العنکبوت آية ۴۵
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ ۗ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۤءِ وَالْمُنْكَرِۗ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۗ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
طاہر القادری:
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو،
English Sahih:
Recite, [O Muhammad], what has been revealed to you of the Book and establish prayer. Indeed, prayer prohibits immorality and wrongdoing, and the remembrance of Allah is greater. And Allah knows that which you do.
1 Abul A'ala Maududi
(اے نبیؐ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو
2 Ahmed Raza Khan
اے محبوب! پڑھو جو کتاب تمہاری طرف وحی کی گئی اور نماز قائم فرماؤ، بیشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات سے اور بیشک اللہ کا ذکر سب سے بڑا اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو،
3 Ahmed Ali
جو کتاب تیری طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو بے شک نماز بے حیائی اوربری بات سے روکتی ہے اور الله کی یاد بہت بڑی چیز ہے اور الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو
4 Ahsanul Bayan
جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے (١) اور نماز قائم کریں (٢) یقیناً نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے (۳) بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (٤)
٤٥۔١ قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر و ثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔
٤٥۔٢ کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالٰی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالٰی کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان انکا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا اہتمام فرماتے۔
٤٥۔٣ یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتا ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقینا اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان آداب وشرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلا اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیا طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثا باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعا ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامسا خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادسا مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعا رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بےحیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔
٤٥۔٤ یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلٰوۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ! یہ) کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو۔ کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ اور خدا کا ذکر بڑا (اچھا کام) ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اُسے جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ اس (کتاب) کی تلاوت کریں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کریں۔ بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے.
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ جس کتاب کی آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھ کر سنائیں اور نماز قائم کریں کہ نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شے ہے اور اللہ تمہارے کاروبار سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ) کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے اور خدا کا ذکر بڑا (اچھا کام) ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے جانتا ہے
آیت نمبر 45 تا 51
ترجمہ : جو کتاب آپ پر یعنی قرآن وحی کی گئی ہے آپ اس کو پڑھا کیجئے اور نماز کی پابندی رکھئے یقیناً نماز بیحیائی اور شرعاً ناشائستہ کاموں سے روک دیتی ہے یعنی نماز کی شان یہی ہے، جب یک انسان نماز میں ہوتا ہے بیشک اللہ کا ذکر دیگر طاعتوں کے مقابلہ میں بہت بڑی چیز ہے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے اس کی تم کو وہ جزادے گا اور تم اہل کتاب کے ساتھ بجز مہذب طریقہ کے مجادلہ کرو مثلاً اللہ کی طرف اللہ کی آیات کے ذریعہ دعوت دو اور اس کے دلائل پر تنبیہ کرو مگر ان کے ساتھ جو ان میں زیادتی کریں بایں طور کہ محاربہ کریں اور جزیہ دینے سے انکار کریں تو ایسے لوگوں سے جہاد بالسیف کرو حتی کہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دینا منظور کریں، اور ان لوگوں سے جنہوں نے جزیہ دینے کا