الزمر آية ۵۳
قُلْ يٰعِبَادِىَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۗ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ
طاہر القادری:
آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے،
English Sahih:
Say, "O My servants who have transgressed against themselves [by sinning], do not despair of the mercy of Allah. Indeed, Allah forgives all sins. Indeed, it is He who is the Forgiving, the Merciful."
1 Abul A'ala Maududi
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک الله سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے (١)
٥٣۔١ اس آیت میں اللہ تعالٰی کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ' اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ' کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا توبہ و استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کئے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں بہت زیادہ گنہگار ہوں، مجھے اللہ تعالٰی کیونکر معاف کرے گا؟ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کر لے گا یا توبہ کر لے گا تو اللہ تعالٰی تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطا کار ہیں اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ صحیح بخاری، تفسیر سورہ زمر۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ اس کے احکام وفرائض کی مطلق پروا نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بےدردی سے پامال کرو اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت ومغفرت کی امید رکھنا نہایت نادانش مندی اور خام خیالی ہے یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غفور رحیم ہے وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عزیز ذو انتقام بھی ہے چنانچہ قرآن کریم میں منعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا مثلا نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم (الحجر) غالبا یہی توبہ کر کے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جاۓ گا اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں گے تو معاف فرما دے گا وہ اپنے بندوں کے لیے یقینا غفور رحیم ہے جیسے حدیث میں سو آدمیوں کے قاتل کی توبہ کا واقعہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (گناہ پر گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری طرف سے لوگوں سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
آیت نمبر 53 تا 63
ترجمہ : (میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، تقنطوا نون کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ اور ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ اس شخص کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں گے جس نے شرک سے توبہ کی ہوگی واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک جاؤ اور اس کی حکم برداری کئے جاؤ (یعنی) عمل کو اس کے لئے خالص کرو اس سے قبل کہ تم پر عذاب آجائے پھر تمہاری مدد نہ کی جائے اس عذاب کو ٹال کر، اگر تم توبہ نہ کرو اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے وہ قرآن ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو (یعنی) اس کی آمد سے پہلے تم کو اس کے آنے کے وقت کی خبر بھی نہ ہو، لہٰذا توبہ کی طرف سبقت کرو قبل اس کے کہ کبھی کوئی شخص کہے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے خدا کی جناب یعنی طاعت میں کی یا حسرتی بمعنی یا ندامنتی ہے میں تو اس کے دین اور اس کی کتاب کا مذاق اڑانے والوں ہی میں رہا اِنْ مخففہ عن الثقیلہ ہے یا کوئی یوں کہنے لگے کہ اگر اللہ تعالیٰ (دنیا میں) مجھ کو طاعت کی ہدایت دیتا تو میں ہدایت پاتا تو میں بھی اس کے عذاب سے بچنے والوں میں سے ہوتا یا کوئی عذاب کو دیکھ کر یوں کہنے لگے کہ کاش میری (دنیا) میں واپسی ہوجاتی تو میں بھی نیک لوگوں یعنی مومنین میں سے ہوجاتا یعنی ایمان والوں میں سے ہوجاتا، تو اس کو اللہ کی جانب سے کہا جائے گا، ہاں (ہاں) بیشک تیرے پاس میری قرآنی آیتیں پہنچ چکی تھیں، اور وہ ہدایت کا ذریعہ ہیں جنہیں تو نے جھٹلایا اور ان پر ایمان لانے سے تو نے تکبر کیا، اور تو کافروں ہی میں سے رہا، اور جن لوگوں نے اللہ پر اس کی طرف شرک اور ولد کی نسبت کرکے جھوٹ باندھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا ایمان سے تکبر کرنے والوں کو ٹھکانہ جہنم نہیں ہے ؟ ہاں کیوں نہیں ضرور ہے، اور جن لوگوں نے شرک سے اجتناب کیا تو اللہ تعالیٰ ان کو مقام کامیابی میں (دخول) کے سبب جہنم سے بچالے گا، اور وہ (مقام) جنت ہے (اور اگر مفازۃ کو مصدر میمی اور ” ب “ کو سببیہ مانا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا، اللہ تعالیٰ ان کو کا میاب ہونے کے سبب جہنم سے بچالے گا) بایں طوفر کہ ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا، انہیں کوئی تکلیف چھو بھی نہ سکے گی، اور نہ وہ کسی طرح غمگین ہوں گے اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے (یعنی اس میں جس طرح چاہے تصرف کرنے والا ہے) آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کا مالک ہے یعنی زمین و آسمانوں کے خزانوں کا مالک ہے وہ پانی اور نباتات وغیرہ ہیں جس نے بھی اللہ کی آیتوں قرآن کا انکار کیا وہی خسارہ میں ہے، اس جملہ (یعنی والذین کفروا الخ) کا تعلق (عطف) اللہ کے قول وَیُنَجِّی الَّذین اتقوا الخ سے ہے اور ان دونوں کے درمیان (اللہ خالق کل شئ الخ) جملہ معترضہ ہے (نوٹ) یہ جملہ اسمیہ کا عطف جملہ فعلیہ پر ہے، جو کہ جائز ہے۔ (صاوی)
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یا عبَادی، بحد الیاء وثبوتھا مفتوحَۃً ، یا عبادی میں دو قراءتیں ہیں حذف الیاء اور کسرۂ دال کے ساتھ ای یا عباد اور ثبوت یاء مع فتح الیاء ای یا عِبَادِی۔
قولہ : الذین اسرفوا علیٰ انفسھم، اسرفوا، اسرافٌ سے ماضی جمع مذکر غائب، انہوں نے زیادتی کی، حد سے تجاوز کیا، یعنی اپنے نفس پر معصیت و خیانت کرکے زیادتی کی، یہاں اسراف سے اسراف فی المعصیۃ مراد ہے، اسراف کے معنی مطلقاً زیادتی کرنے کے ہیں، اسراف مقید مثلاً اسرَفَ فی المالِ میں استعمال مجازاً ہوگا اور بعض حضرات نے اس کا عکس کہا ہے مگر اول راجع ہے۔ (روح المعانی)
سوال : اسراف کا صلہ علیٰ مستعمل نہیں ہے۔ جواب : اسراف چونکہ جنایت کے معنی کو متضمن ہے، اس لئے اس کا صلہ علیٰ لانا درست ہے۔ قولہ : لا تقنطوا یہ زیادہ تر (س، ض، ن) سے آتا ہے (ک) سے شاذ ہے۔
قولہ : ھُو القرآنُ یہ احسن کی تفسیر ہے، یعنی کتب سماویہ میں قرآن سب سے احسن ہے۔
قولہ : ان تقول نفسٌ أن اور جو اس کے ماتحت ہے مفعول لاجلہٖ ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، زمخشری نے اس کی تقدیر کراھۃ ان تقول مانی ہے، اور ابو البقاء نے انذرنا کُم مخافَۃَ ان تقول اور مفسر علام نے بادروا فعل مقدر کا معمول قرار دیا ہے، جیسا کہ ظاہر ہے۔ قولہ : بالطاعۃِ ایک نسخہ ہے بالطافِہٖ ہے۔
قولہ : بنسبَۃِ الشریک والولد الیہ یہ عبارت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہاں مطلقاً کذب مراد نہیں ہے بلکہ وہ کذب مراد ہے جس سے شرک لازم آتا ہو، اس لئے کہ آئندہ جو وعید بیان کی گئی ہے وہ مطلقاً کذب کی نہیں ہے بلکہ اس کذب کی ہے جس سے کفر لازم آتا ہے۔ قولہ : مقالیدۃ مقلاد یا مقلید کی جمع ہے، بمعنی کنجی یہ ہر شئ میں شدت تصرف و تمکن سے کنایہ ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : قل یعبادی۔۔۔ انفسھم ابن جریر و ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مکہ میں کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے قتل ناحق کئے اور بہت کئے، اور زنا کا ارتکاب کیا اور بہت کیا، ان لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ جس دین کی دعوت دیتے ہیں وہ ہے تو بہت اچھا، لیکن فکریہ ہے کہ جب ہم نے اتنے بڑے بڑے گناہ کر رکھے ہیں، اب اگر ہم مسلمان ہو بھی گئے تو کیا ہماری توبہ قبول ہو سکے گی، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (روح المعانی، معارف)
