العنکبوت آية ۱۴
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَ لْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا ۗ فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، پھر ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے،
English Sahih:
And We certainly sent Noah to his people, and he remained among them a thousand years minus fifty years, and the flood seized them while they were wrongdoers.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس اُن کے درمیان رہا آخر کار اُن لوگوں کو طوفان نے آ گھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہا تو انہیں طوفان نے ا ٓ لیا اور وہ ظالم تھے
3 Ahmed Ali
اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پھر وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے پھر انہیں طوفان نے آ پکڑا اور وہ ظالم تھے
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے (١) پھر تو انہیں طوفان نے دھر پکڑا اور وہ تھے ظالم۔
١٤۔١ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت و تبلیغ کی عمر ان کی پوری عمر کتنی تھی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لئے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں۔ و اللہ اعلم۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے نوحؑ کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے پھر اُن کو طوفان (کے عذاب) نے آپکڑا۔ اور وہ ظالم تھے
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وه ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے، پھر تو انہیں طوفان نے دھر پکڑا اور وه تھے بھی ﻇالم
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یقیناً ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ اس میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر (آخرکار) اس قوم کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے نوح علیھ السّلامکو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر قوم کو طوفان نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ لوگ ظالم تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے پھر ان کو طوفان (کے عذاب) نے آپکڑا اور وہ ظالم تھے
آیت نمبر 14 تا 22
ترجمہ : اور ہم نے نوح ( (علیہ السلام) ) کو ان کی طرف کیا اور اس وقت ان کی عمر چالیس سال یا اس سے زیادہ تھی چناچہ (نوح) اپنی قوم میں پچاس کم ایک ہزار سال رہے اور ان کو اللہ کی توحید کی دعوت دیتے رہے تو انہوں نے (نوح (علیہ السلام) ) کی تکذیب کی تو ان کو طوفان نے آدبایا یعنی پانی نے جس نے ان کو کھیر لیا اور ان کے اوپر پھر گیا، سو وہ غرق ہوگئے، اور وہ بڑے ظالم مشرک لوگ تھے چناچہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور کشتی والوں یعنی ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی، اور اس واقعہ کو ہم نے تمام جہان والوں کے لئے عبرت کا نشان بنادیا یعنی ان کے بعد والے لوگوں کے لئے اگر وہ اپنے رسولوں کی نافرمانی کریں، اور نوح علیہ الصلاۃ ولسلام طوفان کے بعد ساٹھ سال یا اس سے زیادہ بقید حیات رہے، حتی کہ لوگ بکثرت ہوگئے اور حضرت ابراہیم کا ذکر کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو یعنی اس کے عذاب سے خوف کرو یہ تمہارے لئے بتوں کی بندگی سے جس پر تم جمے ہوئے ہو بہتر سے غیر بہتر کی شناخت ہے تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پوجا پاٹ کرتے ہو یعنی بتوں کی اور جھوٹ کھڑتے ہو یعنی یہ جھوٹ بکتے ہو کہ بت اللہ کے شرکاء ہیں (سنو) تم اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی پوجا پاٹ کررہے ہو وہ تمہارے رزق کے مالک نہیں (یعنی) تم کو رزق دینے پر قادر نہیں پس تمہیں چاہیے کہ تم اللہ ہی سے روزی طلب کرو اسی کی بندگی کرو اور اسی کی شکر گذاری کرو اور تم اسی طرف لوٹائے جاؤ گے اے اہل مکہ اگر تم میری تکذیب کرو گے (تو یہ کوئی نئی بات نہیں) تم سے پہلے بھی بہت سی امتیں مجھ سے پہلے والے رسولوں کو جھٹلا چکی ہیں رسول کے ذمہ تو صرف صرف طور پر پہنچا دینا ہے یعنی محض واضح طور پر پہنچا دینا ہے، ان دونوں (یعنی نوح علیہ والصلاۃ والسلام اور ابراہیم علیہ والصلاۃ والسلام) کے قصوں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کے بارے میں فرمایا کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو کس