آل عمران آية ۱۹۰
اِنَّ فِىْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِى الْاَلْبَابِۙ
طاہر القادری:
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں،
English Sahih:
Indeed, in the creation of the heavens and the earth and the alternation of the night and the day are signs for those of understanding –
1 Abul A'ala Maududi
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لئے
3 Ahmed Ali
بے شک آسمان اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آنے جانے میں البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں
4 Ahsanul Bayan
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں (١)۔
١٩٠۔١ یعنی جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام، جس میں ذرہ برابر خلل واقع نہیں ہوتا، یقینا اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ آگے انہی اہل دانش کی صفات کا تذکرہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّ فِیْ خَلَقِ السَّماوَاتِ سے لے کر آخر سورت تک آیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تو پڑھتے اور اس کے بعد وضو کرتے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ صحیح مسلم۔ کتاب صلوٰۃ
المسا فرین)۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کی ادل بدل میں صاحبانِ عقل کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بے شک زمین و آسمان کی خلقت لیل و نہار کی آمدو رفت میں صاحبانِ عقل کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
آیت نمبر ١٩٠ تا ٢٠٠
ترجمہ : آسمانوں اور زمین اور ان میں جو عجائبات ہیں ان کی تخلیق میں اور آمدورفت اور زیادتی و کمی شب و روز کے بدلنے میں یقیناً عقل مندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جو لوگ (الذین) اپنے ما قبل کی صفت یا بدل ہے اللہ تعالیٰ کو کھڑے کھڑے بیٹھے بیٹھے لیٹے لیٹے یعنی ہرحال میں یاد کرتے ہیں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حسب طاقت مذکورہ ہئیتوں میں نماز پڑھتے ہیں۔ اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ زمین اور آسمان کے بنانے والے کی قدرت پر استدلال کریں۔ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! یہ مخلوق جس کو ہم دیکھ رہے ہیں تو نے بےفائدہ پیدا نہیں کی بلکہ تیرے کمال قدرت پر دلیل بنایا۔ تمام لایعنی کاموں سے تو پاک ہے سو ہم کو دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔ اے ہمارے پروردگار ! جس کو تو نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا تو تو نے اس کو رسوا اور کافروں کے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا کہ ان کو اللہ کے عذاب سے بچا سکے، اس میں کافروں کے ساتھ رسوائی کی تخصیص کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو لایا گیا ہے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا کہ بآواز بلند لوگوں کو ایمان کی طرف پکار رہا ہے۔ اور وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن ہے کہ اے لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ پس ہم اس پر ایمان لائے اے الہیٰ اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی فرما لہٰذا ان پر سزا دے کہ ان کو ظاہر نہ فرما اور ہماری وفات (یعنی حشر) انبیاء و صالحین کے زمرہ میں فرما، اے ہمارے رب ! اپنی رحمت اور اپنے فضل سے (مذکورہ چیزوں کا ہم کو مستحق فرما) اور اپنے رسول کی زبانی تو نے جس کا ہم سے وعدہ فرمایا ہے عطا فرما۔ ان کا مذکورہ چیزوں کا سوال کرنا باوجودیکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ میں تخلف نہیں ہوتا بایں معنیٰ ہے کہ ہم کو اپنے وعدے کے مستحق میں شامل فرما اس لیے کہ ان کو ان وعدوں کا مستحق ہونے کا یقین نہیں تھا۔ اور رَبَّنَا، کی تکرار عاجزی میں مبالغہ کرنے کے لیے ہے اور ہم کو قیامت کے دن رسوا نہ کرنا بیشک تو بعث و جزاء کے وعدہ کا خلاف نہیں کرتا۔ سو ان کی دعاء کو ان کے پروردگار نے قبول کرلیا اس لیے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے جز ہو یعنی مذکر مونث سے ہے اور اس کا عکس یہ جملہ (معترضہ) ماقبل کے لیے موکدہ ہے۔ یعنی وہ اعمال کی جزاء اور عدم اضافت میں برابر ہیں۔ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت امّ علمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے نہیں سنا کہ اللہ نے ہجرت کے معاملہ میں عورتوں کا بھی کچھ ذکر کیا ہو۔ اس لیے وہ لوگ جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی۔ اور جن کو ان کے گھروں سے نکالا گیا اور میرے دین کے راستہ میں ایذا دیئے گئے اور جنہوں نے کفار سے جہاد کیا اور شہید کیے گئے۔ (قتلوا) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے۔ اور ایک قراءت میں قُتِلُوْا کی تقدیم کے ساتھ ہے۔ میں ضرور ان کی برائیاں دور کر دوں گا یعنی ان کو مغفرت میں چھپالوں گا۔ اور ضرور ان کو ایسی جنت میں داخل کروں گا کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (ثواباً ) یہ اللہ کی طرف سے بطور ثواب ہے، لَاُکَفِّرَنّ کے معنیٰ سے مصدر برائے تاکید ہے۔ اس میں تکلم سے غیبت کی جانب التفات ہے۔ اور بہتر ثواب اللہ ہی کے پاس ہے۔ (اور آئندہ آیت اس وقت نازل ہوئی) جب مسلمانوں نے کہا کہ ہم اللہ کے دشمنوں کو بہتر حالت (آسودگی) میں دیکھ رہے ہیں اور ہم مشقت میں ہیں۔ کافروں کا شہروں میں تجارت اور کسب معاش کے سلسلہ میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکہ میں نہ ڈال دے یہ تو چند روزہ بہار ہے جس سے دنیا میں چند روز مزے اڑائیں گے اور ختم ہوجائیگی۔ پھر تو ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانہ یعنی برابستر ہے۔ البتہ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے ایسے باغات ہیں کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کی طرف سے بطور ضیافت ہوگی اور یہ ہمیشہ رہنا ان کے لیے مقدر کردیا گیا ہے اور ’ نُزُل ‘ اس چیز کو کہتے ہیں جو مہمان کے لیے تیار کی جاتی ہے اور اس کا نصب جنۃ سے حال ہونے کی بناء پر ہے اور اس میں عامل معنیٰ ظرف ہیں (ای ثَبَتَ لھم) اور اللہ کے پاس جو ثواب ہے وہ صالحین کے لیے متاع دنیا سے بہتر ہے اور اہل کتاب میں یقیناً کچھ ایسے بھی ہیں کو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی یا نجاشی، اور اس پر بھی جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے یعنی قرآن اور جو ان کی طرف اتارا گیا ہے۔ یعنی تورات اور انجیل (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں۔ اور اللہ کی آیتوں کا جو تورات و انجیل میں ان کے پاس ہیں۔ اور وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات ہیں قلیل قیمت میں سودا نہیں کرتے کہ زوال ریاست کے خوف سے ان کو چھپا دیں۔ جیسا کہ ان کے علاوہ دیگر یہود کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے ان کو دوگنا اجر دیا جائے گا جیسا کہ سورة قصص میں ہے یقیناً اللہ جلد حساب لینے والا ہے مخلوق کا حساب دنیوی ایام کے حساب کے اعتبار سے نصف دن میں لے لیگا۔ اے ایمان والو ! طاعات پر اور معاصی سے باز رہنے پر صبر کرو اور کفار کے مقابلہ میں ثابت قدم رہو۔ کہ وہ تم سے زیادہ ثابت قدم نہ ہوں۔ اور جہاد کے لیے تیار رہو اور تمام حالات میں اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم جنت کے لینے میں کامیاب ہوجاؤ اور نار جہنم سے بجات پاؤ۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ (الآیۃ) کلام مستانف ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود اور اس کے علم اور اس کی قدرت کو بیان کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔
قولہ ؛ یقولون، سابق میں باری تعالیٰ کا کلام تھا یہاں سے ” اولوالالباب “ کا کلام شروع ہے اس لیے یہاں یقولون مقدر مانا ہے۔
قولہ : الخلق الذی نرَاہ۔ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : ہذا کا مشارٌ الیہ السموٰت والارض ہے جو کہ مونث ہے اور ھذا اسم اشارہ مذکر ہے، اسم اشارہ اور مشارٌ الیہ میں مطابقت نہیں ہے
جواب : ھذا کا مشارٌ الیہ خلق بمعنیٰ مخلوق ہے۔ لہٰذا کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : باطلاً ۔ یہ ہذا سے حال ہے نہ کہ خلقت کا مفعول ثانی اس لیے کہ خلق متعدی بیک مفعول ہے۔
قولہ : للخلود فیھا۔ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : اللہ تعالیٰ کا قول ” یَوْمَ لَایُخْزِی اللہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَہٗ “ کا مقتضیٰ ہے کہ تمام مومنین غیر محزونین ہوں۔ حالانکہ عصاۃ مومنین میں سے بعض جہنم میں داخل ہوں گے اور یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ جو بھی جہنم میں داخل ہوا رسوا ہوا اگرچہ وہ مومن ہی کیوں نہ ہو ؟ جواب : دخول سے دائمی دخول مراد ہے جو صرف کافروں کے لیے ہوگا۔ اس سے معتزلہ کا جواب بھی ہوگیا کہ ان کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب مومن نہیں ہے۔
