النساء آية ۱۲۸
وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَاۤ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۗ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۗ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا
طاہر القادری:
اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی جانب سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف رکھتی ہو تو دونوں (میاں بیوی) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں کسی مناسب بات پر صلح کر لیں، اور صلح (حقیقت میں) اچھی چیز ہے اور طبیعتوں میں (تھوڑا بہت) بخل (ضرور) رکھ دیا گیا ہے، اور اگر تم احسان کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو بیشک اللہ ان کاموں سے جو تم کر رہے ہو (اچھی طرح) خبردار ہے،
English Sahih:
And if a woman fears from her husband contempt or evasion, there is no sin upon them if they make terms of settlement between them – and settlement is best. And present in [human] souls is stinginess. But if you do good and fear Allah – then indeed Allah is ever, of what you do, Aware.
1 Abul A'ala Maududi
جب کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطر ہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں صلح بہر حال بہتر ہے نفس تنگ دلی کے طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرز عمل سے بے خبر نہ ہوگا
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں اور اگر تم نیکی اور پرہیزگاری کرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے
3 Ahmed Ali
اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے لڑنے یا منہ پھیرنے سے ڈرے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح صلح کر لیں اور یہ صلح بہتر ہے اور دلوں میں حرص موجود ہے اور اگر تم نیکی کرو او رپرہیزگاری کرو تو الله کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے
4 Ahsanul Bayan
اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بددماغی اور بےپرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں صلح کرلیں اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں (١) صلح بہتر چیز ہے، طمع ہر ہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے (٢) اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیز گاری کرو تو تم جو کر رہے ہو اس پر اللہ تعالٰی پوری طرح خبردار ہے۔
١٢٨۔١ خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا اور اعراض کرنا معمول بنا لے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کو کم ترخوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان و نفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کر لے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنیں سودۃ رضی اللہ عنہ نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے ہبہ کر دی تھی جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ (صحیح بخاری) ١٢٨۔٢شُحّ بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بےرغبتی کا اندیشہ ہو تم میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کرلیں۔ اور صلح خوب (چیز) ہے اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بد دماغی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں جو صلح کر لیں اس میں کسی پر کوئی گناه نہیں۔ صلح بہت بہتر چیز ہے، طمع ہر ہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے۔ اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیزگاری کرو تو تم جو کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ پوری طرح خبردار ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے حق تلفی یا بے توجہی محسوس کرے تو ان دونوں کے لیے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ (کچھ لو کچھ دو کی بنا پر) آپس میں صلح کر لیں اور صلح بہرحال بہتر ہے اور نفوس میں بخل موجود رہتا ہے (تنگ دلی پر آمادہ رہتے ہیں) اور اگر تم بھلائی کرو۔ اور پرہیزگاری اختیار کرو۔ تو بے شک اللہ تمہارے اس طرزِ عمل سے باخبر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر کوئی عورت شوہر سے حقوق ادا نہ کرنے یا اس کی کنارہ کشی سے طلاق کا خطرہ محسوس کرے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی طرح آپس میں صلح کرلیں کہ صلح میں بہتری ہے اور بخل تو ہر نفس کے ساتھ حاضر رہتا ہے اور اگر تم اچھا برتاؤ کرو گے اور زیادتی سے بچو گے تو خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بےرغبتی کا اندیشہ وہ تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کرلیں اور صلح خوب (چیز) ہے اور طبعیتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہے اور اگر تم نیکو کاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
