لقمان آية ۳۱
اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِىْ فِى الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ لِيُرِيَكُمْ مِّنْ اٰيٰتِهٖۗ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
طاہر القادری:
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اﷲ کی نعمت سے چلتی ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھا دے۔ بیشک اس میں ہر بڑے صابر و شاکر کے لئے نشانیاں ہیں،
English Sahih:
Do you not see that ships sail through the sea by the favor of Allah that He may show you of His signs? Indeed in that are signs for everyone patient and grateful.
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے؟ در حقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو
2 Ahmed Raza Khan
کیا تو نے نہ دیکھا کہ کشتی دریا میں چلتی ہے، اللہ کے فضل سے تاکہ تمہیں وہ اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبر کرنے والے شکرگزار کو
3 Ahmed Ali
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ الله ہی کے فضل سے دریا میں کشتیاں چلتی ہیں تاکہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے بے شک اس میں ہر ایک صابر شاکر کےلیے نشانیاں ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے، (١) یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے (٢) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔
٣١۔١ یعنی سمندر میں کشتیوں کا چلنا، یہ بھی اس کے لطف و کرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت تسخیر کا ایک نمونہ ہے، اس نے ہوا اور پانی کو ایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں،
ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہو جائے۔
٣١۔٢ تکلیفوں میں صبر کرنے والے، راحت اور خوشی میں اللہ کا شکر کرنے والے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی کی مہربانی سے کشتیاں دریا میں چلتی ہیں۔ تاکہ وہ تم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے۔ بیشک اس میں ہر صبر کرنے والے (اور) شکر کرنے والے کے لئے نشانیاں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وه تمہیں اپنی نشانیاں دکھاوے، یقیناً اس میں ہر ایک صبر وشکر کرنے والے کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ محض اللہ کے فضل سے سمندر میں کشتی چلتی ہے۔ تاکہ وہ تمہیں اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں دکھائے۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر بہت صبر و شکر کرنے والے کیلئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ نعمت خدا ہی سے کشتیاں دریا میں چل رہی ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھلائے کہ اس میں تمام صبر و شکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی کی مہربانی سے کشتیاں دریا میں چلتی ہیں تاکہ وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے بیشک اس میں ہر صبر کرنے والے (اور) شکر کرنے والے کے لئے نشانیاں ہیں
آیت نمبر 31 تا 34
ترجمہ : کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چلتی رہتی ہیں تاکہ اے مخاطبو ! اس کے ذریعہ تم کو اپنی (قدرت) کی نشانیاں دکھا دے یقیناً اس میں اللہ کی معصیت سے ہر صبر کرنے والے اور اس کی نعمتوں کا شکر کرنے والے کے لئے عبرت کی نشانیاں ہیں اور جب ان پر یعنی کفار پر موجیں ایسے پہاڑوں کے مانند چھا جاتی ہیں جو ہر اس شئ پر جو اس کے زیر سایہ
آجائے سایہ فگن ہوجائیں، تو نہایت خالص اعتقاد کے ساتھ اللہ ہی سے دعاء کرنے لگتے ہیں کہ ان کو (غرق) سے نجات دے یعنی (اس وقت) اس کے ساتھ غیر اللہ کو نہیں پکارتے پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچا دیتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں یعنی کفر اور ایمان کی درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں اور بعض اپنے کفر ہی پر باقی رہ جاتے ہیں اور ہماری تعمتوں کا اور ان میں (دریائی) موجوں سے نجات دینا بھی ہے صرف وہی انکار کرتے ہیں جو بدعہد اور اللہ کی نعمتوں کے ناشکرے ہوتے ہیں، اے لوگو ! مکہ والو ! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کو اس دن کچھ بھی فائدہ پہنچاسکے گا، یقین مانو اللہ کا بعث کا وعدہ حق کے بارے میں دھوکے میں ڈالے بلاشبہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم کہ کب واقع ہوگی، اور وہی بارش نازل کرتا اس وقت میں جس کو وہ جانتا ہے، ینزل تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے اور اس کو بھی جانتا ہے جو رحم مادر میں ہوتا ہے آیا لڑکی ہے یا لڑکا ؟ اور تینوں میں سے ایک کو بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا خیر یا شر اللہ اس کو جانتا ہے اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ وہ کہاں مرے گا اور اللہ کو معلوم ہے بلا شبہ اللہ کو ہر شئ کا علم ہے (اور وہ) ہر شئ کے باطن سے اسی طرح واقف ہے جس طرح ظاہر سے امام بخاری نے ابن عمر سے مفاتح الغیب خمسۃٌ والی حدیث روایت کی ہے اِنّ اللہ عندہ علم الساعۃ الیٰ آخر السورۃِ.
