آل عمران آية ۱۱۰
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِۗ وَلَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْۗ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
طاہر القادری:
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں،
English Sahih:
You are the best nation produced [as an example] for mankind. You enjoin what is right and forbid what is wrong and believe in Allah. If only the People of the Scripture had believed, it would have been better for them. Among them are believers, but most of them are defiantly disobedient.
1 Abul A'ala Maududi
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تم بہتر ہو ان امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر کتابی ایمان لاتے تو ان کا بھلا تھا، ان میں کچھ مسلمان ہیں اور زیادہ کافر،
3 Ahmed Ali
تم سب امتوں میں سے بہتر ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہیں اچھے کاموں کا حکم کرتے رہو اور برے کاموں سے روکتے رہو اور الله پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا کچھ ان میں سے ایماندار ہیں اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں
4 Ahsanul Bayan
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو (١) اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (٢) لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔
١١٠۔١ اس آیت میں امت مسلمہ کو ' خیر امت ' قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کر دی گئی ہے جو امر بالمعروف نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو خیر امت ہے بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پا سکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اسی نکتے کی وضاحت مقصود و معلوم ہوتی ہے کہ جو امر بالمعروف و نہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے اور یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے۔ امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ اکثر علماء کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے۔ یعنی علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فرض کو ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف اور منکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں ان کے فریضہ تبلیغ و دعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد کی طرف سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے اس فرض کی ادائیگی ہو جائے گی۔
١١٠۔٢ جیسے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ اس لئے مِنْہمْ میں مِنْ، تَبْعِیْضُ کے لئے ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہت اچھا ہوتا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (لیکن تھوڑے) اور اکثر نافرمان ہیں
6 Muhammad Junagarhi
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہل کتاب بھی ایمان ﻻتے تو ان کے لئے بہتر تھا، ان میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی راہنمائی) کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو ایمان لائے ہیں مگر بہت سے فاسق و نافرمان ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا لیکن ان میں صرف چند مومنین ہیں اور اکثریت فاسق ہے
9 Tafsir Jalalayn
(مومنو ! ) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہت اچھا ہوتا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (لیکن تھوڑے) اور اکثر نافرمان ہیں
آیت نمبر ١١٠ تا ١٢٠
ترجمہ : اے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم اللہ کے علم میں بہترین جماعت ہو جن کو لوگوں کے لیے نکالا گیا تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی اللہ پر ایمان لے آتے تو ایمان لانا ان کے حق میں خوب ہوتا ان میں سے کچھ تو مومن ہیں جیسا کہ عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی۔ مگر اکثر ان میں سے نافرمان (یعنی کافر) ہیں۔ اے مسلمانو ! یہ یہود زبانی گالی گلوچ اور دھمکی کی خفیف سی اذیت کے سوا تم کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور اگر وہ تم سے مقابلہ کریں گے تو تمہیں پیٹھ دکھا کر شکست خوردہ ہو کر بھاگ جائیں گے پھر ان کو تمہارے خلاف مدد بھی نہ پہنچ سکے گی بلکہ تم کو ان کے خلاف مدد پہنچے گی، ان پر ذلت مسلط کردی گئی ہے خواہ وہ کہیں بھی پائے جائیں۔ ان کو عزت و استحکام حاصل نہ ہوگا۔ سوا اس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی عہد ہو یا لوگوں مسلمانوں کی طرف سے کوئی عہد ہو اور وہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں امن کا معاہدہ ہے۔ یعنی مذکورہ صورت کے علاوہ ان کو تحفظ حاصل نہ ہوگا۔ اور وہ اللہ کے غضب کو لے کر لوٹے اور ان پر خواری ڈال دی گئی۔ یہ (سب) اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کے منکر ہوجایا کرتے تھے اور نبیوں کو بلاوجہ قتل کر ڈالتے تھے۔ اور یہ (سب) اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرتے تھے سب اہل کتاب یکساں نہیں، ان ہی اہل کتاب میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہے جو راہ راست پر قائم ہے اور حق پر ثابت قدم ہے جیسا کہ عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی۔ یہ لوگ اللہ کی آیتوں کو شب کے اوقات میں بحالت نماز پڑھتے ہیں، یہ اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں۔ اور اچھی باتوں کی طرف دوڑتے ہیں۔ یہ (یعنی) مذکورہ اوصاف کے حاملین ہی نیک لوگوں میں سے ہیں اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ان صفات کے حامل نہیں ہیں اور نہ نیک لوگوں میں سے ہیں۔ اور جو کچھ بھی تم زیادہ یعنی امت قائمہ نیکی کرو گے اس کی ہرگز ناقدری نہ کی جائے گی دونوں صورتوں میں بایں طور کر اس کے ثواب سے محروم کر دئیے جائیں بلکہ ان کو اس کا صلہ دیا جائے گا اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔ بیشک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہرگز ان سے اللہ کے عذاب کو ذرا بھی ان کے مال اور ان کی اولاد دفع نہ کرسکیں گے اور ان دونوں کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا کہ انسان کبھی اپنی ذات کا دفاع مال دے کر کرتا ہے اور کبھی اولاد سے مدد طلب کرکے (کرتا ہے) ۔ یہی لوگ تو دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ اور یہ کفار اس دنیوی زندگی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں صدقہ وغیرہ کے طور پر جو خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی ہے جس میں شدید سردی یا شدید گرمی ہو کسی قوم کی فصل کو لگ جائے جنہوں نے کفر و معصیت کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم کیا ہو پھر وہ ہوا اس کھیتی کو برباد کر دے کہ جس سے وہ مستفید نہ ہوسکیں اسی طرح ان کے صدقات ہیں کہ ان کو ان صدقات سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کے صدقات کو ضائع کرکے اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے کفر کے ذریعہ جو کہ نفقات کی بربادی کا سبب ہے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔ اے ایمان والو ! تم اپنوں کے علاوہ یہود و منافقین میں سے کسی کو گہرا دوست نہ بناؤ کہ وہ تمہارے رازوں سے واقف ہوجائیں وہ لوگ تمہارے ساتھ فساد میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، خَبَالاً ، حذف جار کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی تمہارے ساتھ فساد میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کریں گے۔ اور تم کو تکلیف پہنچنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ یعنی تمہارے دکھ کی اور وہ شدید نقصان ہے۔ اور تمہاری دشمنی تو ان کی زبان سے تمہاری غیبت کرکے اور مشرکوں کو تمہارے راز کی اطلاع کرکے ظاہر ہوچکی ہے اور جو عداوت وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ تو اور بھی بڑی ہے ہم تو تمہارے ساتھ ان کی عداوت کی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرچکے ہیں اگر تم اس بات کو سمجھو گے تو ان کے ساتھ گہری دوستی نہ کروگے، اے مومنو ! تم ایسے ہو کہ ” ھا “ تنبیہ کے لیے ہے۔ ان کی تم سے رشتہ داری اور دوستی کی وجہ سے ان سے محبت رکھتے ہو۔ اور وہ دین میں تمہارے ساتھ مخالفت کی وجہ سے تم سے محبت نہیں رکھتے۔ اور تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور وہ تمہاری کتاب پر ایمان نہیں رکھتے، اور یہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر شدید غیظ سے انگلیاں (یعنی پوروے) کاٹ کاٹ کھاتے ہیں اس لیے کہ وہ تمہاری باہمی الفت کو دیکھتے ہیں، اور شدت غضب کو عَضً انامل سے مجازاً تعبیر کیا ہے اگرچہ اس موقع پر (حقیقت) میں انگلیاں کاٹنا نہ ہو۔ آپ کہہ دیجئے کہ تم غصہ میں مرجاؤ۔ یعنی تم تامرگ غصہ میں مبتلا رہو، اور تم ہرگز خوش کن چیز نہ دیکھو گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے اور انہی باتوں میں سے وہ باتیں بھی ہیں جن کو یہ لوگ چھپائے ہوئے ہیں، اگر تمہیں کوئی اچھی حالت پیش آجاتی ہے مثلاً نصرت اور غنیمت تو ان کو یہ بات غمزدہ کرتی ہے۔ اور اگر تم پر کوئی بری حالت پڑتی ہے مثلاً شکست اور قحط سالی تو اس سے یہ خوش ہوتے ہیں اور جملہ شرطیہ (اِنْ تَمْسَسْکُمْ الخ) ماقبل شرط (وَاِذا لَقُوْکُمْ الخ) سے متصل ہے اور ان دونوں کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ (اور وہ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ الخ) ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری دشمنی میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ تو پھر تم ان سے (گہری) دوستی کیوں کرتے ہو ؟ تم کو تو ان سے محتاط رہنا چاہیے۔ اور اگر تم ان کی ایذا رسانی پر صبر وتقویٰ اختیار کیے رہو اور ان سے دوستی وغیرہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو تو ان کی چالیں تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی (لایَضُرِّکم) ضاد کے کسرہ اور راء کے سکون اور ضاد کے ضمہ اور راء کی تشدید کے ساتھ (بھی قراءت ہے) بیشک اللہ تعالیی تمہارے اعمال کا پورا علمی احاطہ کیے ہوئے ہے (یعملون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے۔ لہٰذا وہ تم کو (اور) ان کو جزاء دے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ ۔ اُمَّۃ۔ کا لفظ چونکہ عام ہے لہٰذا صحابہ اور غیر صحابہ سب کو شامل ہے۔
قولہ : فی علم اللہ تعالیٰ ۔ سوال : فی علم اللہ، کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟
جواب : ’ کنتم ‘ ماضی کا صیغہ ایسے حدوث پر دلالت کرتا ہے جو مسبوق بالعدم اور منقطع بطریان العدم ہو اس لیے فی علم اللہ کے لفظ کا اضافہ کردیا تاکہ مذکورہ شبہ دور ہوجائے اس لیے کہ اللہ کے علم کو نہ عدم سابق صحیح ہے اور نہ عدم لاحق۔
قولہ : کائنین، یہ لفظ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ بحبل من اللہ حال ہے۔
قولہ : لَاعَصْمَۃ لَھُمْ غیر ذٰلک۔ اس میں مستثنیٰ منہ محذوف کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : باء و، بَوْءٌ، سے ماضی جمع مذکر غائب، وہ لوٹے
قولہ : یُصَلّون، حالٌ یسجدون کی تفسیر یصلون سے کرکے اشارہ کردیا کہ یسجدون بمعنی یصلون ہے اس لیے کہ سجدہ میں تلاوت نہیں ہوتی اور ھم مقدر مان کر حال ہونے کی طرف اشارہ کردیا۔ لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ اوجز اور مختصر یہ تھا کہ وَیَسْجدون کہتے۔
قولہ : بطانۃ۔ اَستر۔ بدن سے لگا ہوا کپڑا۔ یہ جگری دوست سے کنایہ ہے۔ جاء فی الحدیث۔ اَلَانصار شعار والناس دثار۔ الشعار ثوبٌ علی الجسد والدثار فوقہٗ ۔ قولہ : الوقیعہ جمع وقائع، فتنہ، غیبت۔
قولہ : ذلک اس میں اشارہ ہے کہ تفعلون کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : فلا تُوَالُوْھُمْ ، اس میں اشارہ ہے کہ شرط کی جزاء محذوف ہے۔
قولہ : وجملۃ الشرط متصلۃ بالشرط قبلُ ۔ مطلب یہ ہے کہ شرط اور جملہ شرطیہ کے درمیان فصل بالاجنبی نہیں ہے اس لیے کہ درمیان میں جملہ معترضہ ہے اور جملہ معترضہ کا درمیان میں آنا عام بات ہے۔
اللغۃ والبلاغۃ
صنعتِ طباق (مقابلہ) مذکورہ آیت میں متعدد طباق ہیں (تَامُرُوْنَ ، تَنْھَوْن) (المعروف والمنکر) (المؤمنون والفٰسقون) ۔
استعارہ تصریحیہ : لاتتخذوا بِطَانۃ مِن دُوْنِکم۔ اس میں استعارہ تصریحیہ ہے بِطَانَۃٌ کے اصل معنی استر، وہ کپڑا جو اندر کی جانب لگایا جاتا ہے۔ یہاں بطانۃ سے جگری دوست، رازدار کے معنی مراد ہیں، جگری دوست کو بطانۃ سے تشبیہ دی ہے۔
استعارہ تمثیلیہ : وَاِذَاخَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ۔ دشمن کی حالت غیظ و غضب کو نادم و متحیر کی انگشت بدنداں کیفیت سے تشبیہ دی گئی ہے۔
خَبَالاً : الخَبَال بفتح الخاء الفساد یقال خَبَلَہٗ وَخَبَّلَہٗ بالتخفیف والتشدید خبَّلہُ الشّیطان، شیطان نے اس کو باؤلا، مجنون بنادیا۔
عَنِتُّمْ : العَنَتْ بفتح العین والنون۔ شدۃ الضرر و المشقۃ۔
تفسیر و تشریح
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس (الآیۃ) اس آیت میں امت مسلمہ کو خیر امت قرار دیا گیا ہے، اور اسکی علت بھی بیان کردی گئی ہے جو ایمان باللہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، مطلب یہ کہ اگر یہ امت، دعوت کی ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو یہ خیر امت کے لقب کی مستحق ہے بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پاسکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے ابھی اسی نکتے کی وضاحت معلوم ہوتی ہے یعنی جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے گا وہ اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا، اہل کتاب کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا ” کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ “ وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے۔
