اترائیے مت کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
آیت نمبر 76 تا 82
ترجمہ : قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھا (یعنی) چچا زاد اور خالی زاد بھائی تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لایا تھا، کبر و تعلّی اور
کثرت مال کے ذریعہ لوگوں کے مقابلہ میں تکبر کرنے لگا تھا، اور ہم نے اس کو اس قدر خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں کئی کئی زور آور لوگوں کو گراں بار کردیتے تھیں یعنی ان کو بوجھل کردیتی تھیں باتعدیہ کے لئے ہے (اور اٹھانے والی جماعت کے افراد کی تعداد) کہا گیا ہے ستر تھی اور کہا گیا چالیس تھی اور کہا گیا کہ دس تھی، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں، اس وقت کو یاد کرو جب اس کو قوم بنی اسرائیل کے مومن لوگوں نے اس سے کہا کثرت مال پر مت اتراو اقعی اللہ تعالیٰ مال پر اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو مال تجھ کو اللہ تعالیٰ نے دے رکھا ہے اس میں دار آخرت کی بھی جستجو رکھ اس طریقہ پر کہ اللہ کی اطاعت میں خرچ کر، اور دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کر بایں طور کہ دنیا میں آخرت کے لئے عمل کرتا رہ، اور لوگوں کے ساتھ صدقہ کے ذریعہ حسن سلوک کر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ حسن سلوک کیا ہے اور عمل معصیت کے ذریعہ ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اس معنی کر کہ ان کو سزا دے گا قارون نے جواب دیا یہ سب کچھ مجھے میری ذاتی ہنر مندی سے ملا ہے یعنی میری ہنرمندی کی بدولت اور بنی اسرائیل میں موسیٰ اور ہارون کے بعد سب سے زیادہ تو رات کا عالم تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا اسے اس بات کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی امتوں کو ہلاک کردیا کہ جو اس سے قوۃ میں بھی زیادہ تھیں اور مال کی جمع پونجی کے اعتبار سے بھی زیادہ تھیں یعنی اس کو اس بات کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ ان کے ذنوب کا علم رکھنے کی وجہ سے ان کے ذنوب کے بارے میں سوال نہ کرے گا اور بغیر حساب (کتاب) کے دوزخ میں داخل کرے گا پس قاروں پوری آرائش (شان) کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے (ایک روز) اپنے بہت سے متبعین کے ہمراہ جو کہ زری اور ریشم کا لباس زیب تن کئے ہوئے تھے، زیورات سے لدے ہوئے خچروں اور گھوڑو پر سوار تھے نکلا، تو دنیوی زندگی کے متوالے کہنے لگے یا تنبیہ کے لئے ہے کاش ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دنیا میں دیا گیا ہے یہ تو بڑا نصیب دار ہے یعنی دنیا سے وافی حصہ پانے والا ہے (فیہا کے بجائے منہا انسب ہے) اور وہ لوگ جن کو ان چیزوں کا علم دیا گیا جن کا اللہ تعالیٰ نے آخرت میں وعدہ فرمایا ہے ان سے (بطور نصیحت) کہنے لگے ارے تمہارا ناس ہو (ویل) کلمہ توبیخ ہے آخرت میں اللہ کا ثواب (یعنی) جنت (ہزار درجہ) بہتر ہے اس سے جو قارون کو دنیا میں دیا گیا ہے جو ایسے شخص کو ملے گا جو ایمان لایا ہوگا اور نیک عمل کئے ہوں گے اور جنت جو بطور ثواب ملے گی ان ہی کو دیجائے گی جو طاعت و معصیت پر صبر کرنے والے ہیں آخر کار قارون کو معہ اس کے محل کے زمین میں دھنسا دیا اور اللہ کے سوا کوئی جماعت نہ ہوئی کہ اس کی مدد کرتی (یعنی) ہلاکت سے اس کو بچا لیتی اور نہ وہ خود کو عذاب سے بچانے والوں میں ہوا، اور جو لوگ کل زمانہ قریب میں اس کے جیسا ہونے کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے بس جی یوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جس کو چاہے اپنے بندوں میں سے روزی میں وسعت کرتا اور جس کی چاہے تنگ کردیتا ہے اور وَیْ اسم فعل اِعجِبُ انا کے معنی میں ہے اور کاف بمعنی لام ہے اور اگر ہم پر اللہ کی مہربانی نہ ہوتی تو ہم کو دھنسا دیتا خَسَفَ معروف اور مجہول دونوں ہیں بس جی معلوم ہوگیا قارون کے مانند اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والوں کو کامیابی نہیں ہوتی۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
ان قارونَ قارون عجمی (عبرانی) لفظ ہے، عجمہ اور علمیت کی وجہ سے غیر منصرف ہے، قارون کے متعلق اتنی بات طے شدہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی برداری کافرد تھا، باقی رہی یہ بات کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس کا کیا رشتہ تھا، اس میں مختلف اقوال ہیں، اول چچازاد بھائی تھا، دوسرا خالی زاد بھائی تھا یہ دونوں رشتے جمع بھی ہوسکتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خالہ موسیٰ (علیہ السلام) کے چچا کے نکاح میں ہو، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں، نسب اس طرح ہے قارون بن یَصْھَر بن قاھث، اور موسیٰ بن عمران بن قاہث تَنُوْءُ واحد مؤنث ناء یَنُوْء نوءً (ن) جھکنا، گراں بار ہونا۔
قولہ : اِنّ مفَاتِحَہٗ لَتَنُوْءَ بِالعصبۃِ لَتَنُوْءَ بِالعُصْبَۃِ میں دو صورتیں ہیں (اول) یہ باء تعدیہ کے لئے ہو اس صورت میں معنی یہ ہوں گے لَتَنُوْءَ المَفَاتِحُ العُصبۃ الاَقوِیَاء یعنی کنجیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ طاقتور لوگوں کی ایک جماعت کو بھی گراں بار کردیتی تھیں، اس صورت میں قلب نہیں ہے (دوسری) لَتَنُوْءَ بِالعُصبَۃِ میں قلب مانا جائے اور معنی یہ ہوں لَتَنُوْءَ المفاتحُ العُصبَۃ وی کنجیاں ایک قوی جماعت کو گراں بار کردیتی تھی، اس لئے کہ اگر قلب نہ مانا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ اقویاء کی جماعت کنجیوں کو گراں بار کردیتی تھی، ظاہر ہے کہ یہ خلاف عقل ہے۔
قولہ : وَلاَ یُسْئلُ عن ذُنوبِھِمْ المجرمون سوال : ایک آیت میں ہے فَوَ رَبِّکَ لَنَسْاَلَنَّھُمْ اَجمعینَ عَمَّا کانُوْا یَعملونَ پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مجرمین سے ان کے جرائم کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا اور بغیر حساب و کتاب جہنم میں داخل کردیا جائے گا، اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مجرمین سے ان کے جرائم کے بارے میں سوال کیا جائے گا، دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے ؟
جواب : سوال کی دو قسمیں ہیں سوال استعتاب کہ سوال کرنے کے بعد معاف کردیا جاتا ہے جیسا کہ بعض عصاۃ مومنین کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے گا۔
دوسرا سوال : تقریح جس کے بعد جہنم میں داخل کردیا جائے گا، یہاں اول قسم کے سوال کی نفی مراد ہے، لہٰذا کوئی تعارض نہیں ہے۔ قولہ : فَخَرَجَ اس کا عطف قال انما اوتیتہٗ پر ہے درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔ قولہ مِن فِیَۃٍ یَنْصُرُوْنَہٗ فئۃٌ کان کا اسم بھی ہوسکتا ہے اگر کان ناقصہ ہو تو لَہٗ اس کی خبر، اور اگر کان تامہ ہو تو فِئۃ اس کا فاعل ہوگا اور ینصرونہ فِئۃ کی صفت فِئۃ لفظاً مجرور ہوگا اور معناً مرفوع اس لئے کہ من زائدہ۔ قولہ : مِن دون اللہ فئۃ سے حال ہے۔ قولہ : بِالاَمسِ سے اس کے حقیقی معنی کل گزشتہ مراد نہیں ہیں، بلکہ زمانہ قریب مراد ہے زمانہ قریب کو مجازاً اَمْسِ سے تعبیر کردیتے ہیں۔
