الاحزاب آية ۵۳
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِىِّ اِلَّاۤ اَنْ يُّؤْذَنَ لَـكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰٮهُ وَلٰـكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَأْنِسِيْنَ لِحَـدِيْثٍ ۗ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِى النَّبِىَّ فَيَسْتَحْىٖ مِنْكُمْۖ وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْىٖ مِنَ الْحَـقِّ ۗ وَاِذَا سَاَ لْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔـــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۤءِ حِجَابٍ ۗ ذٰ لِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ۗ وَمَا كَانَ لَـكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَلَاۤ اَنْ تَـنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا ۗ اِنَّ ذٰ لِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمًا
طاہر القادری:
اے ایمان والو! نبیِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہوجایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقیناً تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِ (اکرم) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطّہرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لئے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد ابَد تک اُن کی اَزواجِ (مطّہرات) سے نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہے،
English Sahih:
O you who have believed, do not enter the houses of the Prophet except when you are permitted for a meal, without awaiting its readiness. But when you are invited, then enter; and when you have eaten, disperse without seeking to remain for conversation. Indeed, that [behavior] was troubling the Prophet, and he is shy of [dismissing] you. But Allah is not shy of the truth. And when you ask [his wives] for something, ask them from behind a partition. That is purer for your hearts and their hearts. And it is not [conceivable or lawful] for you to harm the Messenger of Allah or to marry his wives after him, ever. Indeed, that would be in the sight of Allah an enormity.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا، اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو، اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کی اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت کہ تمہیں کھانے کےلئے اجازت دی جائے نہ اس کی تیاری کا انتظام کرتے ہوئے لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہو پھر جب تم کھا چکو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں کے لیے جم کر نہ بیٹھو کیوں کہ اس سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتا ہے اور حق بات کہنے سے الله شرم نہیں کرتا اور جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو اس میں تمہارے اوران کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی ہے اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم رسول الله کو ایذا دو اور نہ یہ کہ تم اپ کی بیویوں سے آپ کے بعد کبھی بھی نکاح کرو بے شک یہ الله کےنزدیک بڑا گناہ ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم بنی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا (١) جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو (۲) تمہارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی یہی ہے (۳) اور نہ تمہیں جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو (٤) اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ (۵)
٥٣۔١ اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر حضرت زینب کے ولیمے میں صحابہ کرام تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص تکلیف ہوئی، تاہم حیا اور اخلاق کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جانے کے لئے نہ کہا (صحیح بخاری) چنانچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلا دیئے گئے کہ ایک تو اس وقت جاؤ جب کھانا تیار ہوچکا ہو پہلے سے ہی جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ دوسرا، کھاتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ وہاں بیٹھے ہوئے باتیں مت کرتے رہو۔ کھانے کا ذکر تو سبب نزول کی وجہ سے ہے ورنہ ملطب یہ ہے کہ جب بھی تمہیں بلایا جائے چاہے کھانے کے لیے یا کسی اور کام کے لیے اجازت کے بغیر گھر کے اندر داخل مت ہو۔
٥٣۔٢ یہ حکم حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کی خواہش پر نازل ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں کاش آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں تو کیا اچھا ہو جس پر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا (صحیح بخاری)
۵۳۔۳ یہ پردے کی حکمت اور علت ہے کہ اس سے مرد اور عورت کے دل ریب و شک سے ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔
۵۳۔٤چا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے بغیر گھر میں بیٹھے رہنا اور بغیر حجاب کے ازواج مطہرات سے گفتگو کرنا یہ امور بھی ایذا کے باعث ہیں ان سے بھی اجتناب کرو۔
