الروم آية ۲۸
ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْۗ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَـكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۤءَ فِىْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْهِ سَوَاۤءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْۗ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ
طاہر القادری:
اُس نے (نکتۂ توحید سمجھانے کے لئے) تمہارے لئے تمہاری ذاتی زندگیوں سے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ کیا جو (لونڈی، غلام) تمہاری مِلک میں ہیں اس مال میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے شراکت دار ہیں، کہ تم (سب) اس (ملکیت) میں برابر ہو جاؤ۔ (مزید یہ کہ کیا) تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح تمہیں اپنوں کا خوف ہوتا ہے (نہیں) اسی طرح ہم عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں (کہ اﷲ کا بھی اس کی مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے)،
English Sahih:
He presents to you an example from yourselves. Do you have among those whom your right hands possess [i.e., slaves] any partners in what We have provided for you so that you are equal therein [and] would fear them as your fear of one another [within a partnership]? Thus do We detail the verses for a people who use reason.
1 Abul A'ala Maududi
وہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے کیا تمہارے اُن غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم اُن سے اُس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟ اس طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تمہارے لیے ایک کہاوت بیان فرماتا ہے خود تمہارے اپنے حال سے کیا تمہارے لیے تمہارے ہاتھ کے غلاموں میں سے کچھ شریک ہیں اس میں جو ہم نے تمہیں روزی دی تو تم سب اس میں برابر ہو تم ان سے ڈرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو ہم ایسی مفصل نشانیاں بیان فرماتے ہیں عقل والوں کے لیے،
3 Ahmed Ali
وہ تمہارے لیے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کیا جن کے تم مالک ہو وہ اس میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے تمہارے شریک ہیں پھر اس میں تم برابر ہو تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو اس طرح ہم عقل والوں کے لیے آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی ہے، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ (١) اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔
٢٨۔١ یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے غلام اور نوکر چاکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں وہ تمہارے مال و دولت میں شریک اور تمہارے برابر ہو جائیں تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں پیغمبر ہوں اولیا وصلحا ہوں یا شجر وحجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہوسکتی، دوسری بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انہیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔
٢٨۔۲یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار یا جائیداد میں خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انہیں مال و دولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم رتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا
۔ ٢٨۔۳کیونکہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لا کر اور غور و فکر کا اہتمام کر کے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ بھلا جن (لونڈی غلاموں) کے تم مالک ہو وہ اس (مال) میں جو ہم نے تم کو عطا فرمایا ہے تمہارے شریک ہیں، اور (کیا) تم اس میں (اُن کو اپنے) برابر (مالک سمجھتے) ہو (اور کیا) تم اُن سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو، اسی طرح عقل والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وه اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطره رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا، ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کر دیتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ (اللہ) تمہارے لئے تمہاری اپنی ذات (اور تمہارے حالات) سے ایک مثل بیان کرتا ہے کہ تمہارے غلاموں میں سے کوئی تمہارا اس طرح شریک ہے ان چیزوں میں جو ہم نے تمہیں عطا کر رکھی ہیں کہ تم اور وہ برابر کے حصہ دار بن جاؤ کہ تم ان سے اس طرح ڈرنے لگو۔ جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے (برابر والے) سے ڈرتے ہو؟ ہم عقل سے کام لینے والوں کیلئے اسی طرح آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی مثال بیان کی ہے کہ جو رزق ہم نے تم کو عطا کیا ہے کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میں کوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہوجاؤ اور تمہیں ان کا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے ...._ بیشک ہم اپنی نشانیوں کو صاحب هعقل قوم کے لئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ بھلا جن (لونڈی غلاموں) کے تم مالک ہو وہ اس (مال) میں جو ہم نے تم کو عطا فرمایا ہے تمہارے شریک ہیں ؟ اور کیا تم اس میں (ان کو اپنے) برابر (مالک سمجھتے) ہو ؟ (اور کیا) تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو ؟ اسی طرح ہم عقل والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں
آیت نمبر 28 تا 40
ترجمہ : اے مشرکو ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے خود تمہاری ہی مثال بیان فرمائی اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے تم کو اموال وغیرہ دے رکھے ہیں کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے تمہارا کوئی شریک ہے ؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجہ کے ہو اور تم ان سے ایسا اندیشہ رکھتے ہو جیسا کہ خود آپس کا یعنی اپنے آزاد لوگوں کا، اور استفہام نفی کے معنی میں ہے، مطلب یہ کہ تمہارے نزدیک بھی تمہارے غلام تمہارے شریک نہیں ہیں، (الیٰ آخرہ) یعنی ان اموال میں جو ہم نے تم کو دے رکھے ہیں تمہارے غلام تمہارے جیسے آزادوں کے مانند شریک نہیں ہیں کہ برابر کا درجہ رکھتے ہوں، تو پھر تم اللہ کے بعض غلاموں کو اس کو شریک کس طرح قرار دیتے ہو ؟ ہم اسی طرح جس طرح یہ تفصیل بیان کی عقلمندوں کے لئے یعنی غور وفکر کرنے والوں کے لئے صاف صاف دلائل بیان کرتے ہیں بلکہ بات یہ ہے کہ شرک کرنے والے ظالم تو بغیر جانے بوجھے ہی اپنی خواہشات کی اتباع کررہے ہیں سو جسے اللہ گمراہ کرے اس کو کون راہ (راست) پر لائے یعنی اس کو کوئی راہ پر لانے والا نہیں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا یعنی اللہ کے عذاب سے بچانے والا نہیں ہوگا تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین (حق) کی طرف رکھیں یعنی اپنے دین کو اللہ کے لئے آپ اور آپ کی اتباع کرنے والے خالص رکھیں خداداد قابلیت کو جس پر لوگوں کو پیدا فرمایا ہے اور وہ اس کا دین ہے لازم پکڑو، اللہ تعالیٰ کے دین کو بدلنا نہیں چاہیے یعنی شرک کرکے دین فطرت کو تبدیل مت کرو یہی اللہ کی توحید کا قائل ہونا ہی دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ یعنی کفار مکہ اللہ کی توحید کو نہیں جانتے (آپ مع اپنے اصحاب کے دین کی جانب رخ رکھئے) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ان چیزوں میں جن کا حکم کیا گیا ہے، اور جن سے منع کیا گیا ہے (منیبین) اقِمْ سے اور اَقِمْ سے جو مراد ہیں یعنی اقیموا سے حال ہے اس سے ڈرتے رہو نماز کی پابندی رکھو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ، جنہوں نے اپنے دین کے لئے اپنے معبودوں کے بارے میں اختلاف کرکے ٹکڑے ٹکڑے کرلئے (من الذین) اعادۂ جار کے ساتھ المشرکین سے بدل ہے اور دین کے بارے میں گروہ در