بے شک ہم نے آسمانِ دنیا (یعنی پہلے کرّۂ سماوی) کو ستاروں اور سیاروں کی زینت سے آراستہ کر دیا،
English Sahih:
Indeed, We have adorned the nearest heaven with an adornment of stars
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو تاروں کے سنگھار سے آراستہ کیا،
3 Ahmed Ali
ہم نے نیچے کے آسمان کو ستاروں سے سجایا ہے
4 Ahsanul Bayan
ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بےشک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی آرائش سے آراستہ کیا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین بنادیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
بیشک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا
10 Tafsir as-Saadi
﴿إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَانٍ مَّارِدٍلَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ ﴾ ” ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا اور اسے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنا دیا۔ وہ عالم بالا کے فرشتوں کی باتیں سن ہی نہیں سکتے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دو عظیم فائدوں کے لئے ستاروں کا ذکر فرمایا ہے۔ (1) آسمانوں کی زینت کے لئے : اگر ستارے نہ ہوتے تو آسمان میں کوئی روشنی نہ ہوتی اور آسمان میں تاریکی چھائی رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا تاکہ وہ اپنے کناروں تک منور رہے اور وہ خوبصورت دکھائی دے اور بحر و بر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعے سے راستہ تلاش کیا جائے، نیز اس سے دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (2) تمام سرکش شیاطین سے حفاظت کے لئے : جو اپنی سرکشی کی بنا پر ملا اعلیٰ کی سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ (ملا اَعلیٰ) سے مراد اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak hum ney nazdeek walay aasman ko sitaron ki shakal mein aik sajawat ata ki hai ,
12 Tafsir Ibn Kathir
شیاطین اور کاہن۔ آسمان دنیا کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جو زینت دی گئی ہے اس کا بیان فرمایا۔ یہ اضافت کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور بدلیت کے ساتھ بھی معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں۔ اس کے ستاروں کی، اس کے سورج کی روشنی زمین کو جگمگادیتی ہے، جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاب السَّعِيْرِ ) 67 ۔ الملک :5) ہم نے آسمان دنیا کو زینت دی ستاروں کے ساتھ۔ اور انہیں شیطانوں کے لیے شیطانوں کے رجم کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے آگ سے جلا دینے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں۔ اور آیت میں ہے ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھب جانے والی چیز بنائی۔ اور ہر شیطان رجیم سے اسے محفوظ رکھا جو کوئی کسی بات کو لے اڑنا چاہتا ہے وہیں ایک تیز شعلہ اس کی طرف اترتا ہے۔ اور ہم نے آسمانوں کی حفاظت کی ہر سرکش شریر شیطان سے، اس کا بس نہیں کہ فرشتوں کی باتیں سنے، وہ جب یہ کرتا ہے تو ایک شعلہ لپکتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے۔ یہ آسمانوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اللہ کی شریعت تقدیر کے امور کی کسی گفتگو کو وہ سن ہی نہیں سکتے۔ اس بارے کی حدیثیں ہم نے آیت (حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ 23) 34 ۔ سبأ :23) ، کی تفسیر میں بیان کردی ہیں، جدھر سے بھی یہ آسمان پر چڑھنا چاہتے ہیں وہیں سے ان پر آتش بازی کی جاتی ہے۔ انہیں ہنکانے پست و ذلیل کرنے روکنے اور نہ آنے دینے کے لیے یہ سزا بیان کی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب ابھی باقی ہیں، جو بڑے المناک درد ناک اور ہمیشگی والے ہوں گے۔ ہاں کبھی کسی جن نے کوئی کلمہ کسی فرشتے کی زبان سے سن لیا اور اسے اس نے اپنے نیچے والے سے کہہ دیا اور اس نے اپنے نیچے والے سے وہیں اس کے پیچھے ایک شعلہ لپکتا ہے کبھی تو وہ دوسرے کو پہنچائے اس سے پہلے ہی شعلہ اسے جلا ڈالتا ہے کبھی وہ دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو کاہنوں کے کانوں تک شیاطین کے ذریعہ پہنچ جاتی ہیں، ثاقب سے مراد سخت تیز بہت زیادہ روشنی والا ہے، حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ شیاطین پہلے جاکر آسمانوں میں بیٹھتے تھے اور وہی سن لیتے تھے اس وقت ان پر تارے نہیں ٹوٹتے تھے یہ وہاں کی وحی سن کر زمین پر آکر ایک کی دس دس کر کے کاہنوں کے کانوں میں پھونکتے تھے، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت ملی پھر شیطانوں کا آسمان پر جانا موقوف ہوا، اب یہ جاتے ہیں تو ان پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں اور انہیں جلادیا جاتا ہے، انہوں نے اس نو پیدا امر کی خبر جب ابلیس ملعون کو دی تو اس نے کہا کہ کسی اہم نئے کام کی وجہ سے اس قدر احتیاط و حفاظت کی گئی ہے چناچہ خبر رسانوں کی جماعتیں اس نے روئے زمین پر پھیلا دیں تو جو جماعت حجاز کی طرف گئی تھی اس نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز ادا کر رہے ہیں اس نے جاکر ابلیس کو یہ خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو تمہارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا۔ اس کی پوری تحقیق اللہ نے چاہا تو آیت ( وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُهُبًا ۙ ) 72 ۔ الجن :8) ، کی تفسیر میں آئے گی۔