۵۳۔۲یہ حکم ان ازواج مطہرات کے بارے میں ہے جو وفات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالہ عقد میں تھیں۔ تاہم جن کو آپ نے ہم بستری کے بعد زندگی میں طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کردیا ہو وہ اس کے عموم میں داخل ہیں یا نہیں؟ اس میں دو رائے ہیں۔ بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں لیکن آپ کی ایسی کوئی بیوی تھی ہی نہیں اس لیے یہ محض ایک فرضی شکل ہے علاوہ ازیں ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ کا نکاح ہوا لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ نے طلاق دے دی دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں (تفسیر ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھاچکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔ یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے۔ اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کہتے نہیں ہیں) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا۔ اور جب پیغمبروں کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو۔ بےشک یہ خدا کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو۔ نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے۔ تو وه لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا، جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے، نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ (یاد رکھو) اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا (گناه) ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! نبی(ص) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ مگر جب تمہیں کھانے کیلئے (اندر آنے کی) اجازت دی جائے (اور) نہ ہی اس کے پکنے کا انتظار (نبی(ص) کے گھر میں بیٹھ کر کیا) کرو۔ لیکن جب تمہیں بلایا جائے تو (عین وقت پر) اندر داخل ہو جاؤ پھر جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور دل بہلانے کیلئے باتوں میں نہ لگے رہو کیونکہ تمہاری باتیں نبی(ص) کو اذیت پہنچاتی ہیں مگر وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کچھ نہیں کہتے) اور اللہ حق بات (کہنے سے) نہیں شرماتا اور جب تم ان (ازواجِ نبی(ص)) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ (طریقۂ کار) تمہارے دلوں کیلئے اور ان کے دلوں کیلئے پاکیزگی کا زیادہ باعث ہے اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم رسولِ(ص) خدا کو اذیت پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو بیشک یہ بات اللہ کے نزدیک بہت بڑی (برائی گناہ کی) بات ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے تھے (اور کہتے نہیں تھے) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو یہ تمہارے اور انکے (دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے) اور تم کو یہ شایان نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ انکی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو بیشک یہ خدا کے نزدیک بڑا گناہ (کا کام) ہے
آیت نمبر 53 تا 58
ترجمہ : اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں (بلابلائے) مت جایا کرو مگر یہ کہ تم کو کھانے کے لئے دعوت کے طور پر آنے کی اجازت دیدی جائے تو اس طرح داخل ہوسکتے ہو کہ کھانے کی تیاری کے منتظر نہ رہو، اِنیٰ ، اَنیٰ یَانِی کا مصدر ہے، لیکن جب تم کو بلایا جائے تب جاتا کرو پھر جب کھانے سے فارغ ہوجاؤ تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور آپس میں باتوں میں دلچسپی لیکر بیٹھے نہ رہا کرو بلاشبہ اس بیٹھے رہنے سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے سو وہ تم کو چلے جانے کے لئے کہنے کے بارے میں تمہارا لحاظ کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ بیان حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا یعنی حق بیان کرنے کو ترک نہیں کرتا، اور ایک قراءت میں یَسْتَحِیْ ایک یاء کے ساتھ بھی ہے، جب تم ان سے یعنی نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے باہر سے طلب کرو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی مشتبہ خیالات سے پاکیزگی ہے اوت تمہارے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ کسی طرح بھی اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ تمہارے لئے یہ حلال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کبھی بھی آپ کی ازواج کے بارے میں، اللہ تعالیٰ ہر شئ سے بخوبی واقف ہے وہ اس پر تم کو ضرور بدلہ دے گا، اور ازواج مطہرات پر اپنے باپوں کے بارے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے بارے میں اور نہ اپنے بھائیوں کے بارے میں اور نہ اپنے بھتیجوں کے بارے میں، اور نہ بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں یعنی مومنات کے بارے میں اور نہ اپنے مملوکوں کے بارے میں خواہ وہ باندی ہوں یا غلام کوئی حرج نہیں یہ کہ ان کو دیکھیں اور بغیر حجاب کے ان سے باتیں کریں، اور جس بات کا تم کو حکم دیا گیا ہے اس میں اللہ سے ڈرتی رہو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا نگراں ہے، اس سے کوئی شئ مخفی نہیں بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمت بھجتے ہیں اے ایمان والو ! تم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درودبھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو یعنی اللّٰھُمَّ صلِّ علیٰ محمدٍ وَسَلِّمْ کہا کرو بلا شبہ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اور وہ کفار ہیں اللہ کے لئے ایسی صفات ثابت کرتے ہیں جن سے وہ پاک ہے یعنی اولاد سے اور شرک سے اور اس کے رسول کی تکذیب کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے ان کو رحمت سے دور کردیا ہے اور ان کے لئے اہانت آمیز عذاب تیار کررکھا ہے، اور وہ آگ ہے، جو مومنین اور مومنات کو بلا وجہ تکلیف پہنچاتے ہیں یعنی ان کے بغیر کچھ کئے طعنہ زنی کرتے ہیں تو وہ بہتان یعنی جھوٹ اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اِلَّا اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ یہ عموم احوال سے استثناء ہے ای لا تَدْخلو ھا فی حال من الا حوال الّا حال کو نکم ماذونالکم .
