النساء آية ۱۰۵
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰٮكَ اللّٰهُ ۗ وَلَا تَكُنْ لِّـلْخَاۤٮِٕنِيْنَ خَصِيْمًا ۙ
طاہر القادری:
(اے رسولِ گرامی!) بیشک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے، اور آپ (کبھی) بددیانت لوگوں کی طرف داری میں بحث کرنے والے نہ بنیں،
English Sahih:
Indeed, We have revealed to you, [O Muhammad], the Book in truth so you may judge between the people by that which Allah has shown you. And do not be for the deceitful an advocate.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو
2 Ahmed Raza Khan
اے محبوب! بیشک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری کہ تم لوگوں میں فیصلہ کرو جس طرح تمہیں اللہ دکھائے اور دغا والوں کی طرف سے نہ جھگڑو
3 Ahmed Ali
بے شک ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاری ہے تاکہ تو لوگوں میں انصاف کرے جو کچھ تمہیں الله سجھا دے اور تو بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والا نہ ہو
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے (١) اور خیانت کرنے والوں (٢) کے حمایتی نہ بنو۔
١٠٥۔١ ان آیات (١٠٤ سے ١١٣ تک) کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کی زرہ چرالی، جب اس کا چرچہ ہوا اور اسے بےنقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اور بنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، ان سب نے کہا زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے، یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا بنی ابیرق نے زرہ چوری کرکے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ایبرق (طمعہ بشیر وغیرہ) ہوشیار تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہے اور طعمہ پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انکی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کرکے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرما دی، جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بحیثیت ایک انسان غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فوراً صورتحال واضح ہوجاتی تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالٰی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہو جانے کا مرحلہ آجائے تو فورا اللہ تعالٰی اسے متنبہ فرما دیتا اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیاء کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔
١٠٥۔٢ اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہیں۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلی آیت میں بھی ان کے اور ان کے حماتیوں کے غلط کردار کو نمایاں کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردار کیا جا رہا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ہم نے (یہ) کتاب حق کے ساتھ آپ پر اتاری ہے۔ تاکہ آپ لوگوں میں اس کے مطابق فیصلہ کریں، جو اللہ نے آپ کو بتا دیا ہے اور آپ خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم نے آپ کی طرف یہ برحق کتاب نازل کی ہے کہ لوگوں کے درمیان حکم خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔
آیت نمبر ١٠٥ تا ١١٢
