آل عمران آية ۶۴
قُلْ يٰۤـاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۤءٍۢ بَيْنَـنَا وَبَيْنَكُمْ اَ لَّا نَـعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـــًٔا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
طاہر القادری:
آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اﷲ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اﷲ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں،
English Sahih:
Say, "O People of the Scripture, come to a word that is equitable between us and you – that we will not worship except Allah and not associate anything with Him and not take one another as lords instead of Allah." But if they turn away, then say, "Bear witness that we are Muslims [submitting to Him]."
1 Abul A'ala Maududi
کہو، "اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے" اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ، اے کتابیو! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں اور ہم میں کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنالے اللہ کے سوا پھر اگر وہ نہ مانیں تو کہہ دو تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں،
3 Ahmed Ali
کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور سوائے الله کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں (١) نہ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں (٢) پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں (٣)
٦٤۔١ کسی بت نہ صلیب کو نہ آگ اور نہ کسی چیز کو بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔
٦٤۔٢ یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہ السلام کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ کھڑا کر رکھا ہے یہ غلط ہے وہ رب نہیں ہیں انسان ہیں دوسرا اس بات کی طرف اشارہ ہے تم نے اپنے احبار و رہبان کو حلال یا حرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے یہ بھی ان کو رب بنانا ہے حلال اور حرام کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے (ابن کثیر و فتح القدیر)
٦٤۔٣ صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے اس آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اسے کہا تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دوہرا اجر ملے گا ورنہ ساری رعایا کا گناہ تجھ پر ہوگا اسلام قبول کرلے سلامتی میں رہے گا کیونکہ رعایا کا عدم قبول اسلام کا سبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت مذکورہ میں تین نکات ١۔ صرف اللہ کی عبادت کرنا۔ ٢ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ ٣ اور کسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا۔ لہذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان تینوں نکات اور اس کلمہ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس و بنیاد بنانا چاہیے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وه منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواه رہو ہم تو مسلمان ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول) کہیے اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک اور یکساں ہے (اور وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب (مالک و مختار) نہ بنائے۔ اور اگر یہ لوگ اس (دعوت) سے منہ موڑیں تو (اے مسلمانو) تم کہہ دو کہ گواہ رہنا ہم مسلمان (خدا کے فرمانبردار و اطاعت گزار ہیں)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہلِ کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں اور اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ہم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گزار ہیں
9 Tafsir Jalalayn
کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی ہے) اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا کسی کو کار ساز نہ سمجھیں اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرمانبردار ہیں
آیت نمبر ٦٤ تا ٧١