امر بالمعروف فرض عین ہے یا فرض کفایہ ؟: اکثر علماء کے نزدیک فرض کفایہ ہے یعنی علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ فرض ادا کرتے رہیں کیوں کہ معروف اور منکر شرعی کا صحیح علم علماء ہی رکھتے ہیں۔ ان کے فریضہ تبلیغ و دعوت کی ادائیگی سے دیگر ادفراد امت کی طرف سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا جیسے جہاں بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے، یعنی ایک جماعت کی طرف سے اس فرض کی ادائیگی امت کی جانب سے ادائیگی ہوجائے گی۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورة بقرہ کے سترہویں رکوع میں بیان ہوچکا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین کو بتایا جا رہا ہے کہ دنیا میں امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیلی کو ان کی نااہلی کی وجہ سے معزول کردیا گیا۔ اس پر اب تم فائز کیے گئے ہو، اس لیے اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب سے بہتر جماعت بن گئے ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہوگئی ہیں جو امامت عادلہ کے لیے ضروری ہیں یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ، لہٰذا اب یہ کام تمہارے سپرد ہے اور تمہارے اوپر لازم ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان غلطیوں سے بچو جو تمہارے پیش رو کرچکے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ تمام امتوں سے بہتر اور افضل امت ہے جسے اللہ نے لوگوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کامل کرتے ہیں یعنی ایسا ایمان رکھتے ہیں جو اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنے کو مستلزم ہے اور دوسروں کو بھی کامل بناتے ہیں۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوتے ہیں، جس میں مخلوق کو اللہ کی طرف بلانا، اس مقصد کے لیے ان سے جہاد کرنا، ان کو گمراہی اور نافرمانی سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا شامل ہے۔ اس وجہ سے وہ بہترین امت ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں یعنی اس فرمان الٰہی میں: ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ”تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے۔“ اللہ کی طرف سے اس امت کو ایک حکم دیا گیا تھا۔ اور جسے حکم دیا جائے وہ بعض اوقات حکم کی تعمیل کرتا ہے اور بعض اوقات تعمیل نہیں کرتا۔ لہٰذا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس امت نے وہ کام انجام دیا ہے، جس کا اسے حکم دیا گیا تھا، اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی ہے اور تمام امتوں سے افضل قرار پانے کی مستحق ہوگئی ہے۔ ﴿وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم﴾ ” اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نرم انداز اختیار کرتے ہوئے اہل کتاب کو ایمان کی دعوت دی ہے۔ لیکن ان میں سے بہت کم افراد ایمان لائے۔ زیادہ فاسق، اللہ کے نافرمان اور اللہ کے دوستوں سے طرح طرح سے دشمنی کا اظہار کرنے والے تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( musalmano ! ) tum woh behtareen ummat ho jo logon kay faeeday kay liye wajood mein laee gaee hai . tum naiki ki talqeen kertay ho , burai say roktay ho aur Allah per emaan rakhtay ho . agar ehal-e-kitab emaan ley aatay to yeh unn kay haq mein kahen behtar hota . unn mein say kuch to momin hain , magar unn ki aksariyat nafarman hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
سب سے بہتر شخص کون ؟ اور سب سے بہتر امت کا اعزاز کس کو ملا ؟
اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ امت محمدیہ تمام امتوں پر بہتر ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابوہریرہ (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں تم اوروں کے حق میں سب سے بہتر ہو تو لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر اسلام کی طرف جھکاتے ہو، اور مفسرین بھی یہی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو اور سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچانے والے ہو، ابو لہب کی بیٹی حضرت درہ (رض) فرماتی ہیں ایک مرتبہ کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا آپ اس وقت منبر پر تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کونسا شخص بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ قاری قرآن ہو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو، سب سے زیادہ اچھائیوں کا حکم کرنے والا سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا سب سے زیادہ رشتے ناتے ملانے والا ہو۔ (مسند احمد) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ساری امت پر مشتمل ہے، بیشک یہ حدیث میں بھی ہے کہ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد اس سے ملا ہوا زمانہ پھر اس کے بعد والا، ایک اور روایت میں ہے آیت (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) 2 ۔ البقرۃ :143) ہم نے تمہیں بہتر امت بنایا ہے تاہم تم لوگوں پر گواہ بنو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تم نے اگلی امتوں کی تعداد ستر تک پہنچا دی ہے، اللہ کے نزدیک تم ان سب سے بہتر اور زیادہ بزرگ ہو، یہ مشہور حدیث ہے امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے، اس امت کی افضلیت کی ایک بڑی دلیل اس امت کے نبی کی افضلیت ہے، آپ تمام مخلوق کے سردار تمام رسولوں سے زیادہ اکرام و عزت والے ہیں، آپ کی شرع اتنی کامل اور اتنی پوری ہے کہ ایسی شریعت کسی نبی کو نہیں تو ظاہر بات ہے کہ ان فضائل کو سمیٹتے والی امت بھی سب سے اعلیٰ و افضل ہے، اس شریعت کا تھوڑا سا عمل بھی اور امتوں کے زیادہ عمل سے بہتر و افضل ہے، حضرت علی بن ابو طالب رضلی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں وہ وہ نعمتیں دیا گیا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں دیا گیا لوگوں نے پوچھا وہ کیا باتیں ہیں، آپ نے فرمایا میری مدد رعب سے کی گئی ہے میں زمین کی کنجیاں دیا گیا ہوں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، میرے لئے مٹی پاک کی گئی ہے، میری امت سب امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے (مسند احمد) اس حدیث کی اسناد حسن ہے، حضرت ابو الدرداء (رض) فرماتے ہیں میں نے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کرنے والا ہوں جو راحت پر حمدو شکر کریں گے اور مصیبت پر طلب ثواب اور صبر کریں گے حالانکہ انہیں حلم و علم نہ ہوگا آپ نے تعجب سے پوچھا کہ بغیر بردباری اور دور اندیشی اور پختہ علم کے یہ کیسے ممکن ہے ؟ رب العالمین نے فرمایا میں انہیں اپنا حلم و علم عطا فرماؤں گا، میں چاہتا ہوں یہاں پر بعض وہ حدیثیں بھی بیان کر دوں جن کا ذکر یہاں مناسب ہے سنئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے جن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے سب یک رنگ ہونگے، میں نے اپنے رب سے گزارش کی کہ اے اللہ اس تعداد میں اور اضافہ فرما اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار اور بھی، حضرت صدیق اکبر (رض) یہ حدیث بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ پھر تو اس تعداد میں گاؤں اور دیہاتوں والے بلکہ بادیہ نشین بھی آجائیں گے (مسند احمد) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے میرے رب نے ستر ہزار آدمیوں کو میری امت میں سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دی، حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ اور زیادتی طلب کرتے آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو مجھے خوشخبری ملی کے ہر شخص کے ساتھ ستر ستر ہزار کا وعدہ ہوا۔ حضرت عمر نے پھر گزارش کی کہ اللہ کے نبی اور کچھ بھی مانگتے آپ نے فرمایا مانگا تو مجھے اتنی زیادتی اور ملی اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر بتایا کہ اس طرح، راوی حدیث کہتے ہیں اس طرح جب اللہ تعالیٰ سمیٹے تو اللہ عزوجل ہی جانتا ہے کہ کس قدر مخلوق اس میں آئے گی (فسبحان اللہ وبحمدہ) (مسند احمد) حضرت ثوبان (رض) حمص میں بیمار ہوگئے عبداللہ بن قرط وہاں کے امیر تھے وہ عیادت کو نہ آسکے ایک کلاعی شخص جب آپ کی بیمار پرسی کیلئے گیا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ لکھنا جانتے ہو اس نے کہا ہاں فرمایا لکھو یہ خط ثوبان کی طرف سے امیر عبداللہ بن قرط کی طرف سے ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خادم ہیں بعد حمد و صلوٰۃ کے واضح ہو کہ اگر حضرت عیسیٰ یا حضرت موسیٰ کا کوئی خادم یہاں ہوتا اور بیمار پڑتا تو تم عیادت کیلئے جاتے پھر کہا یہ خط لے جاؤ اور امیر کو پہنچا دو جب یہ خط امیر حمص کے پاس پہنچا تو گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے یہاں تشریف لائے کچھ دیر بیٹھ کر عیادت کر کے جب جانے کا ارادہ کیا تو حضرت ثوبان نے ان کی چادر پکڑ روکا اور فرمایا ایک حدیث سنتے جائیں میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سنا ہے آپ نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے (مسند احمد) یہ حدیث بھی صحیح ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں ایک رات ہم خدمت نبوی میں دیر تک باتیں کرتے رہے پھر صبح جب حاضر خدمت ہوئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا سنو آج رات انبیاء اپنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے بعض انبیاء کے ساتھ صرف تین شخص تھے بعض کے ساتھ مختصر سا گروہ بعض کے ساتھ ایک جماعت کسی کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) آئے تو ان کے ساتھ بہت سے لوگ تھے مجھے یہ جماعت پسند آئی میں نے پوچھایہ کون ہیں تو جواب ملا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں میں نے کہا پھر میری امت کہاں ہے جواب ملا اپنی داہنی طرف دیکھو اب جو دیکھتا ہوں تو بیشمار مجمع ہے جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی ہیں اب مجھ سے پوچھا گیا کہو خوش ہو میں نے کہا میرے رب میں راضی ہوگیا، فرمایا گیا سنو ! ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم پر میرے میں باپ فدا ہوں اگر ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے ہی ہونا اگر یہ نہ ہو سکے تو ان میں سے ہو جو پہاڑیوں کو چھپائے ہوئے تھے اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ان میں سے ہونا جو آسمان کے کناروں کناروں پر تھے، حضرت عکاش بن محصن نے کھڑے ہو کر کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان ستر ہزار میں سے کرے آپ نے دعا کی تو ایک دوسرے صحابی نے بھی اٹھ کر یہی گزارش کی تو آپ نے فرمایا تم پر حضرت عکاشہ سبقت کر گئے، ہم اب آپس میں کہنے لگے کہ شاید یہ ستر ہزار لوگ ہوں گے جو اسلام پر ہی پیدا ہوئے ہوں اور پوری عمر میں کبھی اللہ کے ساتھ شرک کیا ہی نہ ہو آپ کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو دم جھاڑا نہیں کراتے آگ کے داغ نہیں لگواتے شگون نہیں لیتے اور اپنے رب پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں (مسند احمد) ایک اور سند سے اتنی زیادتی اس میں اور بھی ہے جب میں نے اپنی رضامندی ظاہر کی تو مجھ سے کہا گیا اب اپنی بائیں جانب دیکھو میں نے دیکھا تو بیشمار مجمع ہے جس نے آسمان کے کناروں کو بھی ڈھک لیا ہے ایک اور روایت میں ہے کہ موسم حج کا یہ واقعہ ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اپنی امت کی یہ کثرت بہت پسند آئی تمام پہاڑیاں اور میدان ان سے پُر تھے (مسند احمد) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عکاشہ کے بعد کھڑے ہونے والے ایک انصاری تھے (رض) (طبرانی) ایک اور روایت میں ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار یا ساٹھ لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں گے سب ایک ساتھ جنت میں جائیں گے چمکتے ہوئے چودھویں رات کے چاند جیسے ان کے چہرے ہوں گے۔ (بخاری مسلم طبرانی) حصین بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ سعید بن جیبر کے پاس تھا تو آپ نے دریافت کیا رات کو جو ستارہ ٹوٹا تھا تم میں سے کسی نے دیکھا تھا میں نے کہا ہاں حضرت میں نے دیکھا تھا یہ نہ سمجھئے گا کہ میں نماز میں تھا بلکہ مجھے بچھو نے کاٹ کھایا تھا حضرت سعید نے پوچھا پھر تم نے کیا کیا میں نے کہا دم کردیا تھا کہا کیوں میں نے کہا حضرت شعبی نے بریدہ بن حصیب کی روایت سے حدیث بیان کی ہے کہ نظربد اور زہریلے جانوروں کا دم جھاڑا کرانا ہے کہنے لگے خیر جسے جو پہنچے اس پر عمل کرے ہمیں تو حضرت ابن عباس نے سنایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ پر امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت تھی کسی کے ساتھ ایک شخص اور دو شخص اور کسی نبی کے ساتھ کوئی نہ تھا اب جو دیکھا کہ ایک بڑی پر جماعت نظر پڑی میں سمجھا یہ تو میری امت ہوگی پھر معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے مجھ سے کہا گیا آسمان کے کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو وہاں بیشمار لوگ تھے مجھ سے کہا گیا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بےحساب اور بےعذاب جنت میں جائیں گے یہ حدیث بیان فرما کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو مکان پر چلے گئے اور صحابہ آپس میں کہنے لگے شاید یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہوں گے کسی نے کہا نہیں اسلام میں پیدا ہونے والے اور اسلام پر ہی مرنے والے ہوں گے وغیرہ وغیرہ آپ تشریف لائے اور پوچھا کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم جھاڑا کریں نہ کرائیں، نہ داغ لگوائیں نہ شگون لیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ رکھیں حضرت عکاشہ (رض) نے دعا کی درخواست کی آپ نے دعا کی یا اللہ تو اسے ان میں سے ہی بنا۔ پھر دوسرے شخص نے بھی یہی کہا آپ نے فرمایا عکاشہ آگے بڑھ گئے، یہ حدیث بخاری میں ہے لیکن اس میں دم جھاڑا نہیں کرنے کا لفظ نہیں صحیح مسلم میں یہ لفظ بھی ہے۔ ایک اور مطول حدیث میں ہے کہ پہلی جماعت تو نجات پائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ان سے حساب بھی نہ لیا جائے گا پھر ان کے بعد والے سب سے زیادہ روشن ستارے جیسے چمکدار چہرے والے ہوں گے (مسلم) آپ فرماتے ہیں مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے داخل بہشت ہوں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور تین لپیں اور میرے رب عزوجل کی لپوں سے (کتاب السنن لحافظ ابی بکر بن عاصم) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ستر ہزار کی تعداد سن کر یزید بن اخنس نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تو آپ کی امت کی تعداد کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑے ہیں تو آپ نے فرمایا ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہیں اور پھر اللہ نے تین لپیں (ہتھیلیوں کا کشکول) بھر کر اور بھی عطا فرمائے ہیں، اسکی اسناد بھی حسن ہے (کتاب السنن اور ایک اور حدیث میں ہے کہ میرے رب نے جو عزت اور جلال والا ہے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار کو بلا حساب جنت میں لے جائے گا پھر ایک ایک ہزار کی شفاعت سے ستر ستر ہزار آدمی اور جائیں گے پھر میرا رب اپنے دونوں ہاتھوں سے تین لپیں (دونوں ہاتھوں کی ہھتیلیوں کو ملا کر کٹورا بنانا) بھر کر اور ڈالے گا حضرت عمر نے یہ سن کر خوش ہو کر اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ ان کی شفاعت ان کے باپ دادوں اور بیٹوں اور بیٹیوں اور خاندان و قبیلہ میں ہوگی اللہ کرے میں تو ان میں سے ہوجاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی لپوں میں بھر کر آخر میں جنت میں لے جائے گا (طبرانی) اس حدیث کی سند میں بھی کوئی علت نہیں، واللہ اعلم، کرید میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث فرمائی جس میں جنت میں یہ بھی فرمایا یہ ستر ہزار جو بلا حساب جنت میں داخل کئے جائیں گے میرا خیال ہے کہ ان کے آتے آتے تو تم اپنے لئے اور اپنے بال بچوں اور بیویوں کیلئے جنت میں جگہ مقرر کرچکے ہونگے (مسند احمد) اس کی سند میں شرط مسلم پر ہے، ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ اور زیادہ کیجئے اسے سن کر حضرت عمر نے فرمایا ابوبکر بس کرو صدیق نے جواب دیا کیوں صاحب اگر ہم سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے تو آپ کو کیا نقصان ہے حضرت عمر نے فرمایا اگر اللہ چاہے تو ایک ہی ہاتھ میں ساری مخلوق کو جنت میں ڈال دےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمر سچ کہتے ہیں (مسند عبدالرزاق) اسی حدیث کی اور سند سے بھی بیان ہے اس میں تعداد ایک لاکھ آئی ہے (اصبہانی) ایک اور روایت میں ہے کہ جب صحابہ نے ستر ہزار اور پھر ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار پھر اللہ کی لپ بھر کر جنتی بنانا سنا تو کہنے لگے پھر تو اس کی بدنصیبی میں کیا شک رہ گیا جو باوجود اس کے بھی جہنم میں جائے (ابولیلی) اوپر والی حدیث ایک اور سند سے بھی بیان ہوئی ہے اس میں تعداد تین لاکھ کی ہے پھر حضرت عمر نے فرمایا میری امت کے سارے مہاجر تو اس میں آہی جائیں گے پھر باقی تعداد اعرابیوں سے پوری ہوگی (محمد بن سہل) حضرت ابو سعید کہتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے حساب کیا گیا تو جملہ تعداد چار کروڑ نوے ہزار ہوئی، ایک اور حسن حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی کہ جان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس کے ہاتھ میں ہے تم ایک اندھیری رات کی طرح بیشمار ایک ساتھ جنت کی طرف بڑھو گے، زمین تم سے پر ہوجائے گی تمام فرشتے پکار اٹھیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو جماعت آئی وہ تمام نبیوں کی جماعت سے بہت زیادہ ہے، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا صرف میری تابعدار امت اہل جنت کی چوتھائی ہوگی صحابہ نے خوش ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ تم اہل جنت کا تیسرا حصہ ہوجاؤ ہم نے پھر تکبیر کہی پھر فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم آدھوں آدھ ہوجاؤ (مسند احمد) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تم تمام جنتوں کے چوتھائی ہو ہم نے خوش ہو کر اللہ کی بڑائی بیان کی پھر فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تمام اہل جنت کی تہائی ہو ہم نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے تو امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھوں آدھ ہو گے (بخاری مسلم) طبرانی میں یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا کہتے ہو تم جنتیوں کا چوتھائی حصہ بننا چاہتے ہو کہ چوتھائی جنت تمہارے پاس ہو اور تین اور چوتھائیوں میں تمام امتیں ہوں ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا اچھا تہائی حصہ ہو تو ہم نے کہا یہ بہت ہے فرمایا اگر آدھوں آدھ ہو تو، انہوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر تو بہت ہی زیادہ ہے آپ نے فرمایا سنو ! کل اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہیں جن میں سے اسی صفیں صرف اس میری امت کی ہیں، مسند احمد میں بھی ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ان میں اسی صفیں صرف اس امت کی ہیں یہ حدیث طبرانی ترمذی وغیرہ میں بھی ہے، طبرانی ایک اور روایت میں ہے کہ جب آیت (ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ 39 ۙ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ 40ۭ ) 56 ۔ الواقعہ :39 ۔ 