اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا، اور (ان سے) کہہ دو کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے (ہیں) جو ہماری طرف اتاری گئی (ہے) اور جو تمہاری طرف اتاری گئی تھی، اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں،
English Sahih:
And do not argue with the People of the Scripture except in a way that is best, except for those who commit injustice among them, and say, "We believe in that which has been revealed to us and revealed to you. And our God and your God is one; and we are Muslims [in submission] to Him."
1 Abul A'ala Maududi
اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے، سوائے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں، اور اُن سے کہو کہ "ہم ایمان لائے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے مُسلم (فرماں بردار) ہیں"
2 Ahmed Raza Khan
اور اے مسلمانو! کتابیوں سے نہ جھگڑو مگر بہتر طریقہ پر مگر وہ جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا اور کہو ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو تمہاری طرف اترا اور ہمارا تمہارا ایک معبود ہے اور ہم اس کے حضور گردن رکھتے ہیں
3 Ahmed Ali
اور اہل کتاب سے نہ جھگڑو مگر ایسے طریقے سے جو عمدہ ہو مگر جو ان میں بے انصاف ہیں اور کہہ دو ہم اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور تمہاری طرف نازل کیا گیا اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہونے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو (١) مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں (۲) اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی (۳) ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں۔
٤٦۔١ اس لئے کہ وہ اہل علم و فہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں۔ بنابریں ان سے بحث و گفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔ ٤٦۔۲یعنی جو بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لیے ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظلموا منھم کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تاآنکہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ دیں۔ ٤٦۔۳ تورات و انجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الٰہی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو۔ ہاں جو اُن میں سے بےانصافی کریں (اُن کے ساتھ اسی طرح مجادلہ کرو) اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اُتری اور جو (کتابیں) تم پر اُتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور اہل کتاب کے ساتھ بحﺚ ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمده ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ﻇالم ہیں اور صاف اعلان کر دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے اور جو ہم پر اتاری گئی ہے اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی، ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب سے بحث و مباحثہ نہ کرو مگر بہترین انداز سے سوائے ان کے جو ان میں سے ظالم ہیں اور (ان سے) کہو کہ ہم تو اس (کتاب) پر بھی ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب پر بھی) جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا الٰہ (اللہ) ایک ہے اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اہلِ کتاب سے مناطرہ نہ کرو مگر اس انداز سے جو بہترین انداز ہے علاوہ ان سے جو ان میں سے ظالم ہیں اور یہ کہو کہ ہم اس پر ایمان لائے ہیں جو ہماری اور تمہاری دونوں کی طرف نازل ہوا ہے اور ہمارا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم سب اسی کے اطاعت گزار ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریقے سے کہ نہایت اچھا ہو ہاں جو ان میں سے بےانصافی کریں (ان کے ساتھ اسی طرح کا مجادلہ کرو) اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اتری اور جو (کتابیں) تم پر اتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اہل کتاب سے ایسی بحث کرنے سے روکتا ہے جو بصیرت کی بنیاد پر اور کسی مسلمہ قاعدے کے مطابق نہ ہو، نیز اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ جب بھی اہل کتاب سے بحث کریں تو احسن انداز، حسن اخلاق اور نرم کلامی سے ان کے ساتھ بحث کریں اور دعوت اسلام بہترین طریقے سے پیش کریں اور باطل کو قریب ترین ذریعے سے رد کریں۔ اس بحث کا مقصد محض جھگڑنا اور مدمقابل پر غلبہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس کا مقصد حق کا بیان اور مخلوق کی ہدایت ہو۔ اہل کتاب میں سے ایسے آدمی کے سوا جس نے اپنے اس ارادے اور حالت کا اظہار کرکے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اس کے بحث کرنے کا مقصد وضاحت حق نہیں بلکہ وہ تو صرف غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے بحث کرنے کا مقصد ضائع ہوجائے گا۔ ﴿ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـٰهُنَا وَإِلَـٰهُكُمْ وَاحِدٌ ﴾ ” اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اتری اور جو (کتابیں) تم پر اتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے۔“ یعنی اہل کتاب کے ساتھ تمہاری بحث اور مناظرے کی بنیاد اس کتاب پر ہونی چاہیے جو تم پر نازل ہوئی ہے اور جو ان پر نازل ہوئی ہے، نیز تمہارے رسول اور ان کے رسول پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے پر ایمان اس بحث و مناظرے کی اساس ہو۔ ان کے ساتھ اس طریقے سے بحث کریں جس سے کتب الٰہیہ اور انبیاء و مرسلین میں جرح و قدح لازم نہ آتی ہوجیسا کہ مناظرہ وہ بحث کے وقت جہلاء کا وتیرہ ہے۔ جہلاء اپنے مدمقابل کے حق اور باطل، ہر بات میں جرح و قدح کرتے ہیں۔ یہ طریقۂ بحث ظلم، واجب کو نظرانداز کرنا اور آداب مناظرہ کی حدود سے تجاوز ہے کیونکہ واجب یہ ہے کہ مخالف کے باطل نظریات کو رد کیا جائے اور اس کی حق باتوں کو قبول کیا جائے۔ اپنے موقف کو حق ثابت کرنے کے لیے مخالف کی حق بات کو کبھی رد نہ کیا جائے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، نیز اہل کتاب کے ساتھ اس نہج پر مناظرہ کرنے سے ان پر قرآن اور قرآن کے لانے والے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اقرار لازم آتا ہے کیونکہ جب وہ ان اصول دینیہ پر بحث کرے گا جن پر تمام انبیاء و رسل اور کتب الٰہیہ متفق ہیں، مناظرہ کرنے والے دونوں گروہوں کے نزدیک وہ مسلمہ اور اس کے حقائق ثابت شدہ ہیں، نیز تمام کتب سابقہ اور انبیاء و مرسلین قرآن اور نبی مصطفی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید کرتے ہیں۔۔۔ یہ کتب الٰہیہ ان حقائق کو واضح کرتی ہیں، ان پر دلالت کرتی ہیں اور انہی کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔۔۔ تو اس پر تمام کتابوں اور تمام رسولوں کی تصدیق لازم آئے گی اور یہ اسلام کے خصائص میں سے ہے۔ یہ کہنا کہ ہم فلاں کتاب کی بجائے فلاں کتاب کی دلیل کو تسلیم کرتے ہیں، یہی حق ہے جس پر کتب سابقہ دلالت کرتی ہیں تو یہ ظلم اور خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ ان کا یہ قول کتب الٰہیہ کی تکذیب ہے کیونکہ اگر وہ قرآن کی دلیل کی تکذیب کرتا ہے، جو گزشتہ کتب سماویہ کی تصدیق کرتا ہے، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ ان تمام کتب سماویہ کی تکذیب کرتا ہے جن پر ایمان لانے کا وہ دعویدار ہے، نیز ہر وہ طریقہ جس سے کسی بھی نبی کی نبوت ثابت ہوتی ہے تو اسی طریقے سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت بہتر طور پر ثابت ہوتی ہے۔ ہر وہ شبہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت میں جرح و قدح کا باعث ہے اس جیسا یا اس سے بھی بڑا شبہ دیگر انبیاء کی نبوت میں جرح و قدح کا موجب بن سکتا ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی نبوت میں اس شبہ کا بطلان ثابت کیا جاسکتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت میں اس قسم کے شبہات کا بطلان بدرجہ اولیٰ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ ﴿ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴾ ” اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔“ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے، اسے معبود بناتا ہے، اس کی تمام کتابوں اور رسولوں پر ایمان لاتا ہے، اس کی اور اس کے رسولوں کی اطاعت کرتا ہے تو وہ سعادت مند ہے اور جو کوئی اس راستے سے انحراف کرتا ہے وہ بدبخت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( musalmano ! ) ehal-e-kitab say behas naa kero , magar aesay tareeqay say jo behtareen ho , albatta unn mein say jo ziyadti keren , unn ki baat aur hai aur ( unn say ) yeh kaho kay : hum uss kitab per bhi emaan laye hain jo hum per nazil ki gaee hai , aur uss per bhi jo tum per nazil ki gaee thi , aur humara khuda aur tumhara khuda aik hai , aur hum ussi kay farmanbardaar hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
غیر مسلموں کو دلائل سے قائل کرو حضرت قتادۃ وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ یہ آیت تو جہاد کے حکم کے ساتھ منسوخ ہے اب تو یہی ہے کہ یا تو اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یا لڑائی لڑیں۔ لیکن اور بزرگ مفسرین کا قول ہے کہ یہ حکم باقی ہے جو یہودی یا نصرانی دینی امور کو سجھنا چاہے اور اسے مہذب طریقے پر سلجھے ہوئے پیرائے سے سمجھا دینا چاہئے۔ کیا عجیب ہے کہ وہ راہ راست اختیار کرے۔ جیسے اور آیت میں عام حکم موجود ہے آیت ( اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ\012\05 ) 16 ۔ النحل :125) اپنے رب کی راہ کی دعوت حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ لوگوں کو دو ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو جب فرعون کے طرف بھیجا جاتا ہے تو فرمان ہوتا ہے کہ آیت ( فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى 44) 20 ۔ طه :44) یعنی اس سے نرمی سے گفتگو کرنا کیا عجب کہ وہ نصیحت قبول کرلے اور اس کا دل پگھل جائے۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے۔ اور حضرت ابن زید سے یہی مروی ہے۔ ہاں ان میں سے جو ظلم پر اڑ جائیں اور ضد اور تعصب برتیں حق کو قبول کرنے سے انکار کردیں پھر مناظرے مباحثے بےسود ہیں پھر تو جدال و قتال کا حکم ہے۔ جیسے جناب باری عز اسمہ کا ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ 25ۧ) 57 ۔ الحدید :25) ہم نے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ہمراہ کتاب و میزان نازل فرمائی تاکہ لوگوں میں عدل و انصاف کا قیام ہوسکے۔ اور ہم نے لوہا بھی نازل فرمایا جس میں سخت لڑائی ہے۔ پس حکم اللہ یہ ہے کہ بھلائی سے اور نرمی سے جو نہ مانے اس پر پھر سختی کی جائے۔ جو لڑے اسی سے لڑا جائے ہاں یہ اور بات ہے کہ ماتحتی میں رہ کر جزیہ ادا کرے۔ پھر تصدیق کردیا کرو ممکن ہے کسی امر حق کو تم جھٹلادو اور ممکن ہے کسی باطل کی تم تصدیق کر بیٹھو۔ پس شرط یہ ہے کہ تصدیق کرو یعنی کہہ دو کہ ہمارا اللہ کی ہر بات پر ایمان ہے اگر تمہاری پیش کردہ چیز اللہ کی نازل کردہ ہے تو ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اگر تم نے تبدیل و تحریف کردی ہے تو ہم اسے نہیں مانتے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اہل کتاب توراۃ کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور ہمارے سامنے عربی میں اس کا ترجمہ کرتے اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہ تم انہیں سچا کہو نہ جھوٹا بلکہ تم آیت (امنا بالذی) سے آخر آیت تک پڑھ دیاکرو۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک یہودی آیا اور کہنے لگا کیا یہ جنازے بولتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی کو علم ہے۔ اس نے کہا میں جانتا ہوں یہ یقینا بولتے ہیں اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ اہل کتاب جب تم سے کوئی بات بیان کریں تو تم نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب بلکہ کہہ دو ہمارا اللہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے۔ یہ اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو تم کسی جھوٹ کو سچا کہہ دو یا کسی سچ کو جھوٹ بتادو۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ ان اہل کتاب کی اکثروبیشتر باتیں تو غلط اور جھوٹ ہی ہوتی ہیں عموما بہتان و افتراء ہوتا ہے۔ ان میں تحریف و تبدل تغیر و تاویل رواج پاچکی ہے اور صداقت ایسی رہ گئی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ بالفرض سچ بھی ہو تو ہمیں کیا فائدہ ؟ ہمارے پاس تو اللہ کی تازہ اور کامل کتاب موجود ہے۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں اہل کتاب سے تم کچھ بھی نہ پوچھو۔ وہ خود جبکہ گمراہ ہیں تو تمہاری تصحیح کیا کریں گے ؟ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی کسی سچ بات کو تم جھوٹا کہہ دو ۔ یا ان کی کسی جھوٹی بات کو تم سچ کہہ دو ۔ یاد رکھو ہر اہل کتاب کے دل میں اپنے دین کا ایک تعصب ہے۔ جیسے کہ مال کی خواہش ہے ( ابن جریر) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں تم اہل کتاب سے سوالات کیوں کرتے ہو ؟ تم پر تو اللہ کی طرف سے ابھی ابھی کتاب نازل ہوئی ہے جو بالکل خالص ہے جس میں باطل نہ ملا نہ مل جل سکے۔ تم سے تو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے دین کو بدل ڈالا۔ اللہ کی کتاب میں تغیر کردیا اور اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو اللہ کی کتاب کہنے لگے اور دنیوی نفع حاصل کرنے لگے۔ کیوں بھلا تمہارے پاس جو علم اللہ ہے کیا وہ تمہیں کافی نہیں ؟ کہ تم ان سے دریافت کرو۔ دیکھو تو کس قدر ستم ہے کہ ان میں سے تو ایک بھی تم سے کبھی کچھ نہ پوچھے اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو ؟ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ (رض) نے مدینے میں قریش کی ایک جماعت کے سامنے فرمایا کہ دیکھو ان تمام اہل کتاب میں اور ان کی باتیں بیان کرنے والوں میں سب سے اچھے حضرت کعب بن احبار (رض) ہے لیکن باوجود اس کے بھی ان کی باتوں میں بھی ہم کبھی کھبی جھوٹ پاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمدا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ جن کتابوں پر انہیں اعتماد ہے وہ خود گیلی سوکھی سب جمع کرلیتے ہیں ان میں خود سچ جھوت صحیح غلط بھرا پڑا ہے۔ ان میں مضبوط ذی علم حافظوں کی جماعت تھی ہی نہیں۔ یہ تو اسی امت مرحومہ پر اللہ کا فضل ہے کہ اس میں بہترین دل ودماغ والے اور اعلیٰ فہم وذکا والے اور عمدہ حفظ و اتقان والے لوگ اللہ نے پیدا کردیئے ہیں لیکن پھر بھی آپ دیکھئے کہ کس قدر موضوعات کا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے ؟ اور کس طرح لوگوں نے باتیں گھڑلی ہیں۔ محدثین نے اس باطل کو حق سے بالکل جدا کردیا فالحمدللہ۔