اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۤءِ مَاۤءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَاۗ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمان سے مینہ برسایا ؟ تو ہم نے اس سے طرح طرح کے رنگوں کے میوے پیدا کئے اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور (بعض) کالے سیاہ ہیں
آیت نمبر 27 تا 37
ترجمہ : اے مخاطب ! کیا تو نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس پانی کے ذریعہ مختلف رنگوں کے پھل پیدا کئے اس میں غیبت سے تکلم کی جانب التفات ہے جیسا کہ سبز اور سرخ اور زرد وغیرہ اوعر پہاڑوں میں بھی مختلف رنگوں کی دھاریاں ہیں جُدَدٌ جُدَّۃٌ کی جمع ہے، پہاڑی راستے وغیرہ کو کہتے ہیں، (مثلاً ) سفیدوسرخ اور زرد اور وہ رنگ تیز اور ہلکا ہونے کے اعتبار سے بھی مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاہ بھی اس کا عطف جُدَدٌ پر ہے یعنی نہایت تیز رنگ کی چٹانیں ہیں، کثیر الاستعمال اَسْوَدُ غِربیبٌ ہے اور قلیل الستعمال غِرْبِیْبٌ اَسْوَدُ ہے اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں پھلوں اور پہاڑوں کے رنگوں کے مانند کہ ان کی رنگتیں بھی مختلف ہیں، اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت) کا علم رکھتے ہیں بخلاف جاہلوں کے جیسا کہ مکہ کے کافرواقعی اللہ تعالیٰ اپنے ملک میں زبردست اور اپنے مومن بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے بلا شبہ جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ ان کو عطا کیا ہے اس میں پوشیدہ اور علانیہ زکوٰۃ وغیرہ کے طور پر خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں کہ جو کبھی خسارے میں نہ ہوگی تاکہ ان کو ان کا صلہ دے یعنی ان کے اعمال مذکورہ کا ثواب اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دے بیشک وہ گنہ گاروں کا بڑا بخشنے والا اور ان کی طاعت کا قدر دان ہے اور یہ کتاب قرآن جو ہم نے آپ کو وحی کے ذریعہ بھیجی ہے وہ بالکل ٹھیک ہے جو اپنے سے سابقہ کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی (حالت کی) پوری خبر رکھنے والا اور خوب دیکھنے والا ہے یعنی ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے پھر ہم نے اس کتاب قرآن کا ان لوگوں کو وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں پسند کیا اور وہ آپ کی امت ہے سو ان میں سے بعض تو اپنے اوپر اس کتاب پر عمل کرنے میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ ان میں سے درمیانہ درجے کے ہیں کہ اکثر اوقات اس پر عمل کرتے ہیں اور بعض میں سے ایسے ہیں جو اللہ کی مشئیت (وتوفیق) سے نیکیوں میں ترقی کئے جاتے ہیں یعنی قرآن پر عمل کے ساتھ تعلیم اور عمل کی طرف رہنمائی کو بھی ملالیتے ہیں یہ یعنی ان کو کتاب کا وارث بنانا خدا کا بڑا فضل ہے، وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن میں یہ تینوں (فریق) داخل ہوں گے (یُدْخلون) معروف اور مجہول دونوں ہیں یَدْخُلُوْنَھَا، جناتٌ مبتدا کی خبر ہے، جنت میں ان کو سونے کے کنگن اور سونے سے جڑے ہوئے موتی پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس جنت میں ریشم کا ہوگا اور وہ کہیں گے کہ اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے کہ اس نے ہمارے تمام غم دور کردیئے بیشک ہمارا پروردگار گناہوں کا بڑا بخشنے والا ہے اور طاعات کا قدردان