لقمان آية ۱۲
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِۗ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت و دانائی عطا کی، (اور اس سے فرمایا) کہ اﷲ کا شکر ادا کرو اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے تو بیشک اﷲ بے نیاز ہے (خود ہی) سزاوارِ حمد ہے،
English Sahih:
And We had certainly given Luqman wisdom [and said], "Be grateful to Allah." And whoever is grateful is grateful for [the benefit of] himself. And whoever denies [His favor] – then indeed, Allah is Free of need and Praiseworthy.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کر اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک اللہ بے پرواہ ہے سب خوبیاں سراہا،
3 Ahmed Ali
اور ہم نے لقمان کو دانائی عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کرتے رہو اور جو شخص شکر کرے گا وہ اپنے ذاتی نفع کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے گا تو الله بے نیاز خوبیوں والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی (١) تھی کہ تو اللہ تعالٰی کا شکر کر (٢) ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالٰی بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔
١٢۔١ حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے حکمت یعنی عقل فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بےفائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے، پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر)
١٢۔٢ شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی۔ کہ خدا کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے تو خدا بھی بےپروا اور سزاوار حمد (وثنا) ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی تھی کہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر کر ہر شکر کرنے واﻻ اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وه جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے لقمان کو حکمت (و دانائی) عطا کی (اور کہا) کہ خدا کا شکر ادا کرو اور جو شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے شکر ادا کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت (ناشکری) کرتا ہے (وہ اپنا نقصان کرتا ہے کیونکہ) بے شک اللہ بے نیاز ہے (اور) لائقِ حمد و ثنا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ پروردگار کا شکریہ ادا کرو اور جو بھی شکریہ ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت کرتا ہے اسے معلوم رہے کہ خدا بے نیاز بھی ہے اور قابل حمدوثنا بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی کہ خدا کا شکر کرو اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو خدا بھی بےپروا اور سزاوار حمد (وثنا) ہے
آیت نمبر 12 تا 19
ترجمہ : اور بلاشبہ ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی ان ہی میں سے علم اور دیانت اور راست گوئی ہیں، اور ان کی حکمت کی (باتیں) بہت ہیں جو کہ منقول ہیں اور وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے فتویٰ دیا کرتے تھے حضرت لقمان نے داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ پایا تھا اور ان سے علم بھی حاصل کیا تھا، اور (داؤد (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد) فتویٰ دینا ترک کردیا تھا، اور فتویٰ (کے معاملہ میں) فرمایا کیا میں سبک دوشی اختیار نہ کروں ؟ جب سبک دوش کیا جاؤں اور حضرت لقمان سے دریافت کیا گیا کہ بد ترین شخص کون ہے ؟ جواب دیا : وہ شخص جو اس بات کی پرواہ نہ کرے کہ لوگ اسے برا کرتے ہوئے دیکھیں گے یعنی ہم نے اس سے کہا تو اللہ کا شکر کر اس بات پر کہ تجھ کو حکمت عطا کی ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے اس لئے کہ اس کے شکر کا اجر اسی کو ملتا ہے اور جس نے نعمت کی ناشکری کی (وہ جان لے) کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بےنیاز ہے اور اپنی صنعت میں قابل ستائش ہے اور اس وقت کو یاد کرو جب لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا اے میرے مُنّے بُنیَّ شفقت کے لئے تصغیر ہے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بلاشبہ شرک باللہ بڑا بھاری ظلم ہے چناچہ اس نے لقمان کی بات مان لی اور اسلام قبول کرلیا، اور ہم نے انسانوں کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا (تاکیدی) حکم دیا ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اس کو حمل میں رکھا یعنی حمل کی وجہ سے اسے ضعف لاحق ہوا، اور در دِزِہ کی وجہ سے کمزوری لاحق ہوئی، اور ولادت کی وجہ سے