قولہ : الیٰ طعام کا تعلق، یُؤْذَنُ کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے یُؤْذَنُ سے ہے، شارح (رح) تعالیٰ نے بالدعاء کا اضافہ یہ بتانے کے لئے کیا ہے کہ یُؤْذن یُدْعون کے معنی کو متضمن ہے ورنہ یُؤْذَنُ کا صلہ الیٰ نہیں آتا اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت ولیمۂ زینب حجش (رض) کے بارے میں نازل ہوئی، واقعہ کی تفصیل تفسیر کے زیر عنوان ملاحظہ فرمائیں۔
قولہ : اِناہُ . اَنیٰ یانِی کا مصدر ہے بروزن رَمٰی یَرْمِیْ پکنا، تیار ہونا اَنِیٰ بالفتح والکسریہ انایانِی (ض) کا مصدر ہے، معنی پکنے اور وقت آنے کے ہیں، اِنیٰ مصدر قیاسی اَنیٰ ہے لیکن یہ سنا نہیں گیا۔ (اعراب القرآن، للدرویش)
قولہ : فَانتشِروا اِذَا طَعِمْتُمْ کا جواب ہے۔
قولہ : وَلاَ مُسْتَاْنِسِیٌنَ کا عطف غیر ناظرینَ پر ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ حال مقدر پر عطف ہے ای لا تَدْخُلوھا ھا جِمِیْنَ وَلَا مُسْتَانِسِیْنَ زمخشری نے کہا ہے کہ مستانسین، ناظرین پر معطوف ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔
قولہ : لا یستحْی کی تفسیر لا یترک سے کرکے اشارہ کردیا کہ یستحی بمعنی لا یترک ہے جو کہ لازم معنی ہیں اس لئے کہ حیا کی نسبت اللہ کی طرف درست نہیں ہے۔
قولہ : ذَالِکُمْ اَطْھَرُ ، ذلِکُمْ لا مرجع بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا، اور باتوں میں دلچسپی لیکر جم کر نہ بیٹھ رہنا، اور پردے کے باہر سے سامان طلب کرنا ہے، یعنی مذکورہ باتیں تہمت اور شیطانی وساوس کے دفع کرنے کے لئے بہت مفید و مؤثر ہیں۔
قولہ : مَا کان لَکُمْ ای ما صَحَْ لکم اَنْ تُؤ ذُوا، اَنْ تؤذوا کان کا اسم ہے اور لَکُمْ اس کی خبر اور وَاَنْ تَنْکِحُوْا کا عطف کان کے اسم پر ہے۔
قولہ : اَنْ یَرَوْھُنَّ وَیُکَلِّمُوْھُنَّ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ فِی آبائھِنَّ ولا اَبْنَائِھِنَّ (الخ) حذف مضاف کے ساتھ ہیں، یعنی ان لوگوں کو دیکھنے اور ان سے کلام کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
قولہ : وَاتَّقِیْنَ اللہ اس کا عطف محذوف پر ہے اَی اِمْتَثِلْنَ مَا اُمِرْتُنَّ بہ وَاتَّقِیْنَ اللہ۔
قولہ : صلوٰۃ اس کے متعدد معنی ہیں، رحمت، دعاء، تعظیم وثناء ان کو بیک وقت مراد لینا عموم مشترک کہلاتا ہے بعض حضرات کے یہاں یہ جائز نہیں ہے اس لئے یہ کہا جائے گا کہ لفظ صلوۃ کے اس جگہ ایک ہی معنی مراد ہیں یعنی آپ کی تعظیم اور مدح وثناء پھر جب یہ معنی اللہ کیطرف منسوب ہوں تو رحمت مراد ہوگی اور فرشتوں کی طرف منسوب ہوں تو دعاء و استغفار مراد ہوگی اور اگر عام مومنین کی طرف منسوب ہوں تو دعاء اور مدح و تعظیم کا مجموعہ مراد ہوگا، لفظ سلام مصدر ہے بمعنی سلامت جیسے ملام بمعنی ملامت مستعمل ہوتا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ نقائص و عیوب اور آفات سے سلامتی آپ کے ساتھ رہے، عربی زبان کے قاعدے سے یہاں حرف علی کا موقع نہیں چونکہ سلام ثناء کے معنی کو متضمن ہے اس لئے حرف علیٰ کے ساتھ علیک یا علیکم کہا جاتا ہے۔
تفسیر وتشریح
شان نزول : یٰایھا۔۔۔ النبی (الآیۃ) اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر حضرت زینب (رض) بنت حجش کے ولیمے میں صحابہ کرام (رض) تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بھی بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوئی، تاہم حیا واخلاق کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں جانے کے لئے نہیں فرمایا، حضرت انس (رض) کی صحیح بخاری کی روایت میں واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ چونکہ میں اس واقعہ کے وقت خود موجود تھا اس لئے آیت حجاب کی حقیقت سے میں زیادہ واقف ہوں، جب حضرت زینب (رض) نکاح کے بعد حرم نبوی میں داخل ہوئیں تو آپ نے ولیمے کی دعوت کی، کھانے کے بعد کچھ لوگ وہیں جم کر باتیں کرنے لگے، ترمذی کی روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وہیں تشریف رکھتے تھے، اور حضرت زینب (رض) بھی اسی جگہ موجود تھیں جو حیاء کی وجہ سے دیوار کی طرف اپنا رخ پھیرے ہوئے بیٹھی تھیں، یہ نزول حجاب سے پہلے کی بات ہے جبکہ زنانہ مکانوں میں مردوں کے داخل ہونے پر پابندی نہیں تھی بلکہ دعوت وغیرہ کا انتظام زنا نخانہ میں ہی ہوتا تھا، ان لوگوں کے اس طرح دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوئی آپ ان لوگوں کو اٹھنے کا اشارہ دینے کے طور پر باہرنکلے اور حضرت عائشہ (رض) کے گھر تشریف لے گئے یہ خیال کرکے کہ اب شاید لوگ چلے گئے ہوں گے واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں آپ کو اس کا بہت احساس ہوا، تھوڑی دیر گھر میں قیام کے بعد پھر باہر تشریف لے گئے، کچھ دیر کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے تو وہ حضرات بدستور ڈٹے تھے، جب ان حضرات کو احساس ہوا تو اٹھ کر چلے گئے، اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد مذکورہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے پڑھ کر سنائی، چناچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلائے گئے ہیں، ایک تو یہ کہ اس وقت جاؤ جب کھانا تیار ہوچکا ہو، پہلے جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ، دوسرے یہ کہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو چلے جایا کرو۔
آیت حجاب : اذا۔۔۔ متاعًا (الآیۃ) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ آیت حجاب حضرت عمر (رض)
کی خواہش کے مطابق نازل ہوئی، ایک حضرت عمر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، یارسول اللہ آپ کے پاس اچھے برے ہر قسم کے آدمی آتے ہیں، کاش آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم فرمادیں تو کیا اچھا ہو، جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ نازل فرمائی۔
ما۔۔۔ قلوبھن یہ پردے کی حکمت اور علت ہے اس سے مراد اور عورت دونوں کے دل ریب وشک سے اور ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔
ما۔۔۔ ابدًا اور تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو (یادرکھو) اللہ کے نزدیک یہ بڑا (گناہ) ہے یہ حکم ان ازواج کے بارے میں ہے جو آپ کی وفات کے بات آپ کے حبالۂ عقد میں تھیں، البتہ وہ عورتیں جن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمبستری کے بعد طلاق دیکر الگ کردیا ہو، وہ اس کے عموم میں دخل ہیں یا نہیں ؟ اس میں دورائے ہیں بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں، لیکن آپ کی کوئی ایسی بیوی تھی ہی نہیں، اس لئے یہ محض ایک فرضی شکل ہے، ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کیا ہو لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ نے طلاق دے دی ان سے دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
ولا۔۔۔ ابدا میں ظاہر اور ازواج کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مدخولہ سے بھی نکاح صحیح نہیں ہے کہ مستعیذہ (پناہ چاہنے والی بنت جون) اور وہ بیوی کہ آپ نے اس کے پہلو میں سفید داغ دیکھا تو ہم بستری سے قبل ہی فرمایا اِلْحَقِیْ بِاَھْلِکِ امام الحرمین اور رافعی نے صغیر میں اس بات کو صحیح قرار دیا ہے کہ حرمت صرف مدخول بہا کی ہے، اس لئے کہ روایت کیا گیا ہے کہ اشعث بن کندی نے مستعیذہ (پناہ چاہنے والی بنت جون) سے حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں نکاح کیا تھا تو حضرت عمر (رض) نے ان کو رجم کرنے کا ارادہ کیا تو اشعت بن قیس نے بتایا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدخول بہا نہیں ہے، تو حضرت عمر (رض) نے بلا کسی نکیر کے رجم کا ارادہ ملتوی کردیا۔ (روح المعانی)
لا۔۔۔ آبائھن (الآیۃ) جب عورتوں کیلئے پردے کا حکم نازل ہوا تو پھر گھر میں موجود اقارب یا ہر وقت آنے جانیوالے رشتہ داروں کی بابت سوال ہوا کہ ان سے پردہ کیا جائے یا نہیں ؟ چناچہ اس آیت میں ان اقارب کا ذکر کردیا گیا جن سے پردے کی ضرورت نہیں، اس کی تفصیل سورة نور کی آیت ٣١ میں گذر چکی ہے ملاحظہ کرلیا جائے۔
واتقین۔۔۔ شھیدا اس مقام پر عورتوں کو تقویٰ کا حکم دے کر واضح کردیا کہ اگر تمہارے دلوں میں تقویٰ ہوگا تو پردے کا جو اصل مقصد قلب و نظر کی طہارت اور عصمت کی حفاظت ہے یقیناً وہ تم کو حاصل ہوگا، ورنہ حجاب کی ظاہری پابندیاں تمہیں گناہ میں ملوث ہونے سے نہیں بچاسکتیں۔
انسداد فواحش کا اسلامی نظام : فواحش، بدکاری، زنا اور اس کے مقدمات دنیا کی ان مہلک برائیوں میں سے جن کے مہلک
اثرات صرف اشخاص وافراد ہی کو نہیں بلکہ قبائل اور خاندانوں کو اور بعض اوقات بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کردیتے ہیں۔ دنیا کے
اس موجودہ دور میں مغربی اقوام نے اپنی مذہبی حدود اور قدیم قومی روایات سب کو توڑ کر زنا کو اپنی ذات میں کوئی جرم نہیں رکھا، اور تمدن و معاشرت کو ایسے سانچے میں ڈھال دیا ہے جن میں ہر قدم پر جنسی انارکی اور فواحش کو دعوت عام ہے، مگر ان کے ثمرات اور نتائج کو وہ بھی جرائم سے خارج نہ کرسکے، عصمت فروشی، زنا بالجبر، منظر عام پر فحش حرکات کو تعزیری جرم قرار دینا پڑا۔ جس کی مثال اس کے سوا کچھ نہیں کہ کوئی شخص آگ لگانے کے لئے سوختہ کا ذخیرہ جمع کرے، پھر اس پر تیل چھڑکے، پھر اس میں آگ لگا دے اور جب آگ کے شعلے بھڑکنے لگیں تو ان شعلوں پر پابندی اور روکنے کی کوشش کرے۔ اس کے بر خلاف اسلام نے جن چیزوں کو جرم اور انسانیت کے لئے مضر سمجھ کو قابل سزا جرم قرار دیا ہے انکے مقدمات اور مبادیات پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ان کو ممنوع قرار دیا ہے، مثلاً اصل مقصد زنا اور بدکاری سے بچانا تھا، تو زنا کی پیش بندی کے طور پر نظریں نیچی رکھنے کے قانون سے ابتداء کی، عورتوں اور مردوں کے نے محابا اختلاط کو روکا، اور عورتوں کو چہار دیواری میں رہنے کی تاکید کی، اور اگر ضرورت کے وقت نکلنا پڑے تو پردے اور حجاب کے ساتھ سڑک کے ایک کنارے چلنے کی ہدایت کی خوشبو لگا کر یا بجنے والا زیور پہن کر نکلنے کی ممانعت کردی، اس کے باوجود اگر کوئی شخص ان تمام حدود وقیود اور پابندیوں کے حصار کو پھاند کر باہر نکل جائے تو اس پر ایسی عبرتناک اور عبرت آموز سزا جاری کی کہ ایک مرتبہ کسی بدکردار پر جاری کردی جائے تو پوری قوم کو مکمل سبق مل جائے۔
اہل مغرب اور ان کے مقلدین نے اپنی فحاشی اور عیاشی کے جواز میں عورتوں کے پردے کو عورتوں کی صحت اور اقتصادی اور معاشی حیثیت سے معاشرہ کے لئے مضر ثابت کرنے اور بےپردہ رہنے کے فوائد پر بحثیں اور سیمینار کئے ہیں، اس کا جواب بہت سے علماء عصر نے بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اس کے متعلق یہاں اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ فائدہ اور نفع سے تو کوئی جرم اور گناہ بھی خالی نہیں، چوری، ڈاکہ، دھوکہ، فریب ایک اعتبار سے بڑا نفع بخش کاروبار ہے، مگر جب اس کے ثمرات و نتائج میں پیدا ہونے والی مضرتیں سامنے آتی ہیں تو کوئی شخص ان کو نفع بخش کاروبار کہنے کی جرأت نہیں کرتا بےپردگی میں اگر کچھ معاشی فوائد ہوں بھی مگر جب پورے ملک اور قوم کو ہزاروں فتنہ و فساد میں مبتلا کردے تو پھر اس کو نافع کہنا کسی دانشمند کا کام نہیں ہوسکتا۔
روس کے سابق صدر میخائیل گوربہ چوف اپنی کتاب پروسٹاٹیکا میں رقمطراز ہیں : ” ہماری مغربی سوسائٹی میں عورت کو باہر نکال دیا گیا، اور اس کو باہر نکالنے کے نتیجے میں نے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد بھی حاصل کئے اور پیداوار میں کچھ اضافہ بھی ہوا، اس لئے کہ عورتیں بھی کام کررہی ہیں، اور مرد بھی کام کررہے ہیں، لیکن پیداوار میں اضافہ کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا خانہ داری یعنی فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور فیملی سسٹم تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصان اٹھانا پڑا ہے، وہ نقصان ان فوائد کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے جو پیداوار کے اضافہ کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوا ہے، لہٰذا میں اپنے ملک میں پروسٹاٹیکا کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں، اس سے میرا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے اس کو گھر میں واپس کیسے لایا جائے، اور اس کے طریقے سوچے جائیں، ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوا ہے اسی طرح ہماری قوم بھی تباہ ہوجائے گی۔ (ترمیم واختصار کے ساتھ، اصلاحی خطبات، از مولانا تقی صاحب عثمانی) ۔