ہے جس نے ہم کو اپنے فضل سے دائمی قیام گاہ میں داخل کیا جہاں ہم کو نہ کوئی مشقت پہنچے گی اور نہ ہم کو کوئی تکان لاحق ہوگی، (یعنی) تعب کی وجہ سے خستگی، جنت میں تکلیف نہ ہونے کی وجہ سے، اور ثانی یعنی (لغوب) کا ذکر جو کہ اول (یعنی نصب) کے تابع ہے صراحتاً تکان کی نفی کے لئے ہے اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ ہے نہ ان کو موت ہی آئے گی کہ مر کر ہی راحت پاجائیں اور نہ ان سے لمحہ بھر کے لئے دوزخ کا عذاب ہلکا کیا جائے گا، جس طرح ان کو ہم نے سزا دی، ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیں گے ی اور نون مفتوحہ اور ز کے کسرہ اور کُلَّ کے نصب کے ساتھ اور وہ لوگ جہنم میں فریاد کریں گے (یعنی) شدت سے ہائے پکار کرتے ہوئے کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو تو اس سے نکالدے ہم ان کاموں کے برخلاف کریں گے جن کو کیا کرتے تھے کام کریں گے تو ان کو جواب دیا جائے گا کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا تھا اور تمہارے پاس ڈرانے والا رسول بھی پہنچا تھا، تو تم نے اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو مزا چکھو، ایسے ظالموں کا (کافروں) کا کوئی مددگار نہیں کہ ان سے عذاب کو دفع کرے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَلَمْ تَرَ یہ کلام مستانف ہے، یہ غالب قدرت اور کمال حکمت اور عجیب صنعت کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے، اور رویت سے مراد رویت قلبی ہے جیسا کہ مفسر علام نے تریٰ کی تفسیر تَعلَمْ سے کرکے اشارہ کردیا ہے اَنَّ اپنے اسم وخبر سے مل کر تریٰ بمعنی تَعلَمْ کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے، اور مخاطب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ہر وہ شخص بھی مخاطب ہوسکتا ہے جس میں مخاطب بننے کی صلاحیت ہو۔
قولہ : فاَخْرَجْنَابہ ای بالماء فَاَخْرَجْنَا اس میں غیبت سے تکلم کی طرف التفات ہے، اور نکتہ اس التفات میں صنعت بدیع کی طرف کا اظہار ہے اس لئے کہ انزال کے مقابلہ میں اخراج میں زیادہ احسان اور صنعت بدیع ہے۔
قولہ : مختلفًا الوانُھا کا ثمرات کی صفت ہونے کی وجہ سے ہے، اور الوان سے مراد مختلف انواع و اقسام ہیں ای بعضھا ابیض وبعضھا احمر وبعضھا اصفر، وبعھا اخضروبعضھا اسود۔
قولہ : جُدَدٌ جمع جُدَّۃٍ بمعنی راستہ، اور بعض حضرات نے کہا ہے جُدَّۃٌ بمعنی قِطعۃٌ ہے، یقال جَدَدتُ الشئَ ای قطعتہٗ اور جوہری نے کہا ہے جُدَّۃٍان دھاریوں کو کہتے ہیں جو حماروحشی (زیبرا) کی پشت پر ہوتی ہیں۔
قولہ : مختلفٌ الوانھا، ألوانھا، مختلف کا فاعل ہے پھر جملہ ہو کر جُدَدٌ کی صفت ہے، اور غرابیب کا عطف جُدَدٌ پر ہے اور سودٌ غرابیب سے بدل ہے یعنی نہایت سیاہ چٹانیں، غربیبٌ اسودُ کی تاکید یا صفت ہے، جیسا کہ الاحمر القانی میں قانی احمر کی صفت ہے یا تاکید ہے، مبالغہ کیلئے صفت کو یعنی تاکید کو مقدم کردیا ہے، ورنہ عام طور پر صفت موصوف سے اور تاکید مؤکد سے مؤخر ہوا کرتی ہے، اور یہ اصل کے مطابق ہے، اسی لئے اَسْوَدُ غربیبٌ کثیر الاستعمال ہے اور غربیبٌ اسودُ خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے قلیل الاستعمال ہے۔
قولہ : ومِنَ الناس خبر مقدم ہے مختلفٌ الوانہٗ موصوف کی صفت ہے ای صِنْفٌ مخْتَلِفٌ الْوَانُہٗ مِنَ الناسِ ۔
قولہ : کذٰلک مصدر محذوف کی صفت ہے ای اختلافًا کذٰلک۔