ناتوانی ہوئی، اور وہ سال میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے اور ہم نے اس سے کہا کہ تو میری اور اپنے والدین کی شکر گذاری کیا کر میری ہی طرف لوت کر آنا ہے اور اگر وہ دونوں (بھی) تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک کر کہ جس کی تیرے پاس واقع کے مطابق دلیل نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا (ہاں) دنیا میں ان کے ساتھ خوبی کے ساتھ بسر کرنا یعنی حسن سلوک کے ساتھ اور اس شخص کے طریقہ کی اتباع کرنا جو میری طرف طاعت کے ذریعہ رجوع ہو پھر تم سب کو میرے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے پھر میں تم کو بتلادوں گا جو کچھ تم کرتے تھے بعد ازاں ان اعمال کی تم کو جزا دوں گا، وصیت اور اس کے مالک کے مابعد کا جملہ جملۂ معترضہ ہے اے میرے پیارے بیٹے بری خصلت اگرچہ وہ رائی کے دانے کے برابر ہو اور پھر وہ (بھی) چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو یعنی ان مذکورہ جگہوں سے زیادہ پوشیدہ جگہ میں ہو، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور نکال لائے گا پھر اس پر محاسبہ کرے گا بلاشبہ اللہ اس کو نکالنے کے بارے میں باریک بین ہے اور اس کی جگہ سے باخبر ہے، اے میرے پیارے بیٹے تو نماز قائم رکھنا اور اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا برے کاموں سے منع کرتے رہنا اور امرونہی کی وجہ سے تم پر اگر کوئی مصیبت آجائے تو صبر کرنا یقین مان کہ یہ صبر بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے یعنی یہ صبر ان امور میں سے ہے کہ جن کے واجب ہونے کی وجہ سے ان کی تاکید کی گئی ہے اور تو لوگوں سے تکبر کی وجہ سے اپنا رخ نہ پھیر اور زمین پر اترا کر مت چل یعنی عجب و خود پسندی کے ساتھ، بلا شبہ اللہ تعالیٰ اکڑ کر چلنے والوں کے مقابلہ میں فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے اور تو اپنی رفتار میں رینگنے اور دوڑنے کے درمیان اعتدال اختیار کر اور وقعت و وقار کو لازم پکڑ اور اپنی آواز پست کر یقیناً آوازوں میں سب سے زیادہ ناگوارگدھے کی آواز ہے (گدھے کی آواز کا) اول حصہ زفیر ہے اور اس کا آخر شہیق ہے۔
تحقیق و ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ : وَلَقَدْ اٰتینَا لُقْمَانَ الحِکْمَۃََ لقمان (علیہ السلام) کے بارے میں بعض نے کہا یہ عجمی لفظ ہے اور علمیۃ اور عجمہ کی وجہ سے غیر منصرف ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ عربی لفظ ہے علمیۃ اور الف نون زائد تان کی وجہ سے غیر منصرف ہے، حضرت لقمان کے نسب کے بارے میں مختلف اقوال ہیں بعض حضرات لقمان بن باغور بن ناخور بن تارخ اور تارخ آزر ہی کا نام ہے، اس نسب کے اعتبار سے لقمان (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی کے پوتے ہوتے ہیں اور بعض حضرات نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بھانجے کہا ہے، اور بعض نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی بتایا ہے، کہا گیا ہے کہ حضرت لقمان (علیہ السلام) ایک ہزار سال بقید حیات رہے حتی کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ پایا، جمہور اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت لقمان حکیم تھے نبی نہیں تھے، البتہ عکرمہ اور شعبی ان کی نبوت کے قائل ہیں۔ (صاوی)
قولہ : أن . ای وقُلْنَا لَہٗ شارخ (رح) تعالیٰ نے اس تفسیری عبارت سے دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے، اول یہ کہ أن تفسیر یہ ہے، دوسرے یہ کہ حذف قلنا کے ذریعہ أن اشکر کا عطف ولقد اٰتینَا لُقمٰنَ پر ہے، حضرت لقمان (علیہ السلام) کے صاحبزادے کے نام میں تین قول ہیں، بعض نے ” ثاران “ بتایا ہے، اور کلبی نے ” مشکم “ کہا ہے اور بعض نے ” انعم “ بتایا ہے (جمل) کہا گیا ہے کہ حضرت لقمان (علیہ السلام) کی اہلیہ اور صاحبزادے کافر تھے، آپ کی نصیحت سے مسلمان ہوگئے۔
قولہ : فَرَجَعَ وَاَسْلَمَ یہ عطف تفسیری ہے۔
قولہ : وَوَصَّیْنَا الانسانَ یہ دو آیتیں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ سابق میں گذر گیا ہے اور یہ دو آیتیں حضرت لقمان کے کلام کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر واقع ہوئی ہیں۔
قولہ : وَھَنَتْ وَھْنًا علیٰ وَھْنٍ مفسر علام نے وَھْنًا سے پہلے وَھَنَتْ فعل محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ وھْنًا فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے اور عَلیٰ وَھْنٍ یہ کائناً محذوف سے متعلق ہو کر وَھْنًا کی صفت ہے ای وَھْنًا کائنًا عَلیٰ وَھْنٍ اور صاوی نے کہا ہے کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اُمُّہٗ سے حال قرار دیا جائے، ای حملَتْہُ اُمُّہٗ ذات وھنٍ.
