اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس (وحی) پر جو اس سے پہلے اتر چکی، اور اگر آپ دیکھیں جب ظالم لوگ اپنے رب کے حضور کھڑے کئے جائیں گے (تو کیا منظر ہوگا) کہ ان میں سے ہر ایک (اپنی) بات پھیر کر دوسرے پر ڈال رہا ہوگا، کمزور لوگ متکبّروں سے کہیں گے: اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے،
English Sahih:
And those who disbelieve say, "We will never believe in this Quran nor in that before it." But if you could see when the wrongdoers are made to stand before their Lord, refuting each others' words... Those who were oppressed will say to those who were arrogant, "If not for you, we would have been believers."
1 Abul A'ala Maududi
یہ کافر کہتے ہیں کہ "ہم ہرگز اِس قرآن کو نہ مانیں گے اور نہ اس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو تسلیم کریں گے" کاش تم دیکھو اِن کا حال اُس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اُس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ "اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے"
2 Ahmed Raza Khan
اور کافر بولے ہم ہرگز نہ ایمان لائیں گے اس قرآن پر اور نہ ان کتابوں پر جو اس سے آگے تھیں اور کسی طرح تو دیکھے جب ظالم اپنے رب کے پاس کھڑے کیے جائیں گے، ان میں ایک دوسرے پر بات ڈالے گا وہ جو دبے تھے ان سے کہیں گے جو اونچے کھینچتے (بڑے بنے ہوئے) تھے اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے،
3 Ahmed Ali
اور کافر کہتے ہیں ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس پر جو اس سے پہلے موجود ہے اورکاش آپ دیکھتے جب کہ ظالم اپنے رب کے حضور میں کھڑے کیے جائیں گے ایک ان میں سے دوسرے کی بات کو رد کر رہا ہوگا جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے وہ ان سے کہیں گے جو بڑے بنتے تھے اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان دار ہوتے
4 Ahsanul Bayan
اور کافروں نے کہا ہم ہرگز نہ تو اس قرآن کو مانیں نہ اس سے پہلے کی کتابوں کو! (١) اے دیکھنے والے کاش کہ تو ان ظالموں کو اس وقت دیکھتا جبکہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام لگا رہے ہونگے (٢) کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے (٣) اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومنوں میں سے ہوتے (٤)۔
٣١۔١ جیسے تورات، زبور اور انجیل وغیرہ۔ ٣١۔٢ یعنی دنیا میں یہ کفر و شرک ایک دوسرے کے ساتھی اور اس ناطے سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے، لیکن آخرت میں یہ ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کو مورد الزام بنائیں گے۔ ٣١۔٣ یعنی دنیا میں یہ لوگ، جو سوچے سمجھے بغیر، روش عام پر چلنے والے ہوتے ہیں اپنے ان لیڈروں سے کہیں گے جن کے وہ دنیا میں پیروکار بنے رہے تھے۔ ٣١۔٤ یعنی تم ہی نے ہمیں پیغمبروں کے پیچھے چلنے سے روکا تھا، اگر تم اس طرح نہ کرتے تو ہم یقینا ایمان والے ہوتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان (کتابوں) کو جو ان سے پہلے کی ہیں اور کاش (ان) ظالموں کو تم اس وقت دیکھو جب یہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے سے ردوکد کر رہے ہوں گے۔ جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے وہ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوجاتے
6 Muhammad Junagarhi