قولہ : اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآءُ چونکہ خشیت کا تعلق شئ کی معرفت پر موقوف ہوتا ہے جس کو جس قدر زیادہ معرفت حاصل ہوگی وہ اسی قدر زیادہ ڈرنے والا ہوگا، چناچہ حدیث میں وارد ہوا اَنَا اخْشَاکم للہ اواتقاکم لہٗ اور شاذ قراءت میں اللہ کے رفع اور علماء کے نصب کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، مگر اس صورت میں یخشٰی بمعنی یُعظِّمُ ہوگا، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے سے ڈرتے والوں کی قدر کرتا ہے۔
قولہ : اِنّ اللہَ عزیز غفورٌ یہ وجوب خشیت کی علت ہے، مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو اس سے اس لئے ڈرنا چاہیے کہ وہ ہر شئ پر غالب وقاہر ہے اور گنہ گاروں کو معاف کرنے والا ہے۔ قولہ : یَرْجونُ تجارۃً . اِنّ کی خبر ہے۔
قولہ : سِرًّ وعلانیۃً نزُع خافض کی وجہ سے منصوب ہے ای فی السِرِّ والعلانیۃ اور حال ہونے کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے ای مسرین ومعلنیْنَ ، لَن تبور فعل مضارع منصوب بلن ہے اور جملہ ہو کر تجارۃ کی صفت ہے، اور مضاف محذوف ہے ای یَرْجُوْنَ ثوَابَ تجارۃٍ لَنْ تبورَ ، تبُوْرُ (ن) سے بَوَارٌ، ہلاک ہونا، مٹنا تبور واحد مؤنث حاضر، وہ ہلاک ہوگئی، وہ خراب ہوگئی۔
قولہ : لِیُوَفِّیَھُمْ اجورَھم میں لام عاقبتہ ہے۔
قولہ : وَالَّذِیْ. الَّذِیْ موصول، اَوحَیْنَا جملہ ہو کر صلہ، موصول صلہ سے مل کر مبتداء، مِنَ الکتابِ میں مِن بیانیہ ہے ھُوَ مبتداء الحق خبر مبتداء باخبر ہو کر اَلَّذِیْ مبتداء کی خبر اور بعض حضرات نے ھُوَ کو ضمیر فصل کہا ہے اور الحق کو الَّذِی مبتداء کی خبر کہا ہے۔ (جمل)
قولہ : مُصَدِّقًا، أل کتاب سے حال ہے۔
قولہ : ثُمَّ اَوْرَثْنَا اَعْطَیْنَا، ثُمَّ بُعدِرتبی کو بیان کرنے کے لئے ہے اور اَوْرَثنا کی تفسیر اَعْطَیْنَا سے کرنے میں بات کیطرف اشارہ ہے کہ جس طرح میراث بغیر تعب ومشقت کے حاصل ہوتی ہے اسیطرح کتاب (القرآن) بھی امت کو بغیر تعب ومشقت کے حاصل ہوئی ہے
قولہ : مِنْ عبَادِنَا میں مِنْ بیانیہ اور تبعیضیہ دونوں ہوسکتے ہیں۔
قولہ : اَوْرَثْنَا فعل بافاعل ہے الکتاب مفعول بہ ثانی مقدم ہے، اور الَّذِیْنَ مفعول اول مؤخر ہے اور اِصْطَفَیْنَا جملہ ہو کر الَّذِیْنَ کا صلہ ہے اور منْ عبادِنا حال ہے۔
قولہ : مُقتَصِدٌ، اقتصادٌ سے اسم فاعل واحد مذکر سیدھے راستہ پر قائم، میانہ رو۔
قولہ : مُرَصَّعٍ بالذَّھَبِ یہ تفسیر لؤلؤٍ جر کے ساتھ قراءت کی صورت میں ہے اور اگر لؤ لؤًا نصب کی قراءت ہو تو مِنْ اَسَاوِرَ کے محل پر عطف ہوگا یَدْخُلُوْنَ اور یُحَلُّوْنَ یہ تغلیباً ہیں ورنہ تو یہی حکم عورتوں کا بھی ہے۔
قولہ : اَلحَزَنَ یہ باب سمع کا مصدر ہے، بمعنی غم اور غمگین ہونا، شارح علام نے جمیعہٗ کا اضافہ کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ہر قسم کے غم کا ازالہ مراد ہے، خواہ غم معاش ہو یا غم معاد، غرضیکہ جنت میں کسی قسم کا غم نہ ہوگا۔
قولہ : قالوا ماضی کا صیغہ وقوع یقینی کی وجہ سے لاتا گیا ہے۔ قولہ : اَحَلَّنَا یہ حَلَّ یَحُلُّ حلولاً سے ماخوذ ہے اسکے معنی ہیں داخل ہونا
قولہ : المُقَامَۃُ یہ باب (افعال) سے مصدر میمی ہے، بمعنی دائمی اقامت۔ قولہ : نَصَبٌ تکان، مشقت۔
قولہ : لُغُوْبٌ، لُغُوبٌ مصدر اور اسم مصدر ہے خستگی، درماندگی، سستی۔ (لغات القرآن)
قولہ : وذِکْرُ الثانی التابع للاول مفسر علام کا مقصد اس عبارت سے ایک شبہ کا جواب دینا ہے۔
