اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِى النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِى الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَۖ كُلٌّ يَّجْرِىْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں؟ اُس نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں، اور (کیا تم نہیں جانتے) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے
English Sahih:
Do you not see [i.e., know] that Allah causes the night to enter the day and causes the day to enter the night and has subjected the sun and the moon, each running [its course] for a specified term, and that Allah, of whatever you do, is Aware?
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں؟ اُس نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں، اور (کیا تم نہیں جانتے) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اے سننے والے کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ رات لاتا ہے دن کے حصے میں اور دن کرتا ہے رات کے حصے میں اور اس نے سورج اور چاند کام میں لگائے ہر ایک ایک مقرر میعاد تک چلتا ہے اور یہ کہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے،
احمد علی Ahmed Ali
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ الله رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور سورج اور چاند کو کام پر لگا رکھا ہے ہر ایک وقت مقرر تک چلتا رہے گا اور یہ کہ الله تمہارے کام سے خبردار ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے (١) سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے (٢) اللہ تعالٰی ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے۔
٢٩۔١ یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کر دیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کر دیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔
٢٩۔٢ ' مقررہ وقت تک ' سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا۔ دوسرا مطلب ہے کہ ایک متعینہ منزل تک، یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لیے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آکر ٹھہر جاتا ہے ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے میں نے کہا اللہ اور کے رسول خوب جانتے ہیں فرمایا اس کی آخری منزل عرش الہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر وہاں سے نکلنے کی اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے تو جہاں سے آیا ہے وہی لوٹ جا۔ تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا جیسا کہ قرب قیامت کی علامات میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہوجاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور (وہی) دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اُسی نے سورج اور چاند کو (تمہارے) زیر فرمان کر رکھا ہے۔ ہر ایک ایک وقتِ مقرر تک چل رہا ہے اور یہ کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے، سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے ہر ایک مقرره وقت تک چلتا رہے، اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک (اپنے مدار میں) چل رہا ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے چاند اور سورج کو لَسخّر کردیا ہے کہ سب ایک معیّن مدّت تک چلتے رہیں گے اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اﷲ رات کو دن میں داخل فرماتا ہے اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور (اسی نے) سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے، ہر کوئی ایک مقرّر میعاد تک چل رہا ہے، اور یہ کہ اﷲ ان (تمام) کاموں سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
اس کے سامنے پر چیز حقیر وپست ہے
رات کو کچھ گھٹا کر دن کو کچھ بڑھانے والا اور دن کو کچھ گھٹاکر رات کو کچھ بڑھانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جاڑوں کے دن چھوٹے اور راتیں بڑی گرمیوں کے دن بڑے اور راتیں چھوٹی اسی کی قدرت کا ظہور ہے سورج چاند اسی کے تحت فرمان ہیں۔ جو جگہ مقرر ہے وہیں چلتے ہیں قیامت تک برابر اسی چال چلتے رہیں گے اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے دریافت کیا کہ جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں، آپ نے فرمایا یہ جاکر اللہ کے عرش کے نیچے سجدے میں گرپڑتا ہے اور اپنے رب سے اجازت چاہتا ہے قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ سورج بمنزلہ ساقیہ کے ہے دن کو اپنے دوران میں جاری رہتا ہے غروب ہو کر رات کو پھر زمین کے نیچے گردش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اپنی مشرق سے ہی طلوع ہوتا ہے۔ اسی طرح چاند بھی۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے جیسے فرمان ہے کیا تو نہیں جانتا کہ زمین آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کے علم میں ہے سب کا خالق سب کا عالم اللہ ہی ہے جیسے ارشاد ہے اللہ نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کے مثال زمینیں بنائیں۔ یہ نشانیاں پروردگار عالم اس لئے ظاہر فرماتا ہے کہ تم ان سے اللہ کے حق وجود پر ایمان لاؤ اور اسکے سوا سب کو باطل مانو۔ وہ سب سے بےنیاز اور بےپرواہ ہے سب کے سب اس کے محتاج اور اس کے در کے فقیر ہیں۔ سب اس کی مخلوق اور اس کے غلام ہیں۔ کسی کو ایک ذرے کے حرکت میں لانے کی قدرت نہیں۔ گو ساری مخلوق مل کر ارادہ کرلے کہ ایک مکھی پیدا کریں سب عاجز آجائیں گے اور ہرگز اتنی قدرت بھی نہ پائیں گے۔ وہ سب سے بلند ہے جس پر کوئی چیز نہیں۔ وہ سب سے بڑا ہے جس کے سامنے کسی کو کوئی بڑائی نہیں۔ ہر چیز اس کے سامنے حقیر اور پست ہے۔