اور کافروں نے کہا کہ ہم ہرگز نہ تو اس قرآن کو مانیں نہ اس سے پہلے کی کتابوں کو! اے دیکھنے والے کاش کہ تو ان ﻇالموں کو اس وقت دیکھتا جب کہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم تو مومن ہوتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کافر کہتے ہیں کہ ہم نہ اس قرآن پر ایمان لائیں گے اور نہ اس سے پہلے نازل شدہ کتابوں پر (یا نہ اس پر جو اس کے آگے ہے یعنی قیامت اور اس کے عذاب پر)۔ (اے پیغمبر(ص)) کاش تم دیکھتے جب ظالم لوگ اپنے پروردگار کے حضور (سوال و جواب کیلئے) کھڑے کئے جائیں گے (اور) ایک دوسرے کی بات رد کر رہا ہوگا چنانچہ وہ لوگ جو دنیا میں کمزور سمجھے جاتے تھے وہ ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آئے ہوتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کفاّر یہ کہتے ہیں کہ ہم نہ اس قرآن پر ایمان لائیں گے اور نہ اس سے پہلے والی کتابوں پر تو کاش آپ دیکھتے جب ان ظالموں کو پروردگار کے حضور کھڑا کیا جائے گا اور ہر ایک بات کو دوسرے کی طرف پلٹائے گا اور جن لوگوں کو کمزور سمجھ لیا گیا ہے وہ اونچے بن جانے والوں سے کہیں گے کہ اگر تم درمیان میں نہ آگئے ہوتے تو ہم صاحب هایمان ہوگئے ہوتے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان (کتابوں) کو جو اس سے پہلے کی ہیں اور کاش (ان) ظالموں کو تم اس وقت دیکھو جب یہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے کو ردوکد کر رہے ہوں گے جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے وہ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوجاتے آیت نمبر 31 تا 36 ترجمہ : اور مکہ کے کافر کہتے ہیں کہ ہم ہرگز اس قرآن کو نہ مانیں گے اور نہ ان کتابوں کو جو اس سے پہلے کی ہیں جیسا کہ تورات اور انجیل جو مرنے کے بعد زندہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں، ان کے بعث بعد الموت کا منکر ہونے کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا اور اے محمد اگر آپ ان ظالموں کافروں کو اس وقت دیکھیں جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے (آپس میں) ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے کمزور درجہ کے لوگ یعنی متبعین بڑے لوگوں سے یعنی سرداروں سے کہیں گے اگر تم ہم کو ایمان سے روکنے والے نہ ہوتے تو ہم نبی کو ماننے والے ہوتے یہ بڑے لوگ کمزوروں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس ہدایت آجانے کے بعد ہم نے تم کو اس سے روکا تھا ؟ نہیں بلکہ تم خود ہی قصوروار تھے (اس کے جواب میں) کمزور لوگ متکبروں سے کہیں گے، بلکہ ہمارے ساتھ تمہاری رات و دن کی تدبیروں نے روکا تھا جب تم کہتے تھے کہ اللہ کے ساتھ کفر کرو اور اس کا شریک ٹھہراؤ اور دونوں فریق جب عذاب کو دیکھیں گے تو ترک ایمان پر ندامت کو چھپائیں گے یعنی ہر فریق اپنے مخالف سے شرم دلانے کے خوف سے ندامت کو چھپائے گا اور جہنم میں ہم کافروں کے گلے میں طوق ڈالدیں گے ان کو صرف دنیا میں ان کے کئے ہوئے کرتوتوں کا بدلہ دیا جائے گا اور ہم نے تو جس بستی میں جو بھی آگاہ کرنے والا (رسول) بھیجا وہاں کے خوشحال لوگوں یعنی خوشحال سرداروں نے یہی کہا کہ جو چیز دے کر تم کو بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں، اور کہا ہم مال واولاد میں ایمان والوں سے بڑھے ہوئے ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم کو عذاب دیا جائے، آپ کہہ دیجئے میرا رب جس کی چاہے بطور آزمائش روزی کشادہ کردیتا ہے اور امتحاناً جس کی چاہے روزی تنگ کردیتا ہے لیکن اکثر لوگ کفار مکہ اس بات کو نہیں جانتے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : وَلَوْتَرَی، لَوْ کا جواب اور تَریٰ کا مفعول محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے وَلَوْ تَرَی حَالَ الظالمین وَقْتَ وقوفِھِم عند ر۔ بِّھم لرَأیتَ اِمْرًا فظیعًا حال مفعول ہے اور لرأیتَ الخ جواب لو ہے۔ قولہ : اِذالظالمون تریٰ کا ظرف ہے۔ قولہ : یَرْجِعُ بَعْضُھُمْ یہ موقوفون کی ضمیر سے حال ہے۔ قولہ : یقول الذین استضعفوا، ترْجِعُ کی تفسیر ہے۔ قولہ : لَوْ لاَ مبتداء ہے، اس کی خبر محذوف ہے، شارح نے اپنے قول صَدَدْتُمُوْنَا سے خبر محذوف کی طرف اشارہ کردیا، اور لَکُنَّا مُؤمِنِیْنَ ، لَوْلاَ کا جواب ہے۔ قولہ : اَنَحْنُ صَدَدْنَاکم کے بعد شارح نے لاَ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اَنَحْنُ میں ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے۔ قولہ : بَلْ مکرُ اللیل، مکرٌ فعل محذوف کا فاعل ہے تقدیر عبارت یہ ہے بَلْ صَدَدْنَا مکرُکُمْ بِنَا فِی اللیلِ والنَّھَارِ ، مکرُکُمْ میں کُمْ مضاف الیہ کو حذف کردیا اور اتساعاً ظرف کو مضاف الیہ کے قائم مقام کردیا۔ قولہ : اِذْ تَامُرُوْنَنَا یہ مکرٌ کا ظرف ہے ای مکر کُمْ وقتَ امرِکُمْ لناَ. قولہ : اَسَرُّوا جملہ حالیہ یا مستانفہ ہے۔ قولہ : اِلَّا قال مُتْرَفُوھَا یہ قریۃٍ سے حال ہے قریۃ اگرچہ نکرہ ہے مگر چونکہ سیاق نفی میں واقع ہے جس کی وجہ سے ذوالحال بننے کی گنجائش ہوگئی۔ قولہ : مُتَرَفوھا اصل میں مُتْرَفونَ بِھا نون اضافت کی وجہ سے گرگیا یہ اِتْرَافٌ، فعول جمع مذکر ہے آسودہ، اور خوشحال لوگ۔ قولہ : بِمَااُرْسِلْتُمْ بہٖ ، کافِرُوْنَ سے متعلق ہے اہتمام اور رعایت فواصل کی وجہ سے مقدم کردیا، تقدیر عبارت یہ ہے ای کافِرُوْنَ بِمَا اُرْسِلْتُمْ بہٖ. تفسیر وتشریح وقال۔۔ کفروا مشرکین مکہ نے یہود سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی علامات معلوم کیں، یہود نے جو علامات بتائیں تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پوری طرح صادق آئیں، تو اس وقت مشرکین نے کہا کہ ہم نہ قرآن کو مانیں گے اور نہ اگلی کتابوں انجیل، تورات، زبور وغیرہ کو اس لئے کہ یہ سب ایک ہی چٹے بٹے ہیں جہاں دیکھو وہی حساب و کتاب اور قیامت کا مضمون، سو ہم ان چیزوں کو ہرگز تسلیم کرنے والے نہیں ہیں۔ وَلوْتَریٰ میں خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ علامہ محلی نے اختیار کیا ہے اور ہراس شخص کو بھی ہوسکتا ہے جس میں مخاطب بننے کی صلاحیت ہو، مطلب یہ ہے کہ اے مخاطب اگر تو ان مشرکین وکافرین کی اس حالت کو دیکھے کہ جب یہ لوگ اپنے رب کے روبرو سرا فگندہ شرمندہ کھڑے ہوں گے، اور ناکامی کا الزام ایک دوسرے پر ڈال رہے ہوں گے جیسا کہ دنیا میں بھی عام عادت یہیٰ ہے، تو اے مخاطب تو ان کی عجیب حالت زارد دیکھے گا، آگے اللہ تعالیٰ وَیَقُوْْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا سے مشرکین کے آپس میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کو بیان فرما رہے ہیں، فرماتے ہیں دنیا میں جو لوگ نچلے طبقہ میں اور کمزور شمار ہوتے تھے اور دوسروں کے پیچھے چلتے تھے وہ اپنے سرداروں کو الزام دیتے ہیں، کہ تم نے ہمیں اس مصیبت میں پھنسوایا، تمہاری طرف سے رکاوٹ نہ ہوتی تو ہم ضرور پیغمبروں کی بات مان لیتے اور یہ دن دیکھنا نہ پڑتا، قوم کے اونچے طبقہ کے لوگ کمزور طبقہ کے لوگوں کو جواب دیں گے، کہ ہمارے پاس کونسی طاقت تھی کہ ہم تم کو ہدایت کے راستہ سے روکتے، حقیقت یہ ہے کہ جب تمہارے پاس حق بات پہنچ گئی تھی اور سمجھ میں آگئی تھی تو کیوں قبول نہ کی ؟ اور کیوں تم نے اس میں غور فکر نہ کیا ؟ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ تم اپنی خواہشات کی وجہ سے اسے قبول کرنے سے گریزاں رہے، اور آج اپنا جرم ہمارے سر ڈال کر ہمیں مجرم بنا رہے ہو، اس کے جواب میں کمزور طبقہ کے لوگ کہیں گے، بیشک تم نے زبردستی مجبور تو نہ کیا تھا، مگر رات دن مکر و فریب اور مغویا نہ یدبیر سے ہم کو بہکاتے پھسلاتے رہے تھے، جب ملے یہی تلقین کی کہ پیغمبروں کے حکم و ارشاد کے مطابق خدا کو ایک نہ مانیں بلکہ بعض مخلوقات کو بھی اس کا مماثل اور برابر کا شریک سمجھیں، آخر تمہاری شب وروز کی ترغیب و ترہیب کا کہاں تک اثر نہ ہوتا ؟ وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃََ یعنی دونوں فریق ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کریں گے، لیکن دل میں دونوں ہی فریق اپنے اپنے کفر پع شرمندہ ہوں گے، مگر شماتت اعداء کی وجہ کی ظاہر کرنے سے گریز کریں گے، گردنوں میں طوق اور پاتھ پیروں میں زنجیریں پڑی ہوں گی، یعنی دنیا میں جیسا کچھ کیا ہوگا آج وہ سزا کی صورت میں ظاہر ہورہا ہوگا، سچ ہے جیسا کرنا ویسا برنا وَمَا اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جارہی ہے، کہ آپ مکہ کے رؤساء اور چودھریوں کے انحراف اور سرکشی سے مغموم نہ ہوں ہر زمانہ میں پیغمبروں کا مقابلہ ایسے ہی بدبخت رئیسوں اور شریروں نے کیا ہے، آپ کے ساتھ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، دولت و ثروت کا نشہ اور اقتدار طلبی کا جذبہ آدمی کو اندھا کردیتا ہے، وہ کسی کے سامنے گردن جھکانے اور چھوٹے آدمیوں کے برابر بیٹھنا گوارا نہیں کرتا، اسی لئے انبیاء کے پیرو کار عموماً ضیعیف و مسلین لوگ ہوتے ہیں، حضرت نوح علیہ الصلاۃُ والسلام کی قوم نے کہا تھا أنَؤمِنُ لَکَ وَاتَّبِعَکَ الاَرْذَلُونَ (الشعراء) وَقَالُوْا نَحْنُ اَکْثَرُ اَمْوَالاً وَاَوْلاَدًا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں مال واولاد کی کثرت سے نواز ہے، تو اگر بقول شما قیامت برپا ہوئی بھی ہم وہاں بھی تم سے بہتر رہیں گے، اس لئے کہ ہم یہاں مال واولاد میں تم سے بہتر ہیں اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہم سے راضی اور خوش ہے اس لئے کہ کوئی بھی اپنے دشمن کو مال و دولت سے نہیں نوازا کرتا، جب ہم سے خوش ہے تو ہمیں کسی عذاب کا بھی اندیشہ نہیں، تم فضول ہم کو عذاب کی دھمکیاں دیتے ہو قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ وَیَقْدِرُ اس آیت میں کفار کے مذکورہ مغالطہ اور شبہ کا ازالہ کیا ہے کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ کی رضا یا عدم کی مظہر نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مشیئت سے ہے، اس لئے کہ وہ مال اس کو بھی دیتا ہے جس کو پسند کرتا ہے اور اس کو بھی جس کو ناپسند کرتا ہے، مال واولاد کی فراوانی اور تنگی اس کی رضا و عدم رضاکا معیار نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ عذاب کے لئے جلدی مچانے والوں کے لئے عذاب کا جو وعدہ کیا گیا ہے اپنے وقت پر اس کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہاں فرمایا کہ اگر آپ اس روز ان کا حال دیکھیں، جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے، سردار اور کفر وضلالت میں ان کی پیروی کرنے والے اکٹھے کھڑے ہوں گے، تو آپ کو بہت بڑا اور انتہائی ہولناک معاملہ نظر آئے گا اور آپ دیکھیں گے کہ وہ کیسے ایک دوسرے کی بات کو رد کرتے ہیں: ﴿يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا﴾ ” وہ لوگ جو کمزور کئے گئے تھے وہ کہیں گے“ یعنی متبعین ﴿لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا ﴾ ” ان سے جنہوں نے تکبر کیا۔“ اس سے مراد قائدین کفر ہیں ﴿لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ﴾ ” اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوتے۔“ مگر تم ہمارے اور ایمان کے درمیان حائل ہوگئے، تم نے کفر کو ہمارے سامنے مزین کیا اور تمہاری پیروی میں ہم نے کفر کو اختیار کیا۔ ایسا کہنے میں ان کا مقصود یہ ہوگا کہ ان کی بجائے عذاب ان سرداروں کو دیا جائے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney kufr apna liya hai , woh kehtay hain kay : hum naa to iss Quran per kabhi emaan layen gay , aur naa unn ( aasmani kitabon ) per jo iss say pehlay hoi hain . aur agar tum uss waqt ka manzar dekho jab yeh zalim log apney perwerdigar kay samney kharray kiye jayen gay , to yeh aik doosray per baat daal rahey hon gay . jinn logon ko ( duniya mein ) kamzor samjha gaya tha woh unn say kahen gay jo baray banay huye thay kay : agar tum naa hotay to hum zaroor momin ban jatay .