انسداد جرائم کے لئے انسداد ذرائع کا زرّین اصول : سابقہ شریعتوں میں اسباب و ذرائع کو مطلقاً حرام نہیں قرار دیا گیا تھا جب تک کہ ان کے ذریعہ کوئی جرم واقع نہ ہوجائے، شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ قیامت تک رہنے والی شریعت ہے اس لئے جرائم و معاصی کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اسباب و ذرائع کو بھی حرام قرار دیدیا گیا جو عادت غالبہ کے طور پر ان جرائم تک پہنچانے والے ہیں، مثلاً شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا تو شراب کے بنانے، بیچنے، خریدنے، اور کسی کو دینے اور اس کی تیاری میں کسی بھی قسم کی براہ راست مدد کو بھی حرام قرار دیدیا گیا، اسی طرح سود کو حرام قرار دینا تھا تو سود سے ملتے جلتے معاملات کو بھی ناجائز قرار دیدیا گیا، شرک اور بت پت پرستی کو قرآن نے ظلم عظیم اور ناقابل معافی جرم قرار دیا، تو اس کے اسباب و ذرائع پر بھی سخت پابندی لگادی، آفتاب کے طلوع، غروب اور وسط میں ہونے کے اوقات میں چونکہ مشرکین آفتاب کی پرستش کرتے تھے، اگر اب اوقات میں نماز پڑھی جاتی تو آفتاب پرستوں کے ساتھ ایک طرح کی مشابہت ہوجاتی، پھر یہ مشابہت شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بن سکتی تھی، اس لئے شریعت نے ان اوقات میں نماز اور سجدہ کو بھی حرام و ناجائز کردیا، اسی طرح بتوں کے مجسمے اور تصویریں چونکہ بت پرستی کا قریبی ذریعہ تھیں اس لئے بت تراشی اور تصویر سازی کو حرام قرار دے دیا۔
تنبیہ : شریعت اسلام نے جن کاموں کو گناہ کا سبب قریب درجۂ اول قرار دے کر حرام کردیا، اس کے حکم حرمت کے بعد وہ سب کیلئے مطلقاً حرام ہے خواہ ابتلاء گناہ کا سبب بنے یا نہ بنے، اب وہ خود ایک شرعی حکم ہے جس کی مخالفت حرام ہے۔ (معارف)
ان۔۔۔ النبی (الآیۃ) اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبہ اور منزلت کا بیان ہے جو ملاء اعلیٰ (آسمانوں) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ثناء و تعریف کرتا ہے، اور آپ پر رحمتیں بھیجتا ہے، اور فرشتے بھی آپ کی بلندئ درجات کی دعاء کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلیٰ (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ پر صلوٰۃ وسلام بھیجیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں علوی دونوں عالم متحد ہوجائیں، حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں، ہم درودکس طرح پڑھیں ؟ اس پر آپ نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة احزاب)
ان۔۔۔ ورسولہ اللہ کو ایذاء دینے کا مطلب ان افعال کا ارتکاب کرنا ہے جنہیں وہ ناپسند فرماتا ہے، ورنہ اللہ کو ایذاء پہنچانے پر کون قادر ہے ؟ جیسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں، یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانہ کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات اور دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة جاثیہ)
اللہ کے رسول کو ایذاء پہنچانے کا مطلب آپ کی تکذیب کرنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر، ساحر، مجنون وغیرہ کہنا ہے، اس کے
علاوہ بعض احادیث میں صحابہ کرام (رض) کو ایذا پہچانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہچانے اور ان کی تنقیص و اہانت کو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایذاء قرار دیا ہے، اور لغت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔
والذین۔۔۔ والمؤمنات (الآیۃ) یعنی ان کو بدنام کرنے کے لئے ان پر بہتان باندھنا ان کی تنقیص و توہین کرنا، جیسے روافض صحابہ کرام (رض) پر سب وشتم کرتے ہیں اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا، امام ابن کثیر (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں رافضی منکوس القلب ہیں، ممدوح اشخاص کی مذمت کرتے ہیں اور مذموم لوگوں کی
مدح کرتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہوتے وقت آپ کے آداب کا خیال رکھا کریں، لہٰذا فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ﴾ یعنی کھانے کے لئے داخلے کی اجازت کے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں داخل نہ ہوا کرو اور نہ تم ﴿نَاظِرِينَ إِنٰهُ﴾ کھانا تیار ہونے اور اس کے پکنے کا انتظار کیا کرو اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لوٹنے میں تاخیر نہ کیا کرو۔
اس کا معنی یہ ہے کہ تم دو شرائط کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہوا کرو :
(1) داخل ہونے کی اجازت ملنے کے بعد
(2) تمہارا آپ کے گھر میں بیٹھنا ضرورت کے مطابق ہو۔
