پس آپ کے پاس علم آجانے کے بعد جو شخص عیسٰی (علیہ السلام) کے معاملے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں، پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑگڑا کر دعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں،
English Sahih:
Then whoever argues with you about it after [this] knowledge has come to you – say, "Come, let us call our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves, then supplicate earnestly [together] and invoke the curse of Allah upon the liars [among us]."
1 Abul A'ala Maududi
یہ علم آ جانے کے بعد اب کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو اے محمدؐ! اس سے کہو، "آؤ ہم اور تم خود بھی آ جائیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خد ا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو"
2 Ahmed Raza Khan
پھر اے محبوب! جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آ ؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں، پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں
3 Ahmed Ali
پھر جو کوئی تجھ سے اس واقعہ میں جھگڑے بعد اس کے کہ تیرے پاس صحیح علم آ چکا ہے تو کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں
4 Ahsanul Bayan
اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ (١)
٦١۔١ یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بدعا کرنا مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقین میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہٰی میں یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اس پر لعنت فرما اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ٩ ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو وہ غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر مناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما اور حضرت حسن، حسین رضی اللہ عنہم کو بھی ساتھ لیا اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل و عیال کو بلا لو اور پھر مل کر جھو ٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورے کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر جزیہ مقرر فرمایا جس کی وصولی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا ان کے ساتھ بھیجا (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں
6 Muhammad Junagarhi
اس لئے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آو ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کواور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلالیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے پیغمبر(ص)) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں
9 Tafsir Jalalayn
پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الْعِلْمِ (الآیۃ) یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے مباہلہ کے معنیٰ ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بددعاء کرنا، مطلب یہ کہ جب دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق و باطل ہونے میں اختلاف و نزاع پیدا ہوجائے اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں فریق بارگاہِ الہیٰ میں یہ دعاء کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہو اس پر لعنت فرما، اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ٩ ھ میں نصاریٰ نجران کے چودہ اکابر کا ایک وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا گفتگو الوہیت مسیح کے مسئلہ پر رہی اسلامی عقیدہ بالکل صاف اور واضح تھا، لیکن مسیحی نمائندے اپنی بات پر اڑے رہے آخر کار آپ نے وہی کیا جو ایک سچا مخلص دیندار ایسے موقع پر کرتا ہے۔ آپ نے فرمان خداوندی کے ماتحت مسیحیوں کو مباہلہ کی دعوت دی کہ زبانی گفتگو تو بہت ہوچکی اب آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں اور خاص اقرباء کو لیکر اپنے پروردگار سے یہ تضرع والحاح عرض کریں کہ جو فریق ناحق پر ہو اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو اور آپ اپنی حقیقی اور حکمی اولاد یعنی سیدہ فاطمہ سیدنا علی سیدنا حسن سیدنا حسین (رض) کو ہمراہ لے کر تشریف لے آئے لیکن تاریخ کے راوی کا بیان ہے کہ مسیحیوں کی ہمت عین وقت پر جواب دے گئی اور بجائے اس آزمائش میں پڑنے کے عافیت اسی میں سمجھی کہ جزیہ دے کہ ذمی رعایا بن کر اسلامی حکومت میں رہنا گوارا کرلیا جائے۔ سرولیم میور، مسلمان نہیں انیسویں صدی کے مسیحی تھے ان کے قلم سے ملاحظہ ہو : سارے واقعہ میں محمد کے ایمان کی پختگی بالکل نمایاں ہے نیز ان کے اس عقیدہ کی شہادت ہے کہ ان کا تعلق عالم غیب سے جڑا ہوا ہے اور اس لئے حق تمام تر ان ہی کے ساتھ ہے۔ ان کے خیال میں مسیحیوں کے پاس بجز تخمین کے اور کچھ نہ تھا (میور، لائف آف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ۔
10 Tafsir as-Saadi
آیات کا مطلب یہ ہے ﴿فَمَنْ حَاجَّكَ﴾ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو شخص عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ سے بحث کرتا ہے اور انہیں ان کے اصل مقام سے بڑھاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کا مقام عبودیت کے مقام سے بلند تر ہے۔ حالانکہ﴿مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ﴾ آپ کے پاس یقینی علم آچکا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور آپ نے ایسے شخص کے لئے دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ کی اتباع کرکے ایسے یقینی علم کو نہ ماننے والا عناد میں مبتلا ہے، لہٰذا اس سے بحث و مباحثہ کرنے میں نہ آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ اس کو۔ کیونکہ حق واضح ہوچکا ہے، لہٰذا اس کی بحث محض اللہ اور رسول کی مخالفت اور ضد کی بنا پر ہے۔ اس کا مقصد اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چلنا ہے، حق کی اتباع نہیں۔ ایسے شخص کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اس سے مباہلہ اور ملاعنہ کریں۔ یعنی دونوں فریق اللہ کے سامنے عجز ونیاز کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے فریق پر اپنی لعنت اور عذاب نازل کرے۔ اس میں فریقین خود بھی اور ان کے سب سے پیارے افراد یعنی بیویاں اور اولاد وغیرہ بھی شریک ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی دعوت دی تو انہوں نے یہ چیلنج قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر مباہلہ کیا تو انہیں فوری سزا ملے گی اور ان کے اہل و عیال ہلاک ہوجائیں گے۔ وہ اپنے دین پر قائم رہے حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ باطل ہے۔ یہ انتہائی درجے کا عناد اور فساد ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ﴾’’پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ ہی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے والا ہے“ وہ انہیں سخت ترین سزا دے گا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
11 Mufti Taqi Usmani
tumharay paas ( hazrat essa ( aleh-assalam ) kay waqaey ka ) jo sahih ilm aagaya hai uss kay baad bhi jo log iss moamlay mein tum say behas keren to unn say keh do kay : aao hum apney beton ko bulayen aur tum apney beton ko , aur hum apni aurton ko aur tum apni aurton ko , aur hum apney logon ko aur tum apney logon ko , phir hum sabb milker Allah kay samney girr-girrayen , aur jo jhootay hon unn per Allah ki lanat bhejen .