تحقیق و ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ : لاَ یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَلَدِہٖ وَلَا مَوْلُوْدٌ الخ مذکورہ دونوں جملے یومًا کی صفت ہیں اور عائد محذوف ہے جیسا کہ شارح نے فیہِ مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : وَلا مَوْلُوْدٌ یہ مبتداء اول ہے اور ھُو مبتداٰ ثانی ہے اور جازٍ مبتداء ثانی کی خبر ہے اور پھر جملہ ہو کر مبتداء اول کی خبر ہے۔
سوال : مولودٌ نکرہ ہے اس کا مبتداء بننا کس طرح درست ہے ؟
جواب : نکرہ جب تحت النفی داخل ہو تو اس کا مبتداء بننا درست ہوتا ہے، یہاں بھی مولودٌ، لانافیہ کے تحت داخل ہے۔
قولہ : شیئًا یہ تنازع فعلان کے قبیل سے ہے شیئًا میں یجزی اور جازَ نے مفعول بنانے میں تنازع کیا ثانی یعنی جاز کو عمل دے دیا اور اول یجزِی کے لئے مفعول محذوف مان لیا جیسا کہ شارح (رح) تعالیٰ نے شیئًا محذوف مان کر اشارہ کردیا۔
قولہ : غَرُوْر صیغۂ صفت ہے دھوکا دینے والا، جھوٹی امید دلانے والا، شیطان۔
قولہ : باللہ باسببیہ ہے اور مضاف محذوف ہے ای بسبب حلم اللہ جیسا کہ شارح نے حذف مضاف کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : اِنّ اللہَ عندہٗ علم الساعۃ یہ آیت حارث بن عمرو کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
قولہ : وینزل الغیث اس کا عطف عندہٗ علم الساعۃ پر ہے کو کہ اِنّ کی خبر ہے۔ قولہ : بوقتٍ ای فی وقتٍ.
قولہ : واحدًا یہ لا یَعْلَمُ لا مفعول مقدم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور غیر اللہ اس کا فاعل ہے۔
قولہ : مَا ذا یکسب غدًا ما استفہامیہ مبتداء ذا اسم موصول تَکْسِبُ غدًا صلہ موصول باصلہ مبتداء کی خبر۔
تفسیر وتشریح
الم۔۔۔ الفلک یہ خدا کی غالب قدرت اور غایت حکمت پر دوسرا استشہاد ہے، سمندروں میں کشتیوں کا چلنا یہ بھی اس کے لطف و کرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت و تسخیر کا ایک نمونہ ہے، اس نے ہوا اور پانی کو ایسے مناسب انداز سے رکھا ہے کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہوجائے، جب ان کی کشتیاں ایسی طغیانی والی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ ان کو اپنی گرفت میں لیتا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبودان کے دل و دماغ سے نکل جاتے ہیں، اور صرف ایک آسمانی معبود کو بڑے اخلاص و اعتقاد کے ساتھ پکارتے ہیں، جو واقعی اور حقیقی معبود ہے۔
شان نزول : فمنھم مقتصد بعض حضرات نے ” مقتصد “ کے معنی عہد کو پورا کرنے والا کرنے والا، کئے ہیں یعنی بعض لوگ ایمان، توحید اور اطاعت کے عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج و گرداب میں انہوں نے کیا تھا، ان کے نزدیک کلام میں حذف ہوگا، تقدیر کلام یہ ہوگی، فمنھم مقتصد ومنھم کافر (تو ان میں سے بعض مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں) خازن میں ہے کہ مذکورہ آیت حضرت عکرمہ بن ابی جہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس کا مختصر واقعہ اس طرح ہے کہ فتح مکہ کے دن عکرمہ ڈر کے مارے دریا کی طرف بھاگ گئے تھے، اور ایک کشتی میں سوار ہو کر فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ اچانک کشتی گرداب میں پھنس گئی، نجات کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اس وقت عکرمہ نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس مصیبت سے نجات دیدی تو میں مکہ جاکر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہاتھ دیدوں گا، چناچہ ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی ختم ہوگئی اور کشتی گرداب سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئی۔ چناچہ عکرمہ مکہ آئے اور اسلام قبول کرلیا اور بہت خوب اسلام قبول کیا، مذکورہ آیت میں حضرت عکرمہ کو مقتصد یعنی عہد کو پورا وعدہ کرنے والا کہا گیا ہے، اور بعض مفسرین نے مقتصد کے معنی اعتدال پر رہنے والا، کے کئے ہیں یعنی اتنے ہولناک حالات اور وہاں قدرت خداوندی کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے، اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے عرق ہونے سے نجات دی، انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت و اطاعت نہیں کرتا اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جبکہ وہ حالات جن سے یہ گذر کر آیا ہے مکمل بندگی کا تقاضہ کرتے ہیں، نہ کہ اعتدال کا، شارح جلالین علامہ محلی نے دوسرے مفہوم کو اختیار کیا ہے، مگر سیاق وسباق کے اعتبار سے پہلا مفہوم راجح ہے، اگر مفسرعلام کی تفسیر متوسط کے بجائے معتدل سے کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔
واخشوا۔۔۔ ولدہ (الآیۃ) یعنی اس دن سے اندیشہ کرو کہ جس دن نہ بیٹا باپ کے کام آئے گا اور نہ باپ بیٹے کے، یہاں پاب بیٹوں سے وہ مراد ہیں کہ ایک مومن ہو اور دوسرا کافر، ورنہ تو مومن باپ بیٹے ایک دوسرے کے کام آئیں گے، اس لئے کہ حدیث میں اس بات کی سراحت موجود ہے کہ اولاد والدین کے اور والدین اولاد کے کام آئیں گے، قرآن کریم میں بھی اس کی صراحت موجود ہے وَالَّذِیْنَ آمنوْا وَ اتَّبَعَتْھُمْ ذریتُھُمْ بایمَان الحقنا بھم ذریتھُمْ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان میں ان کے تابع ہوئی تو ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے صالحین ماں باپ کے درجہ میں پہنچادیں گے اگرچہ ان کے اپنے اعمال اس درجہ کے قابل
نہ ہوں مگر شرط اس میں یہی ہے کہ اولاد مومن ہوا اگرچہ عمل میں کچھ کوتاہی ہوئی ہو۔
اِنَّ اللہ عندہٗ علم الساعۃ (الآیۃ) حدیث شریف میں آیا ہے کہ پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، (صحیح بخاری، تفسیر سورة لقمان) قرب قیامت کی علامات قریبہ و بعیدہ تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی ہیں، لیکن (١) قیامت کے وقوع کا یقینی علم کسی کو نہیں نہ کسی فرشتے کو نبی مرسل کو، (٢) بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، آثار و علامات سے تخمینہ تو لگایا جاسکتا ہے، مگر یہ تخمینے کبھی صحیح ثابت ہوتے ہیں اور کبھی غلط حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے جس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ بارش کا صحیح اور یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، (٣) رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاہد ممکن ہو کہ بچہ ہے یا بچی ؟ لیکن رحم مادر میں نشو و نما پانے والا نیک بخت، ہے یا بدبخت ناقص ہوگا یا کامل، خوبرو ہوگا یا بدشکل وغیرہ ان باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، (٤) انسان کل کیا کرے گا ؟ خواہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا آنے والے کل کے بارے میں کسی کو کچھ یقینی طور پر معلوم نہیں کہ کل کا دن آئے گا یا نہیں، اور وہ کل کیا کچھ کرے گا ؟ یہ سب پردۂ غیب میں ہے (٥) موت کہاں آئے گی ؟ گھر میں یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں یا بڑھاپے میں کسی کو معلوم نہیں۔