گروہ ہوگئے اور ان میں کا ہر گروہ اس (دین) پر جو اس کے پاس ہے خوش ہے مگن ہے اور ایک قراءت میں فارقوا ہے یعنی ان لوگوں نے اپنے اس دین کو ترک کردیا جس دین کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور جب لوگوں کو یعنی مکہ کے کافروں کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کی طرف نہ کہ اس کے غیر کی طرف رجوع ہو کر اپنے ربّ (حقیقی) کو پکارنے لگتے ہیں پھر جب ان کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا بارش کے ذریعہ مزا چکھا دیتا ہے تو ان میں کا ایک فریق اپنے رب کیساتھ شرک کرنے لگتا ہے چاہیے کہ وہ ہماری دی ہوئی (نعمتوں) کی ناشکری کریں اس امر سے تہدید کا ارادہ کیا گیا ہے سو چند دن اور مزے اڑالو، تمہارے مزے اڑانے کا انجام تم کو جلدی ہی معلوم ہوجائے گا اس میں غیبت سے (خطاب) کی جانب التفات ہے کیا ہم نے ان کے اوپر کوئی حجت اور کتاب نازل کی ہے کہ وہ دلالۃً ان سے شریک کرنے کے لئے کہتی ہے یعنی (وہ کتاب) (دلالت حال سے) ان کو شریک کرنے کو کہتی ہے، نہیں، اور جب ہم لوگوں یعنی مکہ کے کفار وغیرہ کو رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ اس نعمت سے خوش ہوتے ہیں اترانے لگتے ہیں، اور اگر ان کے اعمال کے بدلے ان کو کوئی مصیبت پہنچ جاتی ہے تو وہ ایک دم رحمت سے ناامید ہوجاتے ہیں اور مومن کی شان یہ ہے کہ نعمت کے وقت شکر ادا کرے اور مصیبت کے وقت اپنے رب سے امید رکھے کیا ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے امتحاناً اس کے رزق میں وسعت کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے ابتلاءً تنگی کرتا ہے ان میں (بھی) ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ان نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں پس قرابت دار کو اس کا حق کو کہ سلوک اور صلہ رحمی ہے دیجئے اور مسکین اور مسافر کو صدقہ دیجئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بھی اس حکم میں نبی کے تابع ہے یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں یعنی اس سے اپنے اعمال کے ثواب کے طالب ہیں ایسے ہی لوگ فائز المرام ہونے والے ہیں اور جو چیز تم زیادہ ہونے کے خیال سے دیتے ہو اس طریقہ پر کوئی چیز ہبہ یا ہدیہ کے طور پر دی اس خیال سے کہ اس سے دیئے ہوئے سے زیادہ طلب کرے تاکہ جن لوگوں کو دیا گیا ہے ان کے مال میں مل کر زیادہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک پڑھتا نہیں ہے یعنی اس میں دینے والوں کو کوئی اجر نہیں ہے، ربوا کے خیال سے (دی ہوئی چیز کا) جس کے دینے میں زیادتی مطلوب ہے اس شئ کا نام ربوا رکھدیا ہے (یعنی جو ہدیہ یا ہبہ زیادتی کے ارادہ سے دیا گیا ہے چونکہ اس میں زیادتی یعنی ربوا مطلوب ہے لہٰذا اس ہبہ یا ہدیہ کا نام ہی قرآن میں ربوا رکھ دیا گیا ہے) اور جو تم زکوٰۃدوگے جس سے تمہارا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو ایسے لوگ ہی ہیں جو اپنے ثواب کو اپنے مطلوب کے دوگنا کرتے ہیں اس میں خطاب سے (غیبت) کی طرف التفات ہے اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تم کو موت دے گا پھر تم کو زندہ کرے گا تمہارے شرکاء میں بھی جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہو کوئی ایسا ہے کہ جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کرسکے نہیں وہ ان کے شریک سے پاک اور برتر ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : کائناً ، کائناً محذوف مان کر اشارہ کردیا مِنْ اَنْفُسِکُمْ کائناً سے متعلق ہو کر مثلاً کی صفت ہے اور من ابتدائیہ ہے۔
قولہ : مِمّا مَلَکَتْ اَیْمانکم، مِن شرکاء سے حال مقدم ہے پہلا من ابتدائیہ ہے دوسرا تبعیضیہ ہے اور تیسرا زائدہ۔
قولہ : اَنتَ ومَن اتبعکَ اس میں اشارہ کردیا کہ اَقِمْ وَجْھَکَ میں اگرچہ خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر مراد امت ہے۔
