کیا انہوں نے اپنے مَن میں کبھی غور نہیں کیا کہ اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے پیدا نہیں فرمایا مگر (نظامِ) حق اور مقرّرہ مدت (کے دورانیے) کے ساتھ، اور بیشک بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے مُنکِر ہیں،
English Sahih:
Do they not contemplate within themselves? Allah has not created the heavens and the earth and what is between them except in truth and for a specified term. And indeed, many of the people, in the meeting with their Lord, are disbelievers.
1 Abul A'ala Maududi
کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرّر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں
2 Ahmed Raza Khan
کیا انہوں نے اپنے جی میں نہ سوچا کہ، اللہ نے پیدا نہ کیے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر حق اور ایک مقرر میعاد سے اور بیشک بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کا انکار رکھتے ہیں
3 Ahmed Ali
کیا وہ اپنے دل میں خیال نہیں کرتے کہ الله نے آسمانوں اور زمین کواور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے عمدگی سے اور وقت مقرر تک کے لیے بنایا ہے اور بے شک بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کے منکر ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ غور نہیں کیا؟ کہ اللہ تعالٰی نے آسمانوں کو اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کو بہترین قرینے (۱) سے مقرر وقت تک کے لئے (ہی) پیدا کیا ہے، ہاں اکثر لوگ یقیناً اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں (۲)۔
٨۔١ یا ایک مقصد اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے بےمقصد اور بیکار نہیں۔ اور وہ مقصد ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے۔ یعنی کیا وہ اپنے وجود پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح انہیں نیست سے ہست کیا اور پانی کے ایک حقیر قطرے سے ان کی تخلیق کی۔ پھر آسمان و زمین کا ایک خاص مقصد کے لیے وسیع وعریض سلسلہ قائم کیا نیز ان سب کے لیے ایک خاص وقت مقرر کیا یعنی قیامت کا دن۔ جس دن یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتے تو یقینا اللہ کے وجود اس کی ربوبیت و الوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انہیں ادراک واحساس ہو جاتا اور اس پر ایمان لے آتے۔ ٨۔۲اور اس کی وجہ وہی کائنات میں غور و فکر کا فقدان ہے ورنہ قیامت کے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا اُنہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا۔ کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اُن کو حکمت سے اور ایک وقت مقرر تک کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ غور نہیں کیا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کو بہترین قرینے سے مقرر وقت تک کے لئے (ہی) پیدا کیا ہے، ہاں اکثر لوگ یقیناً اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا انہوں نے اپنے آپ میں کبھی غور و فکر نہیں کیا؟ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو (حق اور حکمت کے) ساتھ ایک مقررہ مدت تک کیلئے پیدا کیا ہے اور یقیناً بہت سے لوگ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حضوری کے منکر ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا ان لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی ہے کہ خدا نے آسمان و زمین اور اس کے درمیان کی تمام مخلوقات کو برحق ہی پیدا کیا ہے اور ایک معین مدّت کے ساتھ لیکن لوگوں کی اکثریت اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار کرنے والی ہے
9 Tafsir Jalalayn
کیا انہوں نے اپنے دل میں غور کیا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کو حکمت سے اور ایک وقت مقرر تک کے لئے پیدا کیا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں
10 Tafsir as-Saadi
کیا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی ملاقات کو جھٹلانے والوں نے کبھی غور نہیں کیا ﴿ فِي أَنفُسِهِم﴾ ” اپنے آپ پر؟“ کیونکہ خود ان کی ذات میں نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے وہ اس حقیقت کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں کہ وہ ہستی جو انہیں عدم سے وجود میں لائی وہ عنقریب اس کا اعادہ کرے گی، وہ ہستی جس نے انہیں نطفہ، جمے ہوئے خون اور گوشت کی بوٹی کے مراحل سے گزار کر آدمی بنایا، پھر اس میں روح پھونکی، پھر اسے بچہ بنایا، اس بچے سے اسے جوان بنایا، پھر اسے بڑھاپے میں منتقل کیا اور پھر اسے انتہائی بڑھاپے کی طرف لے گیا۔ اس ہستی کے شایان شان نہیں کہ وہ ان کو مہمل اور بے کار چھوڑ دے کہ انہیں کسی چیز کا حکم دیا جائے نہ کسی چیز سے روکا جائے اور انہیں نیکی پر ثواب دیا جائے نہ بدی پر سزا دی جائے۔ ﴿مَّا خَلَقَ اللّٰـهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ” اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کو حق کے ساتھ پیدا کیا“ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ ﴿ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ” اور وہ وقت مقرر تک۔