قولہ : وضع الظاھر موضع المضمر الخ یہ ایک سال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔
سوال : اصحاب الخزی کا ذکر سابق میں مَنْ تدخل النار کے ضمن میں آچکا ہے لہٰذا اس کے لئے ضمیر لانا کافی تھا یعنی ماللظلمین کے بجائے مَالَھُمْ کافی تھا ؟ جواب : یہ ہے کہ خزیان کی تخصیص کو بیان کرنے لے لئے صراحت کے ساتھ لفظ ظالمین ذکر کیا گیا ہے۔
قولہ : الیہ۔ سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : نداء اور دعاء متعدی باللام نہیں ہوتے حالانکہ یہاں متعدی باللام ہے ؟
جواب : لام بمعنی اِلیٰ ہے۔ اسی جواب کی طرف مفسر علام نے اِلَیْہِ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔
قولہ : ثواباً ، مصدرٌمِنْ معنی لَاکفرنَّ موکدٌ لہ اس عبارت سے ایک تو یہ بتانا ہے کہ ثواباً جنت سے حال نہیں ہے اسلئے کہ یہاں حال کا ذوالحال پر حمل درست نہیں ہے۔ قولہ : لاکفرّن، سے ایک سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔
سوال : ثوابًا، لَأکفرن کا مفعول مطلق نہیں ہوسکتا دونوں کے الفاظ الگ ہیں، حالانکہ دونوں کا ایک مادہ سے ہونا ضروری ہے۔
جواب : ثواباً اور لَأکَفِّزَنَّ اگرچہ دونوں کے الفاظ متحد نہیں ہیں مگر معنیٰ کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں، اس لیے کہ لَأکَفَّرَنَّ معنی میں لَاُثِیْبَنَّھُمْ کے ہے۔ لہٰذا اب عبارت اس طرح ہوگی ” لَاُثیبَنَّھُمْ ثوابًا “ اور یہ مفعول مطلق برائے تاکید ہے۔
اللغۃ والبلاغۃ
الطباق : اَلَّذِیْنَ یذکرون اللہ قِیَامًا وقعوداً وعلی جنوبھِمْ ۔ (میں صنعت طباق ہے) ۔ الطباق الذی جمع حالات الانسان الثلاث فی الصلوٰۃ، وھی قیام والقعود والاضطجاع علی الجنب کما یقول الشافعی (رح) تعالیٰ او استلقاء لانّہ اَخفُّ کما یقول ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ ۔
المجاز المرسل : المجاز المرسل بعلاقۃ المحلیۃ فقد ذکر السموات والارض ومرادہ ما فیھا مِن اجرام عظیمۃ بدیعۃ الصنع۔
الایجاز : ایجاز فی قولہ تعالیٰ ” وَیَتَفَکّرونَ فی خلق السّمٰواتِ والارض “ حیث انطویٰ تحت ھٰذا الایجاز کلَّ ماَ تمحَّضَ عنہ العلم من روائع المکتشفات وبدائع المستنبطات وفی الحدیث ” لاعبادۃ کالتَفَکّر “۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : اِنَّ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ (الآیۃ) اس آیت کے شان نزول کے متعلق ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور محدث ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ عطا بن ابی رباح (رح) تعالیٰ حضرت عائشہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے۔ اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات میں جو سب سے زیادہ وجیب چیز آپ نے دیکھی ہو وہ مجھے بتلائیے۔ اس پر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا آپ کی کس شان کو پوچھتے ہو، ان کی ہر شان عجیب تھی، ہاں ایک عجیب واقعہ سناتی ہوں۔ وہ یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات میرے پاس تشریف لائے، اور لحاف میں میرے ساتھ داخل ہوگئے پھر فرمایا اجازت دو میں اپنے پروردگار کی عبادت کروں، بستر سے اٹھے۔ وضو فرمایا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے، اور قیام میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو سینہ مبارک پر بہہ گئے، پھر رکوع فرمایا اور اس میں بھی روئے، پھر سجدہ کیا اور سجدہ میں بھی اسی قدر روئے، پھر سر اٹھایا اور مسلسل روتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ حضرت بلال آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کی اطلاع دی۔ بلال فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور اس قدر گریہ کیوں فرماتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کیا میں شکر گذار بندہ نہ نبوں ؟ اور شکریہ میں گریہ وزاری کیوں نہ کروں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آج کی رات مجھ سے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” اِنَّ فی خلق السموٰات والارض “ (الآیۃ) ۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بڑی تباہی ہے اس شخص کے لیے جس نے ان آیتوں کو پڑھا اور ان میں غور نہیں کیا۔ (معارف)
خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ سے کیا مراد ہے ؟ خلق، مصدر ہے جس کے معنی ایجاد و اختراع کے ہیں، مطلب یہ ہوا کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں سے ہر شخص بآسانی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ خدا سے غافل نہ ہو، اور آثار کائنات کو جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ غور و فکر کے ساتھ مشاہدہ کرے۔ جب وہ نظام کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ان پر کھل جاتی ہے کہ یہ سراسر ایک حکیمانہ نظام ہے تو وہ کہہ اٹھتے ہیں ” رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطلاً “ اور وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ بات سراسر حکمت کے خلاف ہے کہ جس مخلوق میں اللہ نے اخلاقی حس پیدا کی ہو، جسے تصریف کے اختیارات دئیے ہوں، جسے عقل وتمیز عطا کی ہو، اس سے اس کی حیات دنیا کے اعمال پر باز پرس نہ ہو اور اسے نیکی پر جزاء اور بدی پر سزا نہ دی جائے۔ اس طرح نظام کائنات پر غور کرنے سے انہیں آخرت کا یقین حاصل ہوجاتا ہے، اور خدا کی سزا سے پناہ مانگنے لگتے ہیں ” سُبْحَانَکَ فَقنَا عَذَابَ النَّارِ “۔
اسی طرح یہی مشاہدہ ان کو اس بات کی مطمئن کردیتا ہے کہ پیغمبر اس کائنات اور اس کے آغاز و انجام کے متعلق جو نقطہ نظر پیش کرتا ہے اور زندگی کا جو راستہ بتاتا ہے وہ سراسر حق ہے۔ اور زبان دل سے کہنے لگتے ہیں ” رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیا ینادی للایمان اَن آمنوا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا الخ، رَبّنَا وَآتِنَا ماوَعدتنا علی رسلک ولاتخزنا یوم القیامۃ اِنّک لا تخلف المیعاد “۔
انہیں اس امر میں تو شک نہیں ہے کہ اللہ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا یا نہیں، البتہ تردد اس امر میں ہے کہ آیا یہاں وعدوں کے مصداق ہم بھی قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ اس لیے وہ اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ ان وعدوں کا مصداق ہمیں بھی بنا دے کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا میں تو ہم پیغمبروں پر ایمان لاکر کفار کی تضحیک اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنے ہی رہے، قیمت میں بھی ان کافروں کے سامنے ہماری رسوائی ہو اور وہ ہم پر بھپتی کسیں کہ ایمان لا کر بھی ان کا بھلا نہ ہوا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اس کی آیات میں غور و فکر اور اس کی مخلوق میں تدبر کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد : ﴿لَآيَاتٍ ﴾ کو مبہم رکھا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ فلاں معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں غور و فکر کرو اور یہ آیات کے عموم اور ان کی کثرت پر اشارہ ہے کیونکہ اس کائنات میں عجیب و غریب نشانیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو متحیر اور غور و فکر کرنے والوں کو عاجز کردیتی ہیں جو اہل صدق کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور عقل روشن کو تمام مطالب الٰہیہ کی طرف متوجہ کرتی ہیں یہ آیات جن تفصیلات پر مشتمل ہیں ان کو احاطہ شمار میں لانا مخلوق کے بس میں نہیں البتہ مخلوق ان میں سے بعض چیزوں کا احاطہ کرسکتی ہے مجمل طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کی عظمت، وسعت، اور اس کی حرکت و رفتار کا ایک نظم کے تحت ہونا، اس کے خالق کی عظمت پر دلالت کرتا ہے نیز اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا تسلط وغلبہ اور اس کی قدرت سب کو شامل ہے۔ اس کائنات کا محکم اور مضبوط انداز، اس میں نت نئی تخلیقات اور انوکھے افعال اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے علم کی وسعت پر دلالت کرتے ہیں نیز اس بات پر دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھا ہے۔
اس کائنات میں مخلوق کے لیے جو فوائد ہیں وہ اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع، اس کا فضل عام، اس کا احسان سب کو شامل اور اس کا شکر واجب ہے۔
یہ تمام امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قلب کے اپنے خلاق اور پیدا کرنے والے کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے پوری کوشش ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ کسی ایسی ہستی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے جو خود اپنی ذات اور زمین و آسمان میں ذرہ بھر کی بھی مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ساتھ صرف عقل مندوں کو مخصوص کیا ہے کیونکہ یہی لوگ ان آیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور عقل مند لوگ ہی اپنی آنکھوں کی بجائے اپنی عقل کے ذریعے سے غور و فکر کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان عقل مند لوگوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿يَذْكُرُونَ اللَّـهَ ﴾وہ اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak aasmano aur zameen ki takhleeq mein aur raat din kay baari baari aaney janey mein unn aqal walon kay liye bari nishaniyan hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