قولہ : فطرتَ اللہ فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے اور وہ اَلْزِمُوْا ہے جیسا کہ شارح (رح) تعالیی نے مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے ” فطرۃ “ کے معنی پیدائشی صلاحیت اور خدا داد قابلیت کے ہیں ” فطرت “ لمبی ت کے ساتھ قرآن میں صرف اسی جگہ ہے۔
قولہ : لاَ تُبَدِّلُوْہ اس سے شارح نے اشارہ کردیا کہ لاَتَبْدِیْلَ خبر بمعنی امر ہے، یہ بھی کہہ سکتے ہیں نفی بمعنی نہی ہے فطرۃ کی دو تفسیریں ہیں ایک فطری صلاحیت دوسری بمعنی دین اسلام دوسری تفسیر کیطرف شارح علام نے وھی دینہ کہہ کر اشارہ کردیا، جس کیوجہ سے دونوں تفسیریں خلط ملط ہوگئیں البتہ اگر وھِیَ دِیْنُہٗ کے واؤ کواَوْ کے معنی میں لے لیا جائے تو یہ اختلاط ختم ہوسکتا ہے (جمل
قولہ : منیبین یہ اَقِم اور اَقِم سے جو مراد ہے یعنی اقیموا سے حال ہے اسلئے اَقِمْ میں اگرچہ خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر مراد امت ہے
قولہ : لِیَکْفُرُوْا کے بعد اُرِیْدَبہ التھدید کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ لیکفروا میں لام امر کا ہے اور لام عاقبت بھی ہوسکتا ہے یعنی آخر کار وہ ناشکری کرنے لگتے ہیں۔
قولہ : تَکَلُّمَ دلاَلَۃٍ یہاں تکلم سے مجازاً دلالت مراد ہے ورنہ تو حجت یا کتاب تکلم نہیں کرتی البتہ مجازاً کہا جاتا ہے کتابٌ ناطقٌ ویقال ھٰذا مما نَطَقَ بہ القرآن بَطَرٌ بےانتہاء خوشی کا اظہار کرنا کو تکبر اور اترانے کی حد تک پہنچ جائے شارح (رح) تعالیٰ نے فرحَ بَطَرٍ کا اضافہ کرکے اس شبہ کا جواب دیدیا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر خوشی کا اظہار کرنا کوئی مذموم بات نہیں بلکہ وَاَمَّا بنعمۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ کی رو سے محمود ہے تو اسکا جواب دیا کہ تحدیث نعمت کے طور پر اظہار نعمت کرنا اگرچہ محمود ہے مگر تکبر اور اترانے کی طور پر اظہار ممنوع ہے
قولہ : اللہ الذی خَلَقَکُمْ اللہ مبتداء ہے الَّذِیْ خلقَکُمْ موصول صلہ سے مل کر مبتداء کی خبر، مبتداء اور خبر دونوں کے معرفہ ہونے کی وجہ سے جملہ حصر کا فائدہ دے رہا ہے۔
قولہ : ھَلْ مِن شرکائِکُمْ خبر مقدم ہے مَنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذلٰکم مبتداء مؤخر ہے اور من شرکاء ھم خبر مقدم ہے۔
تفسیر وتشریح
ضرب۔۔۔ انفسکم آیات مذکورہ میں توحید کے مضمون کو مختلف شواہد اور دلائل اور مختلف عنوانات میں بتلایا گیا ہے اور ایسا دلنشین انداز بیان اختیار کیا گیا ہے کہ ہر شخص کے دل میں اتر جائے، پہلے ایک مثال سے سمجھایا کہ تمہارے غلام ونوکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں شکل و صورت ہاتھ پاؤں اور مقتضیات طبعیہ سب چیزوں میں تمہارے شریک ہیں مگر تم کو یہ پسند نہیں کہ وہ تمہارے مال و دولت میں شریک ہوجائیں تو پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں یا رسول اور نبی، اولیاء اللہ ہوں یا صلحاء واتقیاء یاشجر و حجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہوجائیں، جبکہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں، یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہوسکتی دوسری بھی نہیں ہوسکتی، اس لئے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی بندگی کرنا اور انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔
فطرت۔۔۔ علیھا فطرت کے کیا معنی ہیں ؟ اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال منقول ہیں ان میں دوزیادہ مشہور ہیں (اول قول) یہ ہے کہ فطرت سے مراد استعد و صلاحیت ہے یعنی تخلیق انسانی میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے، ہر انسان اپنے خالق کو پہچانے جس کا اثر اسلام کا قبول کرنا ہوتا ہے بشرطیکہ اس استعداد و صلاحیت سے کام لے، یہی معنی مفسر علام علامہ محلی نے اختیار کئے ہیں، یہ معنی بےغبار ہیں اس ہر کسی قسم کا اعتراض و شبہ وارد نہیں ہوتا، اس خلقی صلاحیت کے متعلق یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، جو شخص والدین یا کسی دوسرے کے گمراہ کرنے سے کافر ہوگیا اس میں استعداد اور قابلیت حق ختم نہیں ہوتی گو مغلوب و مستور ہوجاتی ہے۔ فطرت کے دوسرے معنی۔ بعض مفسرین نے فطرت سے اسلام مراد لیا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اپنی فطرت اور جبلت کے اعتبار سے مسلمان پیدا کیا ہے، اگر اس کو دو پیش اور ماحول میں کوئی خراب کرنے والا خراب نہ کرے تو ہر پیدا ہونے والا مسلمان ہی ہوگا، مگر عموماً ہوتا یہ ہے کہ والدین اس کو بعض اوقات اسلام کے خلاف باتیں بتلاتے ہیں، ذہن نشین کراتے ہیں جس کے سبب وہ اسلام پر قائم نہیں رہتا، جیسا کہ صحیحین کی ایک روایت میں مذکور ہے، قرطبی نے اس قول کو جمہور کا قول قرار دیا ہے۔
دوسرے قول پر متعدد اعتراضات :
پہلا اعتراض : یہ کہ آیت میں آگے یہ مذکور ہے کہ لاتبدیلَ لخلق اللہ اور یہاں خلق اللہ سے مراد دو ہی فطرۃ اللہ ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے اس لئے اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی اس فطرت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا حالانکہ صحیحین کی حدیث میں خود یہ آیا ہے کہ پھر ماں باپ بعض اوقات بچے کو یہودی یا نصرانی بنالیتے ہیں، اگر فطرت کے معنی خود اسلام کے لئے جائیں جس میں تبدیلی نہ ہونا خود اسی آیت میں مذکور ہے تو حدیث مذکور میں یہودی، نصرانی بنانے کی تبدیلی کیسے صحیح ہوگی اور یہ تبدیلی تو عام مشاہدہ ہے، اور اگر اسلام ایسی فطرت ہے، جس میں تبدیلی نہ ہوسکے تو پھر یہ تبدیلی کیسے اور کیوں ؟
دوسرا اعتراض : حضرت خضر (علیہ السلام) نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا اس کے متعلق صحیح حدیث میں ہے کہ اس لڑکے کی فطرت میں کفر تھا اس لئے خضر (علیہ السلام) نے اس کو قتل کیا یہ حدیث بھی اس کے منافی ہے کہ ہر انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔
تیسرا اعتراض : اگر اسلام ایسی چیز ہے جو انسان کی فطرت میں اس طرح رکھ دی گئی ہے کہ جس کی تبدیلی پر انسان کو قدرت نہیں پر اس صورت میں اسلام کوئی اختیاری فعل نہ ہوا پھر اس پر آخرت کا ثواب کیسا ؟ اس لئے کہ ثواب تو اختیاری عمل پر ملتا ہے، یہ سب شبہات امام تورپشتی (رح) تعالیٰ نے شرح مصابیح میں بیان کئے ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے اول معنی کو ترجع دی ہے کہ اس خلقی صلاحیت کے متعلق یہ صحیح ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ (معارف ملخصًا)
وما۔۔۔ الناس اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ شادی بیاہ، عقیقہ یا دیگر تقریبات کے موقع پر ہدیہ تحفہ کے نام پر روپیہ پیسہ یا کوئی چیز دیتے ہیں تو ان کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ ہمارے یہاں تقریبات کے موقع پر کچھ دے گا دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ دینے والا اور لینے والا اس رقم یا ہدیہ تحفہ کو لکھ بھی لیتا ہے تاکہ بھول نہ جائے اس سے معلوم ہوا کہ بدلے کی نیت ہے ورنہ لکھنے کے کیا معنی، اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ نہ ان پر احسان جتائے اور نہ کسی بدلے پر نظر رکھے اور جس نے بدلے کی نیت سے دیا کہ اس کا مال دوسرے عزیز رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے کے بعد کچھ زیادتی لے کر واپس آئے گا تو اللہ کے نزدیک اس کا کوئی درجہ اور ثواب نہیں اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربوا سے تعبیر کرکے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگئی۔
مسئلہ : بغیر بدلہ اور عوض کی نیت کے ہدیہ تحفہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ باعث اجرو محبت ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک کی قباحت اور برائی واضح کرنے کے لیے تمہارے اپنے نفوس سے مثال دی ہے جس کو سمجھنے کے لیے سفر کرنے اور سواریاں کسنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ﴿هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾ ” کیا تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے کوئی ایسا ہے جسے تم اپنے رزق میں شریک کرسکو“ جن کے بارے میں تمہارا خیال ہو کہ وہ تمہارے برابر ہیں ﴿تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ﴾ ” تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو؟