الصافات آية ۲۲
اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَۙ
طاہر القادری:
اُن (سب) لوگوں کو جمع کرو جنہوں نے ظلم کیا اور ان کے ساتھیوں اور پیروکاروں کو (بھی) اور اُن (معبودانِ باطلہ) کو (بھی) جنہیں وہ پوجا کرتے تھے،
English Sahih:
[The angels will be ordered], "Gather those who committed wrong, their kinds, and what they used to worship
1 Abul A'ala Maududi
(حکم ہو گا) گھیر لاؤ سب ظالموں اور ان کے ساتھیوں اور اُن معبودوں کو جن کی وہ خدا کو چھوڑ کر بندگی کیا کرتے تھے
2 Ahmed Raza Khan
ہانکو ظالموں اور ان کے جوڑوں کو اور جو کچھ وہ پوجتے تھے،
3 Ahmed Ali
انہیں جمع کر دو جنہوں نے ظلم کیا اور ان کی بیویوں کو اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے
4 Ahsanul Bayan
ظالموں کو (١) اور ان کے ہمراہیوں کو (٢) اور (جن) جن کی وہ اللہ کے علاوہ پرستش کرتے تھے (٥)۔
٢٢۔١ یعنی جنہوں نے کفر و شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہوگا۔
٢٢۔٢ اس سے مراد کفر و شرک اور تکذیب رسل کے ساتھ یا بعض کے نزدیک جنات و شیاطین ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ بیویاں ہیں جو کفر و شرک میں ان کی ہمنوا تھیں۔
٢٢۔٣ وہ مورتیاں ہوں یا اللہ کے نیک بندے، سب کو ان کی تذلیل کے لئے جمع کیا جائیے گا۔ تاہم نیک لوگوں کو اللہ جہنم سے دور ہی رکھے گا، اور دوسرے معبودوں کو ان کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تاہم وہ دیکھ لیں کہ یہ کسی کو نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ ظلم کرتے تھے ان کو اور ان کے ہم جنسوں کو اور جن کو وہ پوجا کرتے تھے (سب کو) جمع کرلو
6 Muhammad Junagarhi
ﻇالموں کو اور ان کے ہمراہیوں کو اور (جن) جن کی وه اللہ کے علاوه پرستش کرتے تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
(فرشتوں کو حکم ہوگا کہ) جن لوگوں نے ظلم کیا اور ان کے ہم مشربوں کو اور اللہ کو چھوڑ کر جن کی یہ پرستش کرتے تھے ان سب کو جمع کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
فرشتو ذرا ان ظلم کرنے والوں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور خدا کے علاوہ جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے سب کو اکٹھا تو کرو
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ ظلم کرتے تھے ان کو اور ان کے ہم جنسوں کو اور جن کو وہ پوجا کرتے تھے (سب کو) جمع کرلو
آیت نمبر 22 تا 50
ترجمہ : اور فرشتوں سے کہا جائے گا ان لوگوں کو جنہوں نے شرک کرکے اپنے اوپر ظلم کیا اور ان کے شیطانی رفیقوں کو اور ان کے معبودوں کو جن کی وہ خدا کے علاوہ بندگی کیا کرتے تھے کہ وہ بت ہیں جمع کرلو اور ان کو جہنم کا راستہ دکھلا دو اور گھسیٹ کرلے جاؤ اور ان کی صراط کے پاس ٹھہراؤ ان سے ان کے تمام اقوال و افعال کے بارے میں سوال کرنا ہے اور ان سے توبیخاً کہا جائے گا تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟ جیسا کہ دنیا میں تمہارا طریقہ تھا، اور ان (کی حالت کے بارے میں) کہا جائے گا بلکہ وہ آج سرنگوں