ترجمہ : طعمہ بن اُبَْرق نے ایک زرہ چرالی تھی اور ایک یہودی کے یہاں اسے چھپا دیا تھا، وہ زرہ یہودی کے یہاں سے برآمد ہوگئی طعمہ نے زرہ کا الزام یہودی پر ڈال دیا اور قسم کھا گیا کہ میں نے زرہ نہیں چرائی ہے، طعمہ کے خاندان والوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ طعمہ کا دفاع فرمائیں اور اس کو بری قراردیدیں تو (آئندہ) آیت نازل ہوئی، یقینا ہم نے آپ پر کتاب قرآن حق کے ساتھ نازل کی ہے، بالحق، اَنزلنا کے متعلق ہے کہ اس معاملہ میں اللہ نے جو آپ کو بتادیا ہے اس کے مطابق لوگوں کا فیصلہ کریں، اور خائنوں مثلاً طعمہ کا دفاع نہ کریں اور آپ نے جو قصد کیا اس سے استغفار کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی مغفرت کرنے والا بڑا ہی رحم کرنے والا ہے، اور ان لوگوں کی وکالت نہ کریں جو اپنے حق میں خیانت کرتے ہیں (یعنی) معاصی کے ذریعہ اپنے نفسوں کے ساتھ خیانت کرتے ہیں، اسلئے کہ ان کی خیانت کا وبال خود ان کے اوپر پڑتا ہے، اللہ کسی بھی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خائن اور گنہگار ہو، یعنی اس کو سزا دے گا، طعمہ اور اس کی قوم شرم کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے ہیں مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتے اسلئے کہ وہ ان کے ساتھ ہے، ان کے راز کو جانتا ہے، جبکہ وہ رات کو ناپسندیدہ بات کا کہ یعنی جو چوری کے انکار اور زرہ کی چوری کا الزام یہودی پر ڈالنے کا مشورہ کرتے ہیں، اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا عملی احاطہ کئے ہوئے ہے تم وہ لوگ ہو یہ طعمہ کی قوم کو خطاب ہے کہ دنیا میں تو تم نے ان کی طرف سے دفاع کرلیا اور \& عنھم \& کی بجائے عنہ، بھی پڑھا گیا ہے، لیکن اللہ کے سامنے قیامت کے دن ان کا دفاع کون کرے گا ؟ جب ان کو عذاب دے گا، اور کون ہے جو اس کا وکیل بن کر کھڑا ہوسکے گا ؟ (یعنی) ان کے معاملہ کی کفالت کرے گا، اور ان کا دفاع کریگا، یعنی کوئی یہ کام نہ کرے گا، جو شخص کوئی برائی کرے کہ اس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے جیسا کہ طعمہ کا یہودی پر الزام لگانا، اس سے ظلم کرے کہ اسی تک محدود ہے پھر وہ اس سے استغفار کرے یعنی توبہ کرے تو وہ اللہ کو اپنے لئے بخشش کرنے والا اور اپنے اوپر رحم کرنے والا پائیگا، اور جو گناہ کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لئے کرتا ہے اس لئے کہ اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے اور دوسرے کو نقصان نہیں دیتام اور اللہ بخوبی جاننے والا اور اپنی صنعت میں با حکمت ہے اور جس نے کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ کیا اور پھر وہ گناہ کسی بےگناہ پر تھوپ دیا تو وہ بہت بڑے بہتان کا متحمل ہوا، اور اپنے عمل سے کھلا گناہ کیا۔
تحقیق و ترکیب تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : طُِعْمَة، بتثلیث الطاء، والکسر اشھر .
قولہ : ابن اُبَیْرِق، ہمزہ مضمومہ اور باء موحدہ مفتوحہ اور راء مک سورة کے ساتھ، یہ غیر منصرف ہے۔
قولہ : وخَبَاھَا، ای الدِرْعَ درع جو کہ لوہے کی ہوتی ہے مؤنث ہے اور درع بمعنی خمار (اوڑھنی) مذکر ہے۔
قولہ : عَلَّمَکَ ، اس میں اشارہ ہے کہ رویت بمعنی علم ہے اور علم بمعنی معرفت ہے ورنہ تو متعدی بہ سہ مفعول ہونا ضروری ہے جو کہ موجود نہیں ہیں۔
قولہ : فیہِ ، کی ضمیر مَا، کی طرف راجع ہے۔
قولہ : مِمّا ھَمَمْتَ ای بقطع یدالیھودی .
قولہ : بِالْمَعَاصِی، خیانت سے مراد معصیت ہے کہ اس میں طعمہ کے طرف دار شامل ہوجائیں اسلئے کہ جرم خیانت تو صرف طعمہ سے صادر ہوا تھا۔
قولہ : حَیَائً ، اس میں اشارہ ہے کہ استخفاء بمعنی حَیَاء ہے تاکہ مشاکلت ہوجائے اس لئے کہ لا یستخفون من اللہ میں استخفاء بمعنی حیاء ہے اسلئے کہ استخفاء، اللہ سے محال ہے لہٰذا اس کی نفی سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
قولہ : قُرِئَ عنہ یعنی عنھم کے بجائے عنہ بھی ایک قراءت میں پڑھا گیا ہے، ای عن طُعْمَة .