شبہ : یہ ہے نَصَبٌ تکان سبب اور لُغُوْبٌ (سستی) مسبب ہے اور انتفاء سبب انتقاء مسبب کو مستلزم ہے اور لا یَمَسُّنَا فیھا نَصَبٌ میں سبب کی نفی ہے لہٰذا لغوب کی بھی نفی ہوگئی، دوبارہ لغوب کی نفی کی کیا ضرورت ؟
جواب : کا ماحصل یہ ہے کہ اگرچہ سبب کی نفی مسبب کی نفی کو مستلزم ہوتی ہے مگر یہ نفی ضمناً اور تبعاً ہوتی ہے، لغوب کی نفی کرکے مستقلاً نفی کی طرف اشارہ کردیا۔
قولہ : یَصْطَرِخُوْنَ ، اِصْطِرَاخٌ سے جمع مذکر غائب وہ چیخیں گے، اِصْطِراخ (افتعال) تا کو طا سے بدل دیا گیا ہے۔
قولہ : العَوِیْل، رَفْعُ الصوتِ بالبُکاء زور زور سے رونا۔
قولہ : اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ ، ما یہ جملہ قول محذوف کا مقولہ ہے ای فیقال لکم ہمزاۂ استفہام انکاری تو بیخ کیلئے ہے، واؤ عاطفہ کے ذریعہ محذوف پر عطف ہے ای اَلَمْ نُمْھِلْکُمْ ونُؤخِّرْ کُمْ عمُرًا یَتَذکَّرُفیہِ مَنْ تَذَکَّرَ ، ما نکرہ موصوفہ بمعنی وقت ہے، اور یَتَذکَّرُ جملہ ہو کر صفت ہے۔
قولہ : مَااَجَبْتُمْ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے، شبہ یہ ہے کہ ظاہر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِذَاقتِ عذاب کا ترتب مجئیب رسول پر مرتب ہے، حالانکہ یہ خلاف واقعہ ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اذاقتِ عذاب محذوف پر مرتب ہے نہ کہ مجئیب رسول پر اور وہ محذوف فما اَجَبْتُمْ ہے۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : سابقہ آیات میں لوگوں کے احوال کا مختلف ہونا اور اس کی تمثیلات بیان فرمائی ہیں مثلاً وَمَا یَسْتَوِی الْاََعْمٰی والبَصِیْرُ ولا الظلماتُ ولا النورُ ولا الظّل ولا الحرور ان آیات میں اسی کی مزید توضیح ہے کہ مخلوقات میں باہمی تفاوت ایک خلقی امر ہے اور یہ تفاوت نباتات و جمادات تک میں موجود ہے، اور یہ اختلاف شکل و صورت یا رنگ وبو ہی تک محدود نہیں بلکہ طبیعت اور خاصیت میں بھی پایا جاتا ہے۔
الم۔۔ اللہ (الآیۃ) یعنی جس طرح مومن و کافر، صالح اور فاسق دونوں قسم کے لوگ ہیں اسی طرح دیگر مخلوقات میں بھی تفاوت واختلاف ہے، مثلاً پھلوں کے رنگ بھی مختلف ہیں اور ذائقے اور بو بھی، حتی کہ ایک ہی پھل کی نہ صرف یہ کہ شکل و صورت مختلف ہوتی ہے بلکہ رنگ وذائقہ بھی مختلف ہوتا ہے، بلکہ خدا کی قدرت دیکھئے کہ ایک ہی پھل کے محتلف اجزاء کا رنگ وبو اور مزا ایک دوسرے سے بہت مختلف بلکہ ضد ہوتا ہے اگر مغز شیریں ہے تو بیج نہایت تلخ ہے اور بیج شیریں ہے تو چھلکا نہایت بدمزہ ہے جبکہ سب کو خوراک ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی وہوا ایک ہی سورج کی گرمی اور چاند کی روشنی سے حاصل ہوتی ہے اور خوراک سب کو ایک ہی تنے اور شاخوں کے ذریعہ پہنچتی ہے اس کے باوجود اس قدر فرق ! ایک ہی قادر مطلق کی قدرت نہیں تو اور کیا ہے ؟ اسی طرح پہاڑ اور اس کے حصے یا راستے اور خطوط مختلف رنگوں کے ہیں، سفید، سرخ اور بہت گہرے سیاہ جُدَدٌ جُدَّۃٌ کی جمع ہے راستہ یا لکیر کو کہتے ہیں، غرَابیبٌ غِربیبٌ کی جمع ہے اور سود، اسْوَد کی جمع ہے، سیاہ کو کہتے ہیں جب گہرے سیاہ پن کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے تو اسود کیساتھ غربیبٌ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اسود غربیبٌ بولتے ہیں بہت زیادہ سیاہ، جیسا کہ الاحمر القانی نہایت سرخ، پتھر کی چٹانیں بھی مختلف رنگ کی ہوتی ہیں بلکہ ایک