ذلیل ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر ایک دوسرے کو ملامت اور الزام تراشی کریں گے ان میں سے تابعین مبتوعین سے کہیں گے تم ہمارے پاس حلفیہ طریقہ سے آتے تھے ہم تمہاری اس قسم کی وجہ سے کہ تم حق پر ہو تمہارا یقین کرلیتے تھے، اور تمہاری اتباع کرلیتے تھے، مطلب یہ ہے کہ تم ہی نے ہم کو گمراہ کیا تھا، متبوعین ان سے کہیں گے نہیں بلکہ (حقیقت) یہ ہے کہ تم خود ہی مومن نہیں تھے، ہماری طرف سے گمراہ کرنا اس وقت صادق آتا کہ تم مومن ہوتے پھر ایمان سے پھرجاتے اور ہمارا تم پر کوئی زور اور قدرت تو تھی نہیں کہ ہم تم کو اپنی اتباع پر مجبور کرتے بلکہ تم خود ہی ہمارے مانند گمراہ لوگ تھے تو ہم سب پر ہمارے رب کے عذاب کی وعید (یعنی) لاملأن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین ثابت ہوگئی، (اب) ہم سب کو اس وعید کے مطابق عذاب کا مزا چکھنا ہے اور قول رب (یعنی وعید مذکور) سے ان کا قول فاغوینا کُم ثابت ہوگیا، یعنی ہمارا تم کو (قضاء و قدر) کی وجہ سے گمراہ کرنا ثابت ہوگیا (لہٰذا ہمارے تم کو گمراہ کرنے کی وجہ سے ہم پر تم کو غصہ نہ ہونا چاہیے) فاغویناکم یہ معلول ہے ان کے قول انَا کُنَّا غاوینَ کا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ وہ سب تابعین اور متبوعین قیامت کے دن عذاب میں شریک ہوں گے، ان کے گمراہی میں مشترک ہونے کی وجہ سے ہم جیسا کہ ان کے ساتھ کر رہے ہیں ان کے علاوہ ہر مجرم کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں، یعنی تابع اور متبوع کو عذاب دیتے ہیں وہ یعنی مابعد کے قرینہ سے یہی لوگ (مراد ہیں) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کہو تو یہ لوگ تکبر کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ بھلا ہم ایک شاعر مجنون کے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے سے، بات ایسی نہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ حق لے کر آیا ہے اور حق لانے والا رسولوں کی تصدیق کرتا ہے اور حق لا الٰہ الا اللہ ہے یقیناً تم دردناک عذاب کا مزا چکھنے والے ہو، اس میں (غیبت سے خطاب کی طرف) التفات ہے تمہیں اسی کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے، مگر اللہ کے مخلص بندے یعنی مومنین یہ مستثنیٰ منقطع ہے، ان کئ جزاء اللہ تعالیٰ کے قول اولئک لھم رزقٌ معلومٌ (الآیۃ) میں ذکر کی گئی ہے یہی ہیں وہ لوگ جن کا رزق جو کہ میوے ہیں جنت میں وقت مقررہ پر (پابندی سے) صبح و شام ملے گا فواکہٌ، رزقٌ سے بدل ہے، یا عطف بیان ہے فواکہٌ ان پھلوں اور میووں کو کہا جاتا ہے جو تلذذ کے طور پر کھائے جاتے ہیں نہ کہ بقاء صحت کے لئے، اس لئے کہ جنتی بقائے صحت سے مستغنی ہوں گے، اس لئے کہ ان کے اجسام کی تخلیق ابدالآباد کے لئے ہوگی، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نعمتوں والی جنت میں ان کا اکرام کیا جائے گا حال یہ ہے کہ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے کوئی کسی کی گدی (پشت) کو نہ دیکھے گا اور ان میں سے ہر ایک پر بہتی ہوئی صاف شراب کے جام کا در چلایا جائے گا، کأس