داؤد (علیہ السلام) نے کہا: تمہاری دُنبی کو اپنی دُنبیوں سے ملانے کا سوال کر کے اس نے تم سے زیادتی کی ہے اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اور داؤد (علیہ السلام) نے خیال کیا کہ ہم نے (اس مقدّمہ کے ذریعہ) اُن کی آزمائش کی ہے، سو انہوں نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی اور سجدہ میں گر پڑے اور توبہ کی،
English Sahih:
[David] said, "He has certainly wronged you in demanding your ewe [in addition] to his ewes. And indeed, many associates oppress one another, except for those who believe and do righteous deeds – and few are they." And David became certain that We had tried him, and he asked forgiveness of his Lord and fell down bowing [in prostration] and turned in repentance [to Allah].
1 Abul A'ala Maududi
داؤدؑ نے جواب دیا: "اِس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں" (یہ بات کہتے کہتے) داؤدؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا
2 Ahmed Raza Khan
داؤد نے فرمایا بیشک یہ تجھ پر زیادتی کرتا ہے کہ تیری دُنبی اپنی دُنبیوں میں ملانے کو مانگتا ہے، اور بیشک اکثر ساجھے والے ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور وہ بہت تھوڑے ہیں اب داؤد سمجھا کہ ہم نے یہ اس کی جانچ کی تھی تو اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑا اور رجوع لایا، (السجدة ۱۰)
3 Ahmed Ali
کہا البتہ اس نے تجھ پر ظلم کیا جو تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملانے کا سوال کیا گور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کیا کرتے ہیں مگر جو ایماندار ہیں اور انہوں نے نیک کام بھی کیے اور وہ بہت ہی کم ہیں اور داؤد سمجھ گیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے پھر اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدہ میں گر پڑا اور توبہ کی
4 Ahsanul Bayan
آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ظلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں (١)، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں (٢) اور (حضرت) داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا۔
٢٤۔١ یعنی انسانوں میں یہ کوتاہی عام ہے کہ ایک شریک دوسرے پر زیادتی کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہی ہڑپ کر جائے۔ ٢٤۔٢ البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے پابند ہوتے ہیں اس لئے کسی پر زیادتی کرنا اور دوسروں کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
انہوں نے کہا کہ یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملالے بےشک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔ اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔ ہاں جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اور داؤد نے خیال کیا کہ (اس واقعے سے) ہم نے ان کو آزمایا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت مانگی اور جھک کر گڑ پڑے اور (خدا کی طرف) رجوع کیا
6 Muhammad Junagarhi
آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ﻇلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ﻇلم کرتے ہیں، سوائے ان کے جو ایمان ﻻئے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور (پوری طرح) رجوع کیا
7 Muhammad Hussain Najafi
داؤد(ع) نے کہا اس شخص نے اتنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملانے کا مطالبہ کرکے تجھ پر ظلم کیا ہے اور اکثر شرکاء اسی طرح ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان کے جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہیں اور (یہ بات کہتے ہوئے) داؤد (ع) نے خیال کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کی اور اس کے حضور جھک گئے اور توبہ و انابہ کرنے لگے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
داؤد علیھ السّلام نے کہا کہ اس نے تمہاری رَنبی کا سوال کرکے تم پر ظلم کیاہے اور بہت سے شرکائ ایسے ہی ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم کرتا ہے علاوہ ان لوگوں کے جو صاحبان هایمان و عمل صالح ہیں اور وہ بہت کم ہیں .... اور داؤد علیھ السّلام نے یہ خیال کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا ہے لہٰذا انہوں نے اپنے رب سے استغفار کیا اور سجدہ میں گر پڑے اور ہماری طرف سراپا توجہ بن گئے
9 Tafsir Jalalayn
انہوں نے کہا کہ یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے بیشک تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں ہاں جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں اور داؤد نے خیال کیا کہ (اس واقعے سے) ہم نے ان کو آزمایا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت مانگی اور جھک کر گرپڑے اور (خدا کی طرف) رجوع کیا
10 Tafsir as-Saadi
جب داؤد علیہ السلام نے اس کی بات سنی۔۔۔ فریقین کی باتوں کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا تھا کہ فی الواقع ایسا ہوا ہے، اس لئے حضرت داؤد علیہ السلام نے ضرورت نہ سمجھی کہ دوسرافریق بات کرے، لہٰذا اعتراض کرنے والے کے لئے اس قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے فریق ثانی کا موقف سننے سے پہلے فیصلہ کیوں کیا؟۔۔۔ تو فرمایا : ﴿ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ﴾ ” یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے، بے شک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔“ اکثر ساتھ اور مل جل کر رہنے والوں کی یہی عادت ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴾ ” اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔“ کیونکہ ظلم کرنا نفوس کا وصف ہے : ﴿إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے۔“ کیونکہ انہیں ایمان اور عمل صالح کی معیت حاصل ہوتی ہے جو انہیں ظلم سے باز رکھتے ہیں ﴿وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ﴾ ” اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾’’اور میرے بندوں میں کم لوگ ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔ “ ﴿وَظَنَّ دَاوُودُ ﴾ جب حضرت داؤد علیہ السلام نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کیا تو آپ سمجھ گئے کہ ﴿أَنَّمَا فَتَنَّاهُ ﴾ ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لئے یہ مقدمہ بنا کر انکے سامنے پیش کیا ہے۔ ﴿فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ﴾ جب آپ سے لغزش سر زد ہوئی تو آپ نے اپنے رب سے بخشش طلب کی ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا ﴾ ” اور جھک کر گرپڑے۔“ یعنی سجدے میں گر پڑے ﴿وَأَنَابَ ﴾ اور سچی توبہ اور عبادت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
dawood ney kaha : iss ney apni dunbiyon mein shamil kernay kay liye tumhari dunbi ka jo mutalba kiya hai , uss mein yaqeenan tum per zulm kiya hai . aur boht say log jinn kay darmiyan shirkat hoti hai , woh aik doosray kay sath ziyadti kertay hain , siwaye unn kay jo emaan laye hain , aur jinhon ney naik amal kiye hain , aur woh boht kam hain . aur dawood ko khayal aaya kay hum ney darasal unn ki aazmaesh ki hai , iss liye unhon ney apney perwerdigar say moaafi maangi , jhuk ker sajday mein gir gaye , aur Allah say lo lagai .