قولہ : موافقۃ لِلوَاقع شارح (رح) تعالیٰ مَالَیْسَ بِہٖ عِلْمٌ کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ یہ قید بیان واقعہ کے لئے ہے واقعی اور حقیقت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو پھر اس کا علم یا دلیل کہاں ہوگی ؟ یہ قید احترازی نہیں ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جس کے شریک ہونے کی تیرے پاس دلیل نہ ہو اس کو شریک نہ کر اور جس کے شریک ہونے کی دلیل ہو اس کو شریک کرسکتا ہے یہ اس کا مفہوم مخالف ہوگا، جو معتبر نہیں ہے اسی کو کہا جاتا ہے لا مفھومَ لہٗ یعنی اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہے۔
قولہ : وَوَصَّیْنَا الانسانَ سے دو آیتیں، حضرت لقمان (علیہ السلام) کے کلام کے درمیان بطور جملہ معترضہ کے ہیں، مقصد ان کا حضرت لقمان کے کلام کی تاکید ہے یا بُنَیَّ یہ حضرت لقمان (علیہ السلام) کا اپنے بیٹے کو نصیحت کی جانب عود ہے۔
قولہ : فی صخرۃ، صخرۃ مطلقا پتھر کی چٹان کو کہتے ہیں اور ساتوں زمین کے نیچے جو سخت پتھر ہے اس کو بھی کہتے ہیں۔
قولہ : لاَ تُصَعِّرْ فعل نہی تو نہ موڑ، یہاں تکبر کی وجہ سے رخ پھیرنے سے نہی ہے۔
تفسیر وتشریح
ولقد آتینا لقمانَ حضرت لقمان (علیہ السلام) وہب بن منبہ کی روایت کے مطابق حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بھانجے تھے اور مقاتل نے ان کا خالہ زاد بھائی بتلایا ہے، تفسیر بیضاوی میں ہے کہ ان کی عمر دراز ہوئی، حضرت لقمان نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ پایا تھا۔
اور تفسیر درمنثور میں حضرت ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ حضرت لقمان ایک حبشی غلام تھے، نجاری کا کام کرتے تھے اور حضرت جابربن عبداللہ سے ان کے حالات دریافت کئے گئے تو فرمایا پست قد، چپٹی ناک کے حبشی تھے، ایک حبشی حضرت سعید بن مسیّب کے پاس کوئی مسئلہ دریافت کرنے کے لئے آیا تو حضرت سعید نے ان کی دل جوئی کے لئے فرمایا کہ تم اپنے کالے ہونے پر غم نہ کرو کیونکہ کالے لوگوں میں تین بزرگ ایسے گذرے ہیں جو لوگوں میں سب سے بہتر تھے (١) حضرت بلال حبشی (٢) اور مَھْجَع حضرت عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام اور (٣) حضرت لقمان (علیہ السلام) ۔ جب جمہور کے نزدیک حضرت لقمان کا نبی نہ ہونا راجح بلکہ مسلم ہے تو ان کو وہ حکم جو قرآن میں مذکورہ ہے أن اشکرلی یہ بذریعہ الہام ہوسکتا ہے جو اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے۔ حضرت لقمان (علیہ السلام) کو نبوت عطا کی گئی تو فتویٰ دینا چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب میری ضرورت نہیں رہی، اس بات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کہ لقمان نبی نہیں تھے اس لئے کہ کسی نبی کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ کار نبوت کو ترک کردے، بعض روایات میں ہے کہ بنی اسرائیل کے قاضی تھے، حضرت لقمان کے کلمات حکمت بہت منقول ہیں، وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت لقمان کی حکمت کے دس ہزار سے زیادہ ابواب پڑھے ہیں۔ (قرطبی، معارف)
ایک روز حضرت لقمان ایک بڑی مجلس میں لوگوں کو حکمت کی باتیں سنا رہے تھے ایک شخص آیا اور اس نے سوال کیا کہ کیا تم وہی نہیں جو میرے ساتھ فلاں جنگل میں بکریاں چرایا کرتے تھے، لقمان (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں، تو اس شخص نے پوچھا کہ پھر آپ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا کہ خلق خدا آپ کی تعظیم کرتی ہے اور آپ کے کلمات سننے کے لئے دور دور سے جمع ہوتی ہے، حضرت لقمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کا سبب میرے دو کام ہیں، اول ہمیشہ سچ بولنا، دوسرے فضول باتوں سے اجتناب کرنا اور ایک روایت میں یہ ہے کہ لقمان نے فرمایا کہ چند کام ایسے ہیں جنہوں نے مجھے اس درجہ پر پہنچایا، اگر تم اختیار کرلو تو تمہیں بھی یہی درجہ اور مقام حاصل ہوجائے گا وہ کام یہ ہیں، اپنی نظر کو پست رکھنا، زبان کو بند رکھنا، حلال روزی پر قناعت کرنا، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا، بات کی سچائی پر قائم رہنا، عہد پورا کرنا، مہمان کا اکرام کرنا پڑوسی کی حفاظت کرنا، اور فضول کام اور فضول کلام چھوڑ دینا۔ (ابن کثیر)