اسی لئے فرمایا : ﴿وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ﴾ ” لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو۔“ یعنی کھانے سے پہلے یا بعد میں باتیں کرنے نہ لگ جاؤ۔ پھر اس ممانعت کی حکمت اور فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّ ذَٰلِكُمْ﴾ یعنی ضرورت سے زیادہ تمہارا وہاں انتظار کرنا ﴿كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ﴾ ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دیتا ہے‘‘ یعنی وہاں تمہارا بیٹھ کر آپ کو اپنے کام کاج اور دیگر معاملات سے روکے رکھنا، آپ پر شاق گزرتا ہے اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوتی ہے۔ ﴿فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ﴾ یعنی وہ شرم کی وجہ سے تمہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ جیسا کہ عادت جا ریہ ہے کہ لوگ۔۔۔ خاص طور پر شرفاء اور باوقار لوگ۔۔۔ لوگوں کو اپنے گھروں سے نکالتے ہوئے شرماتے ہیں ﴿وَ﴾ ” اور“ لیکن ﴿اللّٰـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ﴾ ” اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔“ شرعی معاملے میں اگر یہ تو ہم لاحق ہو کہ اس کے ترک کرنے میں ادب اور حیا ہے، تو کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ جو چیز شریعت کے خلاف ہے اس میں کوئی ادب نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ایسا حکم دینے سے نہیں شرماتا جس میں تمہارے لئے بھلائی اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نرمی ہو خواہ یہ حکم کیسا ہی کیوں نہ ہو۔
یہ تو تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور رہے آپ کی ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کے آداب، تو اس میں دو امور ہیں کہ آیا ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کی کوئی حقیقی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر بات چیت کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تو اس کو ترک کرنا ہی ادب ہے۔ اگر کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہے، جیسے ان سے کوئی چیز، مثلاً گھر کے برتن وغیرہ طلب کرنا، تو یہ چیزیں ان سے طلب کی جائیں ﴿مِن وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ ” پردہ کے پیچھے سے،“ یعنی تمہارے درمیان اور اوزاج مطہرات کے درمیان ایک پردہ حائل ہو، جو نظر پڑنے سے بچائے کیونکہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تو معلوم ہوا ازواج مطہرات کو دیکھنا ہر حال میں ممنوع ہے اور ان سے ہم کلام ہونے میں تفصیل ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دیا ہے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ ” یہ تمہارے اور انکے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے“ کیونکہ یہ طریقہ کسی قسم کے شہبے سے بعید تر ہے اور انسان شر کی طرف دعوت دینے والے اسباب سے جتنا دور رہے گا تو یہ چیز اس کے قلب کے لئے اتنی ہی زیادہ سلامتی اور پاکیزگی کا باعث ہوگی۔
بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام شرعی امور کی کثرت سے تفاصیل بیان کی ہیں، نیز یہ بھی واضح کیا ہے کہ برائی کے تمام وسائل، اسباب اور مقدمات ممنوع ہیں اور ہر طریقے سے ان سے دور رہنا مشروع ہے، پھر ایک جامع بات اور ایک عام قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَا كَانَ لَكُمْ﴾ اے مومنو ! تمہارے لائق ہے نہ یہ مستحسن ہے، بلکہ یہ قبیح ترین بات ہے ﴿أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللّٰـهِ﴾ ” کہ تم رسول اللہ کو تکلیف پہنچاؤ۔“ یعنی قول و فعل اور ان سے متعلق تمام امور کے ذریعے سے اذیت پہنچاؤ۔ ﴿وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا﴾ ” اور نہ (تمہارے لئے یہ حلال ہے کہ) آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔“ یہی چیز ان جملہ امور میں داخل ہے جن سے آپ کو اذیت پہنچتی ہے۔ بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعظیم اور رفعت و اکرام کے مقام کے حامل ہیں آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے نکاح کرنا، اس مقام کے منافی ہے، نیز ازواج مطہرات، دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں، زوجیت کا یہ رشتہ آپ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے اس لئے وہ آپ کی امت میں سے کسی کے لئے جائز نہیں۔ ﴿ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللّٰـهِ عَظِيمًا﴾ ” یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ کا کام) ہے۔“ امت مسلمہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے روکا تھا۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَ الشُّکْرُ
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! nabi kay gharon mein ( bila ijazat ) dakhil naa ho , illa yeh kay tumhen khaney per aaney ki ijazat dey di jaye , woh bhi iss tarah kay tum uss khaney ki tayyari kay intizar mein naa bethay raho , lekin jab tumhen dawat di jaye to jao , phir jab khana kha chuko to apni apni raah lo , aur baaton mein ji laga ker naa betho . haqeeqat yeh hai kay iss baat say nabi ko takleef phonchti hai , aur woh tum say ( kehtay huye ) sharmatay hain , aur Allah haq baat mein kissi say nahi sharmata . aur jab tumhen nabi ki biwiyon say kuch maangna ho to perday kay peechay say maango . yeh tareeqa tumharay dilon ko bhi aur unn kay dilon ko bhi ziyada pakeezah rakhney ka zariya hoga . aur tumharay liye jaeez nahi hai kay tum Allah kay Rasool ko takleef phonchao , aur naa yeh jaeez hai kay unn kay baad unn ki biwiyon say kabhi bhi nikah kero . yeh Allah kay nazdeek bari sangeen baat hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
احکامات پردہ۔