ترجمہ : آؤ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب یہودیو ! اور نصرانیو ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے، (سَوَاء) مصدر بمعنی مُسْتَوٍ اَمرھا (اسم فاعل) اور وہ یہ ہے کہ ہم بجز اللہ کے کسی کی بندگی نہ کریں۔ اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب ٹھہرائے۔ جیسا کہ تم نے اَحْبَار اور رُہْبَان کو ٹھہرا رکھا ہے پھر بھی اگر وہ روگردانی کریں یعنی توحید سے اعراض کریں۔ تو تم ان سے کہدو، گواہ رہنا ہم تو فرمانبردار ہیں، مُوَحّدْ ہیں (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جب یہود نے کہا ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے اور ہم ان ہی کے دین پر ہیں اور ایسا ہی نصاریٰ نے کہا۔ اے اہل کتاب تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو اپنے اس گمان کی وجہ سے کہ وہ تمہارے دین پر تھے۔ توریت اور انجیل تو ان کے طویل زمانہ کے بعد نازل ہوئیں ہیں اور ان کے نزول کے بعد ہی یہودیت اور نصرانیت پیدا ہوئی ہے۔ تو تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ؟ یعنی تم اپنے قول کے بطلان کو کیوں نہیں سمجھتے ؟ ہاں تم لوگ وہی تو ہو ” ھَاء “ تنبیہ کے لیے ہے، اَنْتُمْ ، مبتداء ہے۔ (یا ھٰؤلاء، جملہ ندائیہ معترضہ) حَاجَجْتُمْ ، خبر، کہ اس امر میں جھگڑ چکے ہو، جس کا تمہیں کچھ تو علم تھا (اور) وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ ہے اور تم نے دعویٰ کیا کہ تم ان کے دین پر ہو۔ سو (اب) تم ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں ؟ (اور) وہ ابراہیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے اللہ ان کے حال کو جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی براءت کرتے ہوئے فرمایا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن وہ تو راہ راست والے مسلمان موحد تھے۔ تمام باطل ادیان سے اعراض کرکے دین حق کی جانب مائل ہونے والے اور مشرکوں میں سے بھی نہ تھے۔ بیشک لوگوں میں ابراہیم سے سب سے قریب یعنی ان میں کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کے زمانے میں ان کی پیروی کی تھی اور یہ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ان کے ان کے اکثر شرع احکام میں موافق ہونے کی وجہ سے۔ اور وہ لوگ ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے ایمان لائے یہ وہ لوگ ہیں جن کو حق ہے کہ کہیں ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں اور اللہ ایمان لانے والوں کا حامی ہے (یعنی) مددگار اور محافظ ہے۔ اور جب یہود نے معاذ اور حذیفہ اور عمار (رض) کو اپنے دین کی طرف دعوت دی تو (یہ آیت) وَدَّتْ طائفۃ نازل ہوئی۔ اہل کتاب کی ایک جماعت تو یہ چاہتی ہے کہ تمہیں گمراہ کرکے رہیں حالانکہ وہ بجز اپنے کسی کو گمراہ نہیں کرتے اس لیے کہ ان کے گمراہ کرنے کا گناہ انہیں پر ہے اور مومن اس معامہ میں ان کی اطاعت نہ کریں گے۔ مگر ان کو اس کا شعور نہیں۔ اے اہل کتاب تم اللہ کی آیتوں قرآن کا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات پر مشتمل ہے کیوں انکار کیے جاتے ہو ؟ حالانکہ تم گواہ ہو یعنی تم جانتے ہو کہ وہ حق ہے۔ اے اہل کتاب تم حق کی تلبیس، تحریف، تکذیب کے ذریعہ باطل کے ساتھ کیوں کرتے ہو ؟ اور حق کو چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو، کہ حق یہی ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : تَعَالَوْا اِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ ، تَعَالَوْا، امر جمع مذکر حاضر، تم آؤ، یہ مبنی ہے حذف نون پر اور واؤ فاعل ہے، تَعَالَوْا اصل میں تَعَالَیُوْا تھا، یاء کے متحرک اور ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے یاء کو الف سے بدل دیا، پھر التقاء ساکنین کی وجہ سے الف حذف ہوگیا۔ (جمل)
سوال : یہاں تَعَالَوْا کا مفعول اِلیٰ کلمۃٍ مذکور ہے اور ماقبل میں تَعَالَوْا کا مفعول مذکور نہیں ہے اس میں کیا حکمت ہے ؟
جواب : اول تَعَالَوْا سے صرف متوجہ کرنا مقصود ہے اور ثانی سے متحدہ کلمہ کی طرف بلانا مقصود ہے۔
سوال : سوآء کو مستوٍ کے معنی میں لینے سے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : سَوَآء چونکہ مصدر ہے اس کا کلمۃ پر حمل درست نہیں اس لئے سوآء بمعنی مُسْتَوٍ اسم فاعل لیا تاکہ حمل درست ہوجائے۔
سوال : امرھا محذوف ماننے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : چونکہ مُسْتَوٍ ، مذکر ہے جس کا حمل کلمۃ پر درست نہیں اس لیے کہ کلمۃ مونث ہے، اس لیے کلمہ سے پہلے امر محذوف مانا تاکہ حمل درست ہوجائے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : ھَیَ اَنْ لا الخ، کلمۃ کی تفسیر ہے۔