اقرار کرلیا جب وہ اپنی کتابوں میں سے کسی بات کی خبر دیں تو کہہ دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی ہے اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی ہے، اور اس خبر کے بارے میں نہ ان کی تصدیق کرو اور نہ تکذیب اور ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے ہم سب اسی کے حکم بردار ہیں (یعنی) اطاعت گذار ہیں اور ہم نے اسی طرح آپ پر کتاب یعنی قرآن نازل کی ہے جیسا کہ ان پر تورات وغیرہ نازل کی ہیں سو جن لوگوں کو ہم نے کتاب تورات دی ہے جیسا کہ عبداللہ بن سلام وغیرہ تو وہ اس کتاب یعنی قرآن پر ایمان لائے ہیں اور ان لوگوں یعنی اہل مکہ میں بھی بعض ایسے ہیں جو قرآن پر ایمان پر لے آئے ہیں اور ہماری آیتوں کا ان کے ظہور کے بعد بجز کافروں یعنی یہود کے کوئی منکر نہیں اور ان پر واضح ہوگیا کہ قرآن حق ہے اور اس کا لانے والا حق پر ہے (پھر بھی) اس کے منکر ہوئے آپ اس کتاب یعنی قرآن سے پہلے کوئی کتاب پڑھے ہوئے نہیں تھے اور نہ آپ اپنے ہاتھ سے کوئی کتاب لکھتے تھے ورنہ تو اگر لکھنا پڑھنا جانتے تو یہ باطل پرست یہود آپ کے بارے میں ضرور شبہ نکالتے اور کہتے کہ جس (آنے والے نبی) کا ذکر تورات میں ہے وہ تو امی ہوگا وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہوگا (اور یہ تو جانتا ہے) بلکہ یہ قرآن جس کو آپ لائے ہیں خود ان لوگوں کے دلوں میں جن کو علم عطا کیا گیا ہے یعنی وہ مومنین جو اس کی حفاظت کرتے ہیں واضح دلیلیں ہیں اور ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالم کے کوئی نہیں یہود نے ان آیتوں کے واضح ہونے کے باوجود انکار کردیا، کفار نے کہا کس لیے محمد پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے نہیں اتاری گئی اور ایک قراءت میں (آیت کی بجائے) آیات ہے جیسا کہ صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی اور موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا دستر خوان آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے اور میں تو صاف صاف ڈرانے والا ہوں میرا ڈر انا اہل معصیت کو آگ (جہنم) سے ہے کیا ان کو اپنے مطالبہ کے سلسلہ میں یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب قرآن نازل کردی جو ان کو پڑھ کر سنائی جارہی ہے یہ کتاب تو ایسی آیت ہے کہ جو ہمیشہ رہنے والی ہے جو کھبی ختم ہونے والی نہیں بخلاف ان آیات کے جن کا تذکرہ کیا گیا اس کتاب
میں رحمت (بھی) ہے اور نصیحت ایمان والوں کے لئے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْک (الآیۃ) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے پر افسوس اور غم ہو تو آپ قرآن کی تلاوت کیا کیجئے تو آپ کو یہ جان کر تسلی ہوگی کہ حضرت نوح و لوط (علیہما السلام) وغیرہ کو بھی ایسے حالات پیش آئے تھے، جیسے آپ کو پیش آرہے ہیں نیز انہوں نے تبلیغ رسالت اور دلائل قائم کرنے میں بےحد محنت اور مبالغہ سے کام لیا مگر اس کے باوجود وہ اپنی قوموں کو ضلالت اور جہالت سے نہ بچاسکے، جب آپ قرآن کی تلاوت کریں گے اور انبیاء مذکورین کے حالات معلوم ہوں گے تو آپ کو ایک گونہ تسلی ہوگی۔
قولہ : الفحشاء والمنکر ” فحش “ اس برائی کو کہتے ہیں جسکو شریعت نے برا قراردیا ہو خواہ عرف عام میں اسکو اچھا ہی کیوں نہ سمجھا جاتا ہو۔
قولہ : مادام المرءُ فیھا یہ ایک قول ہے ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ فواحش اور منکرات سے روکنا نماز کی خاصیت ہے بشرطیکہ اس کو شرائط اور آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کیا جائے، اگر کوئی شخص نماز کی پابندی کے باوجود فواحش سے باز نہیں آتا ہے تو سمجھ لو کہ نماز کی ادائیگی میں قصور ہے نہ کہ نماز کی خاصیت میں۔
قولہ : کعبداللہ بن سلام یہ سبقت قلم ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے اور عبداللہ بن سلام مدینہ میں ایمان لائے ہیں لہٰذا عبداللہ بن سلام کو مثال میں پیش کرنا درست نہیں ہے، ہاں البتہ یہ ممکن ہے اخبار بالغیب کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن سلام کے ایمان لانے کی خبر دی ہو۔
قولہ : مِن کتاب، من کتاب، تتلوا کا مفعول ہے اور من زائدہ ہے۔ قولہ : لو کنت قارناً کاتبًا یہ لف ونشر مرتب ہے۔
قولہ : الیھود، مبطلون کی تفسیر میں یہود کی تخصیص مناسب نہیں ہے اس لئے کہ نصاری کا بھی یہی حال تھا لہٰذا اگر الیھود کے بجائے کالیھود فرماتے تو زیادہ مناسب تھا تاکہ یہود کے علاوہ ہر منکر قرآن اس میں شامل ہوجاتا۔
قولہ : اَوَلَمْ یَکْفِھِم ہمزہ محذوف پر داخل ہے اور واؤ عاطفہ ہے اور یکفھم کا عطف محذوف پر ہے تقدیر عبارت یہ ہے کہ أجَھِلُوْا ولم یکفِھِم اور یہ استفہام تو بخیی ہے۔
قولہ : أنّا أنزلنا۔ أن اور جس پر اَنّ داخل ہے مصدر کی تاویل میں ہے، اور یکف کا فاعل ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَوَلَمْ یکفھم انزالنا .
