الاحزاب آية ۴۵
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ۙ
طاہر القادری:
اے نبیِ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے،
English Sahih:
O Prophet, indeed We have sent you as a witness and a bringer of good tidings and a warner
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر
2 Ahmed Raza Khan
(اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا
3 Ahmed Ali
اے نبی ہم نے آپ کو بلاشبہ گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر ) گواہیاں دینے والا (١) خوشخبری سنانے والا بھیجا ہے۔
٤۵۔۱بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر و ناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کے اصل لفظ سے معنوی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی گواہی دیں گے، ان سے بھی جو آپ پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہچان لیں گے جو چمکتے ہونگے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر انبیاء علیہم السلام کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو احکام قرآنی کے خلاف ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے واﻻ، خوشخبریاں سنانے واﻻ، آگاه کرنے واﻻ بھیجا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی(ص)! ہم نے آپ کو (لوگوں کا) گواہ بنا کر اور (نیکوکاروں کو) خوشخبری دینے والا اور (بدکاروں کو) ڈرانے والا
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ, بشارت دینے والا, عذاب الہٰی سے ڈرانے والا
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
10 Tafsir as-Saadi
یہ صفات گرامی جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موصوف کیا ہے، آپ کی رسالت کا مقصود و مطلوب اور اس کی بنیاد ہیں، جن سے آپ کو مختص کیا گیا اور وہ پانچ چیزیں ہیں :
(1) ﴿شَاهِدًا ﴾ یعنی آپ کا اپنی امت کے اچھے اور برے اعمال پر گواہ ہونا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾ (البقرۃ : 2؍173) ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں۔“ اور فرمایا : ﴿ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هٰـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ (النساء :4؍41) ” پس کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کو بلائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ کے طور پر طلب کریں گے۔ “
(2،3) ﴿مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴾ یہ مُبَشَّر اور مُنْذَر کے ذکر کو، نیز جس چیز کی خوش خبری دی جائے اور جس سے ڈرایا جائے اور انذار و تبشیر والے اعمال کے ذکر کو مستلزم ہے۔ پس (اَلْمُبَشَّرُ) ” جس کو خوش خبری دی گئی ہو“ سے مراد اہل ایمان اور اہل تقویٰ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع اور معاصی کو ترک کیا ہے۔ ان کے لئے دنیا ہی میں ہرقسم کے دینی اور دنیاوی ثواب کی بشارت ہے جو ایمان اور تقویٰ پر مترتب ہوتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں۔ یہ سب کچھ اعمال کی تفاصیل تقویٰ کے خصائل اور ثواب کی اقسا م کے ذکر کو مستلزم ہے۔ (اَلْمُنْذَرُ) سے مراد مجرم، ظالم اور جاہل لوگ ہیں، جن کے لئے اس دنیا میں دینی اور دنیاوی عقوبات کے ذریعے سے ڈرانا ہے جو ظلم اور جہالت پر مترتب ہوتی ہیں اور آخرت میں ہمیشہ رہنے والا درد ناک عذاب ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کتاب و سنت لائے ہیں یہ جملہ تفاصیل اسی پر مشتمل ہیں۔
(4) ﴿ وَدَاعِيًا إِلَى اللّٰـهِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے مبعوث فرمایا تاکہ آپ مخلوق کو ان کے رب کی طرف دعوت دیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کا شوق پیدا کریں اور ان کو اس کی عبادت کا حکم دیں جس کے لئے ان کو تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ چیز ان امور پر استقامت کا تقاضا کرتی ہے جن کی دعوت دی گئی ہے اور یہ چیز ان کے اپنے رب کی، اس کی صفات مقدسہ کے ذریعے سے معرفت اور جو صفات اس کے جلال کے لائق نہیں ان صفات سے اس کی ذات مقدس کی تنزیہ جیسے امور کی تفاصیل کا تذکرہ ہے جن کی طرف انہیں دعوت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عبودیت کی مختلف انواع، قریب ترین راستے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے، ہر حقدار کو اس کا حق عطا کرنے کا ذکر کیا ہے، نیز اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ دعوت الی اللہ اپنے نفس کی تعظیم کے لئے نہ ہو بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہوجیسا کہ اس مقام پر بہت سے نفوس کو کبھی کبھی یہ عارضہ لاحق ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔
(٥) ﴿سِرَاجًا مُّنِيرًا﴾ روشن چراغ“ یہ لفظ دلالت کرتا ہے کہ تمام مخلوق بہت بڑی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی جہاں روشنی کی کوئی کرن نہ تھی جس سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی، نہ کوئی علم تھا کہ اس جہالت میں کوئی دلیل مل سکتی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تاریکیوں کا پردہ چاک کردیا، آپ کے ذریعے سے جہالتوں کے اندھیروں میں علم کی روشنی پھیلائی اور آپ کے ذریعے سے گمراہوں کو سیدھا راستہ دکھایا۔
پس اہل استقامت کے لئے راستہ واضح ہوگیا اور وہ اس راہنما صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چل پڑے۔ انہوں نے اس کے ذریعے سے خیر و شر، اہل سعادت اور اہل شقاوت کو پہچان لیا۔ انہوں نے اپنے رب کی معرفت کے لئے اس سے روشنی حاصل کی اور انہوں نے اپنے رب کو اس کے اوصاف حمیدہ، افعال سدیدہ اور احکام رشیدہ کے ذریعے سے پہچان لیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! beyshak hum ney tumhen aisa bana ker bheja hai kay tum gawahi denay walay , khushkhabri sunaney walay aur khabrdar kernay walay ho ,
12 Tafsir Ibn Kathir
