اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں) بار بار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے۔ اور اللہ جسے گمراہ کر دیتا (یعنی گمراہ چھوڑ دیتا) ہے تو اُس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتا،
English Sahih:
Allah has sent down the best statement: a consistent Book wherein is reiteration. The skins shiver therefrom of those who fear their Lord; then their skins and their hearts relax at the remembrance [i.e., mention] of Allah. That is the guidance of Allah by which He guides whom He wills. And one whom Allah sends astray – for him there is no guide.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں اُسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب کہ اول سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اس سے جسے چاہے، اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں،
3 Ahmed Ali
الله ہی نے بہترین کلام نال کیا ہے یعنی کتاب باہم ملتی جلتی ہے (اس کی آیات) دہرائی جاتی ہیں جس سے خدا ترس لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ان کی کھالیں نرم ہوجاتی ہیں اور دل یاد الہیٰ کی طرف راغب ہوتے ہیں یہی الله کی ہدایت ہے اس کے ذریعے سے جسے چاہے راہ پر لے آتا ہے اور جسے الله گمراہ کر دے اسے راہ پر لانے والا کوئی نہیں
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے (١) جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں (٢) آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالٰی کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں یہ ہے اللہ تعالٰی کہ ہدایت جس کے ذریعے جسے چاہے راہ راست پر لگا دیتا ہے اور جسے اللہ تعالٰی ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں۔
٢٣۔١ اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ سے مراد قرآن مجید ہے، ملتی جلتی کا مطلب، اس کے سارے حصے حسن کلام، اعجاز و بلاغت صحت معانی وغیرہ خوبیوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یا یہ بھی سابقہ کتب آسمانی سے ملتا ہے یعنی ان کے مشابہ ہے مثانی، جس میں قصص و واقعات اور مواعظ و احکام کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ ٢٣۔٢ کیونکہ وہ ان وعیدوں کو اور تخویف و تہدید کو سمجھتے ہیں جو نافرمانوں کے لئے اس میں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے) رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) خدا کی یاد کی طرف (متوجہ) ہوجاتے ہیں۔ یہی خدا کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور جس کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت جس کے ذریعہ جسے چاہے راه راست پر لگا دیتا ہے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راه بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ ہی نے بہترین کلام نازل کیا ہے یعنی ایسی کتاب جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں (اور) بار بار دہرائی جاتی ہیں اس (کے پڑھنے) سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم (مائل) ہو جاتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ذریعہ سے وہ جس کی چاہتا ہے راہنمائی کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اس کیلئے کوئی راہنما نہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے) رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) خدا کی یاد کی طرف (متوجہ) ہوجاتے ہیں یہی خدا کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب کے بارے میں، جسے اس نے نازل فرمایا خبر دیتا ہے کہ یہ کتاب علی الاطلاق ﴿أَحْسَنَ الْحَدِيثِ﴾ ” بہترین کلام ہے۔