پھر جب وہ (اسماعیل علیہ السلام) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسماعیل علیہ السلام نے) کہا: ابّاجان! وہ کام (فوراً) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے،
English Sahih:
And when he reached with him [the age of] exertion, he said, "O my son, indeed I have seen in a dream that I [must] sacrifice you, so see what you think." He said, "O my father, do as you are commanded. You will find me, if Allah wills, of the steadfast."
1 Abul A'ala Maududi
وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا، "بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟" اُس نے کہا، "ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ انشاءاللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے"
2 Ahmed Raza Khan
پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کی جیئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، خدا نے چاہتا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے،
3 Ahmed Ali
پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا کہا اے بیٹے! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا رائےہے کہا اے ابا! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیئے آپ مجھے انشاالله صبر کرنے والوں میں پائیں گے
4 Ahsanul Bayan
پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، (١) تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا کہ میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے (٢) بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
١٠٢۔١ یعنی دوڑ دھوپ کے لائق ہوگیا یا بلوغت کے قریب پہنچ گیا، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بچہ ١٣ سال کا تھا۔ ١٠٢۔٢ پیغمبر کا خواب، وحی اور حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امر الٰہی کے لئے کس حد تک تیار ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجیئے خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پایئے گا
6 Muhammad Junagarhi
پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا ﻻئیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
پس جب وہ لڑکا آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو آپ(ع) نے فرمایا (اے بیٹا) میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں تم غور کرکے بتاؤ کہ تمہاری رائے کیا ہے؟ عرض کیا بابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ بجا لائیے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشائ اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
9 Tafsir Jalalayn
جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا تو (ابراہیم نے) کہا بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئے، خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیے گا
10 Tafsir as-Saadi
﴿فَلَمَّا بَلَغَ﴾ ” پس جب پہنچا“ لڑکا ﴿ مَعَهُ السَّعْيَ﴾ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گیا اور اس کی اتنی عمر ہوگئی، جب وہ غالب طور پر اپنے والدین کو بہت محبوب ہوتا ہے، اس کی دیکھ بھال کی مشقت کم اور اس کی منفعت شروع ہوچکی ہوتی ہے تو آپ نے اس سے کہا ﴿إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ ﴾ یعنی میں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے حکم دے رہا ہے کہ میں تجھے ذبح کروں اور انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ ﴿فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ﴾ ” پس تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ لازمی امر ہے۔ ﴿قَالَ﴾ اسماعیل علیہ السلام نے اپنے باپ کی اطاعت، ثواب کی امید کرتے ہوئے نہایت صبر کے ساتھ اپنے رب کی رضا پر راضی ہو کر کہا : ﴿يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾ ابا جان ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس کام کا حکم دیا ہے اسے کر گزریئے ﴿ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ﴾ ”اگر اللہ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔“ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد محترم کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے نفس کو صبر پر مجبور کریں گے اور اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے مقرون کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir jab woh larka Ibrahim kay sath chalney phirney kay qabil hogaya to unhon ney kaha : betay ! mein khuwab mein dekhta hun kay tumhen zibah ker raha hun , abb soch ker batao , tumhari kiya raye hai-? betay ney kaha : abba jaan ! aap wohi kijiye jiss ka aap ko hukum diya jaraha hai , in-sha-Allah aap mujhay sabar kernay walon mein say payen gay .