تورات میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات۔
عطابن یسار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفتیں تورات میں کیا ہیں ؟ فرمایا جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں انہی میں بعض اوصاف آپ کے تورات میں بھی ہیں۔ تورات میں ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشی سنانے والا، ڈرانے والا امتیوں کو بچانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو بدگو اور فحش کلام نہیں ہے، نہ بازاروں میں شور مچانے والا۔ وہ برائی کے بدلے برائی نہیں کرتا بلکہ درگذر کرتا ہے۔ اور معاف فرماتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ قبض نہیں کرے گا۔ جب تک لوگوں کو ٹیڑھا کر دئیے ہوئے دین کو اس کی ذات سے بالکل سیدھا نہ کر دے اور وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں۔ جس سے اندھی آنکھیں روشن ہوجائیں۔ اور بہرے کان سننے والے بن جائیں۔ اور پردوں والے دلوں کے زنگ چھوٹ جائیں (بخاری) ابن ابی حاتم میں ہے حضرت وہیب بن منبہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت شعیا (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہوجاؤ، میں تمہاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گا۔ میں امیوں میں سے ایک نبی امی کو بھیجنے والا ہوں جو نہ بدخلق ہے نہ بد گو۔ نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا۔ اس قدر سکون و امن کا حامل ہے کہ اگر چراغ کے پاس سے بھی گذر جائے تو وہ نہ بجھے اور اگر بانسوں پر بھی چلے تو پیر کی چاپ نہ معلوم ہو۔ میں اسے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجوں گا۔ جو حق گو ہوگا اور میں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اور بہرے کانوں کو سننے والا کروں گا اور زنگ آلود دلوں کو صاف کر دوں گا۔ ہر بھلائی کی طرف اس کی ضمیر ہوگی۔ حکمت اس کی گویائی ہوگی۔ صدق و وفا اس کی عادت ہوگی۔ عفو درگذر اس کا خلق ہوگا۔ حق اس کی شریعت ہوگی۔ عدل اس کی سیرت ہوگی۔ ہدایت اس کی امام ہوگی اسلام اس کا دین ہوگا۔ احمد اس کا نام ہوگا۔ گمراہوں کو میں اس کی وجہ سے ہدایت دوں گا۔ جاہلوں کو اس کی بدولت علماء بنادوں گا۔ تنزل والوں کو ترقی پر پہنچا دوں گا۔ ان جانوں کو مشہور و معروف کر دوں گا۔ مختلف اور متضاد دلوں کو متفق اور متحد کر دوں گا۔ جداگانہ خواہشوں کو یکسو کر دوں گا۔ دنیا کو اس کی وجہ سے ہلاکت سے بچا لوں گا۔ تمام امتوں سے اس کی امت کو اعلیٰ اور افضل بنادوں گا۔ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے دنیا میں پیدا کئے جائیں گے۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ وہ موحد ہوں گے، مومن ہوں گے، اخلاص والے ہوں گے، رسولوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے سب کو سچ ماننے والے ہوں گے۔ وہ اپنی مسجدوں مجلسوں اور بستروں پر چلتے پھرتے بیٹھے اٹھتے میری تسبیح حمد و ثنا بزرگی اور بڑائی بیان کرتے رہیں گے۔ کھڑے اور بیٹھے نمازیں ادا کرتے رہیں گے۔ دشمنان اللہ سے صفیں باندھ کر حملہ کر کے جہاد کریں گے۔ ان میں سے ہزارہا لوگ میری رضامندی کی جستجو میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں گے۔ منہ ہاتھ وضو میں دھویا کریں گے۔ تہمد آدھی پنڈلی تک باندھیں گے۔ میری راہ میں قربانیاں دیں گے۔ میری کتاب ان کے سینوں میں ہوگی۔ راتوں کو عابد اور دنوں کو مجاہد ہوں گے۔ میں اس نبی کی اہل بیت اور اولاد میں سبقت کرنے والے صدیق شہید اور صالح لوگ پیدا کردوں گا۔ اس کی امت اس کے بعد دنیا کو حق کی ہدایت کرے گی، اور حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا۔ اور ان کو بلانے والوں کی مدد کروں گا۔ ان کے مخالفین اور ان کے باغی اور ان کے بدخواہوں پر میں برے دن لاؤں گا۔ میں انہیں ان کے نبی کے وارث کردوں گا۔ جو اپنے زب کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے، برائیوں سے روکیں گے، نماز ادا کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، وعدے پورے کریں گے، اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی تھی۔ یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں۔ اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں، ابن ابی خاتم میں ہے کہ آپ حضرت علی (رض) اور حضرت معاذ (رض) کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جب یہ آیت اتری تو آپ نے انہیں فرمایا جاؤ خوشخبریاں سنانا نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا سختی نہ کرنا، دیکھو مجھ پر یہ آیت اتری ہے۔ طبرانی میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھ پر یہ اترا ہے کہ اے نبی ہم نے تجھے تیری امت پر گواہ بنا کر جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قرآن کے ساتھ بنا کر بھیجا پس آپ اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں۔ اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے۔ جیسے ارشاد ہے (وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41ڲ) 4 ۔ النسآء :41) یعنی ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ اور آیت میں ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور تم پر یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہ ہیں۔ آپ مومنوں کو بہترین اجر کی بشارت سنانے والے اور کافروں کو بدترین عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں۔ اور چونکہ اللہ کا حکم ہے اس کی بجا آوری کے ماتحت آپ مخلوق کو خالق کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں۔ آپ کی سچائی اس طرح ظاہر ہے جیسے سورج کی روشنی۔ ہاں کوئی ضدی اڑ جائے تو اور بات ہے، اے نبی ! کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو نہ ان کی طرف کان لگاؤ اور ان سے درگذر کرو۔ یہ جو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں خیال میں بھی نہ لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ کرو وہ کافی ہے۔