قولہ : وَیٌکَأَنَّ یہ کلمہ تعجب اور زجر ہے وَیْ کَ سے مرکب ہے کاف ضمیر خطاب ہے اور اَنّ حرف مشبہ بالفعل ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ وَا اسم ہے جو تعجب پر دلالت کرتا ہے، اس وا کے بعد کبھی کبھی ھا بڑھا دیتے ہیں معنی تعجب ہی کے رہتے ہیں، اور کبھی وَا کو وَیْ پڑھتے ہیں اور اس کے بعد کأنّ لگا دیتے ہیں وَیْکَاَنَّ مَنْ یکن لہ نَشَبٌ یُحْبَبْ ومن یفتقر یعیش عیش ضر ” ارے جس کے پاس زر کثیر ہوتا ہے اس سے محبت کی جاتی ہے اور جو محتاج ہوتا ہے وہ دکھ کی زندگی گزارتا ہے “۔ (لغات القرآن)
تفسیر و تشریح
سورة قصص میں بیان کردہ واقعات میں سے یہ دوسرا واقعہ ہے پہلا قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا تھا، یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور انکی برادری بنی اسرائیل کے ایک شخص قارون کے ساتھ ہے۔
ربط : دونوں واقعات میں مناسبت یہ ہے کہ پچھلی آیت میں یہ اشارہ ہوا تھا کہ دنیا کی مال و دولت جو تم کو دی جاتی ہے وہ چند روزہ متاع ہے اس کی محبت میں لگ جانا اور اس پر فریفتہ ہو کر آخرت کو فراموش کردینا دانشمندی نہیں ہے وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَمَتَاعُ الحَیٰوۃِ الدُّنیَا الآیۃ قارون کے قصہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس نے مال و دولت حاصل ہونے کے بعد اس نصیحت کو بھلا دیا اور دنیا کی مال و دولت کے نشہ میں مست ہو کر اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے لگا اور اس کے ذمہ جو مالی حقوق واجبہ تھے ان کی ادائیگی سے منکر بھی ہوگیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔
قارون عجمی لفظ ہے غالباً عبرانی ہے قارون کے متعلق اتنی بات تو قرآن ہی سے معلوم ہوتی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی برادری بنی اسرائیل کا شخص تھا، مگر اس بات میں کافی اختلاف ہے کہ اس کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا رشتہ تھا ؟ بعض نے چچا زاد بھائی اور بعض نے خالہ زاد بھائی بتایا ہے اور بعض نے دونوں کہا ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) وابن جریج و قتادہ و ابراہیم سے مروی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا، نسب اس طرح ہے موسیٰ بن عمران بن قاہث بن لاوی بن یعقوب (علیہ السلام) اور قارون کا نسب اس طرح ہے، قارون بن یصہر بن قاہث اور مجمع البیان میں عطاء عن ابن عباس انہ ابن خالۃ موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد بن اسحٰق سے مروی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا تھا، نسب اس طرح بیان کرتے ہیں موسیٰ بن عمران بن یصہر بن قاہث، قارون بن یصہر بن قاہث۔ (روح المعانی
قارون تورات کا حافظ تھا نیز موسیٰ و ہارون کے بعد تیسرے درجہ کا عالم بھی مگر سامری کے مانند منافق تھا قیادت وسیادت چونکہ حضرت موسیٰ و ہارون کے پاس تھی جس کی وجہ سے قارون کو حسد تھا ایک مرتبہ قارون نے اپنے حسد کا اظہار بھی کردیا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ سب اللہ کے اختیار کی بات ہے ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے چناچہ قارون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا۔ (روح المعانی)