مظاہر کائنات دلیل رب ذوالجلال دعوت غرو فکر
طبرانی میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قریش یہودیوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس کیا کیا معجزات لے کر آئے تھے انہوں نے کہا اژدھا بن جانے والی لکڑی اور چمکیلا ہاتھ، پھر نصرانیوں کے پاس گئے ان سے کہا تمہارے پاس حضرت عیسیٰ (علیہ اسلام) کیا نشانیاں لائے تھے جواب ملا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا کردینا اور کوڑھی کو اچھا کردینا اور مردوں کو زندہ کردینا۔ اب یہ قریش آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے آپ نے دعا کی جس پر یہ آیت (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ) 2 ۔ البقرۃ :164) اتری یعنی نشان قدرت دیکھنے والوں کیلئے اسی میں بڑی نشانیاں ہیں یہ اسی میں غورو فکر کریں گے تو ان قدرتوں والے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں گے لیکن اس روایت میں ایک اشکال ہے وہ یہ کہ یہ سوال مکہ شریف میں ہوا تھا اور یہ آیت مدینہ شریف میں نازل ہوئی واللہ اعلم۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آسمان جیسی بلندر اور وسعت مخلوق اور زمین جیسی پست اور سخت اور لمبی چوڑی مخلوق پھر آسمان میں بڑی بڑی نشانیاں مثلاً چلنے پھرنے والے اور ایک جاٹھہرنے والے ستارے اور زمین کی بڑی بڑی پیدوارا مثلاً پہاڑ، جنگل، درخت، گھس، کھیتیاں، پھل اور مختلف قسم کے جاندار، کانیں، الگ الگ ذائقے والے اور طرح طرح کی خوشبوؤں والے اور مختلف خواص والے میوے وغیرہ کیا یہ سب آیات قدرت ایک سوچ سمجھ والے انسان کی رہبری اللہ عزوجل کی طرف نہیں کرسکتیں ؟ جو اور نشانیاں دیکھنے کی ضرورت باقی رہے پھر دن رات کا آنا جانا اور ان کا کم زیادہ ہونا پھر برابر ہوجانا یہ سب اس عزیز وحلیم اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ کی پوری پوری نشانیاں ہیں جو پاک نفس والے ہر چیز کی حقیقت پر نظریں ڈالنے کے عادی ہیں اور بیوقوفوں کی طرح آنکھ اندھے اور کان کے بہرے نہیں جن کی حالت اور جگہ بیان ہوئی ہے کہ وہ آسمان اور زمین کی بہت سی نشانیاں پیروں تلے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور غورو فکر نہیں کرتے، ان میں سے اکثر باوجود اللہ تعالیٰ کو ماننے کے پھر بھی شرک سے نہیں بچ سکے۔ اب ان عقلمندوں کی صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ کا نام لیا کرتے ہیں، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمران بن حصین سے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹے لیٹے ہی سہی، یعنی کسی حالت میں اللہ عزوجل کے ذکر سے غافل مت رہو دل میں اور پوشیدہ اور زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہا کرو، یہ لوگ آسمان اور زمین کی پیدائش میں نظریں دوڑاتے ہیں اور ان کی حکمتوں پر غور کرتے ہیں جو اس خالق یکتا کی عظمت وقدرت علم و حکمت اختیار رحمت پر دلالت کرتی ہیں، حضرت شیخ سلیمان درانی (رح) فرماتے ہیں گھر سے نکل کر جسچیز پر میری نظر پڑتی ہے میں دیکھتا ہوں کہ اس میں اللہ کی ایک ساعت غورو فکر کرنا رات بھر کے قیام کرنے سے افضل ہے، حضرت فضیل (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کا قول ہے کہ غورو فکر ایک نور ہے جو تیرے دل پر اپنا پر تو ڈالے گا اور بسا اوقات یہ بیت پڑھتے۔
اذا المراء کانت لہ فکرۃ ففی کل شئی لہ عبرۃ
