اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں،
English Sahih:
And [recall, O People of the Scripture], when Allah took the covenant of the prophets, [saying], "Whatever I give you of the Scripture and wisdom and then there comes to you a messenger confirming what is with you, you [must] believe in him and support him." [Allah] said, "Have you acknowledged and taken upon that My commitment?" They said, "We have acknowledged it." He said, "Then bear witness, and I am with you among the witnesses."
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، "آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی" یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، "کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟" اُنہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں
2 Ahmed Raza Khan
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا؟ سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں،
3 Ahmed Ali
اورجب الله نے نبیوں سے عہد لیا اور البتہ جو کچھ میں تمہیں کتاب ابور علم سے دوں پھر تمہارے پاس پیغنبر آئے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے البتہ اس پر ایمان لے آنا اور البتہ اس کی مدد کرنا فرمایا کیاتم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا الله نے فرمایا تو اب تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں
4 Ahsanul Bayan
جب اللہ تعالٰی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ (١) فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
٨١۔١ یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لئے تو اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے بعض مفسرین نے اس کا یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کر کے ان پر ایمان لانا ہوگا لیکن یہ واقعہ ہے پہلے معنی میں ہی یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے اس لئے الفاظ قرآن کے اعتبار سے پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے اس مفہوم کے لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہو کر آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ (مسند احمد بحوالہ ابن کثیر) بہرحال اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں۔ جب کسی پیغمبر کا سکہ اب نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اصر بمعنی عہد اور ذمہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں
6 Muhammad Junagarhi
جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وه رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان ﻻنا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواه رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (یاد کرو) جب خدا نے تمام پیغمبروں سے یہ عہد و اقرار لیا تھا کہ میں نے جو تمہیں کتاب و حکمت عطا کی ہے۔ اس کے بعد جب تمہارے پاس ایک عظیم رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیزوں (کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہو تو تم اس پر ضرور ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا ارشاد ہوا۔ کیا تم اقرار کرتے ہو؟ اور اس پر میرے عہد و پیمان کو قبول کرتے ہو اور یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد ہوا۔ تم سب گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے تمام انبیائ سے عہد لیا کہ ہم تم کو جو کتاب و حکمت دے رہے ہیں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا .اور پھر پوچھا کیا تم نے ان باتوں کا اقرار کرلیا اور ہمارے عہد کو قبول کرلیا تو سب نے کہا بیشک ہم نے اقرار کرلیا- ارشاد ہوا کہ اب تم سب گواہ بھی رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اسکی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھیرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد و پیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں آیت نمبر ٨١ تا ٩١ ترجمہ : اور اس وقت کو یاد کرو جب انبیاء سے عالم ارواح میں اللہ نے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت (کی قسم) سے دوں۔ لَمَا۔ لام کے فتحہ کے ساتھ لام ابتداء ہے اور اس معنی قسم کی تاکید کے لیے ہے جو اَخَذَ الْمیثاق سے مفہوم ہیں اور کسرہ لام کے ساتھ اَخَذَ کے متعلق ہے، اور مَا دونوں صورتوں میں موصولہ ہے، ای الذّی، اور ایک قراءت میں اٰتَیْنٰکُمْ ہے پھر تمہارے پاس اس کتاب و حکمت کی تصدیق کرنے والا آئے جو تمہارے پاس ہے اور وہ (رسول) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، تو تم ضرور اس رسول پر ایمان لانا اور اس کی نصرت کرنا۔ (لَتُؤْمِنُنّ الخ) جواب قسم ہے (یعنی) اگر تم اس کا پاؤ، اس حکم میں انبیاء کی امتیں ان کے تابع ہیں (پھر) اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو ؟ اور اس پر میرا عہد قبول کرتے ہو ؟ وہ بولے ہم اقرار کرتے ہیں فرمایا تو اپنے اوپر اور اپنے متبعین پر اس بات کے گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے اور ان کے اوپر گواہوں میں سے ہوں تو اب جو کوئی اس عہد کے بعد روگردانی کرے گا تو وہی نافرمانوں میں شمار ہوگا سو کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا (کسی اور دین) کو تلاش کر رہے ہیں (یَبْغُوْنَ ) یاء کے ساتھ، بمعنی متولّون، ای معرضون، اور تاء کے ساتھ (ای تَبَغُوْنَ ) ای تعرضون، درآنحالیکہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اس کی فرمانبردار ہے خوشی سے بغیر انکار کے اور ناخوشی سے تلوار اور اس چیز کے مشاہدہ کی وجہ سے جو فرمانبرداری کے لیے مجبور کر دے (مثلاً قوت وغیرہ) اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے (ترجعون) یاء اور تاء کے ساتھ (اَفَغَیْرَ ) میں ہمزہ استفہام انکاریہ ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہدیجئے ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہمارے اوپر اتارا گیا ہے اور جو ابراہیم (علیہ السلام) پر اور اسماعیل (علیہ السلام) پر اور اسحاق (علیہ السلام) پر اور یعقوب (علیہ السلام) پر اور اولاد (یعقوب) پر اتارا گیا ہے اور اس پر جو موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور (دیگر) نبیوں کو ان کے پروردگار کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں باہم تصدیق و تکذیب کے اعتبار سے کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم تو عبادت میں اسی کے لیے مخصوص ہیں اور (آئندہ آیت) اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو مرتد ہو کر کفار میں شامل ہوگیا اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا سو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ اور وہ شخص آخرت میں دائمی عذاب کی طرف لوٹنے کی وجہ سے زیاں کاروں میں سے ہوگا۔ اور اللہ کیسے ایسے لوگوں کو ہدایت دے گا (یعنی) نہیں دے گا جنہوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا (اور اس کے بعد کہ وہ) شہادت دے چکے کہ رسول برحق ہیں (اور بعد اس کے) کہ ان کے پاس کھلی نشانیاں آچکی تھیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر واضح نشانیاں آچکی تھیں۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس لعنت یا آگ میں جس پر لعنت دلالت کرتی ہے ہمیشہ رہیں گے نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی البتہ وہ لوگ جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرنے والے رحم کرنے والے ہیں اور یہود کے بارے میں (آئندہ آیت نازل ہوئی) بیشک جن لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا پھر کفر میں بڑھتے رہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرکے۔ تو ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی جب حالت نزع (غرغرہ) میں پہنچ گئے یا حالت کفر میں مرگئے، یہی لوگ تو گمراہ ہیں بلاشبہ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں مرگئے ان میں سے کسی سے بھی ہرگز قبول نہ کیا جائے گا زمین بھر سونا یعنی اتنی مقدار کہ جو زمین کو بھر دے، اگر وہ اسے معاوضۃ میں دینا چاہے اِنَّ ، کی خبر پر فاء داخل کی گئی، الّذین، کے شرط کے مشابہ ہونے کی وجہ سے اور اس بات پر آگاہ کرنے کے لیے کہ عدم قبول کا سبب موت علی الکفر ہے (نہ کہ محض کفر) یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہئ جن کے لیے کوئی بھی مددگار عذاب سے بچانے وال نہ ہوگا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد وَاذکراِذْ حین اَخَذَ اللہُ مِیْثَاَْ النَّبِیّٖنَ ۔ قولہ : حِیْنَ ، لفظ حِیْنَ سے اشارہ کردیا کہ اِذ ظرفیہ ہے اور اذکر فعل محذوف سے متعلق ہے۔ اس آیت کی متعدد ترکیبیں کی گئی ہیں یہ آیت بھی مشکل ترکیبی مقامات میں شمار ہوتی ہے۔ صاحب جلالین کی اختیار کردہ ترکیب : واؤ استینافیہ اِذ ظرفیہ متعلق فعل محذوف اذکر کے، لَم۔ ا، لام کے فتحہ کے ساتھ برائے ابتداء اور معنی قسم جو کہ اخذ میثاق سے مفہوم ہیں، کی تاکید کے لیے لام کو بالکسر بھی پڑھا گیا ہے اَخَذَ کے متعلق، دونوں صورتوں میں مَا، موصولہ ہے اٰتَیْتٰکُمْ اِیَّاہ، اور ایک قراءت میں۔ اٰتَیْنٰلُمْ ، لَتُؤْمِنُنَّ جواب قسم اِیَّاہٗ عائد محذوف جو کہ موصول کی طرف راجع ہے۔ مَا موصولہ ہے جائز ہے کہ متضمن بمعنی شرط ہو اور لَتُؤْمِنُنَّ قائم مقام جواب قسم اور جواب شرط ہو۔ قولہ : اَاَقْرَرْتُمْ استفہام بمعنی امر ہے، استفہام تقریری بھی ہوسکتا ہے، اَفَغَیْرَ ، میں ہمزہ انکار کا ہے، لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ اللہ کو سوال کرنے کے کیا معنی ؟ قولہ : بالتصدیق والتکذیب اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اللہ تعالیٰ کے قول، لانفرق کا مطلب ہے کہ ہم انبیاء میں فرق نہیں کرتے بلکہ سب کو مساوی سمجھتے ہیں حالانکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) فضیلت و درجات میں مختلف ہیں اور یہی بات تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَابَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ سے معلوم ہوتی ہے۔ جواب : تفریق نہ کرنا تصدیق و تکذیب کے اعتبار سے ہے نہ کہ فضیلت و درجات کے اعتبار سے، یعنی ہم یہود کی طرح بعض کی تصدیق اور بعض کی تکذیب نہیں کرتے۔ قولہ : مخلصون۔ سوال : مسلمون کی تفسیر مخلصون سے کرنے میں کیا فائدہ ہے ؟ جواب : مسلمون بمعنی مخلصون اس لیے کیا گیا ہے کہ نفس ایمان تو آمَنَّا سے مفہوم ہے۔ قولہ : وَشَھَادتِھِمْ ۔ اس میں اشارہ ہے کہ اس کا عطف بتقدیر بَعْدَ اَیْمَانِھِمْ پر ہے اور فعل معطوف تاویل میں اسم کے ہے۔ قولہ : قد۔ حذف قد میں اشارہ ہے کہ واؤ حالیہ ہے نہ کہ عاطفہ۔ اللغۃ والبلاغۃ مِیْثاق۔ اسم، عہد و پیمان اِصْر۔ بھاری بوجھ، سخت و دشوار اور محنت شاقہ، الاسباط، سِبْط، کی جمع ہے ولد الولد، ولدالبنت پر بھی تغلیبًا اطلاق ہوتا ہے، حفید یعنی ولد الابن پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، والاسباط من الیھود، القبیلۃ من العرب کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے۔ تفسیر و تشریح میثاق کہاں ہوا ؟ : میثاق کا لفظ قرآن کریم میں متعدد جگہ استعمال ہوا ہے اور اس کے معنیٰ عہد و پیمان کے ہیں۔ اب یہ میثاق کہاں ہوا ہے ؟ یا تو عالم ارواح میں یا دنیا میں بذریعہ وحی، دونوں احتمال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے تین طرح کے عہد لیے ہیں۔ پہلے میثاق کا ذکر : سورة اعراف میں ” اَلَسْتُ بِرَبَکُمْ “ کے تحت کیا گیا۔ اس عہد کا مقصد یہ تھا کہ تمام بنی نوع انسان خدا کی ہستی اور ربوبیت عامہ پر اعتقاد رکھے۔ دوسرے میثاق کا ذکر : وَاِذْا اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُوْنَہٗ الخ یہ عہد صرف اہل کتاب کے علماء سے لیا گیا تھا کہ وہ حق کو نہ چھپائیں۔ تیسرے عہد کا بیان : وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقُّ النَّبِیِیْنَ لِمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ سے کیا گیا۔ یہ میثاق کسی چیز کے بارے میں لیا گیا ؟: اس میں اقوال مختلف ہیں، حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ عہد تمام انبیاء سے صرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں لیا تھا کہ اگر وہ خود ان کا زمانہ پائیں تو ان پر ایمان لائیں اور ان کی تائید و نصرت کریں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی ہدایت کر جائیں۔ حضرت طاؤس، حسن بصری اور قتادہ (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میثاق انبیاء سے اس لیے لیا گیا تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی تائید و نصرت کریں۔ (ابن کثیر، معارف) فائدہ : یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی عہد کی بنا پر ہر نبی نے اپنی امت کو بعد میں آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت و تاکید کی ہے، لیکن قرآن میں اور حدیث میں کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسا عہد لیا گیا ہو یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو کسی بعد میں آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اس نے نبیوں سے پختہ عہد و پیمان لیا، کیونکہ انہیں کتاب دی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور حکمت دی ہے جو حق و باطل کے درمیان اور ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق کرنے والی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی رسول بھیجے جو ان کے پاس آنے والی وحی اور کتاب کو سچامانے۔ تو تمام نبیوں کو چاہیے کہ اس پر ایمان لائیں۔ اس کی تصدیق کریں اور اپنی امتوں کو بھی اس پر ایمان و تصدیق کا حکم دیں۔ چنانچہ اللہ نے تمام انبیاء علیہ السلام پر واجب کیا ہے کہ ایک دوسرے پر ایمان لائیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کریں، کیونکہ ان کے پاس جو بھی احکام آئے ہیں اللہ کی طرف سے ہیں۔ اور اللہ کی طرف سے آنے والی ہر چیز پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ وہ سب ایک اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں، لہٰذا تمام انبیائے کرام پر واجب ہے کہ جس نبی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ملے، وہ آپ پر ایمان لائے۔ آپ کی پیروی کرے اور آپ کی مدد کرے۔ کیونکہ آپ ان کے امام، پیشوا اور متبوع ہیں۔ یہ آیت کریمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مرتبے اور عظمت شان کی سب سے بڑی دلیل ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور ان کے سردار ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام سے اقرار لیا ﴿قَالُوا أَقْرَرْنَا﴾” تو سب نے کہا : ہمیں اقرار ہے“ اور اے اللہ ! ہم تیرا حکم قبول کرتے اور اسے سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ ﴿قَالَ فَاشْهَدُوا ﴾اللہ نے انہیں فرمایا : اپنی ذات کی طرف سے بھی اور اپنی امتوں کی طرف سے بھی گواہ رہو ﴿ وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ﴾ ”اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں“
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( inn ko woh waqt yaad dilao ) jab Allah ney payghumberon say ehad liya tha kay : agar mein tum ko kitab aur hikmat ata kerun , phir tumharay paas koi Rasool aaye jo uss ( kitab ) ki tasdeeq keray jo tumharay paas hai , to tum uss per zaroor emaan lao gay , aur zaroor uss ki madad kero gay . Allah ney ( unn payghumberon say ) kaha tha kay : kiya tum iss baat ka iqrar kertay ho aur meri taraf say di hoi yeh zimma daari uthatay ho-? unhon ney kaha tha : hum iqrar kertay hain . Allah ney kaha : to phir ( aik doosray kay iqrar kay ) gawah ban jao , aur mein bhi tumharay sath gawahi mein shamil hun .