اور اپنے مال و دولت کے نشہ میں دوسروں پر ظلم کرنا شروع کردیا، یحییٰ بن سلام اور سعید بن مسیب نے فرمایا کہ قارون سرمایہ دار آدمی تھا فرعون کی جانب سے بنی اسرائیل کی نگرانی پر مامور تھا، اس امارت کے زمانہ میں اس نے بنی اسرائیل کو بہت ستایا بغٰی کے ایک معنی تکبر کے بھی آتے ہیں بہت سے مفسرین نے اس جگہ یہی معنی مراد لئے ہیں یعنی مال و دولت کے نسہ میں بنی اسرائیل پر تکبر کرنے لگا اور ان کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگا۔
واتیناہ من الکنوز، کنوز کنز کی جمع ہے مدفون خزانہ کو کہتے ہیں، اور اصطلاح شرح میں کنز اس مال کو کہا جاتا ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو، حضرت عطاء سے روایت ہے کہ اس کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ایک عظیم الشان مدفون خزانہ مل گیا تھا۔ (روح ملخصاً ) ۔ لنتوء بالعصبۃ ناء ینوء نوءُ بوجھ سے جھک جانا، عصبہ کے معنی جماعت، مطلب یہ ہے کہ اس کے سونے اور چاندی سے بھرے ہوئے صندوق اس قدر تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو جھکا دیتی تھیں خدا کی نعمت پر خوشی کا اظہار اگرچہ مذموم نہیں ہے مگر اس قدر خوشی کرنا کہ اترانے اور تکبر کی حد تک پہنچ جانے اور دوسروں کو ذلیل و حقیر سمجھنے لگے جائز نہیں، قرآن کریم نے فرح کو متعدد آیات میں مذموم قرار دیا ہے۔
وابتغ فیما آتاک اللہ (الآیۃ) مسلمانوں نے قارون کو یہ نصیحت کہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال و دولت تجھے عطا فرمائی ہے اس کے ذریعہ آخرت کا سامان فراہم کر اور دنیا میں جو تیرا حصہ ہے اسے فراموش نہ کر اور یہ کہ دنیا میں آخرت کے لئے عمل کرتا رہ، حدیث شریف میں وارد ہے اغتنم خمساً قبل خمسٍ سبابکَ قبل ھرمک وصحتکَ قبل سقمک وغناء کَ قبل فقرک وفراغَک قبل شغلک وحیاتک قبل موتِکَ (حدیث مرسل) جمل۔
انما اوتیتہٗ قارون نے یہ جملہ مومنین ناصیحین کے جواب میں کہا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ میرے مال و دولت کے حصول میں فضل خداوندی کا کوئی دخل نہیں ہے، یہ مال و دولت تو مجھے میرے ذاتی کمال عمل کی وجہ سے ملا ہے اس کا خود حقدار ہوں اس میں مجھ پر کسی کا احسان نہیں ہے، ظاہر یہ ہے کہ آیت میں علم سے مراد معاشی تدابیر کا علم ہے، مثلاً تجارت صنعت وغیرہ اور بعض مفسرین نے علم سے تورات کا علم مراد لیا ہے، جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ قارون تورات کا حافظ اور عالم تھا، اور اس ستر اصحاب میں سے تھا جن کو موسیٰ (علیہ السلام) نے میقات کے لئے منتخب فرمایا تھا مگر اس کو اپنے عمم پر ناز اور غرور پیدا ہوگیا، اس کو اپنا ذاتی کمال سمجھ بیٹھا۔
انما اوتیتہ علیٰ علم عندی کے ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ اللہ کے علم میں یہ بات ہے کہ میں اس کا مستحق تھا اسی لئے مجھے یہ نعمتیں ملی ہیں، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ علم کیمیا (سونا بنانے کا علم) آتا تھا، مگر امام ابن کثیر نے اس کو محض فریب اور دھوکا قرار دیا ہے، مال و دولت کی فراوانی یہ کوئی فضیلت کا باعث نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں اس لئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنا اور اسے باعث فضیلت سمجھنا کوئی معقول بات نہیں ہے۔
فخرج علیٰ قومہٖ فی قینتہٖ ایک روز قارون اپنے ہزار ہا مصاحبین اور خدم و حشم کی معیت میں بڑی شان و شوکت اور زیب وزینت کے ساتھ نکلا، جب کچھ دنیا دار مسلمانوں نے یا کافروں اور منافقوں نے قارون کی زیب وزینت اور کروفر اور دنیوی چمک دمک کو دیکھا تو اس کے جیسا ہونے کی تمنا کی اور قارون کے بارے میں کہنے لگے قارون بڑا ہی نصیب دار، اور اقبال مند ہے۔