“ یعنی جس طرح حقیقی آزاد شریک اور اس کی تقسیم سے خوف آتا ہے کہ کہیں وہ تمام مال اپنے لیے مختص نہ کرلے۔ معاملہ ایسے نہیں کیونکہ تمہارے غلاموں میں سے کوئی غلام تمہارے اس رزق میں شریک نہیں بن سکتا جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے۔۔۔ حالانکہ تم نے ان کو پیدا کیا ہے نہ تم ان کو رزق دیتے ہو، نیز وہ بھی تمہاری طرح مملوک ہیں۔۔۔ پھر کیونکر تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کا شریک بنانے پر راضی ہوتے ہو اور اس کو عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ہم مرتبہ اور اس کے برابر قرار دیتے ہو، حالانکہ تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر قرار دینے پر راضی نہیں ہو۔ یہ سب سے زیادہ عجیب چیز ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتا ہے اس کی سفاہت و حماقت پر سب سے بڑی دلیل ہے، نیز اس نے جس چیز کو معبود بنایا ہے وہ باطل اور کمزور ہے وہ اللہ تعالیٰ کے برابر نہیں ہوسکتی اور نہ وہ کسی قسم کی عبادت کی مستحق ہے۔
﴿كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ﴾ ” ہم اسی طرح آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں“ مثالوں کے ذریعے سے ﴿لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ ” ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔“ جو حقائق میں غور کرکے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ رہا وہ شخص جو عقل سے کام نہیں لیتا اگر اس کے سامنے آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا جائے اور دلائل کو واضح کردیا جائے تو اس کے پاس اتنی عقل ہی نہیں کہ اس کے ذریعے سے بات کی توضیح و تبیین کو سمجھ سکے۔۔۔ عقل مند لوگوں ہی کے سامنے کلام پیش کیا جاتا ہے اور انہیں خطاب کیا جاتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh tumhen khud tumharay andar say aik misal deta hai . hum ney jo rizq tumhen diya hai , kiya tumharay ghulamon mein say koi uss mein tumhara shareek hai kay uss rizq mein tumhara darja unn kay barabar ho ( aur ) tum unn ghulamon say wesay hi dartay ho jaisay aapas mein aik doosray say dartay ho-? hum issi tarah dalaeel unn logon kay liye khol khol ker biyan kertay hain jo aqal say kaam len .
12 Tafsir Ibn Kathir
اپنے دلوں میں جھانکو !
مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں۔ چناچہ وہ حج و عمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ دعا (لبیک لاشریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک) یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جارہا ہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کرسکیں۔ فرماتا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضامند ہوگا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لئے پسند نہیں کرتے اللہ کے لئے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کرسکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا۔ یہ عجب ناانصافی ہے کہ اپنے لئے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لئے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے اتناسنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک وسہیم سمجھیں لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خونی ہے ؟ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس پر یہ آیت اتری۔ اور اس میں بیان ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ مشرکین کے شرک کی کوئی سند عقلی نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا۔ یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو ؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا۔