اور ایسے لوگوں کی بھی پہچان کرا دے جو منافق ہیں، اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا (دشمن کے حملے کا) دفاع کرو، تو کہنے لگے: اگر ہم جانتے کہ (واقعۃً کسی ڈھب کی) لڑائی ہوگی (یا ہم اسے اللہ کی راہ میں جنگ جانتے) تو ضرور تمہاری پیروی کرتے، اس دن وہ (ظاہری) ایمان کی نسبت کھلے کفر سے زیادہ قریب تھے، وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں، اور اللہ (ان باتوں) کو خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں،
English Sahih:
And that He might make evident those who are hypocrites. For it was said to them, "Come, fight in the way of Allah or [at least] defend." They said, "If we had known [there would be] battle, we would have followed you." They were nearer to disbelief that day than to faith, saying with their mouths what was not in their hearts. And Allah is most knowing of what they conceal .
اور منافق کون، وہ منافق کہ جب اُن سے کہا گیا آؤ، اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا کم از کم (اپنے شہر کی) مدافعت ہی کرو، تو کہنے لگے اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور ساتھ چلتے یہ بات جب وہ کہہ رہے تھے اُس وقت وہ ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں، اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اس لئے کہ پہچان کرادے، ان کی جو منافق ہوئے اور ان سے کہا گیا کہ ا ٓؤ اللہ کی راہ میں لڑو یا دشمن کو ہٹاؤ بولے اگر ہم لڑائی ہوتی جانتے تو ضرو ر تمہارا ساتھ دیتے، اور اس دن ظاہری ایمان کی بہ نسبت کھلے کفر سے زیادہ قریب ہیں، اپنے منہ سے کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں اور اللہ کو معلوم ہے جو چھپارہے ہیں
3 Ahmed Ali
اور تاکہ منافقوں کو ظاہر کر دے اور انہیں کہا گیا تھا کہ آؤ الله کی راہ میں لڑو یا دشمنوں کو دفع کرو تو انہوں نے کہا اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے وہ اس وقت بہ نسبت ایمان کے کفر سے زیادہ قریب تھے وہ اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلو ں میں نہیں ہیں اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں الله اس کو خوب جانتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے (١) جن سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا کافروں کو ہٹاؤ تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہم لڑائی جانتے ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے (٢) وہ اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر کے بہت نزدیک تھے (٣) اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے جسے وہ چھپاتے ہیں۔
١٦٧۔١ یعنی احد میں جو تمہیں نقصان پہنچا، وہ اللہ کے حکم سے ہی پہنچا (تاکہ آئندہ تم اطاعت رسول کا کماحقہ اہتمام کرو) علاوہ ازیں اس کا ایک مقصد مومنین اور منافقین کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرنا بھی تھا۔ ١٦٧۔٢ لڑائی جاننے کا مطلب یہ ہے کہ واقع آپ لوگ لڑائی لڑنے چل رہے ہوتے تو ہم بھی ساتھ دیتے مگر آپ تو لڑائی کی بجائے اپنے آپ کو تباہی کے دہانے میں جھونکنے جا رہے ہو۔ ایسے غلط کام میں ہم کیوں آپ کا ساتھ دیں۔ یہ عبد اللہ بن ابی اور ان کے ساتھیوں نے اس لئے کہا کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تھی اور اس وقت کہا جب وہ مقام شوط پر پہنچ کر واپس ہو رہے تھے اور عبد اللہ بن حرام انصاری رضی اللہ انہیں سمجھا بجھا کر شریک جنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ (قدرے تفصیل گزرچکی ہے) ١٦٧۔٣ اپنے نفاق اور ان باتوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں۔ ١٦٧۔٤ یعنی زبان سے تو ظاہر کیا جو مذکور ہوا لیکن دل میں تھا کہ ہماری علٰیحدگی سے ایک تو مسلمانوں کے اندر بھی ضعف پیدا ہوگا۔ دوسرے کافروں کو فائدہ ہوگا۔ مقصد اسلام، مسلمانوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانا تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے اور (جب) ان سے کہا گیا کہ آؤ خدا کے رستے میں جنگ کرو یا (کافروں کے) حملوں کو روکو۔ تو کہنے لگے کہ اگر ہم کو لڑائی کی خبر ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ رہتے یہ اس دن ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہیں۔ اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں خدا ان سے خوب واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور منافقوں کو بھی معلوم کر لے جن سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راه میں جہاد کرو، یا کافروں کو ہٹاو، ٴ تو وه کہنے لگے کہ اگر ہم لڑائی جانتے ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے، وه اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر سے بہت قریب تھے، اپنے منھ سے وه باتیں بناتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں، اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جسے وه چھپاتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور منافق کون؟ جن سے جب کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ یا (کم از کم) دفاع ہی کرو۔ تو انہوں نے کہا۔ کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ جنگ ہوگی تو تمہارے پیچھے آتے جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے اس وقت وہ بہ نسبت ایمان کے کفر کے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں۔ اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور منافقین کو بھی دیکھنا چاہتا تھا .