تو وہ کہنے لگے: اے ہمارے رب! ہماری منازلِ سفر کے درمیان فاصلے پیدا کر دے، اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں (عبرت کے) فسانے بنا دیا اور ہم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے منتشر کر دیا۔ بیشک اس میں بہت صابر اور نہایت شکر گزار شخص کے لئے نشانیاں ہیں،
English Sahih:
But [insolently] they said, "Our Lord, lengthen the distance between our journeys," and wronged themselves, so We made them narrations and dispersed them in total dispersion. Indeed in that are signs for everyone patient and grateful.
1 Abul A'ala Maududi
مگر انہوں نے کہا "اے ہمارے رب، ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کر دے" انہوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا آخرکار ہم نے انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انہیں بالکل تتربتر کر ڈالا یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو بڑا صابر و شاکر ہو
2 Ahmed Raza Khan
تو بولے اے ہمارے رب! ہمیں سفر میں دوری ڈال اور انہوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا تو ہم نے انہیں کہانیاں کردیا اور انہیں پوری پریشانی سے پراگندہ کردیا بیشک اس میں ضروری نشانیاں ہیں ہر بڑے صبر والے ہر بڑے شکر والے کے لیے
3 Ahmed Ali
پھر انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہماری منزلوں کو دور دور کردےا ور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا سو ہم نے انہیں کہانیاں بنا دیا اور ہم نے انہیں پورے طور پر پارہ پارہ کر دیا بے شک اس میں ہر ایک صبر شکرکرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں
4 Ahsanul Bayan
لیکن انہوں نے پھر کہا اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کر دے (۱) چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا اس لئے ہم نے انہیں (گذشتہ) افسانوں کی صورت میں کر دیا (۲) اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیئے (۳) بلاشبہ ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے اس (ماجرے) میں بہت سی عبرتیں ہیں۔
۱۹۔۱یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کردے مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان و ویران جنگلات اور صحراؤں سے ہمیں گزرنا پڑے گرمیوں میں دھوب کی شدت اور سردیوں میں بیخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔ ١٩۔۲ یعنی انہیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔ ١٩۔۳ یعنی انہیں متفرق اور منتشر کر دیا، چنانچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جا آباد ہوئے، کوئی یثرب و مکہ آگیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہی
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو انہوں نے دعا کی کہ اے پروردگار ہماری مسافتوں میں بُعد (اور طول پیدا) کردے اور (اس سے) انہوں نے اپنے حق میں ظلم کیا تو ہم نے (انہیں نابود کرکے) ان کے افسانے بنادیئے اور انہیں بالکل منتشر کردیا۔ اس میں ہر صابر وشاکر کے لئے نشانیاں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
لیکن انہوں نے پھر کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کردے چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا اس لئے ہم نے انہیں (گزشتہ) فسانوں کی صورت میں کردیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیئے۔ بلاشبہ ہر ایک صبروشکر کرنے والے کے لئے اس (ماجرے) میں بہت سی عبرتیں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(مگر) انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہمارے سفروں (ان کی مسافتوں) کو دور دراز کر دے اور (یہ کہہ کر) انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا سو ہم نے انہیں (برباد) کرکے افسانہ بنا دیا اور بالکل ٹکڑے ٹکڑے کر دیا بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر بہت صبر کرنے (اور) بہت شکر کرنے والے کیلئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو انہوں نے اس پر بھی یہ کہا کہ پروردگار ہمارے سفر دور دراز بنادے اوراس طرح اپنے نفس پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں کہانی بناکر چھوڑ دیا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ یقینا اس میں صبر و شکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں
9 Tafsir Jalalayn
تو انہوں نے دعا کی کہ اے پروردگار ہماری مسافتوں کے بعد (اور طول) پیدا کر دے اور (اس سے) انہوں نے اپنے حق میں ظلم کیا تو ہم نے (انہیں نابود کر کے) ان کے افسانے بنا دئیے اور انھیں بالکل منتشر کردیا اس میں ہر صابر و شاکر کے لئے نشانیاں ہیں