قولہ : تَحَمَّلَ ، احتمل کی تفسیر تَحمَّلَ سے کی ہے اس لئے کہ تَفَعُّلْ اخذ فی الا ثم میں زیادہ مشہور ہے۔
قولہ : بَیِّناً ، اس میں اشارہ ہے کہ متعدی بمعنی لازم ہے۔
تفسیر و تشریح
اِنّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الکتابَ بالحق، (الآیة) اَرَاکَ ، یہاں بتادیا، سمجھا دیا کے معنی میں ہے، کہ مذکورہ آیت اس باب میں صریح ہے کہ حیلے جو کچھ بھی کئے جائیں قرآنی قانون ہی کے مطابق کئے جائیں نہ کہ اپنی ہوائے نفس کے مطابق یا کسی انسانی دماغ کے گھڑے ہوئے آئین و دستور کے مطابق۔
نزول آیات کا پس منظر : مذکورہ سات آیات ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں، لیکن عام قرآنی اسلوب کے مطابق جو ہدایات اس سلسلہ میں دی گئی ہیں وہ اس واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہدایات ہیں جو کہ بہت سے اصول و فروع پر مشتمل ہیں۔
واقعہ کی تفصیل : انصار کے قبیلہ بنو اُبَْرِق کے ایک گھرانے میں چار بھائی تھے، بشیر، ولثر، مبشر، اور بُشَیْر، یہ چوتھا بھائی منافق تھا، بغوی اور ابن جریر کی ردایت میں اس کا نام طعمہ بتلایا گیا ہے اس نے حضرت قتادہ بن نعمان کے چچا رفاعہ (رض) کے گھر میں نقب لگا کر آٹے کی ایک بوری اور اس میں رکھی ہوئی ایک زرہ چرالی، صبح کو جب حضرت رفاعہ نے ماجرا دیکھا تو اپنے بھتیجے قتادہ کے پاس آئے اور چوری کے واقعہ کا ذکر کیا، سب نے مل کر محلہ میں جستجو شروع کی، بعض لوگوں نے بتایا کہ آج رات ہم نے دیکھا تھا کہ بنو ابیرق کے گھر میں آگ روشن تھی، ہمارا خیال ہے کہ وہی کھانا پکایا گیا ہے بنو ابیرق کو راز فاش ہونے کی خبر ملی تو خود ہی کہنے لگے کہ یہ کام لبیدبن سہل کا ہے لبید ایک مخلص اور نیک مسلمان تھے جب ان کو اس الزام کی خبر ہوئی تو وہ تلوار لے کر آئے اور کہا چوری میرے سر لگاتے ہو اب میں تلوار اس وقت تک میان میں نہ رکھونگا جب تک کہ چوری کی حقیقت معلوم نہ ہوجائے۔
بنو ابَْیرق نے آہستہ سے لبید سے کہا آپ بےفکر رہیں آپ کا نام کوئی نہیں لیتا اور نہ یہ کام آپ کا ہوسکتا ہے بغوی اور ابن جریر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ بنو ابیرق نے چوری ایک یہودی کے نام لگادی، اور ہوشیاری یہ کی کہ آٹے کی بوری کو تھوڑا سا پھاڑ دیا جس کی وجہ سے رعافہ کے مکان سے یہودی کے گھر تک آٹا گرتا چلا گیا، ابیرق نے زرہ اور دیگر چوری کا سامان اس یہودی کے پاس رکھوا دیا، چناچہ تحقیق کے وقت مسروقہ مال یہودی کے گھر سے برآمد ہوا یہودی نے قسم کھا کر کہا کہ زرہ وغیرہ مجھے ابن ابیرق نے دی ہیں ادھر حضرت قتادہ اور رفاعہ کو مختلف قرائن سے غالب گمان ہوگیا تھا کہ یہ کاروائی بنو اُبَْیرق کی ہے، حضرت قتادہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر چوری کے واقعہ کی تفصیل اور بنو ابیرق کے بارے میں گمان غالب کا ذکر کردیا۔
بنو ابیرق کو جب خبر ملی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت قتادہ اور رفاعہ کی شکایت کی کہ بلا ثبوت شرعی ہمارے اوپر چوری کا الزام لگاتے ہیں، حالانکہ مسروقہ مال یہودی کے گھر سے برآمد ہوا ہے آپ ان کو منع کریں ہمارے نام چوری نہ لگائیں، یہودی پر دعوی کریں، ظاہری حالات و آثار سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی اسی طرف رجحان ہوگیا کہ یہ کام یہودی کا ہے، بغوی کی روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ ہوگیا کہ یہودی پر چوری کی سزا جاری کریں اور اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔
ادھر یہ ہوا کہ حضرت قتادہ جب آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ بغیر دلیل اور ثبوت کے ایک مسلمان گھرانے پر چوری کا الزام لگا رہے ہو، حضرت قتادہ اس معاملہ سے بہت رنجیدہ ہوئے اور افسوس کرنے لگے کہ کاش میں اس معاملہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کوئی بات نہ کرتا اور حضرت رفاعہ کو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گفتگو کا علم ہوا تو ان کو بھی تکلیف ہوئی مگر صبر کیا اور فرمایا \&\& وَاللہ المُسْتَعَانُ \&\&.