حکمت لقمان سے کیا مراد ہے ؟ لفظ ” حکمت “ قرآن کریم میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوا ہے، علم، عقل، حلم، بردباری، نبوت، اصابت رائے، ابوحیان نے فرمایا کہ حکمت سے مراد وہ کلام ہے جس سے لوگ نصیحت حاصل کریں، اور ان کے دلوں میں مؤثر ہو اور جس کو لوگ محفوظ کرکے دوسروں کو پہنچائیں، اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ حکمت سے مراد عقل و فہم اور ذہانت ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے۔ آیت مذکورہ میں حضرت لقمان (علیہ السلام) کو حکمت عطا کرنے کا ذکر فرما کر آگے فرمایا ہے اَن اشْکُرْلی یہ خود حکمت کی تفسیر ہے یعنی وہ حکمت کو لقمان (علیہ السلام) کو دی گئی تھی کہ ہم نے اس کو شکر کا حکم دیا، انہوں نے تکمیل کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کہ نعمتوں کا شکر گذارہونا بڑی حکمت ہے، اس کے بعد یہ جتلادیا کہ یہ شکر گذاری کا حکم ہم نے کچھ اپنے فائدے کے لئے نہیں دیا ہمیں کسی کے شکر کی حاجت نہیں بلکہ یہ ان ہی کے فائدے کے لئے دیا ہے کیونکہ ہمارا ضابطہ یہ ہے کہ جو شخص ہماری نعمت کا شکرادا کرتا ہے، ہم اس کی نعمت میں اور زیادتی کردیتے ہیں۔ اس کے بعد لقمان (علیہ السلام) کے کچھ کلمات حکمت کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے ارشاد فرمائے تھے وہ کلمات قرآن کریم نے اس لئے نقل فرمائے کہ دوسرے لوگ بھی ان سے فائدہ اٹھائیں، ان کلمات حکمت میں سب سے اول تو عقائد کی درستی ہے اور ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کو سارے عالم کا خالق ومالک بلا شرکت غیرے یقین کرے اس لئے کہ اس دنیا میں اس سے بڑا بھاری ظلم کوئی نہیں ہوسکتا کہ خدائے تعالیٰ کی کسی مخلوق کو خالق کے برابر ٹھہرائے، اس لئے فرمایا یٰبُنَیَّ لاَ تُشْرِکْ باللہِ اِنَّ الشِّرْکَ لظُلْمٌ عَظِیْمٌ اس کے بعد حضرت لقمان کی دوسری نصائح اور کلمات حکمت بیان ہوئے ہیں جو اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے فرمائے تھے، حکمت لقمان کے کچھ کلمات قرآن کریم نے اس لئے نقل فرمائے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے استفادہ کریں۔
والدین کی اطاعت فرض ہے بشرطیکہ معصیت الہٰی نہ ہو : والدین کی اطاعت اور شکر گذاری کی بڑی تاکید فرمائی گئی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و شکر گذاری کے ساتھ ساتھ والدین کی شکر گذاری اور اطاعت کا حکم دیا ہے، لیکن شرک ایسا ظلم عظیم اور سنگین جرم ہے کہ وہ والدین کے کہنے اور ان کے مجبور کرنے سے بھی جائز نہیں۔ یہاں والدین کی شکر گذاری اور اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ساتھ ساتھ اس کی حکمت بھی بیان فرمادی کہ اس کے وجود وبقاء میں والدین کا بہت بڑا دخل ہے، خاص طور سے اس کی ماں کے حقوق پہلے بیان فرمائے ہیں، وَوَصَّیْنَالإنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًاعَلیٰ وَھْنٍ وَفصَالہ فیِ عَامَیْنِ ممکن تھا کہ بیٹا والدین کے شرک کے لئے مجبور کرنے اور دباؤ ڈالنے کی وجہ سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہو کر والدین کے ساتھ بدکلامی یا بدخوئی سے پیش آئے ان کی توہین کرے، اسلام چونکہ ایک قانون عدل ہے اس لئے ساتھ ہی یہ حکم بھی دیدیا وَصَا حِبْھُمَا فِی مَعْرُوْفًا یعنی معصیت کے معاملہ میں تو تم ان کا کہنا نہ مانو البتہ دنیا کے کاموں میں اس کے عام دستور کے مطابق معاملہ کرو، مالی اخراجات وغیرہ میں کمی نہ ہونے دو اور نہ عزت و احترام میں کسی قسم کی کوتاہی ہونے دو ۔