اس جام کو کہتے ہیں جس میں شراب ہو (ورنہ تو قدح کہلاتا ہے) معین وہ شراب جو سطح زمین پر پانی کے مانند جاری ہو وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید ہوگی پینے والوں کے لئے نہایت لذیذ ہوگی بخلاف دنیا کی شراب کے کہ وہ پینے میں بدمزہ ہوتی ہے نہ اس میں دردسر ہوگا کہ ان کی عقلوں میں فتور ڈال دے اور نہ اس کی وجہ سے بدحواس ہوں گے (ینزفُون) میں ز کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ یہ نزف الشارف انزفَ سے ماخوذ ہے، یعنی بدمست نہ ہوں گے بخلاف دنیوی شراب کے کہ (اس سے بدمستی ہوتی ہے) اور ان کے پاس نیچی نگاہوں والی (شرمیلی) یعنی وہ اپنی نظروں کو اپنے شوہروں تک محدود رکھنے والی ہوں گی، دوسروں کی طرف نظرنہ اٹھائیں گی اس لئے کہ ان کے شوہر ان کی نظر میں (سب سے زیادہ) حسین ہوں گے، بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی ہوں گی گویا کہ وہ رنگ میں شتر مرغ کے انڈے ہیں، جو اس کے پروں میں مستور ہیں، ان تک غبار کی رسائی نہیں ہونی اور ان کا رنگ سفید زردی آمیز ہوگا، جو کہ عورتوں کا حسین ترین رنگ سمجھا جاتا ہے جنتی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر دنیا کی سرگزشت کے بارے میں باتیں کریں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اُحشُرُوا تم جمع کرو حشرٌ سے جمع مذکر حاضر ہے (ن، ض) ۔
قولہ : انفسھم بالشرکِ ، انفسھُمْ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ ظَلَمُوا کا مفعول محذوف ہے اور بالشرکِ میں با سببیہ ہے یعنی انہوں نے شرک کے سبب سے اپنے اوپر ظلم کیا۔
قولہ : قِفُوھُمْ امر جمع مذکر حاضر معروف (ن، ض) وقفًا وقوفًا لازم و متعدی دونوں طرف مستعمل ہے کھڑا کرنا، کھڑا ہونا، یہاں متعدی ہے ان کو روکو۔
قولہ : تاتوننا عن الیمین، عن الیمین تاتونَنَا کی ضمیر سے حال ہے ای تأتوننا اقویاء یمین کے ایک معنی ہیں دایاں ہاتھ، مقصد اظہار قوت ہے، اس لئے کہ دائیں ہاتھ میں قوت زیادہ ہوتی ہے، دوسرے معنی ہیں قسم چونکہ متعاقدین بیع کو تام اور پختہ کرنے کیلئے اپنے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے تھے، جس طرح قسم سے بات پختہ ہوجاتی ہے، اسی طرح عرب کے عرف میں ہاتھ پر ہاتھ مارنے سے بیع تام اور پختہ ہوجاتی تھی، فقہی اصطلاح میں اس کو ” صفقہ “ کہتے ہیں، اس کے معنی تالی بجانا اس معنی کے اعتبار سے تقدیر عبارت یہ ہوگی تاتوننا حالفین۔
قولہ : یتساءلون کی تفسیر یتلاومون ویتخاصمُونَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں تساؤل سے مراد، خیر خیریت معلوم کرنا نہیں ہے بلکہ لعنت ملامت اور الزام تراشی مراد ہے مشرکین کے بارے میں دوسری جگہ کہا گیا ہے کلما دخلت اُمَّۃٌ لعنت اختھا بخلاف جنت میں مومنین کے تساؤل کے کہ وہ شکر اور تحدیث نعمت کے طور پر ہوگا۔
قولہ : قالوا بل لم تکونوا مؤمنین الآیۃ رؤساء مشرکین نے کمزور طبقہ کے مشرکین کے الزاموں کے پانچ جواب دئیے ہیں، ان میں
سے یہ پہلا ہے اور آخری فاغویناکُمْ انا کنا غاوینَ ہے، مطلب یہ ہے کہ تم کبھی بھی مومن نہیں تھے، لہٰذا تمہارے گمراہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم پر گمراہ کرنے کا الزام تو اس وقت صادق آسکتا تھا کہ پہلے تم ایمان لائے ہوتے ہو ہمارے گمراہ کرنے کی وجہ سے ایمان ترک کرکے کفر کو اختیار کیا ہوتا۔
قولہ : انکم، فیہ التفاتٌ یعنی غیبت سے خطاب کی طرف التفات ہے، کانوا اذا قیل لھم میں غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اور زیادتی تقبیح کے لئے غیبت سے خطاب کی جانب التفات کیا ہے۔
قولہ : وما تجزونَ الاَّ ما کنتم تعملونَ واؤ عاطفہ ہے، ما نافیہ ہے تجزونَ مبنی للمفعول ہے، اس کے اندر ضمیر نائب فاعل ہے اِلاَّ حرف استثناء ہے اور ما مفعول بہ ثانی ہے اور اس سے پہلے مضاف محذوف ہے، ای ما تجزون الا جزاء ما کنتم تعمَلُونَ ۔
قولہ : الاَّ عبادَ اللہِ المُخْلصینَ الاَّ حرف استثناء بمعنی لکن ہے اس لئے کہ یہ استثناء منقطع ہے، عبَاد اللہ تجزونَ کی ضمیر سے مستثنیٰ ہے۔
قولہ : اولئک لھُمْ رزقٌ معلومٌ کلام مستانف ہے۔
قولہ : بکأسٍ ، کاسٌ پیالہ جبکہ اس میں شراب ہو اور خالی ہو تو اس کو قدحٌ کہے ئ ہیں، اس کی جمع اکواسٌ و کؤوسٌ آتی ہے۔
قولہ : بیضاء یہ کاسٌ کی صفت بھی ہوسکتی ہے اور خمر کی بھی اس لئے کہ یہ دونوں ہی مؤنث سماعی ہیں۔
قولہ : لذَۃٌ یا تو صفت مشبہ کا صیغہ ہے جیسا کہ صعب سھلٌ تو اس صورت میں مشتق ہوگا اور اس کی صفت بنانا ظاہر ہے اور یہ مصدر ہے تو صفت مبالغۃً ہوگی، یا پھر مضاف محذوف ہوگا، ای ذات لَذَّۃٍ ۔
قولہ : غولٌ اسم فعل ہے اور مصدر بھی مستعمل ہے، نشہ، دردسر، مستی، بگاڑ، فساد، اچانک ہلاک کردینا (ن) یعنی جنت کی شراب میں نہ بدمستی ہوگی اور نہ فساد عقل، اور نہ دردسر بخلاف دنیا کی شراب کے۔
قولہ : ینزفُونَ نزفٌ سے مضارع مجہول جمع مذکر غائب (ض) ان کی عقل میں فتور نہ آئے گا۔ قولہ : عینٌ یہ عیناء کی جمع ہے، بڑی آنکھوں والیاں۔ قولہ : بیضٌ مکنونٌ، بیضٌ بیضۃٌ کی جمع ہے لہٰذا جمع کے اعتبار سے مکنونۃٌ ہونا چاہیے۔ جواب : جس جمع کے واحد اور جمع میں ” ۃ “ سے فرق ہوتا ہے اس میں تذکیر و تانیث مساوی ہوتی ہے۔
تفسیر و تشریح
احشروا الذین ظلموا انفسھم یہ اللہ تعالیٰ کا ملائکہ کو خطاب ہے، یا بعض ملائکہ کا بعض کو خطاب ہے ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے تقول الملائکۃُ للزبانیۃِ احشروا الخ یعنی ان ظالموں کو اور ان کے ہم مشربوں کو جنہوں نے شرک کے ظلم عظیم کا ارتکاب کیا ہے جمع کرلو، یہاں ہم مشربوں کے لئے ازواج کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کے لفظی معنی جوڑے کے ہیں، اور یہ لفظ بیوی اور شوہر کے معنی میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس لئے مفسرین نے اس کے معنی مشرکہ بیوی کے کئے ہیں، لیکن اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں ازواج سے شرک و کفر اور تکذیب رسل میں ہم خیال و ہم مشرب لوگ مراد ہیں، اس کی تائید حضرت عمر (رض) کے ایک ارشاد سے بھی ہوتی ہے، اس آیت کی تفسیر میں حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ یہاں ازواج سے ان کے جیسے (ہم خیال) لوگ مراد ہیں، اخرج عبد الرزاق وابن ابی شیبۃ وغیرھما من طریق نعمان بن بشیر عن عمر بن الخطاب (رض) انہ قال ازواجُھُم امثالھم الذین ھم مثلھم چناچہ سود خور سود خوروں کے ساتھ اور زانی زانیوں کے ساتھ اور شرابی شرابیوں کے ساتھ جمع کئے جائیں گے۔ (روح المعانی)
وما کانوا یعبدونَ یعنی مشرکوں کے ساتھ ان ضمی معبودوں کو بھی جمع کیا جائے گا، تاکہ ان کو حسرت اور شرمندگی زیادہ ہو، اور مشرکوں کو اپنے معبودوں کی بےبسی کا اچھی طرح نظارہ کرایا جائے، کہا گیا ہے کہ ” ما “ چونکہ عام ہے ہر معبود کو شامل ہے حتی کہ ملائکہ و مسیح و عزیر (علیہم السلام) کو بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو اپنے قول انَّ الذینَ سبقت لھُمْ منا الحسنیٰ کے ذریعہ خاص کرلیا ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ ” ما “ سے اصنام واوثان کی طرف اشارہ ہے، اس لئے کہ لفظ ما غیر ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور یہاں سلسلہ کلام بھی ان مشرکین کے بارے میں ہے جو بت پرستی کرتے تھے۔ (روح المعانی) اس کے بعد فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فاھدُوھُم الیٰ صراط الجحیم یعنی ان کو جہنم کی راہ دکھاؤ۔ یہ حکم یا تو اماکن مختلفہ سے میدان حشر میں جمع کرنے کے لئے ہوگا اور بعض نے فرمایا کہ یہ حکم میدان حشر سے جہنم کی طرف لیجانے کے لئے ہوگا۔ (روح المعانی) جب فرشتے ان کو لے چلیں گے اور پل صراط کے قریب پہنچیں گے تو حکم ہوگا وقفوھُم انھم مسئولون ان کو روکو ان سے سوال ہوگا، چناچہ اس مقام پر ان کے عقائد و اعمال کے بارے میں سوالات کئے جائیں گے جن کا ذکر قرآن و حدیث میں بہت سے مقامات پر آیا ہے۔
واقبل بعضھم علیٰ بعضٍ یتساءلون میدان حشر میں جمع ہونے کے بعد جب کافروں کے بڑے بڑے سردار جنہوں نے چھوٹے لوگوں کو دنیا میں بہکایا تھا ملاقات کریں گے تو آپس میں ایک دوسرے پر لعنت ملامت اور الزام تراشی کریں گے آئندہ آیتوں میں ان کے آپس بحث و تکرار کا کچھ نقشہ کھینچ کر فریقین کا انجام بد بیان کیا گیا ہے۔
انکم کنتم تاتوننا عن الیمین ” یمین “ کے متعدد معانی آتے ہیں ایک معنی قوت و طاقت کے بھی ہیں اس معنی کے اعتبار سے تفسیر یہ ہوگی کہ ہم پر تمہاری آمد بڑے زور کی ہوا کرتی تھی، یعنی تم ہم پر خوب دباؤ ڈال کر ہمیں گمراہ کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ یمینٌ کے ایک معنی قسم کے بھی ہیں، اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تم قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلایا کرتے تھے، اور یہ باور کرانے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ ہم حق پر ہیں، ہمیں تمہاری قسموں کی وجہ سے تمہاری باتوں پر یقین آجایا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہم گمراہ ہوگئے، آج جس کی سزا بھگت رہے ہیں، الفاظ قرآنی کے اعتبار سے یہ دونوں ہی تفسیریں بےتکلف ہیں، ان دونوں میں بھی پہلی بےغبار اور صاف ہے۔ (روح المعانی) علامہ محلی نے دوسری تفسیر کو اختیار کیا ہے۔
قالوا ای المتبوعون لھم یہ کلام مستانف ہے، گویا کہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ جب قوم کے کمزور اور کم حیثیت طبقہ کے لوگوں نے رؤساء قوم کو مورد الزام اور قصور وار ٹھہرایا تو رؤساء قوم نے اس کا کیا جواب دیا ؟ مذکورہ کلام سے رؤساء و سرداروں کا جواب نقل فرمایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمہارا ہم کو قصوروار ٹھہرانا غلط ہے، اس لئے کہ ہمارا تم پر کوئی زور نہیں تھا، ہماری کیا مجال تھی کہ ہم تم کو کفر و شرک پر مجبور کرتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم خود گمراہ اور سرکش تھے، قرآن کریم نے ضعفاء اور رؤساء کی بحث و تکرار اور اس کے نمونے مختلف مقامات پر ذکر فرمائے ہیں، ان کی ایک دوسرے پر الزام تراشی اور لعنت ملامت میدان حشر میں بھی ہوگی، اور جہنم میں داخل ہونے کے بعد بھی، ملاحظہ ہو سورة المومن 47، 48، سورة سبا 31، 32، سورة احزاب 67، 68، سورة اعراف 38، 39 ۔
فحق علینا قول ربنا اب تو ہم (سب) پر ہمارے رب کی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہم (عذاب) کا مزا چکھنے والے ہیں فاغویناکم انا کُنَّا غاوینَ یعنی رؤساء قوم نے پہلے جس بات کا انکار کیا تھا بلکہ ضعفاء کے الزام کو رد کرتے ہوئے خود ان کو ہی مورد الزام قرار دیا تھا، اب اسی بات کا اعتراف و اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں، واقعی ہم ہی نے تم کو گمراہ کیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ ہم خود بھی گمراہ تھے ہم نے چاہا کہ تم بھی ہم جیسے ہوجاؤ، اور تم نے بآسانی ہماری راہ اپنالی، روز محشر شیطان بھی یہی کہے گا وما کان لیَ علیکم من سلطانٍ اِلاَّ ان دَعَوتُکُم فاستجبتُم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم۔ (ابراہیم)
فانھم یومئذٍ فی العذاب مشترکون قیامت کے روز یہ دونوں فریق عذاب میں شریک ہوں گے، اس لئے کہ ان کا جرم بھی مشترک ہے شرک، معصیت، اور شروفساد ان کا وطیرہ تھا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ناجائز کام کی دعوت دے اور گناہ پر آمادہ کرنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تو اسے دعوت گناہ کا عذاب تو بیشک ہوگا لیکن جس شخص نے اس دعوت کو اپنے اختیار سے قبول کرلیا، وہ بھی اپنے عمل کے گناہ سے بری نہیں ہوسکتا، اور آخرت میں یہ کہہ کر چھٹکارا نہیں پاسکتا کہ مجھے تو فلاں شخص نے گمراہ کیا تھا، ہاں اگر اس نے گناہ کا ارتکاب اپنے اختیار سے نہ کیا ہو بلکہ جبر واکراہ کی حالت میں اپنی جان بچانے کے لئے کرلیا ہو تو انشاء اللہ اس کی معافی کی امید ہے۔ (معارف)
انھم کانوا اذا قیل لھم لا الہ الا اللہ یستکبرون، یعنی دنیا میں جب ان سے کہا جاتا تھا کہ جس طرح مسلمانوں نے یہ کلمہ پڑھ کر شرک و معصیت سے توبہ کرلی ہے تم بھی یہ کلمہ پڑھ لو تاکہ دنیا میں بھی مسلمانوں کے قہر و غضب سے محفوظ رہو اور آخرت میں عذاب الٰہی سے تمہیں دوچار ہونا پڑے، تو وہ تکبر و انکار کرتے ہوئے کہتے أئنا لتارکوا الھَتِنَا لشاعر مجنون کیا ہم ایک دیوانے اور شاعر کے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں، حالانکہ آپ دیوانے نہیں فرزانے تھے، اور قرآن کوئی شاعری نہیں بلکہ حقیقت ہے، اور اس دعوت کو اپنانے میں ہلاکت نہیں نجات اور ہمیشہ ہمیش کی کامیابی ہے۔
اولئک لھم رزق معلومٌ اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے، ” انہی لوگوں کے لئے ایسا رزق ہے جس کا حال معلوم ہے “ مفسرین نے اس کے مختلف مطلب بیان کئے ہیں، بعض حضرات نے فرمایا کہ رزق معلوم سے اس کے متعین اوقات مراد ہیں یعنی وہ صبح و شام پابندی کے ساتھ عطا کئے جائیں گے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ رزق معلوم سے مراد یقینی اور دائمی ہے یعنی وہ رزق دنیا کی طرح نہ ہوگا کہ کوئی شخص یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ کل مجھے کتنا اور کیا رزق ملے گا، بخلاف جنت کے رزق کے کہ وہ یقینی بھی ہوگا اور دائمی بھی (قرطبی، معارف) قتادہ نے کہا ہے کہ وہ رزق جنت ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ رزق معلوم وہ ہے جو بعد میں مذکور ہے یعنی فواکہُ وھم مکرمون میں فواکہ رزق سے بدل یا عطف بیان ہے یا مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھُو فواکہُ ، وھُم مکرمون حال کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے فی جناتٍ نعیمٍ ، مکرمون کے متعلق ہے یا ھُمْ مبتداء کی خبر ثانی ہے، علیٰ شرُرٍ خبر ثالث بھی ہوسکتی ہے اور حال کا بھی احتمال ہے متقابلین مکرمون کی ضمیر سے حال ہے یعنی جنتیوں کو ہر قسم کے میوے عزت و اکرام کے ساتھ ملیں گے، کانَّھُنَّ بیضٌ مکنُونٌ جنتی حوروں کا رنگ شتر مرغ کے انڈوں کے مانند ہوگا جن کو شتر مرغ اپنے پروں میں چھپائے ہوئے ہو، جس کی وجہ سے گردوغبار سے محفوظ ہوں گے جنتی جنت میں بیٹھے ہوئے آپس میں ذکر و تذکرے کے طور پر دنیا کے واقعات اور اپنی اپنی سرگزشت یاد کریں گے اور ایک دوسرے کو سنائیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب قیامت کے روز وہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر کئے جائیں گے اور اس چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس کی وہ تکذیب کیا کرتے اور اس کا تمسخر اڑایا کرتے تھے، تو ان کو جہنم میں داخل کرنے کا حکم دیا جائے گا، جس کو وہ جھٹلایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جائے گا : ﴿ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ ” جو لوگ ظلم کرتے تھے انہیں جمع کرو۔“ یعنی جنہوں نے کفر، شرک اور معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ﴿وَأَزْوَاجَهُمْ﴾ ” اور ان کے ہم جنسوں کو“ یعنی جن کا عمل ان کے عمل کی جنس سے ہے، ہر شخص کو اس شخص کے ساتھ شامل کردیا جائے گا جو عمل میں اس کا ہم جنس تھا۔ ﴿وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ ” اور جن کی و وہ اللہ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن بتوں اور خود ساختہ ہم سروں کی عبادت کیا کرتے تھے اور جن کو انہوں نے معبود بنا رکھا تھا، جمع کیا جائے گا۔ کہا جائے گا کہ ان سب کو اکٹھا کرو ۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( farishton say kaha jaye ga kay : ) gher lao unn sabb ko jinhon ney zulm kiya tha , aur unn kay sathiyon ko bhi , aur unn ko bhi