“ یعنی زمین و آسمان کی مدت اس وقت تک ہے جب تک کہ دنیا کی مدت ختم ہو کر قیامت قائم نہیں ہوجاتی، تب یہ زمین و آسمان بدل کر کوئی اور ہی آسمان و زمین بن جائیں گے۔ ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ﴾ ” اور وہ بلاشبہ بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔“ اسی لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کی نہ انہوں نے ان رسولوں کی تصدیق کی جنہوں نے قیامت کے قائم ہونے کی خبر دی تھی۔ ان کے اس کفر پر کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے برعکس قطعی دلائل قیامت اور جزا و سزا کے اثبات پر دلالت کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ زمین میں چل پھر کر دیکھیں اور ان لوگوں کے انجام پر غور کریں جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور ان کے حکم کی مخالفت کی۔ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور ان سے زیادہ شان دار آثار چھوڑ گئے، مثلاً انہوں نے محلات اور کارخانے بنائے، باغات اور کھیتیاں اگائیں اور نہریں کھودیں۔ مگر جب انہوں نے اپنے رسولوں کی، جو حق پر اور اپنی دعوت کی صحت پر واضح دلائل لے کر آئے تھے، تکذیب کی تو ان کی قوت ان کے کسی کام آئی نہ ان آثار نے انہیں کوئی فائدہ دیا۔۔۔ کیونکہ جب وہ ان کے آثار دیکھیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ وہ قومیں ہلاک ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں، ان کے مسکن غیر آباد پڑے ہیں اور وہ مسلسل مخلوق کی مذمت کا نشانہ ہیں۔ یہ تو اس دنیا کی سزا ہے جو اخروی عذاب کی تمہید ہے۔ ان ہلاک شدہ قوموں کو ہلاک کرکے اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا اور اپنی ہلاکت کے اسباب مہیا کیے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bhala kiya enhon ney apney dilon mein ghor nahi kiya-? Allah ney aasmano aur zameen ko aur unn kay darmiyan pai janey wali cheezon ko baghair kissi bar-haq maqsad kay aur koi miyaad muqarrar kiye baghair peda nahi kerdiya aur boht say log hain kay apney perwerdigar say jaa milney kay munkir hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
کائنات کا ہر ذرہ دعوت فکر دیتا ہے چونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ حق جل وعلا کی قدرت کا نشان ہے اور اس کی توحید اور ربوبیت پر دلالت کرنے والا ہے اس لئے ارشاد ہوتا ہے کہ موجودات میں غور و فکر کیا کرو اور قدرت اللہ کی نشانیوں سے اس مالک کو پہچانو اور اس کی قدر و تعظیم کرو۔ کبھی عالم علوی کو دیکھو کبھی عالم سفلی پر نظر ڈالو کبھی اور مخلوقات کی پیدائش کو سوچو اور سمجھو کہ یہ چیزیں عبث اور بیکار پیدا نہیں کی گئیں۔ بلکہ رب نے انہیں کارآمد اور نشان قدرت بنایا ہے۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے یعنی قیامت کا دن۔ جسے اکثر لوگ مانتے ہی نہیں۔ اس کے بعد نبیوں کی صداقت کو اس طرح ظاہر فرماتا ہے کہ دیکھ لو ان کے مخالفین کا کس قدر عبرتناک انجام ہوا ؟ اور ان کے ماننے والوں کو کس طرح دونوں جہاں کی عزت ملی ؟ تم چل پھر کر اگلے واقعات معلوم کرو کہ گذشتہ امتیں جو تم سے زیادہ زور آور تھیں تم سے زیادہ مال و زر والی تھیں تم سے زیادہ آبادیاں انہوں نے کیں تم سے زیادہ کھیتیاں اور باغات ان کے تھے اس کے باوجود جب ان کے پاس اس زمانے کے رسول آئے انہوں نے دلیلیں اور معجزے دکھائے اور پھر بھی اس زمانے کے ان بدنصیبوں نے ان کی نہ مانی اور اپنے خیالات میں مستغرق رہے اور سیاہ کاریوں میں مشغول رہے تو بالآخر عذاب اللہ ان پر برس پڑے۔ اس وقت کوئی نہ تھا جو انہیں بچاسکے یا کسی عذاب کو ان پر سے ہٹاسکے۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کرے۔ یہ عذاب تو انکے اپنے کرتوتوں کا وبال تھا۔ یہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے رب کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ان کی بےایمانی کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو انکی نگاہوں کو پھیر دیا اور انہیں ان کی سرکشی میں حیران چھوڑ دیا ہے۔ اور آیت میں ہے ان کی کجی کی وجہ سے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردئیے اور اس آیت میں ہے کہ اگر اب بھی منہ موڑیں تو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض گناہوں پر ان کی پکڑ کرنے کا ارادہ کرچکا ہے۔ اس بنا پر السوای منصوب ہوگا اساوا کا مفعول ہو کر۔ اور یہ بھی قول ہے کہ سوای یہاں پر اس طرح واقع ہے کہ برائی ان کا انجام ہوئی۔ اس لئے کہ وہ آیات اللہ کے جھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے تھے۔ تو اس معنی کی رو سے یہ لفظ منصوب ہوگا کان کی خبر ہو کر۔ امام ابن جریر نے یہی توجیہہ بیان کی ہے اور ابن عباس اور قتادۃ سے نقل بھی کی ہے۔ ضحاک بھی یہی فرماتے ہیں اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ اس کے بعد آیت (وَكَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِءُوْنَ 10ۧ) 30 ۔ الروم :10) ہے۔