تم بحمداللہ
10 Tafsir as-Saadi
کیا تو نے اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی رحمت اور اپنے بندوں پر اس کی عنایت کے آثار نہیں دیکھے؟ اس نے سمندر کو مسخر کیا جس میں اس کے حکم قدری اور اس کے لطف و احسان سے کشتیاں چلتی ہیں۔ ﴿ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ﴾ ” تاکہ وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے۔“ ان نشانیوں میں نفع اور عبرت ہے۔ ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ﴾ ”بے شک اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔“ پس یہ وہ لوگ ہیں جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ ہر تکلیف پر صبر کرتے ہیں اور خوشی پر شکر کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو چھوڑ کر اس کی اطاعت پر صبر کرتے ہیں۔ وہ اس کی قضا و قدر پر صبر کرتے اور اس کی دینی اور دنیاوی نعمتوں پر اس کا شکر کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney nahi dekha kay kashtiyan samandar mein Allah ki meharbani say chalti hain , takay woh tumhen apni kuch nishaniyan dikhaye-? yaqeenan iss mein her uss shaks kay liye boht si nishaniyan hain jo sabar ka paka , aalaa darjay ka shukar guzaar ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
طوفان میں کون یاد آتا ہے ؟
اللہ کے حکم سے سمندروں میں جہاز رانی ہو رہی ہے اگر وہ پانی میں کشتی کو تھامنے کی اور کشتی میں پانی کو کاٹنے کی قوت نہ رکھتا تو پانی میں کشتیاں کیسے چلتیں ؟ وہ تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھارہا ہے مصیبت میں صبر اور راحت میں شکر کرنے والے ان سے بہت کچھ عبرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔ جب ان کفار کو سمندروں میں موجیں گھیر لیتی ہیں اور ان کی کشتی ڈگمگانے لگتی ہیں اور موجیں پہاڑوں کی طرح ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر کشتیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگتی ہیں تو اپنا شرک کفر سب بھول جاتے ہیں اور گریہ وزاری سے ایک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ 67) 17 ۔ الإسراء :67) ، دریا میں جب تمہیں ضرر پہنچتا ہے تو بجز اللہ کے سب کو کھو بیٹھتے ہو۔ اور آیت میں ہے ( فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَ 65ۙ ) 29 ۔ العنکبوت :65) ان کی اس وقت کی لجاجت پر اگر ہمیں رحم آگیا ہو اور جب انہیں سمندر سے پار کردیا تو تھوڑے سے کافر ہوجاتے ہیں۔ مجاہد نے یہی تفیسر کی ہے جیسے فرمان ہے آیت (اذاھم یشرکون) لفظی معنی یہ ہیں کہ ان میں سے بعض متوسط درجے کے ہوتے ہیں ابن زید یہی کہتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت (فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ 32ۭ ) 35 ۔ فاطر :32) ان میں سے بعض ظالم ہیں بعض میانہ رو ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ جس نے ایسی حالت دیکھی ہو جو اس مصیبت سے نکلا ہو اسے تو چاہے کہ نیکیوں میں پوری طرح کوشش کرے لیکن تاہم یہ بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں اور کچھ تو پھر کفر پر چلے جاتے ہیں۔ ختار کہتے ہیں غدار کو جو عہد شکن ہو۔ ختر کے معنی پوری عہد شکنی کے ہیں۔ کفور کہتے ہیں منکر کو جو نعمتوں سے نٹ جائے منکر ہوجائے شکر تو ایک طرف بھول جائے اور ذکر بھی نہ کرے۔