چٹان میں مختلف رنگوں کی لکیریں ہوتی ہیں جو آپس میں نہایت ممتاز و مختلف ہوتی ہیں، اسی طرح انسان اور جانور بھی سفید سیاہ سرخ اور زرد رنگ کے ہوتے ہیں، یہ سب قدرت خداوندی کی نشانیاں ہیں، اور خدا کی ان قدرتوں اور اس کمال صنعت کو وہی لوگ جان اور سمجھ سکتے ہیں جو کتاب و سنت اور اسرار الہٰیہ کا علم رکھتے ہیں، اور جتنی جسکو خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے وہ اسی قدر خدا سے ڈرتے ہیں گویا جن کو خشیت حاصل نہیں سمجھ لو کہ وہ علم صحیح سے محروم ہیں، اور قرآنی اصطلاح میں عالم اسی کو کہا جاتا ہے جسکے اندر خشیت الہٰی موجود ہو۔ کذٰلک پر جمہور کے نزدیک وقف ہے یعنی اسکا تعلق ماقبل کے مضمون سے ہے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسیطرح خشیت الہٰی میں بھی لوگوں کے درجات مختلف ہیں، کسی کو خشیت کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے اور کسی کو ادنیٰ اور کسی کو متوسط اور مدارس کا علم پر ہے جس درجہ کا علم ہوگا اسی درجہ کی خشیت ہوگی (روح)
سفیان ثوری (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں، علماء کی تین قسمیں ہیں : (١) ایک عارف باللہ وعالم بامر اللہ، یہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو اور اس کے حدود و فرائض کو جانتا ہو، (٢) دوسرا صرف عارف باللہ، جو اللہ سے تو ڈرتا ہے لیکن اس کے حدود و فرائض سے بیخبر ہے، (٣) تیسرا وہ جو صرف عالم بامر اللہ ہو جو حدود و فرائض سے باخبر ہے لیکن خشیت الہٰی سے عاری ہے۔ (ابن کثیر)
سابق آیات میں ارشاد فرمایا تھا اِنَّما تُنْذِرُ الَّذینَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بالغیب اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور دلداری کے لئے فرمایا کہ آپ کے انذار و تبلیغ کا فائدہ صرف وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو غائبانہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، اس کی مناسبت سے یخشی اللہ مِنْ عِبَادِہٖ العُلماءُ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کو اللہ تعالیٰ کی خشیت حاصل ہے، لفظ انّما عربی زبان میں حصر کے لئے آتا ہے، اس لئے اس جملہ کے معنی بظاہر یہ ہیں کہ صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں مگر ابن عطیہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ کلمہ اِنّما جس طرح حصر کے لئے آتا ہے۔ اسی طرح کسی کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور یہاں یہی معنی مراد ہیں کہ خشیت الہٰی علماء کا وصف خاص ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ غیر عالم میں خشیت نہ ہو۔ (بحر محیط، ابوحیان)
اور آیت میں علماء سے وہ لوگ مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا کماحقہٗ علم رکھتے ہیں، صرف عربی زبان یا اس کے صرف ونحو اور معانی و بلاغت یا محض الفاظ قرآنی کے معانی کے جاننے والوں کی اصلاح میں عالم نہیں کہا جاتا، حسن بصری (رح) تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عالم وہ شخص ہے کہ جو خلوت وجلوت میں اللہ سے ڈرتے اور جن چیزوں کی اللہ نے ترغیب دی ہے وہ مرغوب ہوں اور جو چیزیں اللہ کے نزدیک مبغوض ہیں اس کو ان سے نفرت ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : لیس العلم بکثرت ولٰکن العلم عن کثرت الخشیۃ
یعنی بہت سی احادیث یاد کرلینا کوئی علم نہیں بلکہ علم وہ ہے جس کے ساتھ اللہ کا خوف ہو۔