وقال الذین اوتوا العلم دنیا دار لوگوں کے برخلاف اہل علم کہ جن کو دنیا و آخرت ثواب و عقاب اور امم سابقہ کی ہلاکت و بربادی اور اللہ کے وعدوں کا علم دیا گیا تھا نے کہا ارے کمبحثو ! دنیا کی یہ زیب وزینت جس کی تم تمنا کر رہے ہو چند روز ہے، ہمیشہ باقی رہنے والا تو آخرت کا اجروثواب ہے لہٰذا تم اس چند روزہ زینت پر فریفتہ مت ہو اس کی حقیقت (حضراء دمن) کوڑی کے سبزے سے زیادہ نہیں، آخرت کا اجر وثواب ایمان والوں نیکوکاروں ہی کو ملتا ہے، اس آیت میں علماء کا مقابلہ الذین یریدون الحیوۃ الدنیا
سے کہا گیا ہے جس میں واضح اشارہ اس طرف ہے کہ متاع دنیا کو مقصود بنانا اہل علم کا کام نہیں۔
قارون کے زمین میں دھنسنے کا قصہ تاریخی روایات کی روشنی میں : ارباب تاریخ لکھتے ہیں کہ جب سیادت و قیادت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر مقرر ہوگئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو (بیت القربان) یعنی قربانیوں کا نگراں مقرر فرما دیا، یعنی جو نذر آئے، وہ ہارون کی معرفت ان کی نگرانی میں قربان گاہ میں رکھی جائے اور آسمانی آگ آکر اس کو جلا دے، گویا کہ یہ قربانی کے مقبول ہونے کی علامت تھی، قارون کو اس بات پر حسد ہوا اور کہا آپ پیغمبر بھی ہیں، اور رئیس قوم بھی، اور ہارون قربان گاہ کے نگراں اور میں تورات کا بھی حافظ ہوں مجھے کیونکر صبر آئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ امر منجانب اللہ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں ہے، قارون کہنے لگا میں کیسے یقین کروں کہ یہ امر منجانب اللہ ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے سرداروں کو جمع ہونے کا حکم دیا جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے حکم دیا کہ تم سب اپنی اپنی لاٹھیاں لاؤ جس کی لاٹھی سرسبز ہوجائے وہ قربانگاہ کی نگرانی کا مستحق ہوگا سب لاٹھیوں کو جمع کرکے ایک مکان میں بند کردیا گیا جب صبح کو دیکھا تو حضرت ہارون کا عصا سرسبز ہوگیا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا دیکھا یہ فعل میرا نہیں تھا، قارون نے کہا یہ تو جادوگروں کا کرشمہ ہے قارون نے کھلا پلا کر بنی اسرائیل کے بہت سے سرداروں کو اپنی طرف کرلیا، جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ واجب فرمائی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قارون کے پاس آئے اور فی ہزار ایک دینار دینا طے ہوا مگر جب قارون نے حساب لگایا تو کثیر مال ہوا تو گھبرایا اور بنی اسرائیل کو جمع کرکے کہنے لگا موسیٰ (علیہ السلام) نے اب تک جو کچھ کہا تم نے مانا، مگر ان کو کفایت نہ ہوئی اب تمہارا مال لینے کی فکر میں ہے، قوم نے کہا تم ہمارے بڑے اور عقل مند ہو، جو تم کہو گے ہم تسلیم کریں گے، قارون نے کہا فلاں زن فاحشہ کو لاؤا سے کچھ دیکر آمادہ کریں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تہمت لگائے جب قوم یہ بات سنے گی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے باغی ہوجائے گی اور ہم سب کو اس غلامی سے نجات مل جائے گی، غرضیکہ وہ عورت آئی اور اسے بہت کچھ دے دلا کر تہمت لگانے پر راضی کرلیا قارون اور اس کے ساتھ بنی اسرائیل کو جمع کرکے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس لے گئے اور عرض کیا یہ لوگ حاضر ہیں آپ ان کو وعظ فرمائیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) باہر تشریف لائے اور وعظ فرمانے لگے اور منجملہ تمام احکامات کے چور کا ہاتھ کاٹنے اور تہمت کی سزا اسی کوڑے اور اگر زانی غیر محصن ہو تو سو کوڑے اور اگر محصن ہو تو سنگسار کرنے کا حکم بیان فرمایا، قارون بولا اگر یہ حرکت آپ نے فلاں عورت سے فعل بد کیا ہے، آپ نے فرمایا اس عورت کو بلاؤ، اگر وہ عورت گواہی دے تو سچ ہے وہ عورت بلائی گئی، جب عورت حاضر ہوگئی تو حضرت موسیٰ نے فرمایا اے عورت کیا میں نے تیرے ساتھ وہ فعل کیا جو یہ لوگ کہتے ہیں اور میں تجھے اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا میں شگاف کردیا اور توریت نازل فرمائی تو سچ سچ بتا وہ عورت سکھائے ہوئے کید شیطانی کو بھول گئی اور کہنے لگے یہ لوگ جھوٹے ہیں مجھے قارون نے اس قدر مال دیکر راضی کیا تھا کہ میں اپنے ساتھ آپ کو مہتم کروں، قارون یہ بات سن کر گھبرا گیا اور سرجھکا لیا اور سردار خاموش ہوگئے اور عذاب الٰہی سے خوف زدہ ہوگئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سجدہ میں گرپڑے اور رورو کر عرض کیا اے میرے رب تیرے اس دشمن نے مجھے ایذا دی اور مجھے رسوا کرنا چاہا اگر میں تیرا رسول ہوں تو تو مجھے اس پر مسلط کر دے، خدا تعالیٰ کی جانب سے وحی آئی فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) سر اٹھاؤ اور زمین کو حکم دو جو کہو گے وہ بجا لائے گی چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے زمین کو حکم دیا کہ قارون کو نگل لے، چناچہ زمین نے بتدریج نگلنا شروع کیا، ادھر قارون یا موسیٰ یا موسیٰ چلاتا رہا گڑ گڑاتا رہا یہاں تک کہ ستر مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا اور زمین میں غائب ہوگیا۔ (مظہری)
پھر بنی اسرائیل کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس لئے قارون کو دھنسا دیا کہ اس کے مال پر قبضہ کرلے، پھر آپ نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ اس خزانہ کو بھی زمین میں دھنسا دے چناچہ اس کا خزانہ بھی دھنس گیا اور برابر دھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر تائب لکھنوی)
واصبح الذین تمنوا مکانہ بالامس یعنی جو لوگ قارون کی تروی اور خوشحالی دیکھ کر کل یہ آرزو کر رہے تھے کہ کاش ہم کو بھی ایسا ہی عروج حاصل ہوتا، آج اس کا یہ برا انجام دیکھ کر کانوں پر ہاتھ دھرنے لگے، اب ان کو ہوش آیا کہ ایسی دولت حقیقت میں ایک خوبصورت سانپ ہے جس کے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے کسی شخص کی دنیوی ترقی اور عروج کو دیکھ کر ہم کو ہرگز یہ فیصلہ نہیں کرلینا چاہیے کہ اللہ کے یہاں وہ کچھ عزت اور وجاہت رکھتا ہے، دنیا کی ترقی اور وجاہت کسی کے مقبول یا مردود ہونے کا معیار نہیں بن سکتی، اللہ تعالیٰ جس کے لئے مناسب سمجھے روزی کے دروازے کشادہ کردے اور جس پر چاہے تنگ کر دے، مال و دولت کی فراخی و فراوانی مقبولیت اور محبوبیت کی دلیل نہیں بلکہ بسا اوقات اس کا نتیجہ تباہی اور ابدی ہلاکت کی صورت میں نمودار ہوتا ہے
کما عاقلٍ عاقلٍ اعیت مذاھبہ کم جاھلٍ جاھلٍ تلقاہ مرزوقا
ھٰذا الذی ترک الاوھام حائرۃ وصیّرَ العالِمَ النحریر زندیقًا