طرح ابتداء ً پیدا کرتا ہے یَرَوْا یا اور تا دونوں قراءتیں ہیں، یُبْدِیُ اول کے ضمہ کے ساتھ اور اول کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے بَدَأَ اور آبدَأَ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں، یعنی ان کو ابتداءً پیدا کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا یعنی مخلوق کو جس طرح اس نے ابتداءً پیدا کیا، بلاشبہ یہ ابتداءً اور ثانیاً پیدا کرنا اللہ کے لئے بہت ہی آسان ہے لہٰذا تم ثانیاً پیدا کرنے کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ آپ کہئے کہ ملک میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ تم سے پہلے والوں کو کس طرح ابتداءً پیدا کیا اور ان کو موت دی پھر دوسری مرتبہ بھی پیدا کرے گا نَشْأۃَ مد کے ساتھ اور قصر کے ساتھ مع شین کے سکون کے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر شئ پر قادر ہے اور اسی میں ابتداءً اور ثانیاً پیدا کرنا بھی ہے جس کو عذاب دینا چاہے عذاب دے اور جس پر رحم کرنا چاہے رحم کرے اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور نہ تو تم اپنے رب کو تمہارے پکڑنے سے زمین میں عاجز کرسکتے ہو اور نہ آسمان میں اگر تم آسمان میں ہو، یعنی تم اس سے بچ کر نہیں نکل سکتے، اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تمہارا کوئی ولی ہے کہ اس سے تمکو بچا سکے اور نہ مددگار کہ تمہاری اسکے عذاب سے مدد کرسکے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : نوحاً حضرت نوح (علیہ السلام) کے نام چند اقوال ہیں (١) عبد الغفار (٢) یَشکُر (٣) السَّکَنْ ” نوح “ آپ کا لقب ہے نوحٌ بہت زیادہ نوحہ کرنے والے کو کہتے ہیں، حضرت نوح (علیہ السلام) چونکہ اپنی امت کی حالت کو دیکھ کر بہت زیادہ روتے تھے اس لئے ان کا لقب مشہور ہوگیا۔
قولہ : ابراھیم ابراہیم پر عام قرّانے نصب پڑھا ہے، نصب کی تین وجہیں یوسکتی ہیں اولؔ یہ کہ نوحًا پر عطف ہو یا اس کا عامل باصف محذوف مانا جائے جیسا کہ شارح نے اذکر محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے یا یہ کہ انجیناہ کی ضمیر پر عطف ہو، اور بعض حضرات نے ابراہیم کو مبتداء ہونے کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے خبر محذوف مانی ہے تقدیر عبارت یہ ہے ومن المرسلین ابراھیم .
قولہ : اَوْثان، وثنٌ کی جمع ہے پتھر وغیرہ سے تراشے ہوئے بت جن کی بندگی کی جائے۔
قولہ : یَرْزقُو کُمْ کا اضافہ کرکے شارح نے اشارہ کردیا کہ رزقًا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی لا یملِکُوْنَ اَن یرزقو کم رزقًا . قولہ : تکذبونی اس سے اشارہ ہے کہ تکذبوا کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : یا اھل مکۃ اس سے مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ آیت اور آئندہ آیت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے اور مقصد اس سے آپ کو تسلی دنیا ہے ان تکذبوا شرط ہے اور اس کی جزا فلا یضرنی تکذیبکم .
قولہ : مَنْ قبلی، مَن موصولہ کذّبَ کا مفعول ہے۔
قولہ : ھاتینِ القصتین سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے ہیں۔
قولہ : اَوَلَمْ یَرَوا یہاں رویت سے مراد علم یقینی ہے ورنہ تو ابتداء تخلیق کے وقت کوئی دیکھنے والا موجود نہیں تھا، لہٰذا اَوَلَمْ یَرَوْا کے ذریعہ سوال کرنا بےمعنی ہوگا۔ قولہ : النشأۃ الآخرۃ مدًّا وقصرًا مد کا مطلب ہے شین کے بعد الف اور قصر کا مطلب ہے بغیر الف۔
تفسیر وتشریح
سابقہ انبیاء اور امتوں کے حالات و واقعات کا ذکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کی تسلی کے لئے کیا گیا ہے، جس طرح انبیاء سانقین نے کفار و مشرکین کی ایذاؤں کی وجہ سے کبھی ہمت نہیں ہاری، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنی قوم کی ایذاؤں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فریضۂ رسالت کی ادائیگی مضبوطی کے ساتھ کرتے رہے۔