قولہ : طویل۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیانی مدت ایک ہزار سال اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیانی مدت دو ہزار آٹھ سو سال ہے تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی اور نصرانی کس طرح ہوسکتے ہیں۔ یہ دونوں مذاہب تو ابراہیم (علیہ السلام) کے بہت بعد کی پیداوار ہیں۔
قولہ : ھٰؤُلآءِ حَاجَجْتُمْ ۔ ھَا، حرف تنبیہ ہے، اَنْتُمْ مبتداء، یا حرف نداء محذوف ھٰؤُلَاءِ منادیٰ ، ندا منادیٰ مل کر جملہ معترضہ، حَاجَجْتُمْ ، مبتداء کی خبر۔ یہ بھی احتمال ہے کہ ھؤُلَاءِ ، اَنْتُمْ کی خبر ہو اور حَاجَجْتُمْ دوسرا جملہ پہلے جملہ کے بیان کے لیے ہو ای انتم ھؤُلَاءِ الحُمَقٰی حَاجَجْتُمْ فیما لَیْسَ لکم بہٖ علم۔
قولہ : مُوَحِّدًا۔ سوال : مُسْلِمًا، کی تفسیر مُوَحِّدًا سے کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : مسلمًا سے ظاہری اصطلاحی معنی مراد نہیں ہیں ورنہ جو اعتراض یہودیت اور نصرانیت پر ہوا تھا وہی اعتراض اسلام پر بھی ہوگا اس لیے کہ اسلام اصطلاحی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ سے وجود میں آیا ہے آپ کی بعثت حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہا السلام) کے بھی ہزاروں سال بعد ہے۔ اس لیے مسلمًا کی تفسیر مُوَحَّدا، سے کردی تاکہ مذکورہ اعتراض نہ ہو۔
قولہ : تعلمون، تشھدون کی تفسیر تعلمون سے کرکے اشارہ کردیا کہ شہادت الزام علی الغیر کو کہتے ہیں اور یہاں کوئی الزام علی الغیر نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
قُلْ یٰآ اَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ، اہل کتاب کا لفظ اگرچہ یہود و نصاریٰ دونوں کے لئے عام ہے مگر کلام کا تسلسل یہ بتارہا ہے کہ یہ گفتگو بھی نجرانی وفد سے ہوئی تھی اور بعض مفسرین نے یہود کو مخاطب قرار دیا ہے، مگر دونوں کو مخاطب قرار دینا اولیٰ ہے، اس لیے کہ جس کلمہ کی طرف دعوت دی جا رہی ہے وہ یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں تینوں کے درمیان مشترک ہے۔ یعنی ایک ایسے عقیدے پر ہم سے اتفاق کرلو جس پر ہم بھی ایمان رکھتے ہیں اور جس کے صحیح ہونے سے تم بھی انکار نہیں کرسکتے، تمہارے اپنے انبیاء سے یہی عقیدہ منقول ہے، تمہاری اپنی کتب مقدسہ میں بھی اس کی تعلیم موجود ہے۔
دعوت کا ایک اہل اصول : اس آیت سے دعوت کا ایک اہم اصول یہ معلوم ہوا کہ اگر کسی ایسی جماعت کو دعوت دی جائے جو کہ عقائد و نظریات میں اس سے مختلف ہو تو اس کو طریقہ یہ ہے کہ مخالف العقیدہ جماعت کو صرف ایسی چیز پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے جس پر دونوں کا اتفاق ہوسکتا ہے۔ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب روم کے بادشاہ پر قل کو اسلام کی دعوت تو ایسے مسئلہ کی طرف دی جس پر دونوں کا اتفاق تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر۔
فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ اس آیت میں جو یہ کہا گیا ہے کہ تم گواہ رہو، اس سے یہ تعلیم دی گئی کہ جب دلائل واضح ہونے کے بعد کوئی حق کو نہ مانے تو اتمام حجت کے لئے اپنا مسلک ظاہر کرکے بات ختم کر دینی چاہیے۔ مزید بحث و تکرار مناسب نہیں۔
یٰآھْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْ اِبْرَاھیْمَ ۔ اے اہل کتاب تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑا کرتے ہو ؟ تورات اور انجیل تو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ یعنی تمہاری یہودیت اور نصرانیت بہرحال تورات اور انجیل کے نازل ہونے کے بعد پیدا ہوئی ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) ان دونوں کے نزول سے ہزاروں سال پہلے گزرے ہیں ایک معمولی عقل کا آدمی بھی یہ بات بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) جس مذہب پر تھے وہ بہرحال موجودہ یہودیت اور نصرانیت نہیں تھا۔ ھٰآ اَنْتُمْ ھٰؤُلَآءِ ۔ یہاں پر ھَا کلمہ، تحقیر کے لیے ہے یعنی تم ایسے احمق ہو کہ جس بارے میں تمہیں علم تھا مثلاً تم کہتے ہو کہ ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر ہیں اس باے میں تمہارے پاس جیسا تیسا ہی سہی علم موجود ہے گو تم حد سے بڑھ گئے ہو اور اس کے بہت سے احکام بدل دئیے تاہم ایک تعلق ضرور ہے مگر جس کا علم تمہارے پاس ہے ہی نہیں اس میں کیوں دخل اندازی کرتے ہو اللہ کو ہر چیز کا علم ہے تمہیں نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے کہہ دیجئے کہ ﴿ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾” ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے“ یعنی ہم اس کی بنیاد پر متحد ہوجائیں، اس سے مراد وہ بات ہے جس پر تمام انبیاء و رسل کا اتفاق ہے، جس کی مخالفت سوائے گمراہ اور ضدی لوگوں کے کسی نے نہیں کی اور وہ بات فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ دونوں میں مشترک ہے۔ یہ اختلاف کے موقع پر انصاف والی بات ہے۔ پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا﴾ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک بنائیں“۔ اکیلے اللہ کی عبادت کریں۔ محبت، خوف اور امید کا تعلق صرف اسی سے رکھیں۔ اس کے ساتھ نہ کسی نبی کو شریک کریں نہ ولی کو، نہ صنم کو نہ وثن کو، نہ حیوان کو نہ جمادات کو﴿ وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ﴾’’اور نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں“ بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسولوں کی اطاعت کریں۔ ہم کسی مخلوق کی بات مان کر خالق کی نافرمانی نہ کریں۔ کیونکہ یہ کام مخلوق کو خالق کا مقام دینے کے مترادف ہے۔ جب اہل کتاب یا دوسرے غیر مسلموں کو اس بات کی دعوت دی جائے اور وہ تسلیم کرلیں تو وہ دوسرے مسلمانوں کے برابرہوجائیں گے۔ ان کے حقوق و فرائض دوسرے مسلمانوں کے برابر ہوں گے۔ اگر وہ تسلیم نہ کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ اپنی خواہش نفس کے پیروکار اور معاند ہیں تو انہیں گواہ بنا کر کہہ دو کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ اس کا فائدہ غالباً یہ ہے کہ جب تم انہیں یہ بات کہو گے اور حقیقی اہل علم تم ہی ہو، تو یہ بات ان پر مزید حجت قائم کر دے گی۔ علاوہ ازیں جب تم ایمان لا کر اسلام میں داخل ہوچکے ہو تو اللہ کو دوسروں کے غیر مسلم رہنے کی پرواہ نہیں، کیونکہ وہ پاک نہیں ہیں، بلکہ ان کی فطرت ناپاک ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴾(بنی اسرائیل:17؍107) ”کہہ دیجئے ! تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی ان کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔“ علاوہ ازیں ایمان والے عقیدے پر شبہات وارد ہونے سے مومن پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرے اور اپنے اسلام کا اعلان کرے اور اس طرح اپنے یقین کی خبر دے اور اپنے رب کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( musalmano ! yahood o nasara say ) keh do kay : aey ehal-e-kitab ! aik aesi baat ki taraf aajao jo hum tum mein mushtariq ho , ( aur woh yeh ) kay hum Allah kay siwa kissi ki ibadat naa keren , aur uss kay sath kissi ko shareek naa thehrayen , aur Allah ko chorr ker hum aik doosray ko rab naa banayen . phir bhi agar woh mun morren to keh do : gawah rehna kay hum musalman hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
یہودیوں اور نصرانیوں سے خطاب
یہودیوں نصرانیوں اور انہی جیسے لوگوں سے یہاں خطاب ہو رہا ہے، کلمہ کا اطلاق مفید جملے پر ہوتا ہے، جیسے یہاں کلمہ کہہ کر پھر سوآء الخ کے ساتھ اس کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ سواء کے معنی عدل و انصاف جیسے ہم کہیں ہم تم برابر ہیں، پھر اس کی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی بت کو نہ پوجیں صلیب، تصویر، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نہ آگ کو نہ اور کسی چیز کو بلکہ تنہا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں، یہی عبادت تمام انبیاء کرام کی تھی، جیسے فرمان ہے آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21 ۔ الانبیآء :25) یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو اور جگہ ارشاد ہے آیت (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) 16 ۔ النحل :36) یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا سب سے بچو۔ پھر فرماتا ہے کہ آپس میں بھی ہم اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب بنائیں، ابن جریج فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ایک دوسرے کی اطاعت نہ کریں۔ عکرمہ فرماتے ہیں کسی کو سوائے اللہ تعالیٰ کے سجدہ نہ کریں، پھر اگر یہ لوگ اس حق اور عدل دعوت کو بھی قبول نہ کریں تو انہیں تم اپنے مسلمان ہونے کا گواہ بنا لو، ہم نے بخاری کی شرح میں اس واقعہ کا مفصل ذکر کردیا ہے جس میں ہے کہ ابو سفیان جبکہ دربار قیصر میں بلوائے گئے اور شاہ قیصر روم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نسب کا حال پوچھا تو انہیں کافر اور دشمن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کے باوجود آپ کی خاندانی شرافت کا اقرار کرنا پڑا اور اسی طرح ہر سوال کا صاف اور سچا جواب دینا پڑا یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا اور فتح مکہ سے پہلے کا ہے اسی باعث قیصر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدعہدی کرتے ہیں ؟ ابو سفیان نے کہا نہیں کرتے لیکن اب ایک معاہدہ ہمارا ان سے ہوا ہے نہیں معلوم اس میں وہ کیا کریں ؟ یہاں صرف یہ مقصد ہے کہ ان تمام باتوں کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامہ مبارک پیش کیا جاتا ہے جس میں بسم اللہ کے بعد یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ خط محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہے جو اللہ کے رسول ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرقل کی طرف جو روم کا شاہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو اسے جو ہدایت کا تابعدار ہو اس کے بعد اسلام قبول کر سلامت رہے گا، اسلام قبول کر اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر دے گا اور اگر تو نے منہ موڑا تو تمام رئیسوں کے گناہوں کا بوجھ تجھ پر پڑے گا پھر یہی آیت لکھی تھی، امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس سورت یعنی سورة آل عمران کو شروع سے لے کر " اننی " سے کچھ اوپر تک آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، امام زہری فرماتے ہیں سب سے پہلے جزیہ انہی لوگوں نے ادا کیا ہے اور اس بات میں بھی مطلقاً اختلاف نہیں ہے کہ آیت جزیہ فتح مکہ کے بعد اتری ہے پس یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے تو پھر فتح سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خط میں ہرقل کو یہ آیت کیسے لکھی ؟ اس کے جواب کئی ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ اتری ہو اول حدیبیہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد، دوسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے شروع سورت سے لے کر اس آیت تک وفد نجران کے بارے میں اتری ہو یا یہ آیت اس سے پہلے اتر چکی ہو اس صورت میں ابن اسحاق کا یہ فرمانا کہ اسی کے اوپر کی کچھ آیتیں اسی وفد کے بارے میں اتری ہیں یہ محفوظ نہ ہو کیونکہ ابو سفیان والا واقعہ سراسر اس کے خلاف ہے، تیسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وفد نجران حدیبیہ سے پہلے آیا ہو اور انہوں نے جو کچھ دینا منظور کیا ہو یہ صرف مباہلہ سے بچنے کے لئے بطور مصالحت کے ہو نہ کہ جزیہ دیا ہو اور یہ اتفاق کی بات ہو کہ آیت جزیہ اس واقعہ کے بعد اتری جس سے اس کا اتفاقاً الحاق ہوگیا۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن حجش (رض) نے بدر سے پہلے غزوے کے مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور پانچواں حصہ باقی رکھ کر دوسرے حصے لشکر میں تقسیم کردیئے، پھر اس کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کی آیتیں بھی اسی کے مطابق اتریں اور یہی حکم ہوا۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ احتمال ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خط میں جو ہرقل کو بھیجا اس میں یہ بات اسی طرح بطور خود لکھی ہو پھر آنحضرت کے الفاظ ہی میں وحی نازل ہوئی ہو جیسے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پردے کے حکم کے بارے میں اسی طرح آیت اتری، اور بدوی قیدیوں کے بارے میں انہی کے ہم خیال فرمان باری نازل ہوا اسی طرح منافقوں کا جنازہ پڑھنے کی بابت بھی انہی کی بات قائم رکھی گئی، چناچہ مقام ابراہیم کے مصلے بنانے سے متعلق بھی اسی طرح وحی نازل ہوئی اور آیت (عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا) 66 ۔ التحریم :5) بھی انہی کے خیال سے متعلق آیت اتری، پس یہ آیت بھی اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہی اتری ہو، یہ بہت ممکن ہے۔