اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے،
English Sahih:
And of the people is he who buys the amusement of speech to mislead [others] from the way of Allah without knowledge and who takes it [i.e., His way] in ridicule. Those will have a humiliating punishment.
1 Abul A'ala Maududi
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں بے سمجھے اور اسے ہنسی بنالیں، ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے،
3 Ahmed Ali
اور بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بن سمجھے الله کی راہ سے بہکائیں اور اس کی ہنسی اڑائیں ایسے لوگو ں کے لیے ذلت کا عذاب ہے
4 Ahsanul Bayan
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں (۱) کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں (۲) یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (۳)۔
٦۔١ اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لغوالحدیث سے مراد گانا بجانا، اس کا سازوسامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بےحیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔ ٦۔۲ان تمام چیزوں سے یقینا انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ ٦۔٢ ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ (لوگوں کو) بےسمجھے خدا کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا
6 Muhammad Junagarhi
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے واﻻ عذاب ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا بے ہودہ کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے جو مہمل باتوں کو خریدتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ بغیر سمجھے بوجھے لوگوں کو راسِ خدا سے گمراہ کرے اور آیااُ الہٰیہ کا مذاق اڑائے درحقیقت ایسے ہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بےہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ (لوگوں کو) بےسمجھے خدا کے راستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزا کرے یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن﴾ ” اور لوگوں میں سے جو“ اللہ تعالیٰ کی تائید سے محروم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے ﴿ يَشْتَرِي﴾ ” خریدتا ہے“ یعنی جو اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو اس میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ﴿ لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾ ” لغو باتیں“ یعنی دلوں کو غافل کرنے اور ان کو جلیل القدر مقاصد سے روکنے والے قصے کہانیاں۔ اس آیت کریمہ میں ہر محرم کلام، ہر قسم کی لغویات، ہر قسم کے باطل ہذیانی اقوال جو کفر و فسوق اور عصیان کی ترغیب دیتے ہیں، ان لوگوں کے نظریات جو حق کو ٹھکراتے ہیں اور باطل دلائل کے ساتھ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جھگڑتے ہیں، غیبت، چغلی، جھوٹ، سب و شتم، شیطانی گانا بجانا اور غفلت میں مبتلا کرنے والے قصے کہانیاں، جن کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں، داخل ہیں۔ لوگوں کی یہ صنف ہدایت کی باتوں کو چھوڑ کر کھیل تماشوں پر مشتمل قصے کہانیاں خریدتی ہے۔ ﴿لِيُضِلَّ﴾ تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ﴿عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” بغیر علم کے اللہ کی راہ سے“ یعنی اپنے فعل میں خود گمراہی کا راستہ اختیار کرکے دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس کا گمراہ کرنے کا عمل خود اس کی اپنی گمراہی سے جنم لیتا ہے۔ اس کا اس لہو الحدیث سے گمراہ کرنے سے مراد فائدہ مند بات، عمل نافع، حق مبین اور صراط مستقیم سے روکنا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک اس کے لیے تکمیل نہیں پاتا جب تک کہ وہ ہدایت اور حق میں (جسے اللہ تعالیٰ کی آیات لے کر آئی ہیں) جرح و قدح نہیں کرتا اور اللہ کی آیات کا مذاق نہیں اڑاتا یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور ان کو لانے والے کا تمسخر اڑاتا ہے۔ جب ایسے شخص میں باطل کی مدح، اس کی ترغیب، حق میں جرح و قدح، حق اور اہل حق کے ساتھ استہزاء و تمسخر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو وہ بے علم آدمی کو گمراہ کرتا ہے اور اسے ایسی بات بیان کرکے دھوکا دیتا ہے، جس میں گمراہ شخص امتیاز کرسکتا ہے نہ اس کی حقیقت معلوم کرسکتا ہے ﴿ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ ” ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے“ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ استہزا کیا اور واضح حق کی تکذیب کی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur kuch log woh hain jo Allah say ghafil kernay wali baaton kay khareedaar bantay hain , takay unn kay zariye logon ko bey samjhay boojhay Allah kay raastay say bhatkayen , aur uss ka mazaq urayen . inn logon ko woh azab hoga jo zaleel ker kay rakh dey ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
لہو و لعب موسیقی اور لغو باتیں اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں چناچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔ ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔ یہی قول حضرت ابن عباس، جابر، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب، علی بن بذیمہ کا ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے۔ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے چناچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خریدو فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن زید کو ضعیف کہا ہے۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم۔ ضحاک کا قول ہے کہ مراد اس سے شرک ہے امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت ہوتی ہے۔ ایک قرأت میں لیضل ہے تو لام لام عاقبت ہوگا یا لام عیل ہوگا۔ یعنی امرتقدیری ان کی اس کارگزاری سے ہو کر رہے گا۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنالیتے ہیں۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہوگی اور خطرناک عذاب میں ذلیل و رسوا ہونگے۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ یہ نانصیب جو کھیل تماشوں باجوں گاجوں پر راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے۔ یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کرلیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ سن بھی لیتا ہے تو بےسنی کردیتا ہے۔ بلکہ انکا سننا اسے ناگوار گذرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لئے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتا وہ تو ان سے محض بےپرواہ ہے۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے تو قیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے۔