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کا انکار کر کے انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نعمت کے ذریعے سے، جس نے انہیں سرکش بنا دیا تھا، ان کو سزا دی کہ ان کے اس بند کو توڑ دینے والا منہ زور سیلاب بھیجا جس نے ان کے اس بند کو توڑ کر ان کے باغات کو تباہ کردیا۔ ان کے پھل دار درختوں والے یہ باغات جھاڑ جھنکار میں بدل گئے، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ﴾ ” اور ہم نے ان کو ان کے دو باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیے جن کے میوے“ یعنی بہت تھوڑا پھل جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا تھا ﴿خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ﴾ ” بد مزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں۔“ یہ سب معروف درخت ہیں۔ یہ سزا ان کے عمل کی جنس سے تھی یعنی جس طرح انہوں نے شکر حسن کو کفر قبیح میں بدل ڈالا سی طرح ان کی وہ نعمتیں بدل دی گئیں جن کا گزشتہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ﴾” یہ ہم نے انہیں ان کی ناشکری کی سزا دی اور ہم ناشکرے ہی کو سزا دیا کرتے ہیں۔“ یعنی ہم جزا کے طور پر عذاب۔۔۔ جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے۔۔۔ اس شخص کے سوا کسی اور کو نہیں دیتے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا ہو اور اس کی عطا کردہ نعمت پر اتراتا رہا ہو۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹ پڑا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئے جبکہ اس سے پہلے وہ اکٹھے تھے۔ ہم نے ان کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا۔ لوگ ان کے بارے میں دن رات گفتگو کرتے ہیں۔ وہ پراگندگی میں ضرب المثل بن گئے اور ان کی مثال دی جانے لگی، چنانچہ کہا جاتا ہے :(تَفَرَّقُوا اَیْدِیْ سَبأً) ” وہ ایسے بکھر گئے جیسے قوم سبا بکھر گئی تھی۔“ ہر شخص ان کے قصے بیان کرتا تھا، مگر عبرت سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ﴾ ” بلا شبہ اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر گزار بندے کے لئے نشانیاں ہیں۔“ ناپسندیدہ امور اور سختیوں پر صبر کرنے والا، جو ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برداشت کرتا ہے، ان پر ناراضی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ ان پر صبر کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار اور اعتراف کر کے اس پر اس کا شکر ادا کرتا ہے، منعم کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے اور اس نعمت کو اس کی اطاعت میں صرف کرتا ہے۔ جب ان کا قصہ سنا جاتا ہے کہ ان کے کرتوت کیا تھے اور ان کے ساتھ کیا گیا تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کو یہ سزا اس بنا پر دی گئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناسپاسی کی تھی، نیز یہ اس پر بھی دلیل ہے کہ جو کوئی اس قسم کا رویہ اختیار کرے گا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ (1) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ ’’شکر“ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی حفاظت اور اسی کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ (٢) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول اپنی خبر میں سچے ہیں۔ (٣) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ جزا حق ہے جیسا کہ اس کا نمونہ دنیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ سبا ایسی قوم ہے جس کی وجہ سے شیطان نے اپنا یہ دعویٰ سچ کر دکھایا جیسا کہ اس نے کہا تھا : ﴿قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ﴾ تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو بدر راہ کر کے رہوں گا، سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ “ یہ شیطان کا گمان تھا جو یقین پر مبنی نہ تھا کیونکہ شیاطن غیب کا علم جانتا ہے نہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خبر ہی آئی تھی کہ وہ ان سب کو بد راہ کرے گا سوائے ان مستثنیٰ لوگوں کے۔ پس یہ لوگ اور ان جیسے دیگر لوگ، جن کے بارے میں شیطان کا گمان سچا ثابت ہوا، اس نے ان کو اپنے راستے پر چلنے کی دعوت دی اور ان کو بہکایا﴿فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تو مومنوں کی ایک جماعت کے سوا وہ اس کے پیچھے چل پڑے۔“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری نہیں کی تو یہ لوگ ابلیس کے گمان میں داخل نہیں ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ قوم سبا کا قصہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر ختم ہوگیا ہو: ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ﴾ اور پھر اس آیت کر یمہ سے دوبارہ کلام کی ابتدا کی ہو ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور تحقیق شیطان نے ان کے بارے میں (اپنا گمان) سچ کر دکھایا“ یعنی تمام انسانوں کی جنس کے بارے میں تب یہ آیت کریمہ، ان تمام لوگوں کے بارے میں عام ہے جنہوں نے شیطان کی پیروی کی۔
11 Mufti Taqi Usmani
iss per woh kehney lagay kay : humaray perwerdigar ! humaray safar ki manzilon kay darmiyan door door kay faslay peda kerday aur yun unhon ney apni janon per sitam dhaaya , jiss kay nateejay mein hum ney unhen afsana hi afsana bana diya , aur unhen tukrray tukrray ker kay bilkul tittar-bittar kerdiya . yaqeenan iss waqaey mein her uss shaks kay liye bari nishaniyan hain jo sabar o shukar ka khoogar ho .