تفسیر وتشریح
سابقہ آیات سے ربط : اتل۔۔۔ الیک سابقہ آیات میں چند انبیاء اور ان کی امتوں کا ذکر تھا جن میں چند بڑے بڑے سرکش کفار اور ان پر قسم قسم کے عذابوں کا ذکر تھا، جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین امت کے لئے تسلی بھی ہے کہ انبیاء سابقین نے مخالفین کی کیسی کیسی ایذاؤں پر صبر کیا اور اس کی تلقین بھی کہ تبلیغ و دعوت کے کام میں کسی حال میں ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔
قرآن کی تلاوت کے فوائد : اُتْلُ مَا اُوْحِیَ میں اگرچہ خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر مراد پوری امت ہے، قرآن کریم کی
تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے، اجروثواب کے لئے اس کے معانی اور مطالب میں غور وفکر کرنے کے لئے تعلیم و تدریس کے لئے اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں تمام صورتیں داخل ہیں۔
وَاَقِم الصَّلَوٰۃَ ۔ کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا خصوصی تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہوجاتا ہے جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے، اسی لئے قرآن کریم میں کہا گیا ہے یٰٓاَ یُّھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصَّلوٰۃ ” اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو “ (البقرہ) نماز اور صبر کوئی مرئی چیز تو ہے نہیں کہ انسان ان کا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے یہ تو غیر مرئی چیز ہے، مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعہ انسان کا اپنے رب کے ساتھ خصوصی تعلق قائم ہوجاتا ہے، وہ قدم قدم پر اس کی رہنمائی اور دستگیری کرتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کبھی کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تھا تو آپ نماز کا اور زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔
نماز تمام گناہوں سے روکتی ہے : ” فحش “ اور ” منکر “ دو لفظ ہیں ان دو لفظوں میں تمام جرائم اور ظاہری و باطنی سب گناہ آگئے، متعدد مستند احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت صلوٰۃ کی یہ تاثیر ہے کہ جو شخص اس کی شرائط کے ساتھ پابندی کرتا ہے تو اس سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں، مگر اس کی شرائط و آداب کے ساتھ ضروری ہے، جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوافلاں بیماری میں مفید ہے اور واقعتاً ایسا ہوتا بھی ہے لیکن کب ؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک تو دوا کو پابندی کے ساتھ بتائے ہوئے طریقہ اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے اور دوسری چیز پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوا کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں، اسی طرح نماز کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے یقیناً ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ انسان کو بےحیائی اور برائی سے روک دیتی ہے لیکن جب کہ نماز کو سنت نبوی کے طریقہ پر پڑھا جائے۔
وَلَذِکْر اللہ اکبر یعنی اللہ کا ذکر بہت بڑا ہے، اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بندہ جو نماز سے باہر اللہ کا ذکر کرتا ہے یہ بڑی چیز ہے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ بندے جب اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے بندے کا ذکر فرشتوں کے مجمع میں کرتا ہے اور فاذ کرونی اذکرکم کے پیش نظر اللہ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑی نعمت ہے۔