یعنی جس انسان کو باریک بینی اور سوچ سمجھ کی عادث پڑگئی اسے ہر چیز میں ایک عبرت اور آیت نظر آتی ہے حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا بولنا ذکر اللہ اور نصیحت ہو اور اس کا جب رہنا غور و فکر ہو اور اس کا دیکھنا عبرت اور تنبیہہ ہو، لقمان حکیم کا نصیحت آموز مقولہ بھی یاد رہے کہ تنہائی کی گوشہ نشینی جس قدر زیادہ ہو اور اسی قدر غورو فکر اور دور اندیشی کی عادت زیادہ ہوتی ہے اور جس قدر یہ بڑھ جائے اسی قدر راستے انسان پر وہ کھل جاتے ہیں جو اسے جنت میں پہنچا دیں گے، حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں جس قدر مراقبہ زیادہ ہوگا اسی قدر سمجھ بوجھ تیز ہوگی اور جتنی سمجھ زیادہ ہوگی اتناعلم نصیب ہوگا اور جس قدر علم زیادہ ہوگا نیک اعمال بھی بڑھیں گے، حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے کہ اللہ عزوجل کے ذکر میں زبان کا چلانا بہت اچھا ہے اور اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر افضل عبادت ہے، حضرت مغیث اسود مجلس میں بیٹھے ہوئے فرماتے کہ لوگو قبرستان ہر روز جایا کرو تاکہ تمہیں انجام کا خیال پیدا ہو پھر اپنے دل میں اس منظر کو حاضر کرو کہ تم اللہ کے سامنے کھڑے ہو پھر ایک جماعت کو جہنم میں لے جانے کا حکم ہوتا ہے اور ایک جماعت جنت میں جاتی ہے اپنے دلوں کو اس حال میں جذب کردو اور اپنے بدن کو بھی وہیں حاضر جان لو جہنم کو اپنے سامنے دیکھو اس کے ہتھوڑوں کو اسکی آگ کے قید خانوں کو اپنے سامنے لاؤ اتنا فرماتے ہی دھاڑیں مارمار کر رونے لگتے ہیں یہاں تک کہ بیہوش ہوجاتے ہیں حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک راہب سے ایک قبرستان اور کوڑا کرکٹ پاخانہ پیشاب ڈالنے کی جگہ پر ملاقات کی اور اس سے کہا اے بندہ حق اس وقت تیرے پاس دو خزانے ہیں ایک خزانہ لوگوں کا یعنی قبرستان اور دوسرا خزانہ مال کا یعنی کوڑا کرکٹ۔ پیشاب پاخانہ ڈالنے کی جگہ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کھنڈرات پر جاتے اور کسی ٹوٹے پھوٹے دروازے پر کھڑے رہ کر نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں فرماتے اے اجڑے ہوئے گھرو تمہارے رہنے والے کہاں گئے ؟ پھر خود فرماتے سب زیر زمین چلے گئے سب فنا کا جام پی چکے صرف اللہ تعالیٰ کی جات ہی ہمیشہ کی مالک بقاء ہے، حضرت عبداللہ بن عباس کا ارشاد ہے دو رکعتیں جو دل بستگی کے ساتھ ادا کی جائیں اس تمام نماز سے افضل ہیں جس میں ساری رات گزار دی لیکن دلچسپی نہ تھی، حسن بصری فرماتے ہیں ابن آدم اپنے پیٹ کے تیسرے حصے میں کھا تیسرے حصے میں پانی پی اور تیسرا حصہ ان سانسوں کیلئے چھوڑ جس میں تو آخرت کی باتوں پر اپنے انجام پر اور اپنے اعمال پر خور و فکر کرسکے، بعض حکیموں کا قول ہے جو شخص دنیا کی چیزوں پر عبرت حاصل کئے بغیر نظر ڈالتا ہے اس غفلت کیوجہ سے اس کی دلی آنکھیں کمزور پڑجاتی ہیں، حضرت عامر بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے صحابہ سے سنا ہے کہ ایمان کی روشنی اور تو غور فکر اور مراقبہ میں ہے، مسیح ابن مریم سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا فرمان ہے کہ ابن آدم اے ضعیف انسان جہاں کہیں تو ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہ، دنیا میں عاجزی اور مسکینی کے ساتھ رہ، اپنا گھر مسجدوں کو بنا لے، اپنی آنکھوں کو رونا سکھا، اپنے جسم کو صبر کی عادت سکھا، اپنے دل کو غور و فکر کرنے والا بنا، کل کی روزی کی فکر آج نہ کر، امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک مرتبہ مجلس میں بیٹھے ہوئے رو دیئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا میں نے دنیا میں اور اس کی لذتوں میں اور اس کی خواہشوں میں غور فکر کیا اور عبرت حاصل کی جب نتیجہ پر پہنچا تو میری امنگیں ختم ہوگئیں حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کیلئے اس میں عبرت و نصیحت ہے اور وعظ و پند ہے، حسین بن عبدالرحمن نے بھی اپنے اشعار میں اس مضمون کو خوب نبھایا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی مدح و ثنا بیان کی جو مخلوقات اور کائنات سے عبرت حاصل کریں اور نصیحت لیں اور ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو قدرت کی نشانیوں پر غور نہ کریں۔ مومنوں کی مدح میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ سبحانہ کا ذکر کرتے ہیں زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے اپنی مخلوق کو عبث اور بیکار نہیں بنایا بلکہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو برائی کا بدلہ اور نیکوں کو نیکیوں کا بدلہ عطا فرمائے، پھر اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں تو اس سے منزہ ہے کہ کسی چیز کو بیکار بنائے اے خالق کائنات اے عدل و انصاف سے کائنات کو سجانے والے اے نقصان اور عیبوں سے پاک ذات ہمیں اپنی قوت و طاقت سے ان اعمال کی توفیق اور ہمارا رفیق فرما جن سے ہم تیرے عذابوں سے نجات پالیں اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہو کر جنت میں داخل