اور اس کی بارگاہ میں شفاعت نفع نہ دے گی سوائے جس کے حق میں اس نے اِذن دیا ہوگا، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جائے گی تو وہ (سوالاً) کہیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ (جواباً) کہیں گے: 'حق فرمایا' (یعنی اذن دے دیا)، وہی نہایت بلند، بہت بڑا ہے،
English Sahih:
And intercession does not benefit with Him except for one whom He permits. [And those wait] until, when terror is removed from their hearts, they will say [to one another], "What has your Lord said?" They will say, "The truth." And He is the Most High, the Grand.
1 Abul A'ala Maududi
اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجز اُس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو حتیٰ کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ (سفارش کرنے والوں سے) پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اس کے پاس شفاعت کام نہیں دیتی مگر جس کے لیے وہ اذن فرمائے، یہاں تک کہ جب اذن دے کر ان کے دلوں کی گھبراہٹ دور فرمادی جاتی ہے، ایک دوسرے سے کہتے ہیں تمہارے ربنے کیا ہی بات فرمائی، وہ کہتے ہیں جو فرمایا حق فرمایا اور وہی ہے بلند بڑائی والا،
3 Ahmed Ali
اور اس کے ہاں سفارش نفع نہ دے گی مگر اسی کو جس کے لیے وہ اجازت دے گا یہاں تک کہ جب ان کے دل سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں سچی بات فرمائی اوروہی عالیشان اور سب سے بڑا ہے
4 Ahsanul Bayan
شفاعت (شفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہو جائے (١) یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا (۲) اور وہ بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔
٢٣۔١ 'جن کے لئے اجازت ہو جائے ' کا مطلب ہے انبیاء اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کر سکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہوگی، نہ انہیں اجازت ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب ہے۔ مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیاء علیہم السلام و ملائکہ اور صالحین صرف انہیں کے حق میں سفارش کر سکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیونکہ اللہ کی طرف سے انہیں کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، کسی اور کے لئے نہیں (فتح القدیر) مطلب یہ ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لیے ہی کرسکیں گے کافر و مشرک اور اللہ کے باغیوں کے لیے نہیں قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرمادی ہے ۔(مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ) 2۔ البقرۃ;255) ( وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى) 21۔ الانبیاء;28)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
6 Muhammad Junagarhi
شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہوجائے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پرودگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وه بلند وباﻻ اور بہت بڑا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور نہ اس (اللہ) کے ہاں کوئی سفارش (کسی کو کوئی) فائدہ دے گی مگر اس کے حق میں جس کیلئے وہ اجازت دے گا (اور جس کو دے گا) یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جائے گی تو وہ پوچھیں گے کہ تمہارے پروردگار نے کیا کہا ہے؟ تو وہ کہیں گے کہ اس نے حق کہا ہے اور وہ بلند و بالا اور بزرگ و برتر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس کے یہاں کسی کی سفارش بھی کام آنے والی نہیں ہے مگر وہ جس کو وہ خود اجازت دیدے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں کی ہیبت دور کردی جائے گی تو پوچھیں گے کہ تمہارے پروردگار نے کیا کہا ہے تو وہ جواب دیں گے کہ جو کچھ کہا ہے حق کہا ہے اور وہ بلند و بالا اور بزرگ و برتر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا) ہے اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
10 Tafsir as-Saadi
باقی رہی شفاعت تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی نفی فرما دی، فرمایا : ﴿وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ﴾ ” اور اس کے ہاں سفارش فائدہ نہیں دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔“ یہ وہ تعلقات اور تمام امیدوں کو منقطع کردیا اور ان کے بطلان کو اچھی طرح واضح کر کے شرک کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ چونکہ مشرک غیر اللہ کی عبادت صرف اس لئے کرتا ہے کہ اسے غیر اللہ سے کسی نفع کی امید ہوتی ہے اور یہی امید شرک کی موجب ہوتی ہے تو جب یہ معلوم ہوجائے کہ وہ ہستی، جسے یہ اللہ کے سوا پکارتا ہے، کسی نفع و نقصان کی مالک ہے نہ مالک کی ملکیت میں شریک ہے، نہ اس کی معاون اور مددگار ہے اور نہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکتی ہے تو اس کا یہ پکارنا اور اس کی یہ عبادت عقل کے مطابق گمراہی اور شرع کے مطابق باطل ہے۔ اس کے برعکس مشرک کو اس سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ اس کے مقصود مطلوب کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔ مشرک ان خود ساختہ معبودوں کے ذریعے سے نفع چاہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس نفع کا بطلان اور اس کا معدوم ہونا واضح کردیا ہے اور بعض دیگر آیات میں ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنے والے کے لئے ان کے ضرر کو بیان کردیا ہے۔ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ قیامت کے روز یہ ایک دوسرے کا انکار کریں گے ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ فرمایا : ﴿وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾ (الاحقاف :46؍6) ’’اور جب تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ اپنی عبادت کرنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔“ بڑی عجیب بات ہے کہ مشرک آدمی تکبر و استکبار کی وجہ سے رسولوں کی اطاعت اس گمان سے نہیں کرتا کہ وہ بشر ہیں اور اس کا حال یہ ہے کہ وہ شجر و حجر کو پکارتا ہے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے، محض تکبر کی بنا پر رحمان کے لئے اخلاص نہیں رکھتا مگر اپنے بدترین دشمن شیطان کی اطاعت کرتے ہوئے ان ہستیوں کی عبادت پر راضی ہوجاتا ہے جن کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔ ﴿حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ ” حتیٰ کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ احتمال موجود ہے کہ اس مقام پر ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہو کیونکہ آیت کریمہ میں لفظاً وہی مذکور ہیں اور ضمائر کے بارے میں قاعدہ بھی یہی ہے کہ یہ اپنے قریب ترین مذکور کی طرف لوٹتی ہیں تب اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ قیامت کے روز جب مشرکین کی گھبراہٹ دور ہوگی اور انہیں ہوش آئے گا تو ان سے دنیا میں ان کے احوال کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حق لانے والے رسولوں کی تکذیب کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا تو وہ اقرار کریں گے کہ کفر اور شرک پر مبنی ان کا موقف باطل تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور انبیاء و مرسلین نے اس کے بارے میں خبر دی تھی وہی حق تھا۔ تو اس سے پہلے جو کچھ وہ چھپایا کرتے تھے سب ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گا اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حق تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ ﴿وَهُوَ الْعَلِيُّ﴾ وہ بذات تمام مخلوقات کے اوپر ہے، وہ ان پر غالب ہے اور وہ اپنی عظیم اور جلیل القادر صفات کی بنا پر عالی قدر ہے۔ ﴿الْكَبِيرُ﴾ وہ اپنی ذات و صفات میں بہت بڑا ہے۔ یہ اس کی بلندی ہے کہ اس کا حکم سب پر غالب ہے نفوس اس کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں حتیٰ کہ مشرکین و متکبرین کے نفوس بھی سرافگندہ ہیں۔ یہ معنی زیادہ واضح ہے اور یہی وہ معنی ہے جس پر سیاق کلام دلالت کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ضمیر ملائکہ کی طرف لوٹتی ہو، یعنی جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے کلام فرماتے ہیں اور فرشتے اسے سنتے ہیں تو وہ غش کھا کر سجدے میں گر جاتے ہیں، پھر سب سے پہلے جبریل سر اٹھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ جو ارادہ فرماتے ہیں اس کے بارے میں ان سے وحی کے ذریعے سے کلام کرتے ہیں۔ جب فرشتوں کی مدہوشی دور اور ان کی گھبراہٹ زائل ہوجاتی ہے تو وہ کلام الٰہی کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں جس کی بنا پر ان پر غشی طاری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حق ارشاد فرمایا : یہ بات وہ یا تو اجمالی طور پر کہتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے یا وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں بات ارشاد فرمائی ہے۔ یہ اس کلام کی وجہ سے کہتے ہیں جو انہوں نے اس سے سنا ہے اور یہ سب حق ہے۔ تب اس احتمال کے مطابق معنی یہ ہوگا کہ مشرکین جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کی جن کے عجز اور نقص کے بارے میں ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ وہ کسی بھی لحاظ سے کسی کو کوئی نفع نہیں دے سکتے تو ان کفار نے رب عظیم کی عبادت میں اخلاص سے کیسے انحراف کیا، جو بلند اور بہت بڑا ہے جس کی عظمت و جلال کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے مکرم اور مقرب فرشتے، اس کا کلام سن کر خشوع و خضوع کی بنا پر غش کھا کر گر پڑتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ ان مشرکین کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تکبر سے اس ہستی کی عبادت سے انکار کرتے ہیں جس کی عظمت، اقتدار، تسلط اور شان کا یہ حال ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے شرک اور ان کے کذب و بہتان طرازی سے بلند و بالا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur Allah kay samney koi sifarish kaar-aamad nahi hai , siwaye uss shaks kay jiss kay liye khud uss ney ( sifarish ki ) ijazat dey di ho , yahan tak kay jab unn kay dilon say ghabrahat door kerdi jati hai to woh kehtay hain kay : tumharay rab ney kiya farmaya-? woh jawab detay hain kay : haq baat irshad farmaee , aur wohi hai jo bara aalishaan hai .