اور جب اُن پر ہماری روشن آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں: یہ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک ایسا شخص ہے جو تمہیں صرف اُن (بتوں) سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے باپ دادا پوجا کیا کرتے تھے، اور یہ (بھی) کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض من گھڑت بہتان ہے، اور کافر لوگ اس حق (یعنی قرآن) سے متعلق جبکہ وہ اِن کے پاس آچکا ہے، یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو محض کھلا جادو ہے،
English Sahih:
And when Our verses are recited to them as clear evidences, they say, "This is not but a man who wishes to avert you from that which your fathers were worshipping." And they say, "This is not except a lie invented." And those who disbelieve say of the truth when it has come to them, "This is not but obvious magic."
اِن لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ "یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو اُن معبودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں" اور کہتے ہیں کہ "یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا" اِن کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہیں نے کہہ دیا کہ "یہ تو صریح جادو ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جائیں تو کہتے ہیں یہ تو نہیں مگر ایک مرد کہ تمہیں روکنا چاہتے ہیں تمہارے باپ دادا کے معبودو ں سے اور کہتے ہیں یہ تو نہیں مگر بہتان جوڑا ہوا، اور کافروں نے حق کو کہا جب ان کے پاس آیا یہ تو نہیں مگر کھلا جادو،
3 Ahmed Ali
اور جب انہیں ہماری واضح آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ محض ایسا شخص ہے جو چاہتا ہے کہ تمہیں ان چیزوں سے رو ک دے جنہیں تمہارے باپ دادا پوجتے تھے اور (قرآن کی نسبت) کہتے ہیں کہ یہ محض ایک تراشا ہوا جھوٹ ہے اورکافروں نے حق کے متعلق کہا جب ان کے پاس آیا کہ یہ محض ایک صریح جادو ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جب ان کے سامنے ہماری صاف صاف آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایسا شخص ہے (١) جو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روک دینا چاہتا ہے (اس کے سوا کوئی بات نہیں)، اور کہتے ہیں یہ تو گھڑا ہوا جھوٹ ہے (٢) اور حق ان کے پاس آچکا ہے پھر بھی کافر یہی کہتے رہے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے (٣)۔
٤٣۔١ شخص سے مراد، حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، باپ دادا کا دین، ان کے نزدیک صحیح تھا، اس لئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ' جرم ' یہ بیان کیا کہ یہ تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آبا عبادت کرتے رہے۔ ٤٣۔٢ اس دوسرے ھٰذَا سے مراد قرآن کریم ہے، اسے انہوں نے تراشا ہوا بہتان یا گھڑا ہوا جھوٹ قرار دیا۔ ٣٤۔٣ قرآن کو پہلے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور یہاں کھلا جادو۔ پہلے کا تعلق قرآن کے مفہوم و مطالب سے ہے اور دوسرے کا تعلق قرآن کے معجزانہ نظم و اسلوب اور اعجاز و بلاغت سے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ان کو ہماری روشن آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ ایک (ایسا) شخص ہے جو چاہتا ہے کہ جن چیزوں کی تمہارے باپ دادا پرستش کیا کرتے تھے ان سے تم کو روک دے اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض جھوٹ ہے (جو اپنی طرف سے) بنا لیا گیا ہے۔ اور کافروں کے پاس جب حق آیا تو اس کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ان کے سامنے ہماری صاف صاف آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایسا شخص ہے جو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روک دینا چاہتا ہے۔ (اس کے سوا کوئی بات نہیں)، اور کہتے ہیں کہ یہ تو گھڑا ہوا جھوٹ ہے اور حق ان کے پاس آچکا پھر بھی کافر یہی کہتے رہے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روکے اور کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) نہیں ہے مگر گھڑا ہوا جھوٹ اور جب بھی کافروں کے پاس حق آیا تو انہوں نے یہی کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ شخص صرف یہ چاہتا ہے کہ تمہیں ان سب سے روک دے جن کی تمہارے آبائ و اجداد پرستش کیا کرتے تھے اور یہ صرف ایک گڑھی ہوئی داستان ہے اور کفاّر تو جب بھی ان کے سامنے حق آتا ہے یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک کھلا ہوا جادو ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ان کو ہماری روشن آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ ایک (ایسا) شخص ہے جو چاہتا ہے کہ جن چیزوں کی تمہارے باپ دادا پرستش کیا کرتے تھے ان سے تم کو روک دے اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض جھوٹ ہے جو اپنی طرف سے بنا لیا گیا ہے اور کافروں کے پاس جب حق آیا تو اس کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرما رہا ہے کہ اس وقت مشرکین کی کیا حالت ہوتی تھی جب ان کے سامنے واضح آیات تلاوت کی جاتی تھیں اور ایسے قطعی براہین و دلائل پیش کیے جاتے تھے جو ہر بھلائی پر دلالت کرتے اور ہر برائی سے روکتے تھے۔ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی عنایت تھی جو ان کے دروازے تک پہنچی اور اس بات کی موجب تھی کہ ایمان و تصدیق اور اطاعت و تسلیم کے ساتھ اس کو قبول کیا جاتا۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ انہوں نے اس مناسب رویے سے متضاد رویے کے ساتھ ان کا سامنا کیا۔ وہ ان انبیاء کی تکذیب کیا کرتے تھے جو ان کے پاس آئے تھے اور کہا کرتے تھے : ﴿مَا هَـٰذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ ﴾ ” یہ ایک ایسا شخص ہے جو چاہتا ہے کہ جن چیزوں کی تمہارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ان سے تم کو روک دے۔“ یعنی جب وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کا حکم دیا کرتا تھا تو اس وقت اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ تم اپنے باپ دادا کی عادات کو ترک کر دو، جن کی تم تعظیم اور ان کی پیروی کرتے ہو۔ پس انہوں نے گمراہوں کے کہنے پر حق کو ٹھکرا دیا اور اس کو ٹھکراتے وقت انہوں نے کوئی دلیل اور برہان پیش کی نہ کوئی شبہ وارد کیا اور یہ کون سا شبہ ہے کہ جب رسول بعض گمراہ لوگوں کو اتباع حق کی دعوت دیں تو یہ لوگ دعویٰ کریں کہ گزشتہ زمانے میں ان کے بھائی بند بھی، جن کے یہ پیروکار ہیں، اسی طریقہ پر کار بند تھے؟ اگر آپ ان کی اس سفاہت، حماقت اور گمراہ لوگوں کے کہنے کی وجہ سے ان کے حق کو ٹھکرانے پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی حماقت کے ڈانڈے مشرکوں، دہریوں، فلسفیوں، صابیوں، ملحدوں اور اللہ تعالیٰ کے دین سے نکل بھاگنے والوں کے گمراہ نظریات سے جا ملتے ہیں۔ قیامت تک ہر شخص کے لئے یہی اسوہ رہے گا جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ انہوں نے اپنے آباء و اجداد کے افعال کو دلیل بنا کر انبیاء و مرسلین کی دعوت کو ٹھکرایا اور اس کے بعد حق کو مطعون کیا ﴿وَقَالُوا مَا هَـٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّفْتَرًى ﴾ ” اور انہوں نے کہا کہ یہ قرآن صرف اور صرف گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔“ یعنی یہ اس شخص کا گھڑا ہوا جھوٹ ہے جو اسے لے کر آیا ہے ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور ان کافروں کے پاس جب حق آگیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے۔“ یعنی یہ کھلا جادو ہے جو ہر ایک پر ظاہر ہے۔ وہ یہ بات حق کی تکذیب اور بے عقل لوگوں کو فریب میں مبتلا کرنے کے لئے کہتے تھے۔ جب وہ تمام اعتراضات واضح ہوگئے جن کی بنیاد پر وہ حق کو ٹھکراتے تھے کہ ان کا دلیل ہونا تو کجا ان کی بنیاد پر تو شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا، تو ذکر فرمایا کہ کوئی شخص ان کی تائید میں دلیل لانے کی کوشش کرے تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab humari aayaten jo mukammal wazahat ki hamil hain unn ko parh ker sunai jati hain to yeh ( humaray payghumber kay baaray mein ) kehtay hain kay : kuch nahi , yeh shaks bus yeh chahta hai kay tum logon ko unn maboodon say bargushta kerday jinhen tumharay baap daday poojtay aaye hain . aur kehtay hain kay : yeh ( Quran ) kuch bhi nahi , aik mann gharrat jhoot hai . aur jab inn kafiron kay paas haq ka paygham aaya to unhon ney uss kay baaray mein yeh kaha kay : yeh to aik khulay jadoo kay siwa kuch nahi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
کافر عذاب الٰہی کے مستحق کیوں ٹھہرے ؟ کافروں کی وہ شرارت بیان ہو رہی ہے جس کے باعث وہ اللہ کے عذابوں کے مستحق ہوئے ہیں کہ اللہ کا کلام تازہ بتازہ اس کے افضل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے سنتے ہیں، قبول کرنا، ماننا اس کے مطابق عمل کرنا تو ایک طرف، کہتے ہیں کہ دیکھو یہ شخص تمہیں تمہارے پرانے اچھے اور سچے دین سے روک رہا ہے اور اپنے باطل خیالات کی طرف تمہیں بلا رہا ہے یہ قرآن تو اس کا خود تراشیدہ ہے آپ ہی گھڑ لیتا ہے اور یہ تو جادو ہے اور اس کا جادو ہونا کچھ ڈھکا چھپا نہیں، بالکل ظاہر ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ان عربوں کی طرف نہ تو اس سے پہلے کوئی کتاب بھیجی گئی ہے نہ آپ سے پہلے ان میں کوئی رسول آیا ہے۔ اس لئے انہیں مدتوں سے متنا تھی کہ اگر اللہ کا رسول ہم میں آتا اگر کتاب اللہ ہم میں اترتی تو ہم سب سے زیادہ مطیع اور پابند ہوجاتے۔ لیکن جب اللہ نے ان کی یہ دیرینہ آرزو پوری کی تو جھٹلانے اور انکار کرنے لگے، ان سے اگلی امتوں کے نتیجے ان کے سامنے ہیں۔ وہ قوت و طاقت، مال و متاع، اسباب دنیوی ان لوگوں سے بہت زیادہ رکھتے تھے۔ یہ تو ابھی ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے لیکن میرے عذاب کے بعد نہ مال کام آئے، نہ اولاد اور کنبے قبییل کام آئے۔ نہ قوت و طاقت نے کوئی فائدہ دیا۔ برباد کردیئے گئے جیسے فرمایا ( وَلَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِيْمَآ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً 26 ) 46 ۔ الأحقاف :26) یعنی ہم نے انہیں قوت و طاقت دے رکھی تھی۔ آنکھیں اور کان بھی رکھتے تھے، دل بھی تھے لیکن میری آیتوں کے انکار پر جب عذاب آیا اس وقت کسی چیز نے کچھ فائدہ نہ دیا اور جس کے ساتھ مذاق اڑاتے تھے اس نے انہیں گھیر لیا۔ کیا یہ لوگ زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام نہیں دیکھتے جو ان سے تعداد میں زیادہ طاقت میں بڑھے ہوئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے جھٹلانے کے باعث پیس دیئے گئے، جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیئے گئے۔ تم غور کرلو ! دیکھ لو کہ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کی نصرت کی اور کس طرح جھٹلانے والوں پر اپنا عذاب اتارا ؟