ولا۔۔۔ ظلموا یعنی اہل کتاب سے اگر بحث و مباحثہ کی نوبت آئے تو مجادلہ ایسے طریقہ سے کرو جو بہتر ہو مثلاً سخت کلام کا جواب نرم گفتاری سے اِلَّا الذی ظلوا منھم یعنی جو بحث و مباحثہ میں افراط وتفریط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے، بعض مفسرین نے پہلے گروہ سے وہ اہل کتاب مراد لئے ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص مراد لئے ہیں جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت اور نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے الذین ظلموا منھم کا مصداقِ ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے، اور جنگ وجدال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تان کہ مسلمان ہوجائیں یا جزیہ دنیا قبول کریں۔
آمنا۔۔۔ الیکم اس آیت میں مسلمانوں کے تورات اور انجیل پر ایمان لانے کا تذکرہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تورات
اور انجیل پر اجمالی ایمان رکھتے ہیں یہ اللہ کی نازل کردہ آسمانی کتابیں ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ موجودہ تورات و انجیل کے تمام
مضامین پر ہمارا ایمان ہے گذشتہ زمانہ میں ان میں ہزار ہا تحریفات ہوچکی ہیں اور اب بھی تحریفات کا سلسلہ جاری ہے۔ موجودہ تورات و انجیل کی نہ مطلقاً تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب، صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ کتاب تورات و انجیل کو ان کی اصل زبان عبرانی میں پڑھتے تھے اور مسلمانوں کو ان کا ترجمہ عربی میں سناتے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب بلکہ یوں کہو آمَنَّا بِا لَّذِی اُنْزِلَ اِلَیْنَا واُنْزِلَ الیکُمْ یعنی ہم اجمالاً اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تمہارے انبیاء پر نازل ہوئی ہے اور جو تفصیلات تم بتاتے ہو وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد نہیں، اس لئے ہم اس کی تصدیق و تکذیب سے اجتناب کرتے ہیں۔ تفسیر کی کتابوں میں جو عام مفسرین نے اہل کتاب کی روایات (اسرائیلیات) نقل کی ہیں ان کا بھی یہی درجہ ہے اور نقل کرنے کا منشا اس کی صرف تاریخی حیثیت کو واضح کرنا ہے، حلال و حرام کا اس سے استنباط نہیں کیا جاسکتا ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امی ہونا آپ کی نبوت کی اہم دلیل ہے : حق تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت پر جس طرح بہت سے واضح معجزات ظاہر فرمائے انہی میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کو امی رکھا، اور آپ کا اختلاط اہل کتاب سے بھی کبھی نہیں رہا کہ ان سے کچھ سن لیتے اس لئے کہ مکہ میں اہل کتاب تھے ہی نہیں، چالیس سال ہونے پر یکایک آپ کی زبان مبارک سے ایسا کلام جاری ہونے لگا جو اپنے مضامین اور معانی کے اعتبار سے بھی معجزہ تھا اور لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی۔
لو۔۔۔ ربہٖ یعنی اہل مکہ آپ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے معجزے طلب کرتے ہیں اول تو آپ فرمادیجئے کہ معجزوں کا ظاہر کردینا اور نشانیوں کا دکھا دینا میرے اختیار میں نہیں ہے اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں ظاہر فرمادیتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ کیا یہ قرآن معجزہ نہیں ہے جس کی بابت انہیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا لاکر دکھائیں یا کوئی ایک ادنیٰ سورت ہی بنا کر پیش کردیں، اور یہ چیلنج آج بھی باقی ہے اور قیامت رہیگا، جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود اس قرآن پر ایمان نہیں لارہے تو اگر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح کے معجزے ان کو دکھا بھی دیئے گئے تو ضمانت ہے کہ یہ ایمان لے ہی آئیں گے، جبکہ سابق انبیاء (علیہم السلام) کے معجزے ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن کا معجزہ آج بھی باقی ہے اور تاقیامت باقی رہے گا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی وحی و تنزیل یعنی اس کتاب عظیم کی تلاوت کا حکم دیتا ہے۔ یہاں اس کتاب عظیم کی تلاوت کا معنی یہ ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کیا جائے، اس کی ہدایت کو راہ نما بنایا جائے، اس کی خبر کی تصدیق، اس کے معانی میں تدبر اور اس کے الفاظ کی تلاوت کی جائے۔ تب اس کے الفاظ کی تلاوت، معنی ہی کا جز شمار ہوگی۔