“ پس بہتر کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے نازل کی گئی کتابوں میں بہترین کتاب یہ قرآن کریم ہے۔ جب قرآن کریم بہترین کتاب ہے تب معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ فصیح ترین اور واضح ترین اور اس کے معانی جلیل ترین ہیں، کیونکہ یہ اپنے الفاظ اور معانی میں بہترین کلام ہے۔ اپنے حسن تالیف اور ہر لحاظ سے عدم اختلاف کے اعتبار سے اس کے تمام اجزا ایک دوسرے سے مشا بہت رکھتے ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی اس میں غور و فکر کرے تو اسے اس میں ایسی مہارت اس کے معانی میں ایسی گہرائی نظر آئے گی جو دیکھنے وا لوں کو حیران کردیتی ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ (بے عیب) کلام حکمت اور علم وا لی ہستی کے سوا کسی اور سے صادر نہیں ہوسکتا۔ اس مقام پر تشا بہ سے یہی مراد ہے ۔ رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾(آل عمران:3؍7) وہ اللہ ہی ہے جس نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی اس میں محکم آیات بھی ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور بعض دوسری متشابہات ہیں تو اس سے مراد وہ آیات کر یمہ ہیں جو بہت سے لوگوں کے فہم سے پو شیدہ اور مشتبہ ہوتی ہیں۔ یہ اشتبا ہ اس و قت تک زائل نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو آیات محکمات کی طرف نہ لو ٹا یا جائے اس لیے فرمایا: ﴿مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾ (آل عمران:3؍7) اس میں محکم آیات بھی ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور بعض دوسری متشابہات ہیں۔ اس آیت کر یمہ میں بعض آیات میں تشا بہ قرار دیا گیا ہے اور یہاں تمام آیات کو متشا بہ کہا ہے یعنی حسن میں مشا بہ ہیں کیونکہ ارشاد فرمایا :﴿ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ﴾ نہایت اچھی باتیں اس سے مراد تمام آیات اور سورتیں ہیں جو ایک دوسری سے مشابہت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ گز شتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ ﴿ مَّثَانِيَ﴾ دہرائی جاتی ہیں۔ یعنی اس بہترین کلام میں قصص واحکام وعد و وعید اہل خیر کے اوصاف اور اہل شر کے اعمال کو بار بار دہرایا جاتا ہے نیز اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ اس کلام کا حسن و جلال ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ مخلوق اس کلام کے معانی کی محتاج ہے جو دلوں کو پاک اور اخلاق کی تکمیل کرتے ہیں اس لیے اس نے ان معانی کو دلوں کے لیے وہی حیثیت دی ہے جو درختوں اور پودوں کے لیے پانی کی ہے، جس طرح درخت اور پودے عدم سیر ابی کے با عث نا قص بلکہ بسا اوقات تلف ہوجاتے ہیں اور پو دوں کو جتنا زیادہ بار بار سیر اب کیا جائے گا اتنے ہی وہ خوبصورت ہوں گے اور اتنا ہی زیادہ پھل لائیں گے اسی طرح دل بھی کلام اللہ کے معانی کے تکرار کے ہمیشہ محتاج رہتے ہیں۔ اگر تمام قرآن میں ایک معنی اس کے سامنے ایک ہی مر تبہ بیان کیا جائے تو معنی اس کی گہرائی میں جا گزیں ہوگا نہ اس سے مطلو بہ نتائج ہی حا صل ہوں گے۔ بنا بریں میں اپنی تفسیر میں قرآن مجید کے اسلوب کی اقتدا میں اسی مسلک کریم پر گامزن ہوں اس لیے آپ کسی بھی مقام پر کوئی حو الہ نہیں پائیں گے بلکہ آپ ہر مقام پر گزشتہ صفحات میں اس سے ملتے جلتے مقام کی تفسیر کی رعا یت رکھے بغیر اس کی مکمل تفسیر پائیں گے اگرچہ بعض مقامات پر نسبتاً زیادہ بسط و شرح سے کام لیا گیا اور اس میں فوائد دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنے والے کے لیے بھی یہی مناسب ہے کہ وہ قرآن مجید کے تمام مقامات میں تدبر کو ترک نہ کرے کیونکہ اس سبب سے اسے خیر کثیر اور بہت زیادہ فائدہ حا صل ہوگا۔ چونکہ قرآن عظم اس عظمت و جلال کے ساتھ ہدایت یافتہ اور عقل مند لوگوں کے دلوں پر بہت اثر کرتا ہے اس لیےفرمایا: ﴿تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ﴾ ’’جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس (قرآن) سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس کے اندر بے قرار کردینے اولی تخویف وتر ہیب ہے: ﴿ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللّٰـهِ﴾پھر اس کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متو جہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی امید اور تر غیب کے ذکر کے وقت۔ یہ ذکر کبھی تو ان کو بھلائی کے عمل کی تر غیب د یتا ہے اور کبھی برائی کے عمل سے ڈراتا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ﴾یہ یعنی ان کے اندر تاثیر قرآن کا اللہ تعالیٰ نے جو ذکر کیا ہے﴿ هُدَى اللّٰـهِ﴾ اللہ کی ہد ایت ہے یعنی اس کے بندوں کے لیے اس کی طرف سے ہدایت ہے اور ان پر اس کے جملہ فضل وا حسان میں سے ہے۔﴿ يَهْدِي بِهِ﴾ اللہ تعالیٰ اس تا ثیر قرآن کے ذر یعے سے ہد ایت دیتا ہے۔﴿ مَن يَشَاءُ﴾”جسے چاہتا ہے “اپنے بندوں میں سے، اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ﴿ذٰلِكَ﴾ سے مر اد قرآن ہو یعنی وہ قرآن جس کا و صف ہم نے تمھارے سا منے بیان کیا ہے﴿ هُدَى اللّٰـهِ﴾ اللہ کی ہد ایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچے کے لیے اس کے راستے کے سوا کوئی راستہ نہیں ﴿يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ﴾وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہد ایت عطا کرتا ہے، یعنی جو اچھا مقصد رکھتے ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ يَهْدِي بِهِ اللّٰـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ﴾ (المائدۃ:5؍16)اللہ اس کتاب کے ذر یعے سے ان لوگوں کو سلا متی کا راستہ د کھا تا ہے جو اس کی رضا کے طا لب ہیں اور جسے اللہ گمر اہ کر دے اسے کوئی ہد ایت دینے و لا نہیں۔ ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی تو فیق کے سوا کوئی را ستہ نہیں جو اللہ تعالیٰ تک پہنچا تا ہو کتاب اللہ پر تو جہ مر کوز کرنے کی تو فیق بھی اسی سے ملتی ہے پس اگر اللہ کی تو فیق نصیب نہ ہو تور اہ ر است پر چلنے کا کوئی طر یقہ نہیں تب وا ضح گمر اہی اور رسوا کن بد بختی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah ney behtareen kalam nazil farmaya hai , aik aesi kitab jiss kay mazameen aik doosray say miltay jultay hain , jiss ki baaten baar baar dohrai gaee hain . woh log jinn kay dilon mein apney perwerdigar ka roab hai inn/unn ki khalen iss say kaanp uthti hain , phir unn kay jism aur unn kay dil naram ho ker Allah ki yaad ki taraf mutawajjah hojatay hain . yeh Allah ki hidayat hai jiss kay zariye woh jiss ko chahta hai , raah-e-raast per ley aata hai , aur jissay Allah raastay say bhatka dey , ussay koi raastay per laney wala nahi .
12 Tafsir Ibn Kathir