40) اتری تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اہل جنت کی چوتھائی ہو پھر فرمایا بلکہ ثلث ہو پھر فرمایا بلکہ نصف ہو پھر فرمایا دو تہائی ہو (اے وسیع رحمتوں والے اور بےروک نعمتوں والے اللہ ہم تیرا بےانتہا شکر ادا کرتے ہیں کہ تو نے ہمیں ایسے معزز و محترم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں پیدا کیا تیرے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچی زبان سے تیرے اس بڑھے چڑھے فضل و کرم کا حال سن کر ہم گنہگاروں کے منہ میں پانی بھر آیا، اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اللہ ہماری آس نہ توڑ اور ہمیں بھی ان نیک ہستیوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما۔ باری تعالیٰ تیری رحمت کی ان گنت اور بیشمار بندوں میں سے اگر ایک قطرہ بھی ہم گنہگاروں پر برس جائے تو ہمارے گناہوں کو دھو ڈالنے اور ہمیں تیری رحمت و رضوان کے لائق بنانے کیلئے کافی ہے، اللہ اس پاک ذکر کے موقعہ پر ہم ہاتھ اٹھا کر دامن پھیلا کر آنسو بہا کر امیدوں بھرے دل سے تیری رحمت کا سہارا لے کر تیرے کرم کا دامن تھام کر تجھ سے بھیک مانگتے ہیں تو قبول فرما اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی اپنی رضامندی کا گھر جنت الفردوس عطا فرما۔ (آمین الہ الحق آمین) صحیح بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہم دنیا میں سب سے آخر آئے اور جنت میں سب سے پہلے جائیں گے اور ان کو کتاب اللہ پہلے ملی ہمیں بعد میں ملی جن باتوں میں انہوں نے اختلاف کیا ان میں اللہ نے ہمیں صحیح طریق کی توفیق دی، جمعہ کا دن بھی ایسا ہی ہے کہ یہود ہمارے پیچھے ہیں ہفتہ کے دن اور نصرانی ان کے پیچھے اتوار کے دن دار قطنی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک میں جنت میں داخل نہ ہوجاؤں انبیاء پر دخول جنت حرام ہے اور جب تک میری امت نہ داخل ہو دوسری امتوں پر دخول جنت حرام ہے۔ یہ وہ حدیثیں تھیں جنہیں ہم اس آیت کے تحت وارد کرنا چاہتے تھے فالحمد للہ۔ امت کو بھی چاہئے کہ یہاں اس آیت میں جتنی صفیں ہیں ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم ثابت رہیں یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ایمان باللہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنے حج میں اس آیت کی تلاوت فرما کر لوگوں سے کہا کہ اگر تم اس آیت کی تعریف میں داخل ہونا چاہتے ہو تو یہ اوصاف بھی اپنے میں پیدا کرو، امام ابن جرید فرماتے، اہل کتاب ان کاموں کو چھوڑ بیٹھے تھے جن کی مذمت کلام اللہ نے کی، فرمایا آیت (كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :79) وہ لوگ برائی کی باتوں سے لوگوں کو روکتے نہ تھے چونکہ مندرجہ بالا آیت میں ایمان داروں کی تعریف و توصیف بیان ہوئی تو اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت بیان ہو رہی ہے، تو فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی میرے نبی آخر الزمان پر ایمان لاتے تو انہیں بھی یہ فضیلتیں ملتیں لیکن ان میں سے کفرو فسق اور گناہوں پر جمے ہوئے ہیں ہاں کچھ لوگ باایمان بھی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بشارت دیتا ہے کہ تم نہ گھبرانا اللہ تمہیں تمہارے مخالفین پر غالب رکھے گا چناچہ خیبر والے دن اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا اور ان سے پہلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کو بھی اللہ نے ذلیل و رسوا کیا، اسی طرح شام کے نصرانی صحابہ کے وقت میں مغلوب ہوئے اور ملک شام ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا اور وہاں ایک حق والی جماعت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے تک حق پر قائم رہے گی، حضرت عیسیٰ آ کر ملت اسلام اور شریعت محمد کے مطابق حکم کریں گے صلیب توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے جزیہ قبول نہ کریں گے صرف اسلام ہی قبول فرمائیں گے پھر فرمایا کہ ان کے اوپر ذلت اور پستی ڈال دی گئی ہاں اللہ کی پناہ کے علاوہ کہیں بھی امن وامان اور عزت نہیں یعنی جزیہ دینا اور مسلم بادشاہ کی اطاعت کرنا قبول کرلیں اور لوگوں کی پناہ یعنی عقد ذمہ مقرر ہوجائے یا کوئی مسلمان امن دے دے اگرچہ کوئی عورت ہو یا کوئی غلام ہو، علماء کا ایک قول یہ بھی ہے، حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ حبل سے مراد ہے جو غضب کے مستحق ہوئے اور مسکینی چپکا دی گئی، ان کے کفر اور انبیاء کے تکبر، حسد، سرکشی وغیرہ کا بدلہ ہے۔ اسی باعث ان پر ذلت پستی اور مسکینی ہمیشہ کیلئے ڈال دی گئی ان کی نافرمانیوں اور تجاوز حق کا یہ بدلہ ہے العیاذ باللہ، ابو داؤد طیالسی میں حدیث ہے کہ بنی اسرائیل ایک ایک دن میں تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور دن کے آخری حصہ میں اپنے اپنے کاموں پر بازاروں میں لگ جاتے تھے۔