12 Tafsir Ibn Kathir
کافروں کی سرکشی۔ کافروں کی سرکشی اور باطل کی ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ قرآن کی حقانیت کی ہزارہا دلیلیں بھی دیکھ لیں لیکن نہیں مانیں گے۔ بلکہ اس سے اگلی کتاب پر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ انہیں اپنے اس قول کا مزہ اس وقت آئے گا جب اللہ کے سامنے جہنم کے کنارے کھڑے چھوٹے بڑوں کو، بڑے چھوٹوں کو الزام دیں گے۔ ہر ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرائے گا۔ تابعدار اپنے سرداروں سے کہیں گے کہ تم ہمیں نہ روکتے تو ہم ضرور ایمان لائے ہوئے ہوتے، ان کے بزرگ انہیں جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں روکا تھا ؟ ہم نے ایک بات کہی تم جانتے تھے کہ یہ سب بےدلیل ہے دوسری جانب سے دلیلیوں کی برستی ہوئی بارش تمہاری آنکھوں کے سامنے تھی پھر تم نے اس کی پیروی چھوڑ کر ہماری کیوں مان لی ؟ یہ تو تمہاری اپنی بےعقلی تھی، تم خود شہوت پرست تھے، تمہارے اپنے دل اللہ کی باتوں سے بھاگتے تھے، رسولوں کی تابعداری خود تمہاری طبیعتوں پر شاق گذرتی تھی۔ سارا قصور تمہارا اپنا ہی ہے ہمیں کیا الزام دے رہے ہو ؟ اپنے بزرگوں کی مان لینے والے یہ بےدلیل انہیں پھر جواب دیں گے کہ تمہاری دن رات کی دھوکے بازیاں، جعل سازیاں، فریب کاریاں ہمیں اطمینان دلاتیں کہ ہمارے افعال اور عقائد ٹھیک ہیں، ہم سے بار بار شرک و کفر کے نہ چھوڑنے، پرانے دین کے نہ بدلنے، باپ دادوں کی روش پر قائم رہنے کو کہنا، ہماری کمر تھپکنا۔ ہماے ایمان سے رک جانے کا یہی سبب ہوا۔ تم ہی آ آ کر ہمیں عقلی ڈھکو سلے سنا کر اسلام سے روگرداں کرتے تھے۔ دونوں الزام بھی دیں گے۔ برات بھی کریں گے۔ لیکن دل میں اپنے کئے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ ان سب کے ہاتھوں کو گردن سے ملا کر طوق و زنجیر سے جکڑ دیا جائے گا۔ اب ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔ گمراہ کرنے والوں کو بھی اور گمراہ ہونے والوں کو بھی۔ ہر ایک کو پورا پورا عذاب ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جہنمی جب ہنکا کر جہنم کے پاس پہنچائے جائیں گے تو جہنم کے ایک شعلے کی لپیٹ سے سارے جسم کا گوشت جھلس کر پیروں پر آپڑے گا۔ (ابن ابی حاتم) حسن بن یحییٰ خشنی فرماتے ہیں کہ جہنم کے ہر قید خانے، ہر غار، ہر زنجیر، ہر قید پر جہنمی کا نام لکھا ہوا ہے جب حضرت سلیمان دارانی کے سامنے یہ بیان ہوا تو آپ بہت روئے اور فرمانے لگے ہائے ہائے پھر کیا حال ہوگا اس کا جس پر یہ سب عذاب جمع ہوجائیں۔ پیروں میں بیڑیاں ہوں، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوں، گردن میں طوق ہوں پھر جہنم کے غار میں دھکیل دیا جائے۔ اللہ تو بچانا پروردگار تو ہمیں سلامت رکھنا۔ اللھم سلم اللھم سلم