ان منافقین سے کہا گیا کہ آؤ راسِ خدا میں جہاد کرو یا اپنے نفس سے دفاع کرو تو انہوں نے کہا کہ ہم کو معلوم ہوتا کہ واقعی جنگ ہوگی تو تمہارے ساتھ ضرور آتے.. یہ ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تر ہیں اور زبان سے وہ کہتے ہیں جو دل میں نہیں ہوتا اور اللہ ان کے پوشیدہ امور سے باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ خدا کے راستے میں جنگ کرو یا (کافروں کے) حملوں کو روکو تو کہنے لگے کہ اگر ہم کو لڑائی کی خبر ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ رہتے یہ اس دن ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہیں اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا (الآیۃ) اور اس شکست کا دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ مومنین اور منافقین کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دے۔ عبد اللہ بن ابی جب تین سو منافقوں کو اپنے ساتھ لے کر راستہ سے واپس ہونے لگا تو بعض مسلمانوں نے جاکر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور ساتھ چلنے کے لیے راضی کرنا چاہا، مگر اس نے جواب دیا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ کوئی جنگ نہیں ہے بلکہ ہلاکت اور خودکشی ہے اگر کوئی ڈھنگ کی لڑائی ہوتی تو ہم ضرور ساتھ چلتے ایسے غلط کام میں ہم آپ کا کیوں ساتھ دیں ؟ عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے یہ بات اس لیے کہی تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے کی ان کی بات نہیں مانی گئی تھی عبد اللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں نے یہ بات اس وقت کہی جب مقام شوط پر پہنچ کر واپس ہو رہے تھے۔ اور عبد اللہ بن حرام انصاری انہیں سمجھا کر واپس لانے کی کوشش کر رہے تھے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ”اور ان سے کہا گیا کہ آؤ! اللہ کی راہ میں لڑو“ یعنی تم دین کی مدافعت اور حمایت اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اللہ کے راستے میں جنگ کرو﴿ أَوِ ادْفَعُوا﴾ ” یا دشمن کو دفع کرو“ یعنی اگر تمہاری نیت صالح نہیں ہے تو پھر تم اپنے حرم اور شہر کے دفاع کی خاطر لڑو۔ مگر انہوں نے انکار کردیا اور عذر یہ پیش کیا ﴿قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ﴾ یعنی اگر ہم یہ جانتے ہوتے کہ تمہارے درمیان اور ان کے درمیان جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے، حالانکہ وہ اس میں جھوٹے تھے۔ وہ جانتے تھے اور انہیں یقین تھا بلکہ ہر شخص جانتا تھا کہ مشرکین کو اہل ایمان نے شکست دی ہے اس لیے مشرکین کے دل اہل ایمان کے بارے میں غیظ و غضب سے لبریز ہیں۔ ان سے انتقام لینے کے لیے مشرکین نے مال خرچ کیا۔ اہل ایمان کے خلاف لوگوں اور سامان حرب کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کردی ہے اور وہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ اہل ایمان پر ان کے شہر میں حملہ آور ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں ان میں سخت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ جب حملہ آوروں کی یہ حالت اور کیفیت ہو تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ خاص طور پر جبکہ مسلمان کفار کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ سے باہر نکل آئے تھے؟۔۔۔ یہ محال ہے۔ مگر منافقین کا خیال تھا کہ ان کا یہ عذر مسلمانوں کو مطمئن کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ ﴾ ” وہ اس دن کفر کے“ یعنی اس حال میں جس میں انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکلنے سے انکار کیا ﴿أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ﴾ ” زیادہ قریب ہیں، بہ نسبت ایمان کے، اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں“ یہ منافقین کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے کلام اور افعال سے وہ کچھ ظاہر کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں چھپے ہوئے خیالات اور ارادوں کی ضد ہوتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ﴿لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ﴾بھی اسی زمرے میں آتا ہے کیونکہ انہیں علم تھا کہ جنگ ضرور ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں اس فقہی قاعدہ پر دلیل ملتی ہے ” کہ بوقت ضرورت بڑی برائی کو روکنے کے لیے چھوٹے برائی کو اختیار کرنا جائز ہے۔ اسی طرح دو مصلحتوں میں سے اگر بڑی مصلحت پر عمل کرنے سے عاجز ہو تو اسے چھوڑ کر کم تر مصلحت پر عمل کرنا جائز ہے۔“ اس لیے کہ منافقین کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ دین کے لیے جنگ کریں۔ اگر وہ دین کے لیے جنگ نہیں کرتے تو اپنے اہل و عیال اور وطن کے دفاع کے لیے ہی جنگ کریں ﴿وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ﴾” اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں“ پس وہ اسے اپنے مومن بندوں کے سامنے ظاہر کرے گا۔ اس پر ان منافقین کو سزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur munafqeen ko bhi dekh ley . aur unn ( munafiqon ) say kaha gaya tha kay aao Allah kay raastay mein jang kero ya difaa kero to unhon ney kaha tha kay : agar hum dekhtay kay ( jang ki tarah ) jang hogi to hum zaroor aap kay peechay chaltay . uss din ( jab woh yeh baat keh rahey thay ) woh emaan ki ba nisbat kufr say ziyada qareeb thay . woh apney mun say woh baat kehtay hain jo unn kay dilon mein nahi hoti . aur jo kuch yeh chupatay hain Allah ussay khoob janta hai .