قال مجاہد (رح) تعالیٰ ، اِنَّما العالم مَنْ خَشِیَ اللہَ عزَّ وجلَّ عالم کہلانے کا مستحق وہی ہے جس میں خشیت الہٰی غالب ہو، اور مسروق (رح) تعالیٰ نے کہا کفیٰ بخشیۃ اللہ علمًا وکفیٰ بالا غترارِجھلاً ۔
اِنما۔۔ العماءُ میں مفعول کو مقدم کرنے کی وجہ سے فاعلیت میں حصر ہے، مفعول کو مؤخر کرنے کی صورت میں حصر میں قلب ہوجاتا ہے۔
ان۔۔ غفورٌ یہ وجوب خشیت کی علت ہے، یعنی اس سے کیوں ڈرنا چاہیے ؟ اس لئے کہ وہ معصیت پر سزا دینے والا ہے اور توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے والا ہے۔
یرجون۔۔ تبور، اِنّ کی خبر ہونے کی وجہ سے جملہ ہو کر محلاً مرفوع ہے یعنی جو لوگ قرآن کریم کی پابندی سے تلاوت کرتے ہیں اور نمازوں کو ان کے اوقات پر اس کے آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے موقع کے لحاظ سے پوشیدہ اور ظاہر طریقہ سے خرچ کرتے ہیں بعض کے نزدیک ” سر “ سے مراد نفلی صدقہ ہے، اور ” علانیہ “ سے واجب اور فرض صدقہ ہے، تو ایسے لوگ آخرت میں ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں خسارہ کا امکان نہیں ہے اعمال صالحہ کے ثواب کی امید کی خبر دینا حصول مرجو کے وعدہ کے قائم مقام ہے، لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ کالام لن یبور سے متعلق ہے، مطلب یہ ہے کہ صالحین کا خسران و نقصان اس لئے نہیں ہوگا کہ ان کے اعمال صالحہ کا صلہ پورا پورا عطا کیا جائے گا، اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دے گا۔
انہ۔۔ شکور، یہ توفیۃ اور زیادۃٌ کی علت ہے کہ وہ مومن بندوں کے گناہ معاف کرنے والا ہے بشرطیکہ اخلاص سے توبہ کریں انکے جذبہ اطاعت اور عمل صالح کا قدر دان ہے، اسی لئے وہ صرف اجر ہی نہیں دے گا بلکہ اپنے فضل و کرم سے مزید بھی دے گا۔
ثم۔۔۔ عبادنا، ثُمَّ حرف عطف ہے، اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ثُمَّ سے پہلے اور بعد کی دونوں چیزیں اصل میں مشترک ہونے کے باوجود تقدم وتاخر رکھتی ہیں، پہلی چیز مقدم اور بعد کی چیز مؤخر ہوتی ہے، اور یہ تقدم وتاخر کبھی زمانہ کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی رتبہ اور درجہ کے اعتبار سے، یہاں ثُمَّ حرف عطف ہے، اور معطوف علیہ پہلی آیت کا لفظ اَوْحَیْنَا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے یہ قرآن جو خالص حق ہی حق ہے اور تمام پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، پہلے بطور وحی آپ کے پاس بھیجا، اس کے بعد ہم نے اس کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب اور پسند کرلیا ہے، یہ تقدم وتاخر رتبہ اور درجہ کے اعتبار سے تو ظاہر ہے ہی کہ قرآن کا بذریعہ وحی آپ کے پاس آنا رتبہ اور درجہ میں مقدم ہے اور امت کو عطا فرمانا اس سے مؤخر ہے، اور اگر امت وارث قرآن بنانے کا یہ مطلب لیا جائے کہ آپ نے اپنے بعد امت کے لئے زرو زمین کی وراثت چھوڑنے کے بجائے اللہ کی کتاب بطور وراثت چھوڑی، جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی شہادت موجود ہے، آپ نے فرمایا انبیاء درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑا کرتے، وہ وراثت میں علم چھوڑا کرتے ہیں، اور ایک دوسری حدیث میں العلماء ورثۃ الانبیاء فرمایا، اس لحاظ سے تقدیم و تاخیر زمانی بھی ہوسکتی ہے، کہ ہم نے کتاب آپ کو عطا فرمائی اور آپ نے اس کو امت کے لئے بطور وراثت چھوڑا، وارثت بنانے سے مراد عطا کرنا ہے، اور عطا کو میراث سے تعبیر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح وراثت ومشقت حاصل ہوجاتی ہے یہ کتاب کو بغیر محنت و مشقت کے حاصل ہوئی ہے، کتاب سے مراد قرآن اور منتخب بندوں سے علماء