جب تلاوت کا معنی مذکورہ بالا امور کو شامل ہے تو معلوم ہوا کہ مکمل اقامت دین تلاوت کتاب میں داخل ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ﴾ ” اور نماز قائم کرو۔“ عام طور پر عطف خاص کے باب میں سے ہے اور اس کی وجہ نماز کی فضیلت، اس کا شرف اور اس کے اچھے اثرات ہیں۔ ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَتَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ﴾ ” بے شک نماز فحشاء اور منکر سے روکتی ہے۔“ ﴿الْفَحْشَاء﴾ سے مراد ہر وہ بڑا گناہ ہے جس کی قباحت مسلم اور نفس میں اس کی چاہت ہو۔ ﴿ لْمُنكَرِ ﴾ سے مراد ہر وہ گناہ ہے جس کو عقل و فطرت برا سمجھے۔
نماز کا فواحش و منکرات سے روکنے کا پہلو یہ ہے کہ بندۂ مومن جو نماز کو قائم کرتا ہے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے ارکان و شرائط کو پورا کرتا ہے، اس کا دل روشن اور پاک ہوجاتا ہے، اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، نیکیوں میں رغبت بڑھ جاتی ہے اور برائیوں کی طرف رغبت کم یا بالکل معدوم ہوجاتی ہے۔ اس طریقے سے نماز پر دوام اور اس کی محافظت ضرور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ پس فواحش و منکرات سے روکنا نماز کا سب سے بڑا مقصد اور اس کا سب سے بڑا ثمرہ ہے۔
نماز کو قائم کرنے میں ایک اور مقصد بھی ہے جو پہلے مقصد سے عظیم تر ہے اور وہ ہے نماز کا اللہ تعالیٰ کے قلبی، لسانی اور بدنی ذکر پر مشتمل ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور بہترین عبادت جو مخلوق کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ نماز ہے، نیز نماز کے اندر تمام جوارح کی عبودیت شامل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت میں نہیں ہوتی، بنا بریں فرمایا ﴿ وَلَذِكْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ ﴾ ” اور اللہ کا ذکر بڑا ہے۔“ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور اس کی مدح کی، اس لیے آگاہ فرمایا کہ نماز کے باہر اللہ تعالیٰ کا ذکر نماز سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے، جیسا کہ جمہور مفسرین کا قول ہے، مگر پہلا معنی اولیٰ ہے کیونکہ نماز اس ذکر سے بہتر ہے جو نماز سے باہر ہو کیونکہ نماز بذات خود سب سے بڑا ذکر ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴾ اور تم جو نیکی یا برائی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، وہ تمہیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) jo kitab tumharay paas wahi kay zariye bheji gaee hai , uss ki tilawat kero , aur namaz qaeem kero . beyshak namaz bey hayai aur buray kamon say rokti hai , aur Allah ka ziker sabb say bari cheez hai . aur jo kuch tum kertay ho , Allah uss sabb ko janta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اخلاص خوف اور اللہ کا ذکر