اس واقعہ پر ابھی کچھ وقت نہ گذرا تھا کہ قرآن کریم کا پورا ایک رکوع اس بارے میں نازل ہوگیا جس کے ذریعہ آپ پر واقعہ کی حقیقت منکشف کر سی گئی، اور ایسے معاملات کے متعلق عام ہدایات دی گئیں۔
قرآن کریم نے بنو ابیرق کی چوری کھول دی اور یہودی کو بری کردیا تو بنو ابیرق مجبور ہوئے اور مسروقہ مال آنحضرت کی خدمت میں پیش کردیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رفاعہ (رض) کو واپس دلوادیا انہوں نے یہ سب اسلحہ جہاد کے لئے وقف کردیا ادھرجب بنو ابیرق کی چوری کھل گئی تو بشیر بن ابیرق مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلا گیا، اور مشرکین سے جا کر مل گیا پہلے منافق تھا اب کھلا کافر ہوگیا، اس نے مکہ میں جا کر ایک مکان میں نقب لگایا اور دیور اس کے اوپر گرگئی اور وہیں دب کر مرگیا۔
مذکورہ واقعہ میں قرآنی اشارات : اس واقعہ سے ایک بات تو معلوم ہوئی کہ نبی کو بھی بحیثیت انسان غلط فہمی ہوسکتی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ آپ پر صورت حال فوراً واضح ہوجاتی تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی خطاء اجتہادی ہوجائے تو فوراً اصلاح کردی جاتی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی یعنی بوقت نزول اس کتاب کو شیاطین کے باطل وسوسوں سے محفوظ و مامون رکھا، بلکہ یہ کتاب عظیم حق کے ساتھ نازل ہوئی اور حق پر ہی مشتمل ہے۔ اس کی خبریں سچی اور اس کے اوامرو نواہی عدل پر مبنی ہیں۔﴿ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا﴾(الانعام :6؍115) ” اور تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہوئیں۔ “
اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اس کتاب کو اس لیے نازل فرمایا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ (النحل :16؍44) ” ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ لوگوں پر واضح کردیں۔“ اس امر کا بھی احتمال ہے کہ یہ آیت کریمہ لوگوں کے آپس کے اختلافات اور نزاعی مسائل کے فیصلے کے بارے میں نازل ہوئی ہو اور سورۃ النحل کی آیت کریمہ تمام دین، اس کے اصول و فروع کی تبیین کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔ نیز یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں آیات کے معنی ایک ہی ہوں۔ تب اس صورت میں لوگوں کے درمیان یہ فیصلہ کرنا، ان کے خون، اموال، عزت و آبرو، حقوق، عقائد اور تمام مسائل و احکام کے فیصلوں کو شامل ہے۔
فرمایا : ﴿بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ﴾ ” اللہ کی ہدایات کے مطابق“ یعنی آپ اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کریں بلکہ اس الہام اور علم کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴾ (النجم 53؍3۔4) ” ہمارا رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ یہ تو وحی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ “
یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام احکام میں معصوم اور محفوظ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو پہنچائے، نیز اس امر کی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے کے لیے علم اور عدل شرط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ﴾” اللہ کی ہدایات کے مطابق“ اور یہ نہیں فرمایا : (بِمَا رَأَیْتَ) ” جو آپ نے دکھا یا جو آپ کی اپنی رائے ہے“ اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کو کتاب اللہ کی معرفت پر مترتب فرمایا ہے۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کے مابین ایسے فیصلے کا حکم دیا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو اس لیے ظلم و جور سے منع کیا ہے جو عدل و انصاف کی عین ضد ہے۔ پس فرمایا : ﴿وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴾” اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو“ یعنی جس کی خیانت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہے کہ اس کا دعویٰ ناحق ہے یا وہ کسی کے حق کا انکار کر رہا ہے، اس کی حمایت میں جھگڑا نہ کریں۔ خواہ وہ علم رکھتے ہوئے اس خیانت کا ارتکاب کر رہا ہو یا محض ظن و گمان کی بنا پر۔
آیت کریمہ کے اس حصے میں کسی باطل معاملے میں جھگڑنے اور دینی خصوصیات اور دنیاوی حقوق میں کسی باطل پسند کی نیابت کی تحریم کی دلیل ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ کسی ایسے شخص کے جھگڑے کی نیابت کرنا جائز ہے جو کسی ظلم میں معروف نہ ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak hum ney haq per mushtamil kitab tum per iss liye utaari hai takay tum logon kay darmiyan uss tareeqay kay mutabiq faisla kero jo Allah ney tum ko samjha diya hai , aur tum khayanat kernay walon kay taraf daar naa bano .
12 Tafsir Ibn Kathir
حقیقت چھپ نہیں سکتی
اللہ تعالیٰ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو آپ پر اللہ نے اتارا ہے وہ مکمل طور پر اور ابتداء تا انتہا حق ہے، اس کی خبریں بھی حق اس کے فرمان بھی برحق۔ پھر فرماتا ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان وہ انصاف کرو جو اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھائے، بعض علمائے اصول نے اس سے استدلال کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجتہاد سے حکم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، اس کی دلیل بخاری مسلم کی حدیث بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آواز سنی تو آپ باہر آئے اور فرمانے لگے میں ایک انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ ایک شخص زیادہ حجت باز اور چرب زبان ہو اور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور جس کے حق میں فیصلہ کر دوں فی الواقع وہ حقدار نہ ہو تو وہ سمجھ لے کہ وہ اس کے لئے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ لے لے یا چھوڑ دے۔ مسند احمد میں ہے کہ دو انصاری ایک ورثے کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنا قضیہ لائے واقعہ کو زمانہ گذر چکا تھا دونوں کے پاس گواہ کوئی نہ تھا تو اس وقت آپ نے وہی حدیث بیان فرمائی اور فرمایا کہ میرے فیصلے کی بنا پر اپنے بھائی کا حق نہ لے لے اگر ایسا کرے گا تو قیامت کے دن اپنی گردن میں جہنم کی آگ لٹکا کر آئے گا اب تو وہ دونوں بزرگ رونے لگے اور ہر ایک کہنے لگا میں اپنا حق بھی اپنے بھائی کو دے رہا ہوں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب تم جاؤ اپنے طور پر جہاں تک تم سے ہوسکے ٹھیک ٹھیک حصے تقسیم کرو پھر قرعہ ڈال کر حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے کو اپنا رہا سہا غلطی کا حق معاف کردو۔ ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی، ابن مردویہ میں ہے کہ انصار کا ایک گروہ ایک جہاد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا وہاں ایک شخض کی ایک چادر کسی نے چرالی اور اس چوری کا گمان طعمہ بن ابیرق کی طرف تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ قصہ پیش ہوا چور نے اس چادر کو ایک شخص کے گھر میں اس کی بیخبر ی میں ڈال دیا اور اپنے کنبہ قبیلے والوں سے کہا میں نے چادر فلاں کے گھر میں ڈال دی ہے تم رات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ اور آپ سے ذکر کرو کہ ہمارا ساتھی تو چور نہیں چور فلاں ہے اور ہم نے پتہ لگا لیا ہے کہ چادر بھی اس کے گھر میں موجود ہے اس طرح آپ ہمارے ساتھی کی تمام لوگوں کی روبرو بریت کر دیجئے اور اس کی حمایت کیجئے ورنہ ڈر ہے کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہوجائے آپ نے ایسا ہی کیا اس پر یہ آیتیں اتری اور جو لوگ اپنے جھوٹ کو پوشیدہ کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے ان کے بارے میں (آیت یستخفون) سے دو آیتیں نازل ہوئیں، پھر اللہ عزوجل نے فرمایا جو برائی اور بدی کا کام کرے اس سے مراد بھی یہی لوگ ہیں اور چور کے اور اس کے حمایتوں کے بارے میں اترا کہ جو گناہ اور خطا کرے اور ناکردہ گناہ کے ذمہ الزام لگائے وہ بہتان باز اور کھلا گنہگار ہے، لیکن یہ سیاق غریب ہے بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ یہ آیت بنوابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ قصہ مطلول ترمذی کتاب التفسیر میں بزبانی حضرت قتادہ اس طرح مروی ہے کہ ہمارے گھرانے کے بنوابیرق قبیلے کا ایک گھر تھا جس میں بشر، بشیر اور مبشر تھے، بشیر ایک منافق شخص تھا اشعار کو کسی اور کی طرف منسوب کرکے خوب مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا، اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاتنے تھے کہ یہی خبیث ان اشعار کا کہنے والا ہے، یہ لوگ جاہلیت کے زمانے سے ہی فاقہ مست چلے آ تھے مدینے کے لوگوں کا اکثر کھانا جو اور کھجوریں تھیں، ہاں تونگر لوگ شام کے آئے ہوئے قافلے والوں سے میدہ خرید لیتے جسے وہ خود اپنے لئے مخصوص کرلیتے، باقی گھر والے عموماً جو اور کھجوریں ہی کھاتے، میرے چچا رفاعہ یزید نے بھی شام کے آئے ہوئے قافلے سے ایک بورا میدہ کا خریدا اور اپنے بالا خانے میں اسے محفوظ کردیا جہاں ہتھیار زرہیں تلواریں وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں رات کو چوروں نے نیچے سے نقب لگا کر اناج بھی نکال لیا اور ہتھیار بھی چرالے گئے، صبح میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا، اب ہم تجسس کرنے لگے تو پتہ چلا کہ آج رات کو بنو ابیرق کے گھر میں آگ جل رہی تھی اور کچھ کھا پکار رہے تھے غالباً وہ تمہارے ہاں سے چوری کر گئے ہیں، اس سے پہلے جب اپنے گھرانے والوں سے پوچھ گچھ کر رہے تھے تو اس قبیلے کے لوگوں نے ہم سے کہا تھا کہ تمہارا چور لبید بن سہل ہے، ہم جانتے تھے کہ لبید کا یہ کام نہیں وہ ایک دیانتدار سچا مسلمان شخص تھا۔ حضرت لبید کو جب یہ خبر ملی تو وہ آپے سے باہر ہوگئے تلوار تانے بنوابیرق کے پاس آئے اور کہنے لگے یا تو تم میری چوری ثابت کر ورنہ میں تمہیں قتل کر دونگا ان لوگوں نے ان کی برات کی اور معافی چاہ لی وہ چلے گئے، ہم سب کے سب پوری تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ چوری بنوابیرق نے کی ہے، میرے چچا نے مجھے کہا کہ تم جا کر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر تو دو ، میں نے جاکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سارا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ آپ ہمیں ہمارے ہتھیار دلوا دیجئے غلہ کی واپسی کی ضرورت نہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اطمینان دلایا کہ اچھا میں اس کی تحقیق کروں گا، یہ خبر جب بنوابیرق کو ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک آدمی آپ کے پاس بھیجا جن کا نام اسید بن عروہ تھا انہوں نے آکر کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تو ظلم ہو رہا ہے، بنوابیرق تو صلاحیت اور اسلام والے لوگ ہیں انہیں قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا چور کہتے ہیں اور بغیر کسی ثوب اور دلیل کے چور کا بدنما الزام ان پر رکھتے ہیں وغیرہ، پھر جب میں خدمت نبوی میں پہنچا تو آپ نے مجھ سے فرمایا یہ تو تم بہت برا کرتے ہو کہ دیندار اور بھلے لوگوں کے ذمے چوری چپکاتے ہو جب کہ تمہارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں، میں چپ چاپ واپس چلا آیا اور دل میں سخت پشیمان اور پریشان تھا خیال آتا تھا کہ کاش کہ میں اس مال سے چپ چاپ دست بردار ہوجاتا اور آپ سے اس کا ذکر ہی نہ کرتا تو اچھا تھا، اتنے میں میرے چچا آئے اور مجھ سے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ میں نے سارا واقعہ ان سے بیان کیا جسے سن کر انہوں نے کہا اللہ المستعان اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں، ان کا جانا تھا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی میں یہ آیتیں اتریں پس خائنین سے مراد بنو ابیرق ہیں، آپ کو استغفار کا حکم ہوا یہ یہی آپ نے حضرت قتادہ کو فرمایا تھا، پھر ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ اگر یہ لوگ استفغار کریں تو اللہ انہیں بخش دے گا، پھر فرمایا ناکردہ گناہ کے ذمہ گناہ تھوپنا بدترین جرم ہے، اجرا عظیما تک یعنی انہوں نے جو حضرت لبید کی نسبت کہا کہ چور یہ ہیں جب یہ آیتیں اتریں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوابیرق سے ہمارے ہتھیار دلوائے میں انہیں لے کر اپنے چچا کے پاس آیا یہ بیچارے بوڑھے تھے آنکھوں سے بھی کم نظر آتا تھا مجھ سے فرمانے لگے بیٹا جاؤ یہ سب ہتھیار اللہ کے نام خیرات کردو، میں آج تک اپنے چچا کی نسبت قدرے بدگمان تھا کہ یہ دل سے اسلام میں پورے طور پر داخل نہیں ہوئے لیکن اس واقعہ نے بدگمانی میرے دل سے دور کردی اور میں ان کے سچے اسلام کا قائل ہوگیا، بشیر یہ سن کر مشرکین میں جا ملا اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے ہاں جاکر اپنا قیام کیا، اس کے بارے میں اس کے بعد کی (وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا\011\05ۧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ باللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا\011\06) 4 ۔ النسآء :115-116) تک نازل ہوئیں اور حضرت حسان نے اس کے اس فعل کی مذمت اور اس کی ہجو اپنے شعروں میں کی، ان اشعار کو سن کر اسکی عورت کو بڑی غیرت آئی اور بشیر کا سب اسباب اپنے سر پر رکھ کر ابطح میدان میں پھینک آئی اور کہا تو کوئی بھلائی لے کر میرے پاس نہیں آیا بلکہ حسان کی ہجو کے اشعار لے کر آیا ہے میں تجھے اپنے ہاں نہیں ٹھہراؤں گی، یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مطول اور مختصر مروی ہے۔ ان منافقوں کی کم عقلی کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جو اپنی سیاہ کاریوں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں بھلا ان سے کیا نتیجہ ؟ اللہ تعالیٰ سے تو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے، پھر انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ تمہارے پوشیدہ راز بھی اللہ سے چھپ نہیں سکتے، پھر فرماتا ہے مانا کہ دنیوی حاکموں کے ہاں جو ظاہر داری پر فیصلے کرتے ہیں تم نے غلبہ حاصل کرلیا، لیکن قیامت کے دن اللہ کے سامنے جو ظاہر وباطن کا عالم ہے تم کیا کرسکو گے ؟ وہاں کسے وکیل بنا کر پیش کرو گے جو تمہارے جھوٹے دعوے کی تائید کرے، مطلب یہ ہے کہ اس دن تمہاری کچھ نہیں چلے گی۔