ابن جریر نے عطاء بن یسار سے روایت کیا کہ مذکورہ تینوں آیتیں مدینہ میں وحشی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ (روح المعانی)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی وسعت مغفرت کا بیان ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونے کا مطلب ہے ایمان لانے سے پہلے انسان نے کتنے بھی گناہ کئے ہوں اس کو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ میں تو بہت گنہگار ہوں اللہ تعالیٰ مجھے کیونکہ معاف کرے گا ؟ بلکہ اگر سچے دل سے ایمان قبول کرلے اور سچی توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں گے، شان نزول کی روایت سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے، کچھ کافر اور مشرک ایسے تھے کہ جنہوں نے کثرت سے قتل و زنا کا ارتکاب کیا تھا، یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کی دعوت تو بالکل صحیح ہے، لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطا کار ہیں، اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا ہمارے وہ سب گناہ معاف ہوجائیں گے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی، (صحیح بخاری، تفسیر سورة زمر، کمامر)
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر بھروسہ کرکے خوب گناہ کئے جائیں، اس کے احکام و فرائض کی مطلق پر واہ نہ کی جائے، اور اس کے ضابطوں کو بےدردی سے پامال کیا جائے، اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت غیر دانشمندی اور خام خیالی ہے، یہ تخم حنظل بوکر ثمرات و فواکہہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے، ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں وہ غفور و رحیم ہے، وہاں وہ نافرمانوں کیلئے عزیز ذوانتقام بھی ہے، چناچہ قرآن کریم میں متعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا ہے۔
واتبعوا احسن ما انزل (الآیۃ) احسن ما انزل سے مراد قرآن ہے اور پورا قرآن احسن ہے، اور قرآن کو احسن ما اُنزِلَ اس لئے کہا گیا ہے، کہ جتنی کتابیں توریت، انجیل، زبور اللہ کی طرف سے نازل ہوئیں ان سب میں احسن و اکمل قرآن ہے۔ (قرطبی)
بلیٰ قد جاء تکَ اٰیاتی فکذبتَ بھَا اس آیت میں کفار کی اس بات کا جواب ہے کہ اللہ اگر ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی متقی ہوتے، اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اختیاری ہدایت کے جتنے طریقہ ہوسکتے تھے وہ سب مہیا فرما دئیے کتابیں بھیجیں، رسول بھیجے، ان کو معجزے عطا کئے، ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ ہمیں ہدایت نہیں کی، ہاں ہدایت کے تمام تر اسباب مہیا کرنے کے بعد، نیکی اور اطاعت پر اللہ نے کسی کو مجبور نہیں کیا، بلکہ بندوں کو یہ اختیار دیدیا کہ وہ جس راستہ یعنی حق یا باطل کو اختیار کرنا چاہے کرے یہی بندے کا امتحان ہے۔
لہ مقالید السموت والارض، مقالید مقلاد یا مقلید کی جمع ہے، اس کے معنی کنجی، چابی کے ہیں، بعض حضرات نے کہا ہے یہ دراصل فارسی لفظ کلید کا معرب ہے، اس لئے کہ فارسی میں کنجی کو، کلید کہتے ہیں، کنجیوں کا کسی کے ہاتھ میں ہونا یہ اس کے مالک و متصرف ہونے کی علامت ہے، اور بعض روایات میں کلمہ سوم کو زمین و آسمانوں کی کنجی کہا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس کلمہ کو صبح و شام پڑھتا رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کو زمین و آسمان کے خزانوں کی نعمتیں عطا فرمائیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے حد سے بڑھ جانے والے، یعنی بہت زیادہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے، بندوں کو آگاہ کرتا ہے کہ اس کا فضل و کرم بہت وسیع ہے نیز انہیں اپنی طرف رجوع کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اس سے قبل کہ رجوع کرنا ان کے لئے ممکن نہ رہے، چنانچہ : ﴿قُلْ ﴾ اے رسول اور جو کوئی دعوت دین میں آپ کا قائم مقام ہو ! اپنے رب کی طرف سے بندوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیجیے : ﴿ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ﴾ ” اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے“ یعنی جنہوں نے گناہوں کا ارتکاب کر کے اور علام الغیوب کی ناراضی کے امور میں کوشاں ہو کر اپنے آپ پر زیادتی کی ﴿لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللّٰـهِ﴾ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ کہ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالو اور کہنے لگو کہ ہمارے گناہ بہت زیادہ اور ہمارے عیوب بہت بڑھ گئے اب ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے وہ گناہ زائل ہوجائیں پھر اس بنا پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مصر رہو اور اس طرح رحمٰن کی ناراضی مول لیتے رہو۔