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ایمان داروں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں اور اسے اوروں کو بھی سنائیں اور نمازوں کی نگہبانی کریں اور پابندی سے پڑھتے رہا کریں۔ نماز انسان کو ناشائستہ کاموں اور نالائق حرکتوں سے باز رکھتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جس نمازی کی نماز نے اسے گناہوں سے اور سیاہ کاریوں سے باز نہ رکھا وہ اللہ سے بہت دور ہوجاتا ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا جسے اس کی نماز بےجا اور فحش کاموں سے نہ روکے تو سمجھ لو کہ اس کی نماز اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوئی۔ اور روایت میں ہے کہ وہ اللہ سے دور ہی ہوتاچلا جائے گا۔ ایک موقوف روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جو نمازی بھلے کاموں میں مشغول اور برے کاموں سے بچنے والا نہ ہو سمجھ لو کہ اس کی نماز اسے اللہ سے اور دور کرتی جارہی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو نماز کی بات نہ مانے اس کی نماز نہیں، نماز بےحیائی سے اور بد فعلیوں سے روکتی ہے اس کی اطاعت یہ ہے کہ ان بےہودہ کاموں سے نمازی رک جائے۔ حضرت شعیب سے جب ان کی قوم نے کہا کہ شعیب کیا تمہیں تمہاری نماز حکم کرتی ہے تو حضرت سفیان نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ہاں اللہ کی قسم نماز حکم بھی کرتی ہے اور منع بھی کرتی ہے۔ حضرت عبداللہ سے کسی نے کہا فلاں شخص بڑی لمبی نماز پڑھتا ہے آپ نے فرمایا نماز اسے نفع دیتی ہے جو اس کا کہا مانے۔ میری تحقیق میں اوپر جو مرفوع روایت بیان ہوئی ہے اس کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ بزار میں ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلاں شخص نماز پڑھتا ہے لیکن چوری نہیں چھوڑتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب اس کی نماز اس کی یہ برائی چھڑادے گی۔ چونکہ نماز ذکر اللہ کا نام ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا اللہ کی یاد بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ تمہاری تمام باتوں سے اور تمہارے کل کاموں سے باخبر ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں نماز تین چیزیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو نماز نماز نہیں اخلاص وخلوص خوف اللہ اور ذکر اللہ۔ اخلاص سے تو انسان نیک ہوجاتا ہے اور خوف اللہ سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے اور ذکر اللہ یعنی قرآن اسے بھلائی و برائی بتادیتا ہے وہ حکم بھی کرتا ہے اور منع بھی کرتا ہے۔ ابن عون انصاری فرماتے ہیں جب تو نماز میں ہو تو نیکی میں ہے اور نماز تجھے فحش اور منکر سے بچائے ہوئے ہے۔ اور اس میں جو کچھ تو ذکر اللہ کرہا ہے وہ تیرے لئے بڑے ہی فائدے کی چیز ہے۔ حماد کا قول ہے کہ کم سے کم حالت نماز میں تو برائیوں سے بچا رہے گا۔ ایک راوی سے ابن عباس کا یہ قول مروی ہے کہ جو بندہ یاد اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتا ہے۔ اس نے کہا ہمارے ہاں جو صاحب ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کا ذکر کروگے تو وہ تمہاری یاد کرے گا اور یہ بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ\015\02ۧ) 2 ۔ البقرة :152) کہ تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کرونگا۔ اسے سن کر آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا یعنی دونوں مطلب درست ہیں۔ یہ بھی اور وہ بھی اور خود حضرت ابن عباس سے یہ بھی تفسیر مروی ہے۔ حضرت عبداللہ بن ربیعہ سے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس نے دریافت فرمایا کہ اس جملے کا مطلب جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں اس سے مراد نماز میں سبحان للہ، الحمدللہ، اللہ اکبر وغیرہ کہنا ہے۔ آپ نے فرمایا تو نے عجیب بات کہی یہ یوں نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حکم کے اور منع کے وقت اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے ذکر اللہ سے بہت بڑا اور بہت اہم ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابو درداء حضرت سلمان فارسی وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے۔ اور اسی کو امام ابن جریر پسند فرماتے ہیں۔