Skip to main content

وَقَالُوْا يٰوَيْلَنَا هٰذَا يَوْمُ الدِّيْنِ

And they will say
وَقَالُوا۟
اور وہ کہیں گے
"O woe to us!
يَٰوَيْلَنَا
ہائے افسوس ہم پر
This
هَٰذَا
یہ ہے
(is the) Day
يَوْمُ
دن
(of) the Recompense"
ٱلدِّينِ
جزا کا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اُس وقت یہ کہیں گے "ہائے ہماری کم بختی، یہ تو یوم الجزا ہے"

English Sahih:

They will say, "O woe to us! This is the Day of Recompense."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اُس وقت یہ کہیں گے "ہائے ہماری کم بختی، یہ تو یوم الجزا ہے"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور کہیں گے ہائے ہماری خرابی ان سے کہا جائے گا یہ انصاف کا دن ہے

احمد علی Ahmed Ali

اور کہیں گے ہائے ہماری کمبختی! جزا کا دن یہی ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور کہیں گے کہ ہائے ہماری خرابی یہی جزا (سزا) کا دن ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور کہیں گے، ہائے شامت یہی جزا کا دن ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور کہیں گے کہ ہائے ہماری خرابی یہی جزا (سزا) کا دن ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور کہیں گے ہائے ہماری بدبختی! یہ تو جزا (و سزا) کا دن ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور کہیں گے کہ ہائے افسوس یہ تو قیامت کا دن ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور کہیں گے: ہائے ہماری شامت! یہ تو جزا کا دن ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

قیامت والے دن کفار کا اپنے تئیں ملامت کرنا اور پچھتانا اور افسوس و حسرت کرنا بیان ہو رہا ہے کہ وہ نادم ہو کر قیامت کے دہشت خیز اور وحشت انگیز امور کو دیکھ کر کہیں گے ہائے ہائے یہی تو روز جزا ہے۔ تو مومن اور فرشتے بطور ڈانٹ ڈپٹ اور ندامت بڑھانے کے ان سے کہیں گے ہاں یہی تو وہ فیصلے کا دن ہے جسے تم سچا نہیں مانتے تھے۔ اس دن اللہ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ظالموں کو ان کے جوڑوں کو ان کے بھائی بندوں کو اور ان جیسوں کو ایک جاجمع کرو۔ مثلاً زانی زانیوں کے ساتھ سود خوار سود خواروں کے ساتھ شرابی شرابیوں کے ساتھ وغیرہ ایک قول یہ بھی ہے کہ ظالموں کو اور ان کی عورتوں کو، لیکن یہ غریب ہے۔ ٹھیک مطلب یہی ہے کہ انہی جیسوں کو اور ان کے ساتھ ہی جن بتوں کو اور جن جن کو شریک اللہ یہ مقرر کئے ہوئے تھے سب کو جمع کرو۔ پھر ان سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ جیسے فرمان ہے۔ (وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا ۭ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا 97؀) 17 ۔ الإسراء ;97) ، یعنی انہیں ان کے منہ کے بل اندھے بہرے گونگے کرکے ہم جمع کریں گے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس کی آگ جب کبھی ہلکی ہوجائے ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ انہیں جہنم کے پاس کچھ دیر ٹھہرا دو تاکہ ہم ان سے پوچھ گچھ کرلیں۔ ان سے حساب لے لیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص کسی کو کسی چیز کی طرف بلائے۔ وہ قیامت کے دن اس کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا نہ بیوفائی ہوگی نہ جدائی ہوگی گو ایک کو ہی بلایا ہو پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی حضرت عثمان بن زائدہ فرماتے ہیں سب سے پہلے انسان سے اس کے ساتھیوں کی بابت سوال کیا جائے گا۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیوں آج ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟ تم تو دنیا میں کہتے پھرتے تھے کہ ہم سب ایک ساتھ ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ یہ تو کہاں ؟ بلکہ آج تو یہ ہتھیار ڈال چکے اللہ کے فرمانبردار بن گئے۔ نہ اللہ کے کسی فرمان کا خلاف کریں نہ کرسکیں نہ اس سے بچ سکیں نہ وہاں سے بھاگ سکیں۔ واللہ اعلم۔