اپنے رب کو اس کے ان اسما سے پہچانو جو اس کے جودو کرم پر دلالت کرتے ہیں اور جان رکھو کہ بے شک اللہ تعالیٰ ﴿ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ﴾ ” سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ شرک، قتل، زنا، سود خوری اور ظلم وغیرہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ﴿إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾ ” واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے“ یعنی مغفرت اور رحمت دونوں اللہ تعالیٰ کے لازم اور ذاتی اوصاف ہیں جو اس کی ذات سے کبھی جدا ہوتے ہیں نہ ان کے آثار ہی زائل ہوتے ہیں جو تمام کائنات میں جاری و اسری اور تمام موجودات پر سایہ کناں ہیں۔ دن رات اس کے ہاتھوں کی سخاوت جاری ہے، کھلے اور چھپے وہ اپنے بندوں کو اپنی لگاتار نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے۔ عطا کرنا اسے محروم کرنے سے زیادہ پسند ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب اور اس پر سبقت لے گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے حصول کے کچھ اسباب ہی، بندہ اگر ان اسباب کو اختیار نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ پر عظیم ترین اور جلیل ترین رحمت و مغفرت کا دروازہ بند کرلیتا ہے، بلکہ خالص توبہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، دعا، اس کے سامنے عاجزی و انکساری اور اظہار تعبد کے سوا کوئی سبب نہیں۔ پس اس جلیل القدر سبب اور اس عظیم راستے کی طرف بڑھو۔
11 Mufti Taqi Usmani
keh do kay : " aey meray woh bando ! jinhon ney apni janon per ziyadti ker rakhi hai , Allah ki rehmat say mayyus naa ho . yaqeen jano Allah saray kay saray gunah moaaf ker deta hai . yaqeenan woh boht bakhshney wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
توبہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ۔
اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کیسے ہی ہوں کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں۔ اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لئے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بعض مشکرین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ کی باتیں اور آپ کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہوچکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہوگا ؟ اس پر آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68ۙ ) 25 ۔ الفرقان :68) ، یہ اور آیت نازل ہوئی۔ مسند احمد کی حدیث میں ہےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوئی جتنی اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جس نے شرک کیا ہو ؟ آپ نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فرمایا خبردار رہو جس نے شرک بھی کیا ہو تین مرتبہ یہی فرمایا۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک بوڑھا بڑا شخص لکڑی ٹکاتا ہوا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے چھوٹے موٹے گناہ بہت سارے ہیں کیا مجھے بھی بخشا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کی توحید کی گواہی نہیں دیتا ؟ اس نے کہا ہاں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی بھی دیتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیرے چھوٹے موٹے گناہ معاف ہیں، ابو داؤد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت اسماء (رض) فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا آپ اس آیت کی تلاوت اسی طرح فرما رہے تھے (اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ 46) 11 ۔ ھود :46) اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53) 39 ۔ الزمر :53) پس ان تمام احادیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ بندے کو رحمت رب سے مایوس نہ ہونا چاہئے۔ گو گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی کثرت سے ہوں۔ توبہ اور رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا رہتا ہے اور وہ بہت ہی وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبتہ عن عبادہ) کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اور فرمایا ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا\011\00 ) 4 ۔ النسآء :110) جو برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے استغفار کرے وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا پائے گا۔ منافقوں کی سزا جو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگی اسے بیان فرما کر بھی فرمایا ( اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّاب الرَّحِيْمُ\016\00 ) 2 ۔ البقرة :160) یعنی ان سے وہ مستثنیٰ ہیں جو توبہ کریں اور اصلاح کرلیں۔ مشرکین نصاریٰ کے اس شرک کا کہ وہ اللہ کو تین میں کا تیسرا مانتے ہیں ذکر کرکے ان کی سزاؤں کے بیان سے پہلے فرما دیا (وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 73) 5 ۔ المآئدہ :73) کہ اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو۔ پھر اللہ تعالیٰ عظمت وکبریائی جلال و شان والے نے فرمایا یہ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے اور کیوں اس سے استغفار نہیں کرتے ؟ وہ تو بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ ان لوگوں کا جنہوں نے خندقیں کھود کر مسلمانوں کو آگ میں ڈالا تھا ذکر کرتے ہوئے بھی فرمایا ہے کہ جو مسلمان مرد عورتوں کو تکلیف پہنچا کر پھر بھی توبہ نہ کریں ان کیلئے عذاب جہنم اور عذاب نار ہے۔ امام حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ کے کرم و جود کو دیکھو کہ اپنے دوستوں کے قاتلوں کو بھی توبہ اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک عابد سے پوچھا کہ کیا اس کیلئے بھی توبہ ہے ؟ اس نے انکار کیا اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر ایک عالم سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ تجھ میں اور توبہ میں کوئی روک نہیں اور حکم دیا کہ موحدوں کی بستی میں چلا جا چناچہ یہ اس گاؤں کی طرف چلا لیکن راستے میں ہی موت آگئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں آپس میں اختلاف ہوا۔ اللہ عزوجل نے زمین کے ناپنے کا حکم دیا تو ایک بالشت بھر نیک لوگوں کی بستی جس طرف وہ ہجرت کرکے جا رہا تھا قریب نکلی اور یہ انہی کے ساتھ ملا دیا گیا اور رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے۔ یہ بھی مذکور ہے کہ وہ موت کے وقت سینے کے بل اس طرف گھسیٹتا ہوا چلا تھا۔ اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہوجانے کا اور برے لوگوں کی بستی کے دور ہوجانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ، پوری حدیث اپنی جگہ بیان ہوچکی ہے۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے تمام بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلایا ہے انہیں بھی جو حضرت مسیح کو اللہ کہتے تھے انہیں بھی جو آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے انہیں بھی جو حضرت عزیز کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ کو فقیر کہتے تھے انہیں بھی جو اللہ کے ہاتھوں کو بند بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ تعالیٰ کو تین میں کا تیسرا کہتے تھے اللہ تعالیٰ ان سب سے فرماتا ہے کہ یہ کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں اس سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں چاہتے ؟ اللہ تو بڑی بخشش والا اور بہت ہی رحم و کرم والا ہے۔ پھر توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ نے اسے دی جس کا قول ان سب سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں تمہارا بلند وبالا رب ہوں۔ جو کہتا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ تمہارا کوئی معبود میرے سوا ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی جو شخص اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے۔ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا منکر ہے۔ لیکن اسے سمجھ لو کہ جب تک اللہ کسی بندے پر اپنی مہربانی سے رجوع نہ فرمائے اسے توبہ نصیب نہیں ہوتی۔ طبرانی میں حضرت ابن مسعود (رض) کا قول ہے کہ کتاب اللہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت آیت الکرسی ہے اور خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 90) 16 ۔ النحل :90) ہے اور سارے قرآن میں سب سے زیادہ خوشی کی آیت سورة زمر کی ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53) 39 ۔ الزمر :53) ہے اور سب سے زیادہ ڈھارس دینے والی آیت (من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب) ہے یعنی اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کی مخلصی خود اللہ کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں کا اسے خیال و گمان بھی نہ ہو۔ حضرت مسروق نے یہ سن کر فرمایا کہ بیشک آپ سچے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) جا رہے تھے کہ آپ نے ایک واعظ کو دیکھا جو لوگوں کو نصیحتیں کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا۔ تو کیوں لوگوں کو مایوس کر رہا ہے ؟ پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ (ابن ابی حاتم) " ان احادیث کا بیان جن میں ناامیدی اور مایوسی کی ممانعت ہے " رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم خطائیں کرتے کرتے زمین و آسمان پر کردو پھر اللہ سے استغفار کرو تو یقینا وہ تمہیں بخش دے گا۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر تم خطائیں کرو ہی نہیں تو اللہ عزوجل تمہیں فنا کرکے ان لوگوں کو لائے گا جو خطا کرکے استغفار کریں اور پھر اللہ انہیں بخشے۔ (مسند امام احمد) حضرت ابو ایوب انصاری (رض) اپنے انتقال کے وقت فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں نے تم سے آج تک بیان نہیں کی تھی اب بیان کردیتا ہوں۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ نے فرمایا اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ عزوجل ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا۔ (صحیح مسلم وغیرہ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں گناہ کا کفارہ ندامت اور شرمساری ہے اور آپ نے فرمایا اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں پھر وہ انہیں بخشے (مسند احمد) آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو کامل یقین رکھنے والا اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو (مسند احمد) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ ابلیس ملعون نے کہا اے میرے رب تو نے مجھے آدم کی وجہ سے جنت سے نکالا ہے اور میں اس پر اس کے بغیر کہ تو مجھے اس پر غلبہ دے غالب نہیں آسکتا۔ جناب باری نے فرمایا جا تو ان پر مسلط ہے۔ اس نے کہا اللہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا بنی آدم میں جتنی اولاد پیدا ہوگی اتنی ہی تیرے ہاں بھی ہوگی۔ اس نے پھر التجا کی باری تعالیٰ کچھ اور بھی مجھے زیادتی دے۔ پروردگار عالم نے فرمایا بنی آدم کے سینے میں تیرے لئے مسکن بنادوں گا اور تم ان کے جسم میں خون کی جگہ پھرو گے اس نے پھر کہا کہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عنایت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا تو ان پر اپنے سوار اور پیادے دوڑا۔ اور ان کے مال و اولاد میں اپنا ساجھا کر اور انہیں امنگیں دلا۔ گو حقیقتاً تیرا امنگیں دلانا اور وعدے کرنا سراسر دھوکے کی ٹٹی ہیں۔ اس وقت حضرت آدم (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار تو نے اسے مجھ پر مسلط کردیا اب میں اس سے تیرے بچائے بغیر بچ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سنو تمہارے ہاں جو اولاد ہوگی اس کے ساتھ میں ایک محافظ مقرر کردوں گا جو شیطانی پنجے سے محفوظ رکھے۔ حضرت آدم نے اور زیادتی طلب کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک نیکی کو دس گنا کرکے دوں گا بلکہ دس سے بھی زیادہ۔ اور برائی اسی کے برابر رہے گی یا معاف کردوں گا۔ آپ نے پھر بھی اپنی یہی دعا جاری رکھی۔ رب العزت نے فرمایا توبہ کا دروازہ تمہارے لئے اس وقت تک کھلا ہے جب تک روح جسم میں ہے، حضرت آدم نے دعا کی اللہ مجھے اور زیادتی بھی عطا فرما۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی کہ میرے گنہگار بندوں سے کہہ دو وہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ (ابن ابی حاتم) حضرت عمر فاروق (رض) کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ بوجہ اپنی کمزوری کے کفار کی تکلیفیں برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین میں فتنے میں پڑگئے ہم اس کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی نیکی اور توبہ قبول نہ فرمائے گا ان لوگوں نے اللہ کو پہچان کر پھر کفر کو لے لیا اور کافروں کی سختی کو برداشت نہ کیا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے میں آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ہمارے اس قول کی تردید کردی اور (یا عبادی الذین اسرفوا سے لا تشعرون) تک آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے ان آیتوں کو لکھا اور ہشام بن عاص (رض) کے پاس بھیج دیا، حضرت ہشام فرماتے ہیں میں اس وقت ذی طویٰ میں تھا میں انہیں پڑھ رہا تھا اور بار بار پڑھتا جاتا تھا اور خوب غور و خوض کر رہا تھا لیکن اصلی مطلب تک ذہن رسائی نہیں کرتا تھا۔ آخر میں نے دعا کی کہ پروردگار ان آیتوں کا صحیح مطلب اور ان کو میری طرف بھیجے جانے کا صحیح مقصد مجھ پر واضح کردے۔ چناچہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالا گیا کہ ان آیتوں سے مراد ہم ہی ہیں یہ ہمارے بارے میں ہیں اور ہمیں جو خیال تھا کہ اب ہماری توبہ قبول نہیں ہوسکتی اسی بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اسی وقت میں واپس مڑا اپنا اونٹ لیا اس پر سواری کی اور سیدھا مدینے میں آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ (سیرۃ ابن اسحاق) بندوں کی مایوسی کو توڑ کر انہیں بخشش کی امید دلا کر پھر حکم دیا اور رغبت دلائی کہ وہ توبہ اور نیک عمل کی طرف سبقت اور جلدی کریں ایسا نہ ہو کہ اللہ کے عذاب آپڑیں۔ جس وقت کہ کسی کی مدد کچھ نہیں آتی اور انہیں چاہئے کہ عظمت والے قرآن کریم کی تابعداری اور ماتحتی میں مشغول ہوجائیں اس سے پہلے کہ اچانک عذاب آئیں اور یہ بیخبر ی میں ہی ہوں، اس وقت قیامت کے دن بےتوبہ مرنے والے اور اللہ کی عبادت میں کمی لانے والے بڑی حسرت اور بہت افسوس کریں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش کہ ہم خلوص کے ساتھ احکام اللہ بجا لاتے۔ افسوس ! کہ ہم تو بےیقین رہے۔ اللہ کی باتوں کی تصدیق ہی نہ کی بلکہ ہنسی مذاق ہی سمجھتے رہے اور کہیں گے کہ اگر ہم بھی ہدایت پالیتے تو یقینا رب کی نافرمانیوں سے دنیا میں اور اللہ کے عذاب سے آخرت میں بچ جاتے اور عذاب کو دیکھ کر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر اب دوبارہ دنیا کی طرف جانا ہوجائے تو دل کھول کر نیکیاں کرلیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بندے کیا عمل کریں گے اور کیا کچھ وہ کہیں گے۔ انکے عمل اور ان کے قول سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دیدی اور فی الواقع اس سے زیادہ باخبر کون ہوسکتا ہے ؟ نہ اس سے زیادہ سچی خبر کوئی دے سکتا ہے۔ بدکاروں کے یہ تینوں قول بیان فرمائے اور دوسری جگہ یہ خبر دیدی کہ اگر یہ واپس دنیا میں بھیجے جائیں تو بھی ہدایت کو اختیار نہ کریں گے۔ بلکہ جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کرنے لگیں گے اور یہاں جو کہتے ہیں سب جھوٹ نکلے گا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے ہر جہنمی کو اس کی جنت کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کاش کہ اللہ مجھے ہدایت دیتا۔ یہ اس لئے کہ اسے حسرت و افسوس ہو۔ اور اسی طرح ہر جنتی کو اس کی جہنم کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دیتا تو وہ جنت میں نہ آسکتا۔ یہ اس لئے کہ وہ شکر اور احسان کے ماننے میں اور بڑھ جائے، جب گنہگار لوگ دنیا کی طرف لوٹنے کی آرزو کریں گے اور اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہ کرنے کی حسرت کریں گے اور اللہ کے رسولوں کو نہ ماننے پر کڑھنے لگیں گے تو اللہ سبحان و تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ندامت لاحاصل ہے پچھتاوا بےسود ہے دنیا میں ہی میں تو اپنی آیتیں اتار چکا تھا۔ اپنی دلیلیں قائم کرچکا تھا، لیکن تو انہیں جھٹلاتا رہا اور ان کی تابعداری سے تکبر کرتا رہا، ان کا منکر رہا۔ کفر اختیار کیا، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