قرآن حکیم کی تاثیر۔ اللہ تعالیٰ اپنی اس کتاب قرآن کریم کی تعریف میں فرماتا ہے کہ اس بہترین کتاب کو اس نے نازل فرمایا ہے جو سب کی سب متشابہ ہیں اور جس کی آیتیں مکرر ہیں تاکہ فہم سے قریب تر ہوجائے۔ ایک آیت دوسری کے مشابہ اور ایک حرف دوسرے سے ملتا جلتا۔ اس سورت کی آیتیں اس سورت سے اور اس کی اس سے ملی جلی۔ ایک ایک ذکر کئی کئی جگہ اور پھر بےاختلاف بعض آیتیں ایک ہی بیان میں بعض میں جو مذکور ہے اس کی ضد کا ذکر بھی انہیں کے ساتھ ہے مثلاً مومنوں کے ذکر کے ساتھ ہی کافروں کا ذکر جنت کے ساتھ ہی دوزخ کا بیان وغیرہ۔ دیکھئے ابرار کے ذکر کے ساتھ ہی فجار کا بیان ہے۔ سجین کے ساتھ ہی علیین کا بیان ہے۔ متقین کے ساتھ ہی طاعین کا بیان ہے۔ ذکر جنت کے ساتھ ہی تذکرہ جہنم ہے۔ یعنی معنی ہیں مثانی کے اور متشابہ ان آیتوں کو کہتے ہیں وہ تو یہ ہے اور ( ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ) 3 ۔ آل عمران :7) میں اور ہی معنی ہیں۔ اس کی پاک اور بااثر آیتوں کا مومنوں کے دل پر نور پڑتا ہے وہ انہیں سنتے ہی خوفزدہ ہوجاتے ہیں سزاؤں اور دھمکیوں کو سن کر ان کا کلیجہ کپکپانے لگتا ہے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور انتہائی عاجزی اور بہت ہی بڑی گریہ وزاری سے ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اس کی رحمت و لطف پر نظریں ڈال کر امیدیں بندھ جاتی ہیں۔ ان کا حال سیاہ دلوں سے بالکل جداگانہ ہے۔ یہ رب کے کلام کو نیکیوں سے سنتے ہیں۔ وہ گانے بجانے پر سر دھنستے ہیں۔ یہ آیات قرآنی سے ایمان میں بڑھتے ہیں۔ وہ انہیں سن کر اور کفر کے زینے پر چڑھتے ہیں یہ روتے ہوئے سجدوں میں گرپڑتے ہیں۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے اکڑتے ہیں۔ فرمان قرآن ہے ( اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ ښ) 8 ۔ الانفال :2) ، یعنی یاد الٰہی مومنوں کے دلوں کو دہلا دیتی ہے، وہ ایمان و توکل میں بڑھ جاتے ہیں، نماز و زکوٰۃ و خیرات کا خیال رکھتے ہیں، سچے باایمان یہی ہیں، درجے، مغفرت اور بہترین روزیاں یہی پائیں گے اور آیت میں ہے یعنی بھلے لوگ آیات قرآنیہ کو بہروں اندھوں کی طرح نہیں سنتے پڑھتے کہ ان کی طرف نہ تو صحیح توجہ ہو نہ ارادہ عمل ہو بلکہ یہ کان لگا کر سنتے ہیں دل لگا کر سمجھتے ہیں غور و فکر سے معانی اور مطلب تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ اب توفیق ہاتھ آتی ہے سجدے میں گرپڑتے ہیں اور تعمیل کے لئے کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ یہ خود اپنی سمجھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں دوسروں کی دیکھا دیکھی جہالت کے پیچھے پڑے نہیں رہتے۔ تیسرا وصف ان میں برخلاف دوسروں کے یہ ہے کہ قرآن کے سننے کے وقت با ادب رہتے ہیں۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت سن کر صحابہ کرام کے جسم و روح ذکر اللہ کی طرف جھک آتے تھے ان میں خشوع و خضوع پیدا ہوجاتا تھا لیکن یہ نہ تھا کہ چیخنے چلانے اور ہاہڑک کرنے لگیں اور اپنی صوفیت جتائیں بلکہ ثبات سکون ادب اور خشیت کے ساتھ کلام اللہ سنتے دل جمعی اور سکون حاصل کرتے اسی وجہ سے مستحق تعریف اور سزا وار توصیف ہوئے (رض) ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولیاء اللہ کی صفت یہی ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل موم ہوجائیں اور ذکر اللہ کی طرف وہ جھک جائیں ان کے دل ڈر جائیں ان کی آنکھیں آنسو بہائیں اور طبیعت میں سکون پیدا ہوجائے۔ یہ نہیں کہ عقل جاتی رہے حالت طاری ہوجائے۔ نیک و بد کا ہوش نہ رہے۔ یہ بدعتیوں کے افعال ہیں کہ ہا ہو کرنے لگتے ہیں اور کودتے اچھلتے اور پکڑے پھاڑتے ہیں یہ شیطانی حرکت ہے۔ ذکر اللہ سے مراد وعدہ اللہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ ہیں صفتیں ان لوگوں کی جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے۔ ان کے خلاف جنہیں پاؤ سمجھ لو کہ اللہ نے انہیں گمراہ کردیا ہے اور یقین رکھو کہ رب جنہیں ہدایت دینا چاہئے انہیں کوئی راہ راست نہیں دکھا سکتا۔