فائدہ : اس آیت میں جو بچے کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال بتلائی گئی ہے، یہ عام عادت کے مطابق ہے اس میں اس کی کوئی صراحت نہیں کہ اس سے زیادہ مدت تک دودھ پلایا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اس مسئلہ کی تشریح انشاء اللہ سورة احقاف کی آیت و حملہ و فصالہ ثلثٰون شھرًا کے تحت آئے گی۔
قولہ : اِنْ تَکُ کا مرجع اگر خطیئۃ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کلام ہے اور اگر اس کا مرجع خصلۃ ہو تو مطلب اچھی یا بری خصلت ہوگا، خلاصہ یہ ہے کہ انسان اچھا یا برا عمل کتنا ہی چھپ کر کرے اللہ سے مخفی نہیں رہ سکتا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ضرور حاضر کرلیں گے، یعنی اس کی جزاء یا سزادے گا خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا عمل کیوں نہ ہو ؟
قولہ : مِنْ ذٰلک ای المذکور . قولہ : اِنّ ذلِکَ یہاں ذٰلِکَ کا مرجع صبر ہے۔
قولہ : وَلاَ تُصَعِّرْ خدَّ کَ یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو تو ان سے منہ پھیرلے یعنی بےرخی کرے، صعر ایک قسم کی بیماری ہے جس کی وجہ سے اونٹ کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور کنایہ یہ لفظ تکبر سے منہ پھیرلینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
قولہ : واقصد فی مشیک یعنی ایسی چال یا رویّہ کہ جس سے مال و دولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخرو غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لئے کہ انسان ایک بندۂ عاجز و حقیر ہے، اللہ کو یہی پسند ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی اور انکساری ہی اختیار کرے، ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کرے کہ اس سے بڑائی کا اظہار ہوتا ہو اس لئے بڑائی صرف اللہ ہی کے لئے زیبا ہے، اور یہ کہ زیادہ چیخ وچلا کر بات نہ کر، اس لئے کہ اگر زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی، حال یہ ہے کہ گدھے کی آواز سب سے زیادہ بدتر اور کریہہ ہے، حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو۔ (بخاری کتاب بدہ الخلق)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے صاحب فضیلت بندے لقمان پر اپنے احسان و عنایت کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے اسے حکمت سے نوازا اور وہ حق اور اس (اللہ) کی حکمت کا علم ہے۔ یہ احکام کے علم، ان کے اسرار نہاں اور ان کے اندر موجود دانائی کی معرفت کا نام ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان صاحب علم ہوتا ہے، مگر حکمت سے تہی دامن ہوتا ہے۔ رہی حکمت، تو یہ علم کو مستلزم ہے بلکہ علم کو بھی مستلزم ہے بنا بریں حکمت کی علم نافع اور عمل صالح سے تفسیر کی جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان پر اپنی بڑی نوازش کی تو ان کو اپنی عطا و بخشش پر شکر کرنے کا حکم دیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو برکت دے اور ان کے لیے اپنے فضل و کرم میں اضافہ کرے، نیز آگاہ فرمایا کہ شکر کی منفعت شکر کرنے والوں ہی کی طرف لوٹتی ہے اور جو کوئی شکر ادا نہیں کرتا تو اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے، جو کوئی اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں وہ بے نیاز اور قابل ستائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اس کی ذات کا لازمہ ہے، اس کا اپنی صفات کمال اور اپنے خوبصورت کاموں میں قابل ستائش ہونا اس کی ذات کا لازمہ ہے۔ اس کے ان دونوں اوصاف میں سے ہر وصف، صفت کمال ہے اور دونوں اوصاف کا مجتمع ہونا گویا کمال کے اندر کمال کا اضافہ ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney luqman ko danai ata ki thi , ( aur unn say kaha tha ) kay Allah ka shukar kertay raho . aur jo koi Allah ka shukar ada-kerta hai , woh khud apney faeeday kay liye shukar kerta hai , aur agar koi nashukri keray to Allah bara bey niaz hai , bazaat-e-khud qabil-e-tareef !
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں ؟
اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمان نبی تھے یا نہ تھے ؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے۔ حضرت جابر سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے۔ سعد بن مسیب فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے۔ حضرت بلال (رض) جو حضور رسالت پناہ کے غلام تھے۔ حضرت مجع جو جناب فاروق اعظم کے غلام تھے اور حضرت لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے۔ حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہا کہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سبب سے بدتر بھی یہی ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے۔ ایک اور قول ہے کہ آپ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں تھے۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جر میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایا کرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا ؟ فرمایا سچ بولنے اور بیکار کلام نہ کرنے سے۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بےنفع کاموں کو چھوڑ دینا۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہوا کرتے تھے۔ اسی لئے جمہور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے۔ ہاں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم۔ کہتے ہیں کہ حضرت لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسح اس کا غلام نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں ؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا یہی کہ پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو۔ زبان بیہودہ باتوں سے روک لو۔ مال حلال کھایاکرو۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ زبان سے سچ بات بولا کرو۔ وعدے کو پورا کیا کرو۔ مہمان کی عزت کرو۔ پڑوسی کا خیال رکھو۔ بےفائدہ کاموں کو چھوڑ دو ۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے۔ ابو داؤد (رض) فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں۔ وہ خوش اخلاق خاموش غور و فکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غور و فکر اور عبرت و نصیحت حاصل کریں۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔ حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پُر حکمت برسادی گئی اور رگ وپے میں حکمت بھر دی گئی۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنا دیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھا جاتا۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا۔ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم۔ حضرت قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے۔ حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے۔ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر۔ شکر گذار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلا کرتا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے (وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ 44ۙ ) 30 ۔ الروم :44) نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بےپرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بےنیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