12 Tafsir Ibn Kathir
انبیاء سے عہد و میثاق یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک کے تمام انبیاء کرام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ لیا کہ جب کبھی ان میں سے کسی کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کتاب و حکمت دے اور وہ بڑے مرتبے تک پہنچ جائے پھر اس کے بعد اسی کے زمانے میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آجائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی نصرت و امداد کرنا اس کا فرض ہوگا یہ نہ ہو کہ اپنے علم و نبوت کی وجہ سے اپنے بعد والے نبی کی اتباع اور امداد سے رک جائے، پھر ان سے پوچھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو ؟ اور اسی عہد و میثاق پر مجھے ضامن ٹھہراتے ہو۔ سب نے کہا ہاں ہمارا اقرار ہے تو فرمایا گواہ رہو اور میں خود بھی گواہ ہوں۔ اب اس عہد و میثاق سے جو پھرجائے وہ قطعی فاسق، بےحکم اور بدکار ہے، حضرت علی بن ابو طالب (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے عہد لیا کہ اس کی زندگی میں اگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجے تو اس پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے اور آپ کی امداد کرے اور اپنی امت کو بھی وہ یہی تلقین کرے کہ وہ بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری میں لگ جائے، طاؤس حسن بصری اور قتادہ فرماتے ہیں نبیوں سے اللہ نے عہد لیا کہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں، کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ تفسیر اوپر کی تفسیر کے خلاف ہے بلکہ یہ اس کی تائید ہے اسی لئے حضرت طاؤس (رح) سے ان کے لڑکے کی روایت مثل روایت حضرت علی اور ابن عباس کے بھی مروی ہے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ میں نے ایک دوست قریظی یہودی سے کہا تھا کہ وہ تورات کی جامع باتیں مجھے لکھ دے اگر آپ فرمائیں تو میں انہیں پیش کروں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ حضرت عبداللہ ثابت نے کہا کہ تم نہیں دیکھتے کہ آپ کے چہرہ کا کیا حال ہے ؟ تو حضرت عمر کہنے لگے میں اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد کے رسول ہونے پر خوش ہوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غصہ دور ہوا اور فرمایا قسم ہے اس اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر حضرت موسیٰ تم میں آجائیں اور تم ان کی تابعداری میں لگ جاؤ اور مجھے چھوڑ دو تو تم سب گمراہ ہوجاؤ تمام امتوں میں سے میرے حصے کی امت تم ہو اور تمام نبیوں میں سے تمہارے حصے کا نبی میں ہوں، مسند ابو یعلی میں لکھا ہے اہل کتاب سے کچھ نہ پوچھو وہ خود گمراہ ہیں تو تمہیں راہ راست کیسے دکھائیں گے بلکہ ممکن ہے تم کسی باطل کی تصدیق کرلو یا حق کی تکذیب کر بیٹھو اللہ کی قسم اگر موسیٰ بھی تم میں زندہ موجود ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے اور کچھ حلال نہ تھا، بعض احادیث میں ہے اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا، پس ثابت ہوا کہ ہمارے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اور امام اعظم ہیں جس زمانے میں بھی آپ کی نبوت ہوتی آپ واجب الاطاعت تھے اور تمام انبیاء کی تابعداری پر جو اس وقت ہوں آپ کی فرمانبرداری مقدم رہتی، یہی وجہ تھی کہ معراج والی رات بیت المقدس میں تمام انبیاء کے امام آپ ہی بنائے گئے، اسی طرح میدان محشر میں بھی اللہ تعالیٰ کی فیصلوں کو انجام تک پہنچانے میں آپ ہی شفیع ہوں گے یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کو حاصل نہیں تمام انبیاء اور کل رسول اس دن اس کام سے منہ پھیر لیں گے بالاخر آپ ہی خصوصیت کے ساتھ اس مقام میں کھڑے ہوں گے، اللہ تعالیٰ اپنے درود وسلام آپ پر ہمیشہ ہمیشہ بھیجتا رہے قیامت کے دن تک آمین۔