اور جبکہ اُن میں سے ایک گروہ کہنے لگا: اے اہلِ یثرب! تمہارے (بحفاظت) ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں رہی، تم واپس (گھروں کو) چلے جاؤ، اور ان میں سے ایک گروہ نبی (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے ہوئے (واپس جانے کی) اجازت مانگنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں، حالانکہ وہ کھلے نہ تھے، وہ (اس بہانے سے) صرف فرار چاہتے تھے،
English Sahih:
And when a faction of them said, "O people of Yathrib, there is no stability for you [here], so return [home]." And a party of them asked permission of the Prophet, saying, "Indeed, our houses are exposed [i.e., unprotected]," while they were not exposed. They did not intend except to flee.
1 Abul A'ala Maududi
جب اُن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ "اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو" جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ "ہمارے گھر خطرے میں ہیں،" حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے، دراصل وہ (محاذ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے مدینہ والو! یہاں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں تم گھروں کو واپس چلو اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اذن مانگتا تھا یہ کہہ کر ہمارے گھر بے حفاظت ہیں، اور وہ بے حفاظت نہ تھے، وہ تو نہ چاہتے تھے مگر بھاگنا،
3 Ahmed Ali
اورجب کہ ان میں سے ایک جماعت کہنے لگی اے مدینہ والو! تمہارے لیے ٹھیرنے کا موقع نہیں سو لوٹ چلو اور ان میں سے کچھ لوگ نبی سے رخصت مانگنے لگے کہنے لگے کہ ہمارے گھر اکیلے ہیں اور حالانکہ وہ اکیلے نہ تھے وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے
4 Ahsanul Bayan
ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو تمہارے لئے ٹھکانا نہیں چلو لوٹ چلو (١) اور ان کی ایک جماعت یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگنے لگی ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں (٢) حالانکہ وہ (کھلے ہوئے اور) غیر محفوظ نہ تھے (لیکن) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا (٣)۔
١٣۔١ یثرب اس پورے علاقے کا نام تھا، مدینہ اسی کا ایک حصہ تھا، جسے یہاں یثرب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یثرب اس لیے پڑا کہ کسی زمانے میں عمالقہ میں سے کسی نے یہاں پڑاؤ کیا تھا جس کا نام یثرب بن عمیل تھا۔ ١٣۔۲یعنی مسلمانوں کے لشکر میں رہنا سخت خطرناک ہے، اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ۔ ١٣۔۳ یعنی بنو قریظہ کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے یوں اہل خانہ کی جان مال اور آبرو کا خطرے میں ہے۔ ١٣۔٣ یعنی جو خطرہ وہ ظاہر کر رہے ہیں، نہیں ہے وہ اس بہانے سے راہ فرار چاہتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب اُن میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ (یہاں) تمہارے ٹھہرنے کا مقام نہیں تو لوٹ چلو۔ اور ایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے اور کہنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے۔ وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے
6 Muhammad Junagarhi
ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو! تمہارے لئے ٹھکانہ نہیں چلو لوٹ چلو، اور ان کی ایک اور جماعت یہ کہہ کر نبی ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں، حاﻻنکہ وه (کھلے ہوئے اور) غیر محفوظ نہ تھے (لیکن) ان کا پختہ اراده بھاگ کھڑے ہونے کا تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ وقت یاد کرو جب ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا کہ اے یثرب والو! اب (یہاں) تمہارے ٹھہرنے کا موقع نہیں ہے سو واپس چلو اور ان میں سے ایک گروہ یہ کہہ کر پیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ہمارے گھر خالی (غیر محفوظ) ہیں حالانکہ وہ خالی (غیر محفوظ) نہیں تھے وہ تو صرف (محاذ سے) بھاگنا چاہتے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ان کے ایک گروہ نے کہہ دیا کہ مدینہ والو اب یہاں ٹھکانا نہیں ہے لہذا واپس بھاگ چلو اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ہمارے گھر خالی پڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ گھر خالی نہیں تھے بلکہ یہ لوگ صرف بھاگنے کا ارادہ کررہے تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ (یہاں) تمہارے لئے (ٹھہرنے کا) مقام نہیں تو لوٹ چلو اور ایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے اور کہنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ﴾ ” اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی“ یعنی منافقین کی جماعت۔ وہ جزع فزع اور قلت صبر کے بعد ایسے لوگوں میں شامل ہوگئے جن کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے خود صبر کیا نہ اپنے شر کی بنا پر لوگوں کو چھوڑا، لہٰذا اس گروہ نے کہا : ﴿ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ ﴾ ” اے اہل یثرب !“ اس سے ان کی مراد اہل مدینہ تھے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کے نام کو چھوڑ کر وطن کے نام سے ان کو پکارا۔ یہ چیز اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کے دلوں میں دین اور اخوت ایمانی کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ جس چیز نے ان کو ایسا کہنے پر آمادہ کیا وہ ان کی طبعی بزدلی تھی۔ ﴿ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ﴾ ” اے اہل یثرب ! (یہاں) تمہارے لیے ٹھہرنے کا مقام نہیں۔“ یعنی اس جگہ جہاں تم مدینہ سے باہر نکلے ہو۔ ان کا محاذ مدینہ منورہ سے باہر اور خندق کے ایک طرف تھا۔ ﴿ فَارْجِعُوا ﴾ مدینے کی طرف لوٹ جاؤ، لہٰذا یہ گروہ جہاد سے علیحدہ ہو رہا تھا۔ ان پر واضح ہوگیا کہ ان میں دشمن کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں اور وہ انہیں لڑائی ترک کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہ گروہ بدترین اور سب سے زیادہ نقصان دہ گروہ تھا۔ ان کے علاوہ دوسرا گروہ وہ تھا جس کو بزدلی اور بھوک نے ستا رکھا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وہ صفوں سے کھسک کر چلے جائیں۔ انہوں نے مختلف قسم کے جھوٹے عذر پیش کرنا شروع کردیے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ ﴾ ” اور ان کی جماعت یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر کھلے ہوئے ہیں۔“ یعنی ہمارے گھر خطرے کی زد میں ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری عدم موجودگی میں دشمن ہمارے گھروں پر حملہ نہ کردے، اس لیے ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم واپس جاکر اپنے گھروں کی حفاظت کریں، حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے۔ ﴿ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا ﴾ ” حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے وہ تو صرف (جنگ سے) بھاگنا چاہتے ہیں۔“ یعنی ان کا قصد فرار کے سوا کچھ نہیں، مگر انہوں نے اس بات کو فرار کے لیے وسیلہ اور عذر بنالیا۔ ان لوگوں میں ایمان بہت کم ہے اور امتحان کی سختیوں کے وقت ان کے اندر ثابت قدمی اور استقامت نہیں رہتی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab unhi mein say kuch logon ney kaha tha kay : yasrab kay logo ! tumharay liye yahan thehrney ka koi moaqa nahi hai , bus wapis loat jao . aur unhi mein say kuch log nabi say yeh keh ker ( ghar janey ki ) ijazat maang rahey thay kay : humaray ghar ghair mehfooz hain halankay woh ghair mehfooz nahi thay , balkay unn ka maqsad sirf yeh tha kay ( kissi tarah ) bhag kharray hon .