مراد ہیں، جن کے واسطہ سے پوری امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن پہنچا ہے۔
فمنھم۔۔ بالخیرات (الآیۃ) مفسرین کے نزدیک وہ منتخب بندے جن کو کتاب اللہ (قرآن) کا وارث بنایا ہے، جمہور کے نزدیک امت محمدیہ ہے، علماء بلاواسطہ اور دوسرے لوگ بالواسطہ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کو تمام کتابوں کا وارث بنایا، اس لئے کہ قرآن کو امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نازل کیا گیا ہے وہ سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے حضرت ابن عباس (رض) سے مذکورہ آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ اِصْطَفَیْنَا مِنْ عبَادِنَا سے مراد امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، اس کو تمام آسمانی کتابوں کا وارث بنایا گیا فظالمھم مغفورٌ لہ ومقتصدھم یُحَاسَبُ حسابًا یَّسیْرًا وسابِقُھُمْ یدخُلُ الجَنَّۃَ بغیرِ حساب یعنی اس امت کا ظالم بخشا جائے گا، اور میانہ رو سے آسان حساب لیا جائے گا، اور سابق بغیر حساب میں داخل ہوگا۔ (ابن کثیر)
اس آیت میں محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین طبقے بتائے گئے ہیں، ظالم، مقتصد، سابق، ان تینوں قسموں کی تفسیر امام ابن کثیر نے اس طرح بیان فرمائی ہے، ظالم سے مراد وہ آدمی ہے جو بعض واجبات میں کوتاہی کرتا ہے، اور بعض محرمات کا ارتکاب بھی کرلیتا ہے، اور مقصد یعنی میانہ رو وہ شخص ہے جو تمام واجبات شریعت کو ادا کرتا ہے اور تمام محرمات سے اجتناب کرتا ہے مگر بعض اوقات مستحبات کو چھوڑ دیتا ہے اور بعض مکروہات میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سابق بالخیرات وہ شخص ہے جو تمام واجبات ومستحبات کو ادا کرتا ہے اور تمام محرمات ومکروہات سے اجتناب کرتا ہے اور بعض مباحات کو عبادت میں مشغول ہونے یا شبۂ حرمت کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔ (یہ ابن کثیر کا بیان ہے) دیگر مفسرین نے ان تینوں قسموں کی تفسیر میں اور بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جن کی تعداد پینتالیس تک پہنچ جاتی ہے، مگر ان کا حاصل وہی ہے جس کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے۔
ایک شبہ اور اس کا جواب : مذکورہ تفسیر سے معلوم ہوا کہ اَلَّذِیْنَ اصطَفینَا سے امت محمدیہ مراد ہے اور اس کی تین قسمیں ہیں، پہلی قسم یعنی ظالم بھی اَلَّذِیْنَ اصطَفَیْنَا یعنی اللہ کے منتخب بندوں میں شامل ہے، اس کو بظاہر مستبعد سمجھ کر بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ظالم، امت محمدیہ اور منتخب بندوں سے خارج ہے، مگر بہت سی احادیث صحیحہ معتبرہ سے ثابت ہے کہ مذکورہ تینوں قسمیں امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیں، اور یہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مومن بندوں کی انتہائی حصوصیت اور فضیلت ہے کہ ان میں جو عملی طور پر ناقص بھی ہے وہ بھی اس شرف میں داخل ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت مذکورہ اَلَّذینَ اصطَفَینَا کی تینوں قسموں کے متعلق فرمایا کہ یہ سب ایک ہی مرتبہ میں ہیں، اور سب جنتی ہیں (رواہ احمد، ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ درجات کے تفاوت کے ساتھ سب جنتی ہیں، ابوداؤد طیالسی نے عقبہ ابن صہبان بنانی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو انہوں نے فرمایا بیٹا یہ تینوں جنتی ہیں، ان میں سے سابق بالخیرات تو وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں گذرگئے جن کے جنتی ہونے کی شہادت خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیدی، اور مقصد وہ لوگ ہیں جو ان کے نشان قدم پر چلے اور سابقین کی اقتداء پر قائم رہے یہاں تک کہ ان کے ساتھ مل گئے باقی رہے ظالم لنفسہٖ تو وہ ہم تم جیسے لوگ ہیں یہ حضرت عائشہ (رض) کی کسر نفسی تھی کہ خود کو تیسرے درجہ
میں شمار کیا حالانکہ احادیث صحیحہ کی تصریحات کے مطابق وہ سابقین اولین میں سے ہیں۔
علماء امت محمدیہ کی عظیم الشان فضیلت : جیسا کہ سابق میں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو کتاب اللہ کا وارث بنایا وہ اس کے منتخب بندے ہیں، اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کتاب اللہ کے وارث بلاواسطہ حضرات علماء ہیں، جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے العلماء ورثۃ الانبیاء حضرت ثعلبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز علماء امت سے خطاب فرمائیں گے کہ میں نے تمہارے سینوں میں اپنا علم و حکمت صرف اسی لئے رکھا تھا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ تمہاری مغفرت کردوں عمل تمہارے کیسے بھی ہوں، اور یہ بات اوپر معلوم ہوچکی ہے کہ جس شخص میں خشیت اور خوف خدا نہیں، وہ علماء کی فہرست ہی سے خارج ہے اس لئے یہ خطاب ام لوگوں کو ہوگا جو خشیت کے رنگ ہوئے ہوں۔ (ابن کثیر)
اولم۔۔ کم یعنی جب جہنمی جہنم میں فریاد کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار آپ ہمیں اس عذاب سے نکال دیجئے، اب ہم آئندہ نیک عمل کریں گے، یعنی غیروں کے بجائے تیری عبادت اور معصیت کے بجائے اطاعت کریں گے، تو اس وقت جواب دیا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر کی مہلت نہیں دی تھی جس میں غور کرنے والا غور کرکے صحیح راستہ پر آجائے، حضرت علی بن حسین، زین العابدین نے فرمایا کہ اس سے مراد سترہ سال کی عمر ہے اور حضرت قتادہ نے اٹھارہ سال کی عمر بتلائی ہے، اور مراد اس سے عمر بلوغ ہے۔
فائدہ : اس آیت میں سب سے پہلے ” ظالم “ کو پھر ” مقتصد “ کو آخر میں ” سابق بالخیرات “ کو ذکر فرمایا ہے حالانکہ ترتیب اگر اس کے بر عکس ہوتی تو بہتر ہوتا، اس ترتیب کا سبب شاید یہ ہو کہ تعداد کے اعتبار سے ظالم لنفسہٖ سب سے زیادہ ہیں ان سے کم مقتصد اور ان سے کم بالخیرات ہیں جن کی تعداد زیادہ تھی ان کو مقدم کیا گیا، ظالم کی تقدیم سے یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ تقدیم، افضل و اشرف ہونے کا تقاضہ کرتی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے قول لا یسْتَوِی اصحابُ النار واصحابُ الجنۃِ میں اہل نار کو مقدم بیان کیا ہے حالانکہ ان کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہے۔
English Sahih:
Do you not see that Allah sends down rain from the sky, and We produce thereby fruits of varying colors? And in the mountains are tracts, white and red of varying shades and [some] extremely black.
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں