الصافات آية ۵۱
قَالَ قَاۤٮِٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّىْ كَانَ لِىْ قَرِيْنٌۙ
طاہر القادری:
ان میں سے ایک کہنے والا (دوسرے سے) کہے گا کہ میرا ایک ملنے والا تھا (جو آخرت کا منکِر تھا)،
English Sahih:
A speaker among them will say, "Indeed, I had a companion [on earth].
1 Abul A'ala Maududi
ان میں سے ایک کہے گا، "دنیا میں میرا ایک ہم نشین تھا
2 Ahmed Raza Khan
ان میں سے کہنے والا بولا میرا ایک ہمنشین تھا
3 Ahmed Ali
ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا
4 Ahsanul Bayan
ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ایک کہنے والا ان میں سے کہے گا کہ میرا ایک ہم نشین تھا
6 Muhammad Junagarhi
ان میں سے ایک کہنے واﻻ کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
(چنانچہ) ان میں سے ایک کہے گا کہ (دنیا میں) میرا ایک رفیق تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو ان میں کا ایک کہے گا کہ دار دنیا میں ہمارا ایک ساتھی بھی تھا
9 Tafsir Jalalayn
ایک کہنے والا ان میں سے کہے گا کہ میرا ایک ہم نشین تھا
آیت نمبر 51 تا 84
ترجمہ : ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا میرا ایک رفیق تھا جو بعث بعد الموت کا منکر تھا، وہ مجھ سے مجھے لاجواب کرنے کے لئے کہتا تھا کہ کیا تم بھی بعث بعد الموت کا اعتقاد رکھنے والوں میں سے ہو ؟ بھلا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے تو کیا ہم کو جزاء دی جائے گی، اور ہمارا حساب کیا جائیگا، اور وہ اس (جزاء و سزا) کا بھی منکر تھا یہ قائل اپنے بھائیوں (احباب) سے کہے گا کیا تم اس کو میرے ہمراہ دوزخ میں جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو ! ! تاکہ ہم اس کی حالت دیکھیں، تو وہ جواب دیں گے کہ نہیں، تو یہ قائل جنت کے بعض روشندانوں سے جھانک کر دیکھے گا تو اپنے رفیق کو دوزخ کے بیچوں بیچ (پڑا ہوا) دیکھے گا (یہ مومن) اپنے ملاقاتی سے اظہار مسرت کے طور پر کہے گا خدا کی قسم تو تو مجھے تباہ کرنے کو تھا کہ تو مجھے اپنے گمراہ کرنے کے ذریعہ ہلاک کر دے اِنْ مشددہ سے مخففہ ہے، اگر مجھ پر میرے رب کا فضل نہ ہوتا یعنی مجھ پر ایمان کے ذریعہ اس کا فضل نہ ہوتا تو میں تیرے ساتھ آگ میں ماخوذین میں سے ہوتا جنتی (آپس میں) کہیں گے کیا اب ہم پہلی یعنی دنیوی موت کے علاوہ مرنے والے نہیں ہیں ؟ اور نہ ہم کو عذاب ہوگا یہ استفہام تلذذ کے لئے ہے دائمی حیات اور عذاب نہ دئیے جانے پر، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکریہ کے طور پر، بلاشبہ اہل جنت کے لئے جو (انعامات) ذکر کئے گئے ہیں یہی بڑی کامیابی ہے، ایسی ہی (کامیابی) کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے کہا گیا ہے کہ یہ بات جنتیوں سے کہی جائے گی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنتی آپس میں یہ بات کہیں گے بھلا یہ نعمتیں جو مذکور ہوئیں، جنتیوں کیلئے مہمانی کے اعتبار سے بہتر ہیں ؟ نُزُل اس چیز کو کہتے ہیں جو آنے والے مہمان وغیرہ کیلئے تیار کی جائے یا تھوہڑ کا درخت ؟ جو جہنمیوں کیلئے تیار کیا گیا ہے وہ خبیث ترین تلخ درخت ہے جس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں پیدا فرمائیں گے، جیسا کہ عنقریب آئے گا ہم نے اس درخت کو اہل مکہ میں سے کافروں کے لئے (موجب) آزمائش بنادیا جبکہ (کافروں) نے کہا آگ تو درختوں کو جلا دیتی ہے، تو پھر وہ اس (درخت) کو کیسے اگائے گی، وہ ایک درخت ہے جو قعر دوزخ میں سے نکلتا ہے اور اس کی شاخیں دوزخ کے (ہر) طبقہ میں پہنچی ہوئی ہوں گی، اس کے خوشے جو کہ کھجور کے خوشہ کے مشابہ ہوں گے، گویا کہ وہ شیاطین یعنی قبیح المنظر سانپوں کے سر ہیں، سو وہ یعنی کافر اس کی قباحت کے باوجود شدت بھوک کی وجہ سے اسی میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے پھر ان کو اس کے کھانے کے بعد کھولتا ہوا پانی ملا کردیا جائے گا یعنی گرم پانی جس کو وہ پئیں گے، تو اس پانی کا کھائے ہوئے شجرزقوم کے ساتھ مخلوطہ (آمیزہ) بن جائے گا پھر ان کا اخیر ٹھکانہ یقیناً جہنم ہوگا، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو گرم پانی پینے کیلئے (وسط) جہنم سے نکالا جائے گا، اور وہ گرم پانی جہنم سے باہر ہوگا انہوں نے اپنے بڑوں کو گمراہی میں پایا تھا پھر یہ بھی ان کے نقش قدم پر تیزی سے چلتے تھے ان کی اتباع کے لئے سبقت کرتے تھے اور ان سے پہلے بھی اگلے لوگوں یعنی امتوں میں اکثر گمراہ ہوچکے ہیں، اور ہم نے ان میں بھی ڈرانے والے رسول بھیجے تھے سو دیکھ لیجئے ان لوگوں کا جن کو ڈرایا گیا تھا کیسا (برا) انجام ہوا، یعنی ان کا انجام عذاب ہی ہے، مگر وہ جو اللہ کے مخلص (برگزیدہ) ہوئے یعنی مومنین سورة عبادت میں اپنے اخلاص کی وجہ سے یا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عبادت کے لئے منتخب کرلیا تھا، عذاب سے نجات پاگئے (یہ ترجمہ) لام کے فتحہ والی قراءت کی صورت میں ہوگا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : قال قائل یہ کہنے والا کوئی جنتی ہوگا، جنتی جہاں دیگر بہت سی باتیں کریں گے منجملہ ایک شخص اپنے ایک منکر بعث دوست کی سرگذشت سنائے گا، اس گفتگو کو قرآن کریم نے قال قائلٌ منھُمْ انی کان لی قرینٌ سے پیش گوئی کے طور پر بیان کیا ہے، اور تبکیت کے معنی ہیں عار دلانا، ڈانٹنا، مصباح میں ہے، بکت زید عمراً ، زید نے عمر کو عار دلائی۔
قولہ : کوی جمعُ کوۃٍ ، کوۃٍ کاف کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ، دیوار کا سوراخ، روشندان، جمع میں بھی کاف کا ضمہ و فتحہ دونوں درست ہیں، البتہ فتحہ کی صورت میں مدوقصر، دونوں درست ہیں، اور ضمہ کی صورت میں قصر متعین ہے۔ (جمل)
قولہ : تاللہ، ت قسمیہ جارہ ہے، اُقسم فعل محذوف کے متعلق ہے، انْ مخففہ عن المشددہ ہے، اگر اس کو عامل قرار دیا جائے تو اس کا اسم محذوف ہوگا، اور جملہ کدت اس کی خبر، تقدیر عبارت یہ ہوگی انَّکَ کِدْتَّ اور اگر غیر عامل قرار دیا جائے تو جملہ کدت لَتُردِیْنِ جواب قسم ہوگا، ان مخففہ عام طور پر کاد یا کان پر داخل ہوتا ہے، لتُرْدِینِ میں لام فارقہ ہوگا، مخففہ اور نافیہ کے درمیان۔
قولہ : لَتُرْدِیْنِ لام فارقہ ہے، تُرْدینِ ارداءٌ سے مضارع واحد مذکر حاضر نون وقایہ ی مفعول بہ ضمیر واحد متکلم محزوف، تو مجھے ہلاک کرے گا، یاء کو سنے مصحف کی اتباع میں حذف کردیا گیا۔ (اعراب القرآن للدرویش)
قولہ : افما نحن بمیتینَ ہمزۂ استفہامیہ محذوف پر داخل ہے، اور فا عاطفہ ہے، عطف محذوف پر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے أنحنُ مُخَلَّدُوْنَ منعمون فما نحن بمیتینفما نحن بمیتین۔
قولہ : أذٰلک خیر نزلاً (الآیۃ) یہ جملہ قول محذوف کا مقولہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے قل لھم یا محمد أذٰلک خیرٌ ام شجرۃ الزقوم، ذٰلک کا مشارٌ الیہ سابق میں مذکورہ رزق معلوم ہے نُرُل دونوں کے ضمہ کے ساتھ اور نون کے ضمہ اور زا کے سکون کے ساتھ، وہ شئ جو مہمان کیلئے تیار کی جائے، جمع انزالٌ، نُزُلاً ، خیرٌ سے تمیز واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : تھا مۃُ عرب کا وہ حصہ جس میں مکہ مکرمہ واقع ہے۔
قولہ : ام شجرۃُ الزَّقُّوم، ام حرف عطف ہے، اور شجرۃ الزقوم کا عطف ذٰلک اسم اشارہ پر ہے، ام شجرۃ الزقوم مبتداء ہے اس کی خبر ماقبل کی دلالت کی وجہ سے محذوف ہے تقدیر عبارت ہے ام شجرۃُ الزقوم خیرٌ نُزُلاً ۔
قولہ : لشوبًا شین کے فتحہ کے ساتھ جمہور کی قراءت ہے اور ضمہ کے ساتھ شاذ ہے، یہ (ن) سے شَوْبًا مصدر ہے، ملانا، آمیزہ کرنا
لشَوبًا، اِنَّ کا اسم مؤخر ہے اور لھُمْ خبر مقدم ہے علَیْھَا محذوف سے متعلق ہو کر حال ہے۔
قولہ : لا إلَی الجَحیم لام تاکید کیلئے ہے مگر مصحف امام کے رسم الخط کی اتباع میں لا لکھنا ضروری ہے مگر یہ الف پڑھا نہیں جاتا۔
قولہ : اِنَّھم الفوا آباءھُمْ ضالینَ یہ جملہ ما سبق میں مذکور انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا ہونے کی علت ہے یعنی بت پرستی کے حق اور توحید کے ناحق ہونے کی دلیل ان کے پاس بغیر سوچے سمجھے تقلید آباء کے علاوہ کوئی نہیں اور یہی ان کی گمراہی کا باعث ہوئی جس کی وجہ سے ماسبق میں مذکور انواع و اقسام کے عذاب میں ماخوذ ہوں گے۔
قولہ : یُھرعونَ اھراعٌ سے مضارع جمع مذکر غائب مجہول تیز دوڑتے ہوئے۔
تفسیر و تشریح
قال قائلٌ منھم انی کان لی قرینٌ قرآن نے جنتیوں کی باہمی گفتگو کا ایک نمونہ پیش کیا ہے۔
ایک جتنی اور اس کا کافر ملاقاتی : ابتدائی دس آیتوں میں اہل جنت کے عمومی حالات بیان فرمانے کے بعد ایک جنتی کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ جنت میں پہنچنے کے بعد اپنے ایک کافر دوست کو یاد کرے گا، جو دنیا میں آخرت کا منکر تھا، قرآن کریم میں اس شخص کا نام و پتہ تو نہیں بتایا گیا اس لئے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کون ہوگا ؟ تاہم مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس مومن شخص کا نام ” یہودا “ اور کافر ملاقاتی کا نام ” مطروس “ ہے، اور یہ وہی سو ساتھی ہیں جن کا ذکر سورة کہف کی آیت واضربْ لھم مثلاً رجلین الآیۃ میں گذر چکا ہے۔ (مظھری)
عبد الرزاق اور ابن منذر نے عطاء خراسانی سے نقل کیا ہے کہ وہ آدمی کسی کاروبار میں شریک تھے، ان کے پاس آٹھ ہزار دینار تھے، دونوں نے تقسیم کر لئے، ہر ایک کے حصہ میں چار چار ہزار دینار آئے، ایک شریک نے ایک ہزار دینار کی زمین خریدی، جب دوسرے شریک کو اس کا علم ہوا تو اسنے کہا، یا للہ فلاں نے ایک ہزار دینار صرف کرکے زمین خریدی ہے، میں بھی ایک ہزار دینار کے بدلے آپ سے جنت میں زمین خریدتا ہوں، اور یہ کہہ کر ایک ہزار دینار راہ خدا میں خرث کر دئیے، پھر اس کے شریک نے ایک ہزار دینا صرف کرکے ایک مکان بنایا، جب اس کو معلوم ہوا تو اس نے کہا اے میرے اللہ فلاں نے ایک ہزار دینا صرف کرکے مکان بنایا ہے، میں آپ سے ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں ایک مکان خریدتا ہوں اور یہ کہہ کر ایک ہزار دینار راہ خدا میں صدقہ کر دئیے، پھر اس کے ساتھ نے ایک ہزار دینار صرف کرکے ایک عورت سے شادی کی، جب اس شریک کو اس کا علم ہوا تو اس نے کہا اے بار الٰہ میرے شریک نے ایک ہزار دینار صرف کرکے شادی رچائی ہے، میں بھی ایک ہزار دینار کے عوض جنت کے حوروں سے شادی کرتا ہوں اور یہ کہہ کر ایک ہزار دینار راہ خدا میں صرف کر دئیے، پھر اس کے شریک نے ایک ہزار دینار خرچ کرکے خدام اور گھر کا سامان خریدا، جب اس کو معلوم ہوا تو اس نے کہا یا الٰہ العلامین فلاں نے ایک ہزار دینار خرچ کرکے خدام اور گھر کا سازوسامان خریدا ہے، اے اللہ میں بھی ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں خدام اور سامان خریدتا ہوں، اور یہ کہہ کر ایک ہزار دینار راہ خدا میں خرچ کر دئیے۔
اس کے بعد اتفاق سے اس مومن بندے کو کوئی شدید ضرورت پیش آگئی، اس نے سوچا کہ اگر میں اپنے شریک کے پاس جاؤں شاید وہ میری مدد کرے، چناچہ یہ مومن ساتھی کافر ساتھی کی رہ گزر پر جا کر بیٹھ گیا، جب کافر ساتھی بڑے حشم و خدم کے ساتھ وہاں سے گزرا تو یہ مومن ساتھی اپنے کافر ساتھی کے پاس گیا اور اپنی ضرورت اور حاجت کا اظہار کی، تو اس نے کہا وہ چار ہزار دینار کیا ہوئے جو تیرے حصے میں آئے تھے، اس نے اپنی پوری سرگزشت سنائی، کافر ساتھی نے اس کی سرگزشت سن کر کہا، کیا تم واقعی اس بات کو سچ سمجھتے ہو کہ ہم جب مر کر خاک ہوجائیں گے تو ہمیں دوسری زندگی ملے گی، اور وہاں ہم کو ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ؟ جاؤ میں تجھ کو کچھ نہیں دوں گا، اس کے بعد دونوں کا انتقال ہوگیا، مذکورہ آیت میں جنتی سے مراد وہ بندہ ہے جس نے آخرت کی خاطر اپنا سارا مال صدقہ کردیا تھا، اور اس کا جہنمی ساتھی وہی شریک کاروبار ہے، جس نے آخرت کی تصدیق کرنے پر اس کا مذاق اڑایا تھا۔ (روح المعانی ملخصاً )
أذٰلک خیرٌ نزلا ام شجرۃ الزقوم، زقوم کا ایک درخت جزیرۃ العرب کے تہامہ علاقہ میں پیدا ہوتا ہے، یہ درخت دیگر علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے، بنجر زمین اور صحراؤں میں زیادہ ہوتا ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ وہی درخت ہے جسے اردو میں تھوہڑ کہتے ہیں، بعض حضرات نے زقوم کا مصداق ناگ پھن کو قرار دیا ہے، جو تھوہڑ کے قریب قریب ہوتا ہے اور اس کا سرا سانپ کے پھن کے مشابہ ہوتا ہے اور اس پر باریک اور لمبے خار بھی ہوتے ہیں، یہ رائے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے، دوزخ کے زقوم اور دنیا کے زقوم میں کوئی نسبت نہیں دونوں کے درمیان کیفیت میں بون بعید ہے، صرف شرکت اسمی کی وجہ سے زقوم کہہ دیا گیا ہے جس طرح دوزخ کے سانپ بچھوؤں کو بھی شرکت اسمی کی وجہ سے سانپ بچھو کہہ دیا گیا ہے ورنہ ظاہر ہے دونوں میں صوری شرکت کے علاوہ کوئی مناسبت نہیں ہے۔
انا جعلناھا فتنۃ للظلمینَ یہاں فتنہ سے بعض مفسرین کے نزدیک عذاب مراد ہے یعنی اس درخت کو عذاب کا ذریعہ بنادیا، لیکن اکثر مفسرین ” فتنہ “ کا ترجمہ آزمائش سے کرتے ہیں، یہ زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس درخت کا تذکرہ کرکے ہم یہ امتحان لینا چاہتے ہیں کہ کون اس پر ایمان لاتا ہے ؟ اور کون اس کا مذاق اڑاتا ہے ؟ چناچہ کفار عرب اس امتحان میں ناکام رہے، انہوں نے بجائے اس کے کہ اس عذاب سے ڈر کر ایمان لاتے، تمسخر اور استہزاء کا طریقہ اختیار کیا، روایات میں ہے کہ جب قرآن کی مذکورہ آیت نازل ہوئی تو ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا تمہارا دوست (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے کہ آگ میں ایک درخت ہے حالانکہ آگ تو درخت کو کھا جاتی ہے اور خدا کی قسم ہم تو یہ جانتے ہیں کہ زقوم کھجور اور مکھن کو کہتے ہیں تو آؤ اور یہ کھجور اور مکھن کھاؤ (روح المعانی، درمنثور) بربری زبان میں زقوم کھجور اور مکھن کو کہتے تھے، اس لئے ابو جہل نے استہزاء کا یہ طریقہ اختیار کیا، باری تعالیٰ نے ایک ہی جملہ میں اس کی دونوں باتوں کا جواب دے دیا۔
انھا شجرۃ۔۔۔ الجحیم یعنی زقوم تو جہنم کی تہہ میں اگنے والا ایک درخت ہے، درخت کا آگ میں نہ جلنا یہ خدا کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے، اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے جانور پیدا فرمائے ہیں کہ وہ آگ میں زندہ رہ سکتے ہیں، اسی قسم کا ایک جانور ” سمندر “ ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آگ میں پیدا ہوتا ہے اور وہیں رہتا ہے آگ سے نکلنے پر مرجاتا ہے، اور بعض جانوروں کی اللہ تعالیٰ نے آگ غذا بنائی ہے۔
طلعھا۔۔۔ الشیاطین اس آیت میں زقوم کو شیاطین کے سروں سے تشبیہ دی ہے، بعض مفسرین نے تو یہاں شیاطین کا ترجمہ سانپوں سے کیا ہے، یعنی زقوم کا درخت سانپ کے پھن کے مشابہ ہوتا ہے، اسی مناسبت سے اس درخت کو ” ناگ پھن “ کہتے ہیں، شیطان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انتہاء درجہ کا بدصورت ہے، زقوم کی بدصورتی کو بیان کرنے کیلئے زقوم کو شیطان کے سر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ (روح المعانی، معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں، کامل مسرتوں، ماکولات و مشروبات، خوبصورت بیویوں اور خوش نما مجالس کا ذکر کرنے کے بعد ان میں آپس کی بات چیت اور ایک دوسرے کو ماضی کے واقعات وا حوال سنانے کا ذکر کیا، نیز یہ کہ وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہیں گے حتیٰ کہ ان میں سے ایک شخص کہے گا : ﴿ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ﴾ ” دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا“ جو قیامت کا منکر تھا اور مجھے اس بات پر ملامت کیا کرتا تھا کہ میں قیامت پر ایمان رکھتا ہوں۔
11 Mufti Taqi Usmani
unn mein say aik kehney wala kahey ga kay mera aik sathi tha ,