اس آیت میں پردے کا حکم ہے اور شرعی آداب و احکام کا بیان ہے۔ حضرت عمر (رض) کے قول کے مطابق جو آیتیں اتری ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔ بخاری مسلم میں آپ سے مروی ہے کہ تین باتیں میں نے کہیں جن کے مطابق ہی رب العالمین کے احکام نازل ہوئے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر آپ مقام ابراہیم کو قبلہ بنائیں تو بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم اترا کہ (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى\012\05 ) 2 ۔ البقرة :125) میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ گھر میں ہر کوئی یعنی چھوٹا بڑا آجائے آپ اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں تو اچھا ہو پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردے کا حکم نازل ہوا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات غیرت کی وجہ سے کچھ کہنے سننے لگیں تو میں نے کہا کسی غرور میں نہ رہنا اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دلوائے گا چناچہ یہی آیت قرآن میں نازل ہوئی۔ صحیح مسلم میں ایک چوتھی موافقت بھی مذکور ہے وہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ ہے اور روایت میں ہے سنہ 5 ھ ماہ ذی قعدہ میں جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب بنت جحش (رض) سے نکاح کیا ہے۔ جو نکاح خود اللہ تعالیٰ نے کرایا تھا اسی صبح کو پردے کی آیت نازل ہوئی ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں یہ واقعہ سن تین ہجری کا ہے۔ واللہ اعلم۔ صحیح بخاری شریف میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت زینب بنت جحش (رض) سے نکاح کیا تو لوگوں کی دعوت کی وہ کھا پی کر باتوں میں بیٹھے رہے آپ نے اٹھنے کی تیاری بھی کی۔ پھر بھی وہ نہ اٹھے یہ دیکھ کر آپ کھڑے ہوگئے آپ کے ساتھ ہی کچھ لوگ تو اٹھ کر چل دیئے لیکن پھر بھی تین شخص وہیں بیٹھے رہ گئے اور باتیں کرتے رہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ وہ ابھی تک باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ پھر لوٹ گئے۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو حضرت انس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی۔ اب آپ آئے گھر میں تشریف لے گئے حضرت انس فرماتے ہیں میں نے بھی جانا چاہا تو آپ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ کرلیا اور یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ حضور نے اس موقعہ پر گوشت روٹی کھلائی تھی اور حضرت انس کو بھیجا تھا کہ لوگوں کو بلا لائیں لوگ آتے تھے کھاتے تھے اور واپس جاتے تھے۔ جب ایک بھی ایسا نہ بچا کہ جیسے حضرت انس بلاتے تو آپ کو خبر دی آپ نے فرمایا اب دستر خوان بڑھا دو لوگ سب چلے گئے مگر تین شخص باتوں میں لگے رہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں سے نکل کر حضرت عائشہ کے پاس گئے اور فرمایا اسلام علیکم اہل البیست و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ انہوں نے جواب دیا وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ فرمایئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے۔ اسی طرح آپ اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور سب جگہ یہی باتیں ہوئیں۔ اب لوٹ کر جو آئے تو دیکھا کہ وہ تینوں صاحب اب تک گئے نہیں۔ چونکہ آپ میں شرم و حیا لحاظ و مروت بیحد تھا اس لئے آپ کچھ فرما نہ سکے اور پھر سے حضرت عائشہ کے حجرے کی طرف چلے اب نہ جانے میں نے خبر دی یا آپ کو خود خبردار کردیا گیا کہ وہ تینوں بھی چلے گئے ہیں تو آپ پھر آئے اور چوکھٹ میں ایک قدم رکھتے ہی آپ نے پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیت نازل ہوئی۔ ایک روایت میں بجائے تین شخصوں کے دو کا ذکر ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ کے کسی نئے نکاح پر حضرت ام سلیم نے مالیدہ بنا کر ایک برتن میں رکھ کر حضرت انس سے کہا اسے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچاؤ اور کہہ دینا کہ یہ تھوڑا سا تحفہ ہماری طرف سے قبول فرمایئے اور میرا سلام بھی کہہ دینا۔ اس وقت لوگ تھے بھی تنگی میں۔ میں نے جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا ام المومنین کا سلام پہنچایا اور پیغام بھی۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا اچھا اسے رکھ دو ۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا پھر فرمایا جاؤ فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ بہت سے لوگوں کے نام لئے اور پھر فرمایا ان کے علاوہ جو مسلمان مل جائے میں نے یہی کیا۔ جو ملا اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں کھانے کے لئے بھیجتا رہا واپس لوٹا تو دیکھا کہ گھر اور انگنائی اور بیٹھک سب لوگوں سے بھرے ہوئے ہے تقریباً تین سو آدمی جمع ہوگئے تھے اب مجھ سے آپ نے فرمایا آؤ وہ پیالہ اٹھا لاؤ میں لایا تو آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر دعا کی اور جو اللہ نے چاہا۔ آپ نے زبان سے کہا پھر فرمایا چلو دس دس آدمی حلقہ کر کے بیٹھ جاؤ اور ہر ایک بسم اللہ کہہ کر اپنے اپنے آگے سے کھانا شروع کرو۔ اسی طرح کھانا شروع ہوا اور سب کے سب کھاچکے تو آپ نے فرمایا پیالہ اٹھالو حضرت انس فرماتے ہیں میں نے پیالہ اٹھا کر دیکھا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت رکھا اس وقت اس میں زیادہ کھانا تھا یا اب ؟ چند لوگ آپ کے گھر میں ٹھہر گئے ان میں باتیں ہو رہی تھیں اور ام المومنین دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں ان کا اتنی دیر تک نہ ہٹنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شاق گذر رہا تھا لیکن شرم ولحاظ کی وجہ سے کچھ فرماتے نہ تھے اگر انہیں اس بات کا علم ہوجاتا تو وہ نکل جاتے لیکن وہ بےفکری سے بیٹھتے ہی رہے۔ آپ گھر سے نکل کر اور ازواج مطہرات کے حجروں کے پاس چلے گئے پھر واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ بھی سمجھ گئے بڑے نادم ہوئے اور جلدی سے نکل لئے آپ اندر بڑھے اور پردہ لٹکا دیا۔ میں بھی حجرے میں ہی تھا جب یہ آیت اتری اور آپ اس کی تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے سب سے پہلے اس آیت کو عورتوں نے سنا اور میں تو سب سے اول ان کا سننے والا ہوں۔ پہلے حضرت زینب کے پاس آپ کا مانگا لے جانے کی روایت آیت (فلما قضی زید) الخ، کی تفسیر میں گذر چکی ہے اس کے آخر میں بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر لوگوں کو نصیحت کی گئی اور ہاشم کی اس حدیث میں اس آیت کا بیان بھی ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ رات کے وقت ازواج مطہرات قضائے حاجت کے لئے جنگل کو جایا کرتی تھیں۔ حضرت عمر (رض) کو یہ پسند نہ تھا آپ فرمایا کرتے تھے کہ انہیں اس طرح نہ جانے دیجئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر توجہ نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ حضرت سودہ بنت زمعہ (رض) نکلیں تو چونکہ فاروق اعظم کی منشا یہ تھی کہ کسی طرح ازواج مطہرات کا یہ نکلنا بند ہو اس لئے انہیں ان کے قدو قامت کی وجہ سے پہچان کر با آواز بلند کہا کہ ہم نے تمہیں اے سودہ پہچان لیا۔ اس کے بعد پردے کی آیتیں اتریں۔ اس روایت میں یونہی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ نزول حجاب کے بعد کا ہے۔ چناچہ مسند احمد میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجاب کے حکم کے بعد حضرت سودہ نکلیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ اسی وقت واپس آگئیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ ایک ہڈی ہاتھ میں تھی آ کر واقعہ بیان کیا اسی وقت وحی نازل ہوئی جب ختم ہوئی اس وقت بھی ہڈی ہاتھ میں ہی تھی اسے چھوڑی ہی نہ تھی۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتوں کی بناء پر باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عادت سے روکتا ہے جو جاہلیت میں اور ابتداء اسلام میں ان میں تھی کہ بغیر اجازت دوسرے کے گھر میں چلے جانا۔ پس اللہ تعالیٰ اس امت کا اکرام کرتے ہوئے اسے یہ ادب سکھاتا ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون ہے کہ خبردار عورتوں کے پاس نہ جاؤ۔ پھر اللہ نے انہیں مستثنیٰ کرلیا جنہیں اجازت دے دی جائے۔ تو فرمایا مگر یہ کہ تمہیں اجازت دیجائے۔ کھانے کے لئے ایسے وقت پر نہ جاؤ کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو۔ مجاہد اور قتادہ فرماتے ہیں کہ کھانے کے پکنے اور اس کے تیار ہونے کے وقت ہی نہ پہنچو۔ جب سمجھا کہ کھانا تیار ہوگا۔ جا گھسے یہ خصلت اللہ کو پسند نہیں۔ یہ دلیل ہے طفیلی بننے کی حرمت پر۔ امام خطیب بغدادی نے اس کی مذمت میں پوری ایک کتاب لکھی ہے۔ پھر فرمایا جب بلائے جاؤ تم پھر جاؤ اور جب کھا چکو تو نکل جاؤ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ تم میں سے کسی کو جب اس کا بھائی بلائے تو اسے دعوت قبول کرنی چاہئے خواہ نکاح کی ہو یا کوئی اور اور حدیث میں ہے اگر مجھے فقط ایک کھر کی دعوت دی جائے تو بھی میں اسے قبول کروں گا۔ دستور دعوت بھی بیان فرمایا کہ جب کھا چکو تو اب میزبان کے ہاں چوکڑی مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ بلکہ وہاں سے چلے جاؤ۔ باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو۔ جیسے ان تین شخصوں نے کیا تھا۔ جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوئی لیکن شرمندگی اور لحاظ سے آپ کچھ نہ بولے، اسی طرح مطلب یہ بھی ہے کہ تمہارا بےاجازت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں چلے جانا آپ پر شاق گذرتا ہے لیکن آپ بوجہ شرم و حیا کے تم سے کہہ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف فرما رہا ہے کہ اب سے ایسا نہ کرنا۔ وہ حق حکم سے حیا نہیں کرتا۔ تمہیں جس طرح بےاجازت آپ کی بیویوں کے پاس جانا منع ہے اسی طرح ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی حرام ہے۔ اگر تمہیں ان سے کوئی ضروری چیز لینی دینی بھی ہو تو پس پردہ لین دین ہو۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ مالیدہ کھا رہے تھے حضرت عمر کو بھی بلا لیا آپ بھی کھانے بیٹھ گئے۔ حضرت صدیقہ پہلے ہی سے کھانے میں شریک تھیں حضرت عمر ازواج مطہرات کے پردے کی تمنا میں تھے کھاتے ہوئے انگلیوں سے انگلیاں لگ گئیں تو بےساختہ فرمانے لگے کاش کہ میری مان لی جاتی اور پردہ کرایا جاتا تو کسی کی نگاہ بھی نہ پڑتی اس وقت پردے کا حکم اترا۔ پھر پردے کی تعریف فرما رہا ہے کہ مردوں عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی کا یہ ذریعہ ہے۔ کسی شخص نے آپ کی کسی بیوی سے آپ کے بعد نکاح کرنے کا ارادہ کیا ہوگا اس آیت میں یہ حرام قرار دیا گیا۔ چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں زندگی میں اور جنت میں بھی آپ کی بیویاں ہیں اور جملہ مسلمانوں کی وہ مائیں ہیں اس لئے مسلمانوں پر ان سے نکاح کرنا محض حرام ہے۔ یہ حکم ان بیویوں کے لئے جو آپ کے گھر میں آپ کے انتقال کے وقت تھیں سب کے نزدیک اجماعاً ہے لیکن جس بیوی کو آپ نے اپنی زندگی میں طلاق دے دی اور اس سے میل ہوچکا ہو تو اس سے کوئی اور نکاح کرسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں دو مذہب میں اور جس سے دخول نہ کیا اور طلاق دے دی ہو اس سے دوسرے لوگ نکاح کرسکتے ہیں۔ قیلہ بنت اشعث بن قیس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت میں آگئی تھی آپ کے انتقال کے بعد اس نے عکرمہ بن ابو جہل سے نکاح کرلیا۔ حضرت ابوبکر پر یہ گراں گذرا لیکن حضرت عمر نے سمجھایا کہ اے خلیفہ رسول یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی نہ تھی نہ اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار دیا نہ اسے پردہ کا حکم دیا اور اس کی قوم کے ارتداد کے ساتھ ہیں اس کے ارتداد کی وجہ سے اللہ نے اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بری کردیا یہ سن کر حضرت صدیق کا اطمینان ہوگیا۔ پس ان دونوں باتوں کی برائی بیان فرماتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء دینا ان کی بیویوں سے ان کے بعد نکاح کرلینا یہ دونوں گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے ہیں، تمہاری پوشیدگیاں اور علانیہ باتیں سب اللہ پر ظاہر ہیں، اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔ آنکھوں کی خیانت کو، سینے میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے ارادوں کو وہ جانتا ہے۔