ہوجائیں، یہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ جسے تو جہنم میں لے گیا اسے تو نے برباد اور ذلیل و خوار کردیا مجمع حشر کے سامنے اسے رسوا کیا، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں انہیں نہ کوئی چھڑا سکے نہ بچا سکے نہ تیرے ارادے کے درمیان آسکے، اے رب ہم نے پکارنے والے کی پکار سن لی جو ایمان اور اسلام کی طرف بلاتا ہے، مراد اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو فرماتے ہیں کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ ہم ایمان لاچکے اور تابعداری بجا لائے پس ہمارے ایمان اور فرماں برداری کی وجہ سے ہمارے گناہوں کو معاف فرما ان کی پردہ پوشی کر اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں صالح اور نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے تو نے ہم سے جو وعدے اپنے نبیوں کی زبانی کئے ہیں انہیں پورے کر اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں پر ایمان لانے کا لیا تھا لیکن پہلا معنی واضح ہے، مسند احمد کی حدیث میں ہے عسقلان دو عروس میں سے ایک ہے یہیں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ستر ہزار شہیداء ٹھائیں گے جو وفد بن کر اللہ کے پاس جائیں گے یہیں شہیدوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں ان کے کٹے ہوئے سر ہوں گے ان کی گردن کی رگوں سے خون جاری ہوگا یہ کہتے ہوں گے اے اللہ ہم سے جو وعدے اپنے رسولوں کی معرفت تو نے کئے ہیں انہیں پورے کر ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر تو وعدہ خلافی سے پاک ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے یہ بندے سچے ہیں اور انہیں نہر بیضہ میں غسل کروائیں گے جس غسل کے بعد پاک صاف گورے چٹے رنگ کے ہو کر نکلیں گے اور ساری جنت ان کے لئے مباح ہوگی جہاں چاہیں جائیں آئیں جو چاہیں کھائیں پئیں۔ یہ حدیث غریب ہے اور بعض تو کہتے ہیں موضوع ہے واللہ اعلم۔ ہمیں قیامت کے دن تمام لوگوں کے مجمع میں رسوا نہ کر تیرے وعدے سچے ہیں تو نے جو کچھ خبریں اپنے رسولوں کی زبانی پہنچائی ہیں سب اٹل ہیں قیامت کا روز ضرور آنا ہے پس تو ہمیں اس دن کی رسوائی سے نجات دے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ بندے پر رسوائی ڈانٹ ڈپٹ مار اور شرمندگی اس قدر ڈالی جائے گی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر کے اسے قائل معقول کیا جائے گا کہ وہ چاہے گا کہ کاش مجھے جہنم میں ہی ڈال دیا جاتا (ابو یعلیٰ ) اس حدیث کی سند بھی غریب ہے، احادیت سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تہجد کیلئے جب اٹھتے تب سورة آل عمران کی ان دس آخری آیتوں کی تلاوت فرماتے چناچہ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ کے گھر رات گزاری یہ ام المومنین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی صاحبہ تھیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آئے تو تھوڑی دیر تک آپ حضرت میمونہ سے باتیں کرتے رہے پھر سو گئے جب آخری تہائی رات باقی رہ گئی تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے آیت (ان فی خلق السموات) سے آخر سورت تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں پھر کھڑے ہوئے مسواک کی وضو کیا اور گیارہ رکعت نماز ادا کی حضرت بلال کی صبح کی اذان سن کر پھر دو رکعتیں صبح کی سنتیں پڑھیں پھر مسجد میں تشریف لا کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ صحیح بخاری میں یہ روایت دوسری جگہ بھی ہے کہ بسترے کے عرض میں تو میں سویا اور لمبائی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ام المومنین حضرت میمونہ لیٹیں آدھی رات کے قریب کچھ پہلے یا کچھ بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاگے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ان دس آیتوں کی تلاوت کی پھر ایک لٹکی ہوئی مشک میں سے پانی لے کر بہت اچھی طرح کامل وضو کیا میں بھی آپ کی بائیں جانب آپ کی اقتدار میں نماز کیلئے کھڑا ہوگیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر میرے کان کو پکڑ کر مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کرلیا اور دو دو رکعت کر کے چھ مرتبہ یعنی بارہ رکعت پڑھیں پھر وتر پڑھا اور لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن نے آکر نماز کی اطلاع کی آپ نے کھڑے ہو کردو ہلکی رکعتیں ادا کیں اور باہر آکر صبح کی نماز پڑھائی، ابن مردویہ کی اس حدیث میں ہے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں مجھے میرے والد حضرت عباس نے فرمایا کہ تم آج کی رات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل میں گزارو اور آپ کی رات کی نماز کی کیفیت دیکھو رات کو جب سب لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر چلے گئے میں بیٹھا رہا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانے لگے تو مجھے دیکھ کر فرمایا کون عبداللہ ؟ میں نے کہا جی ہاں فرمایا کیوں رکے ہوئے ہو میں نے کہا والد صاحب کا حکم ہے کہ رات آپ کے گھر گزاروں تو فرمایا بہت اچھا آؤ گھر جا کر فرمایا بستر بچھاؤ ٹاٹ کا تکیہ آیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر سر رکھ کر سو گئے یہاں تک کہ مجھے آپ کے خراٹوں کی آواز آنے لگی پھر آپ جاگے اور سیدھی طرح بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھ کر تین مرتبہ دعا (سبحان الملک القدوس) پڑھا پھر سورة آل عمران کے خاتمہ کی یہ آیتیں پڑھیں اور روایت میں ہے کہ آیتوں کی تلاوت کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا پڑھی (اللھم اجعل فی قلبی نورا وفی سمعی نورا وفی بصری نورا وعن یمینی نورا وعن شمالی نورا ومن بین یدی نورا ومن خلفی نورا ومن فوقی نورا ومن تحتی نورا واعظم لی نورا یوم القیامتہ) (ابن مردویہ) یہ دعا بعض صحیح طریق سے بھی مروی ہے اس آیت کی تفسیر کے شروع میں طبرانی کے حوالے سے جو حدیث گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے لیکن مشہور اس کے خلاف ہے یعنی یہ کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش ہوسکتی ہے جو ابن مردویہ میں ہے کہ حضرت عطاء۔ حضرت ابن عمر حضرت عبید بن عمیر۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس آئے آپ کے اور ان کے درمیان پردہ تھا حضرت صدیقہ نے پوچھا عبید تم کیوں نہیں آیا کرتے ؟ حضرت عبید نے جواب دیا اماں جان صرف اس لئے کہ کسی شاعر کا قول ہے زرغباتزد دحبا یعنی کم کم آؤ تاکہ محبت بڑھے، حضرت ابن عمر نے کہا اب ان باتوں کو چھوڑو ام المومنین ہم یہ پوچھنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں کہ سب سے زیادہ عجیب بات جو آپ نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیکھی ہو وہ ہمیں بتائیں۔ حضرت عائشہ رو دیں اور فرمانے لگیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام کام عجیب تر تھے، اچھا ایک واقعہ سنو ایک رات میری باری میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس آئے اور میرے ساتھ سوئے پھر مجھ سے فرمانے لگے عائشہ میں اپنے رب کی کچھ عبادت کرنا چاہتا ہوں مجھے جانے دے میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم میں آپ کا قرب چاہتی ہوں اور یہ بھی میری چاہت ہے کہ آپ اللہ عزوجل کی عبادت بھی کریں، اب آپ کھڑے ہوئے اور ایک مشک میں سے پانی لے کر آپ نے ہلکا سا وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے پھر جو رونا شروع کیا تو اتنا روئے کہ داڑھی مبارک تر ہوگئی پھر سجدے میں گئے اور اس قدر روئے کہ زمین تر ہوگئی پھر کروٹ کے بل لیٹ گئے اور روتے ہی رہے یہاں تک کہ حضرت بلال نے آ کر نماز کیلئے بلایا اور آپ کے آنسو رواں دیکھ کر دریافت کیا کہ اے اللہ کے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کیوں رو رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں، آپ نے فرمایا بلال میں کیوں نہ روؤں ؟ مجھ پر آج کی رات یہ آیت اتری ہے آیت (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ) 2 ۔ البقرۃ :164) افسوس ہے اس شخص کیلئے جو اسے پڑھے اور پھر اس میں غورو تدبر نہ کرے۔ عبد بن حمید کی تفسیر میں بھی یہ حدیث ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہم حضرت عائشہ کے پاس گئے ہم نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا تم کون لوگ ہو ؟ ہم نے اپنے نام بتائے اور آخر میں یہ بھی ہے کہ نماز کے بعد آپ اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے رخسار تلے ہاتھ رکھا اور روتے رہے یہاں تک کہ آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی اور حضرت بلال کے جواب میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ اور آیتوں کے نازل ہونے کے بارے میں عذاب النار تک آپ نے تلاوت کی، ابن مردویہ کی ایک ضعیف سند والی حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة آل عمران کے آخر کی دس آیتیں ہر رات کو پڑھتے اس روایت میں مظاہر بن اسلم ضعیف ہیں۔