انبیاء سابقین میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرمایا، اول اس لئے کہ وہ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جن کو کفر وشرک کا مقابلہ کرنا پڑا، دوسرے اس لئے بھی کہ جیتنی ایذائیں ان کو اپنی قوم سے پہنچیں وہ کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں پہنچیں، کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو طول عمر کا ایک خصوصی امتیاز بخشا تھا، اور ساری عمر کفار کی طرف سے ایذاؤں میں بسر ہوئی، حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر ساڑھے نو سو سال تو قرآنی صراحت سے معلوم ہوتی ہے جو یقینی ہے بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمر دعوت و تبلیغ کی ہے، چالیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت ملی اور طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے اس حساب سے آپ کی عمر ایک ہزار اور پچاس سال معلوم ہوتی ہے، اتنی طویل عمر مسلسل دعوت و تبلغ میں رہنا اور قوم کی طرف سے طرح طرح کی ایذائیں مار پیٹ گلا گھونٹنے کی سہتے رہنا اور چند نفر کے علاوہ کسی کا ایمان نہ لانا اور اس کے باوجود کسی وقت بھی ہمت نہ ہارنا، یہ سب حضرت نوح (علیہ السلام) کی خصوصیات ہیں، اور وَہَب (رح) تعالیٰ سے آپ کی عمر ایک ہزار چار سو سال منقول ہے، ملک الموت نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے دریافت کیا آپ عمر کے اعتبار سے اطول العمر انبیاء میں سے ہیں آپ نے دنیا کو کیسا پایا ؟ آپ نے فرمایا دنیا کی مثال ایک مکان کی سی ہے کہ جس کے دو دروازے ہیں ایک سے داخل ہوا دوسرے سے نکل گیا۔ (حاشیہ جلالین)
دوسرا قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بیان ہوا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی بڑے سخت امتحانات سے گذرنا پڑا تھا، مثلاً حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کو لق ودق بےآب وگیاہ میدان میں چھوڑ آنا، پھر اپنے ہی ہاتھ سے اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کے ذبح کا واقعہ یہ سب وہ حالات ہیں کہ جن کو ایک اولوا العزم پیغمبر ہی برداشت کرسکتا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے ضمن میں حضرت لوط (علیہ السلام) کا واقعہ بھی مذکور ہوا ہے، آخر سورت تک دوسرے بعض انبیاء اور ان کی سرکش امت کے حالات کا ذکر یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کی تسلی کے لئے اور ہمت کے ساتھ دین پر قائم رہنے کے لئے بیان ہوئے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ گزشتہ امتوں کے عذاب کی بابت اپنے حکم اور اپنی حکمت بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم میں مبعوث فرمایا، جو ان کو توحید کی دعوت دیتے تھے، ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتے، بتوں اور ان کے خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے روکتے تھے۔ ﴿ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا ﴾ ” پس وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال ان کے درمیان رہے“ وہ نبی کی حیثیت سے ان کو دعوت دینے سے اکتائے نہ ان کی خیر خواہی سے باز آئے وہ رات دن اور کھلے چھپے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے، مگر وہ رشد و ہدایت کی راہ پر نہ آئے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے کفر اور سرکشی پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے نبی حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بے انتہا صبر، حلم اور تحمل کے باوجود ان کے لئے ان الفاظ میں بد دعا کی ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا﴾ )نوح : 71؍26) اے میرے رب ! روئے زمین پر کسی کافر کو بستانہ چھوڑ۔ “
﴿ فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ ﴾ پس ان کو طوفان نے آپکڑا“ یعنی ان کو اس پانی نے (طوفان کی صورت میں)آلیا جو بہت کثرت سے آسمان سے برسا تھا اور نہایت شدت سے زمین سے پھوٹا تھا ﴿ وَهُمْ ظَالِمُونَ ﴾ اور وہ ظالم تھے اور اس عذاب کے مستحق تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney nooh ko unn ki qoam kay paas bheja tha , chunacheh pachas kam aik hazar saal tak woh unn kay darmiyan rahey , phir unn ko toofan ney aa-pakra , aur woh zalim log thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حوصلہ افزائی
اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہے۔ آپ کو خبر دی جاتی ہے کہ نوح (علیہ السلام) اتنی لمبی مدت تک اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ دن رات پوشیدہ اور ظاہر ہر طرح آپ نے انہیں اللہ کی دین کی طرف دعوت دی۔ لیکن وہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے گئے۔ بہت ہی کم لوگ آپ پر ایمان لائے آخرکار اللہ کا غضب ان پر بصورت طوفان آیا اور انہیں تہس نہس کردیا تو اے پیغمبر آخرالزمان آپ اپنی قوم کی اس تکذیب کو نیا خیال نہ کریں۔ آپ اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جن لوگوں کا جہنم میں جانا طے ہوچکا ہے انہیں تو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تمام نشانیاں گو دیکھ لیں لیکن انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا بالآخر جیسے نوح (علیہ السلام) کو نجات ملی اور قوم ڈوب گئی اسی طرح آخر میں غلبہ آپ کا ہے اور آپ کے مخالفین پست ہوں گے۔ ابن عباس (رض) کا بیان ہے کہ چالیس سال کی عمر میں نوح (علیہ السلام) کو نبوت ملی اور نبوت کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی۔ طوفان کی عالمگیر ہلاکت کے بعد بھی نوح (علیہ السلام) ساٹھ سال تک زندہ رہے یہاں تک کہ بنو آدم کی نسل پھیل گئی اور دنیا میں یہ بہ بکثرت نظر آنے لگے۔ قتادہ فرماتے ہیں نوح (علیہ السلام) کی عمر کل ساڑھے نو سو سال کی تھی تین سو سال تو آپ کے بےدعوت ان میں گذرے تین سو سال تک اللہ کی طرف اپنی قوم کو بلایا اور ساڑے تین سو سال بعد طوفان کے زندہ رہے لیکن یہ قول غریب ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے رہے۔ عون بن ابی شداد کہتے ہیں کہ جب آپ کی عمر ساڑھے تین سو سال کی تھی اس وقت اللہ کی وحی آپ کو آئی اس کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد پھر ساڑھے تین سو سال کی عمر اور پائی۔ لیکن یہ بھی غریب قول ہے۔ زیادہ درست قول ابن عباس کا قول نظر آتا ہے واللہ اعلم۔ ابن عمر نے مجاہد سے پوچھا کہ نوح (علیہ السلام) اپنی قوم میں کتنی مدت تک رہے ؟ انہوں نے کہا ساڑھے نو سو سال۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد سے لوگوں کے اخلاق ان کی عمریں اور عقلیں آج تک گھٹتی ہی چلی آئیں۔ جب قوم نوح پر اللہ کا غضب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی کو اور ایمان والوں کو جو آپ کے حکم سے طوفان سے پہلے کشتی میں سوار ہوچکے تھے بچالیا۔ سورة ہود میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ وارد نہیں کرتے۔ ہم نے اس کشتی کو دنیا کے لئے نشان بنادیا یا تو خود اس کشتی کو جیسے حضرت قتادۃ کا قول ہے کہ اول اسلام تک وہ جودی پہاڑ پر تھی۔ یا یہ کہ کشتی کو دیکھ کر پھر پانی کے سفر کے لئے جو کشتیاں لوگوں نے بنائیں ان کو انہیں دیکھ کر اللہ کا وہ بچانا یاد آجاتا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ 41ۙ ) 36 ۔ يس :41) ہماری قدرت کی نشانی ان کے لئے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں بٹھا دیا۔ اور ہم نے ان کے لئے اور اسی جیسی سواریاں بنادیں۔ سورة الحاقہ میں فرمایا جب پانی کا طوفان آیا تو ہم نے تمہیں کشتی میں بٹھالیا۔ اور ان کا ذکر تمہارے لئے یادگار بنادیا تاکہ جن کانوں کو اللہ نے یاد کی طاقت دی ہے وہ یاد رکھ لیں۔ یہاں شخص سے جنس کی طرف چڑھاؤ کیا ہے۔ جیسے آیت ( وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاب السَّعِيْرِ ) 67 ۔ الملک :5) والی آیت میں ہے کہ آسمان دنیا کے ستاروں دنیا کے ستاروں کا باعث زینت آسمان ہونا بیان فرما کر ان کی وضاحت میں شہاب کا شیطانوں کے لئے رجم ہونا بیان فرمایا ہے۔ اور آیت میں انسان کے مٹی سے پیدا ہونے کا ذکر کرکے فرمایا ہے پھر ہم نے اسے نطفے کی شکل میں قرار گاہ میں کردیا۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں ھا کی ضمیر کا مرجع عقوبت اور سزا کو کیا جائے واللہ اعلم (یہاں یہ خیال رہے کہ تفسیر ابن کثیر کے بعض نسخوں میں شروع تفسیر میں کچھ عبارت زیادہ ہے جو بعض نسخوں میں نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کا ساڑھے نو سو سال تک آزمایا جانا بیان کیا اور ان کے قول کو ان کی اطاعت کے ساتھ آزمانا بتلایا کہ ان کی تکذیب کی وجہ سے اللہ نے انہیں غرق کردیا۔ پھر اس کے بعد جلادیا۔ پھر قوم ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش کا ذکر کیا کہ انہوں نے بھی اطاعت و متابعت نہ کی پھر لوط (علیہ السلام) کی آزمائش کا ذکر کیا اور ان کی قوم کا حشر بیان فرمایا۔ پھر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے واقعات سامنے رکھے پھر عادیوں، ثمودیوں، قارونیوں، فرعونیوں، ہامانیوں وغیرہ کا ذکر کیا کہ اللہ پر ایمان لانے اور اس کی توحید کو نہ ماننے کی وجہ سے انہیں بھی طرح طرح کی سزائیں دی گئیں۔ پھر اپنے پیغمبر اعظم المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین اور منافقین سے تکالیف سہنے کا ذکر کیا اور آپ کو حکم دیا کہ اہل کتاب سے بہترین طریق پر مناظرہ کریں)