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ قارون کے احوال اور اس کے کرتوتوں اور ان کرتوتوں کی پاداش میں اس کے ساتھ جو کیا گیا، اس کے ساتھ خیر خواہی اور جو اسے نصیحت کی گئی تھی ان سب کے بارے میں خبر دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ﴾ یعنی قارون، بنی اسرائیل میں سے تھا جن کو تمام جہانوں پر فضیلت اور اپنے دور میں ان کو سب پر فوقیت دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ، نے ان کو اپنے احسانات سے نوازا پس ان کا حال استقامت سے مناسبت رکھتا تھا، مگر قارون اپنی قوم کے راستے سے منحرف ہوگیا، اس نے ان پر ظلم کیا اور سرکشی کی راہ اختیار کی کیونکہ بڑے بڑے امور اس کے سپرد کئے تھے۔ ﴿وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ ﴾ ” ہم نے اسے (مال و دولت بہت سے) خزانے عطا کئے تھے“ ﴿ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ﴾ ” ان (خزانوں) کی کنجیاں ایک طاقتور ” عصبہ“ کو اٹھانی مشکل ہوتیں۔“ (عُصْبَۃٌ)کا اطلاق سات سے دس تک کی تعداد پر ہوتا ہے، یعنی حتیٰ کہ خزانوں کی کنجیاں اٹھانا ایک طاقتور جماعت کے لئے بھی بہت بھاری تھا۔ یہ تو تھیں ان خزانوں کی کنجیاں،تب ان خزانوں کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے؟﴿إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ﴾ اس کی خیر خواہی کرتے اور اسے سرکشی سے ڈراتے ہوئے : ﴿ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ﴾ یعنی اس دنیاوی شان وشوکت پر خوش ہو نہ اس پر فخر کر کہ یہ تجھے آخرت سے غافل کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں، فخر کرنے والوں اور دنیا کی محبت میں مشغول ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
11 Mufti Taqi Usmani
qaroon musa ki qoam ka aik shaks tha , phir uss ney unhi per ziyadti ki . aur hum ney ussay itney khazaney diye thay kay uss ki chabiyan taqatwar logon ki aik jamat say bhi mushkil say uthti then . aik waqt tha jab uss ki qoam ney uss say kaha kay : itrao nahi , Allah itraney walon ko pasand nahi kerta ,
12 Tafsir Ibn Kathir
قارون
مروی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چچا کا لڑکا تھا۔ اس کا نسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث۔ ابن اسحاق کی تحقیق یہ کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا تھا۔ لیکن اکثر علماء چچاکا لڑکا بتاتے ہیں۔ یہ بہت خوش آواز تھا، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہوگیا تھا۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی۔ اس کے بہت خزانے تھے۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لادی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے، واللہ اعلم۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ کر اللہ کا ناشکرا نہ ہو، ورنہ اللہ کی محبت سے دور ہوجاؤ گے۔ قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو اللہ کی نعمتیں تیرے پاس ہیں انہیں اللہ کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں بھی تیرا حصہ ہوجائے۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش و عشرت کر ہی نہیں۔ نہیں اچھا کھا، پی، پہن اوڑھ جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حلال چیزیں برت لیکن جہاں اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو نہ بھول وہاں اللہ کے حق بھی فراموش نہ کر۔ تیرے نفس کا بھی حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے۔ ہر حق دار کا حق ادا کر اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل ڈال اللہ کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آجا۔ اللہ فسادیوں سے محبت نہیں رکھتا۔