وَاِنْ اِمْراً ة خافت الخ اس آیت میں ان غیر اختیاری حالات کا حل پیش کیا گیا ہے جو ایسی رنجش کا سبب بن جاتے ہیں، اور ہر فریق خود کو معذور سمجھتا ہے جس کی وجہ سے حقوق واجبہ میں کوتاہی کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے مثلاً ایک شوہر کا اپنی بیوی سے بدصورتی کے دل نہیں ملتا یا بیوی کا شوہر کی بد صورتی کی وجہ سے دل نہیں ملتا اور ان اسباب کو رفع کرنا نہ بیوی کے ساتھ میں ہے اور نہ شوہر کے۔
چناچہ اس صورت حال میں مرد کء لئے تو قرآن کریم نے ایک عام قانون یہ بتلایا ہے کہ \&\& فاِساک بمعروف او تسریح با حسان \&\& یعنی اگر عورت کو عقد نکاح میں رکھنا ہے تو اس سے پورے حقوق کی رعایت کے ساتھ رکھے، اور اگر اس پر قدرت نہیں تو اس کو خوش اسلوبی سے چھوڑ دے، اگر عورت بھی جدائی پر راضی ہے تو مسئلہ آسان ہے اور اگر عورت کسی وجہ سے جدائی پر آمادہ نہیں تو کوشش کی جائے کہ شوہر کسی نہ کسی طرح بیوی کو رکھنے پر راضی ہوجائے مثلاً یہ کہ عورت اپنے تمام یا بعض حقوق کا مطالبہ ترک کردے۔
قولہ : شُحَّ ، بخل، طمع کو کہتے ہیں، یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جا ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ طرفین کے اپنے بعض حقوق سے سبکدوش ہونے کی رعایت ملتی نظر آئے تو ممکن ہے کہ فرقین ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجائیں، مثلاً حضرت سودہ (رض) نے بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کے لئے ہبہ کردی تھی جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول فرمالیا۔ (صحیح بخاری و مسلم)
بینھُمَا، کے لفظ سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ میاں بیوی کے معاملات میں بہتر تو یہ ہے کہ تیسرا دخل نہ دے دونوں ہی آپس میں طے کرلیں، اسلئے کہ تیسرے شخص کے دخیل بننے سے بعض اوقات بات اور بگڑ جاتی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی جب عورت اپنے شوہر کے سخت رویے اور ظلم سے ڈرے یعنی خاوند اپنے آپ کو اس سے برتر سمجھے اور اس میں عدم رغبت کی وجہ سے اعراض کرے تو اس حالت میں بہتر صورت یہ ہے کہ وہ دونوں آپس میں مصالحت کرلیں اور وہ اس طرح کہ بیوی اپنے بعض ان حقوق کو، جو شوہر پر لازم ہیں اس طرح نظر انداز کر دے کہ وہ شوہر کے ساتھ رہ سکے، یا تو وہ نان و نفقہ لباس، مکان وغیرہ میں سے قلیل ترین واجب پر راضی ہوجائے۔ یا اپنی باری میں سے اپنا حق ساقط کر دے، یا اپنی باری کے شب و روز اپنی سوکن کو ہبہ کر دے اگر میاں بیوی اس صورتحال پر راضی ہوجائیں تو اس میں دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں، اس میں میاں بیوی دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ تب اس صورت حال میں اپنی بیوی کے ساتھ باقی رہنا جائز ہے اور یہ علیحدگی سے بہتر ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَالصُّلْحُ خَيْرٌ﴾” اور صلح بہتر ہے۔“ اس لفظ اور معنی کے عموم سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ فریقین کے درمیان کسی حق یا تمام اشیاء میں نزاع ہو تو صلح اس سے بہتر ہے کہ وہ تمام اشیاء میں پورا پورا حق وصول کرنے کا مطالبہ کریں۔ کیونکہ اس صلح میں اصلاح، دونوں کے مابین الفت کی بقا اور سماحت (در گزر کرنے) کی صفت سے متصف ہونا ہے۔ یہ صلح تمام اشیاء میں جائز ہے سوائے اس صورت کے جس میں کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام ٹھہرایا گیا ہو۔ تب یہ صلح نہیں بلکہ ظلم و جور ہے۔
معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی حکم اس کے مقتضی کے وجود اور موانع کی نفی کے بغیر مکمل اور پورا نہیں ہوتا اس کی مثال یہی بڑا حکم ہے یعنی فریقین کے درمیان صلح، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا تقاضا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھلائی ہے اور عمل کرنے والا ہر شخص بھلائی کا طالب اور بھلائی میں رغبت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالیٰ نے اس بھلائی کا حکم دیا ہو اور اس کی طرف رغبت دلائی ہو تو اس میں مومن کی طلب اور رغبت اور بڑھ جاتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ﴾ ” طمع ہر نفس میں شامل کردی گئی ہے“ یعنی بخل انسان کی جبلت ہے یہاں (الشح) ” بخل“ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ انسان پر خرچ کرنا واجب ہے اسے خرچ کرنے میں راغب نہ ہو اور اپنا حق حاصل کرنے کا بڑا حریص ہو۔ تمام نفوس طبعی طور پر اسی جبلت پر پیارا کیے گئے ہیں۔ یعنی تمہارے لئے مناسب یہ ہے کہ تم اپنے نفس سے اس گھٹیا خلق کا قلع قمع کرنے اور اس کی جگہ اس کی ضد یعنی سماحت کو اختیار کرنے کی کوشش کرو۔ سماحت سے مراد یہ ہے کہ تم اس حق کو ادا کرو اور اس کی جگہ اس کی ضد یعنی سماحت کو اختیار کرنے کی کوشش کرو۔ سماحت سے مراد یہ ہے کہ تم اس حق کو ادا کرو جو تمہارے ذمہ ہے اور اپنے حق کے بارے میں اس کے کچھ حصے پر قناعت کرو۔ جب کبھی انسان کو اس خلق حسن کو اپنانے کی توفیق مل جاتی ہے تو اس کے لئے اپنے اور اپنے مخالف کے درمیان صلح آسان ہوجاتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے کا راستہ سہل ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنی طبیعت سے بخل کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کے لئے صلح اور موافقت بہت مشکل کام ہے کیونکہ وہ اپنا پورا حق لئے بغیر راضی نہیں ہوتا اور اس پر جو حق واجب ہے اسے ادا کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ اگر دوسرے فریق کا رویہ بھی ایسا ہی ہو تو معاملہ اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔
پھر فرمایا : ﴿وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا ﴾” اور اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیز گاری اختیار کرو“ یعنی اگر تم خالق کی عبادت میں احسان سے کام لو یعنی بندہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے آ کر ایسی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تو یہ تصور پیدا کرے کہ وہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور تم احسان کے تمام طریقوں سے یعنی مال اور جاہ وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں سے بھلائی کرو ﴿ وَتَتَّقُوا ﴾” اور پرہیز گاری اختیار کرو۔“ یعنی تمام مامورات پر عمل کرتے ہوئے اور تمام محظورات سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو، یا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم مامورات پر عمل کرنے میں احسان سے کام لو اور محظورات کو ترک کر کے اللہ سے ڈرو۔ ﴿ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴾ ” اللہ تمہارے سب کاموں سے باخبر ہے۔“ اللہ تعالیٰ بندے کے ظاہر و باطن کا اپنے علم و خبر کے ذریعے سے احاطہ کئے ہوئے ہے پس وہ تمہارے اعمال کو محفوظ کر رہا ہے وہ تمہیں ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar kissi aurat ko apney shohar ki taraf say ziyadti ya beyzari ka andesha ho to unn miyan biwi kay liye iss mein koi muzaeeqa nahi hai kay woh aapas kay ittifaq say kissi qisam ki sulah kerlen . aur sulah kerlna behtar hai aur insanon kay dil mein ( kuch naa kuch ) lalach ka mada to rakh hi diya gaya hai . aur agar ehsan aur taqwa say kaam lo to jo kuch tum kero gay Allah uss say poori tarah ba-khabar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
میاں بیوی میں صلح وخیر کا اصول
اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے حالات اور ان کے احکام بیان فرما رہا ہے کبھی مرد اس سے ناخوش ہوجاتا ہے کبھی چاہنے لگتا ہے اور کبھی الگ کردیتا ہے۔ پس پہلی حالت میں جبکہ عورت کو اپنے شوہر کی ناراضگی کا خیال ہے اور اسے خوش کرنے کے لئے اپنے تمام حقوق سے یا کسی خاص حق سے وہ دست برداری کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔ مثلاً اپنا کھانا کپڑا چھوڑ دے یا شب باشی کا حق معاف کر دے تو دونوں کے لئے جائز ہے۔ پھر اسی کی رغبت دلاتا ہے کہ صلح ہی بہتر ہے۔ حضرت سودہ بنت زمعہ جب بہت بڑی عمر کی ہوجاتی ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قبول فرما لیا۔ ابو داؤد میں ہے کہ اسی پر یہ آیت اتری۔ ابن عباس فرماتے ہیں میاں بیوی جس بات پر رضامند ہوجائیں وہ جائز ہے۔ آپ فرماتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے وقت آپ کی نوبیویاں تھیں جن میں سے آپ نے آٹھ کو باریاں تقسیم کر رکھی تھیں۔ بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت سودہ کا دن بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ کو دیتے تھے۔ حضرت عروہ کا قول ہے کہ حضرت سودہ کو بڑی عمر میں جب یہ معلوم ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں چھوڑ دینا چاہتے ہیں تو خیال کیا کہ آپ کو صدیقہ سے پوری محبت ہے اگر میں اپنی باری انہیں دیدوں تو کیا عجب کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہوجائیں اور میں آپ کی بیویوں میں ہی آخر دم تک رہ جاؤں۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ حضور رات گزارنے میں اپنی تمام بیویوں کو برابر کے درجے پر رکھا کرتے تھے عموماً ہر روز سب بیویوں کے ہاں آتے بیٹھتے بولتے چالتے مگر ہاتھ نہ بڑھاتے پھر آخر میں جن بیوی صاحبہ کی باری ہوتی ان کے ہاں جاتے اور رات وہیں گزارتے۔ پھر حضرت سودہ کا واقعہ بیان فرماتے جو اوپر گذار (ابوداؤد) معجم ابو العباس کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور نے حضرت سودہ کو طلاق کی خبر بجھوائی یہ حضرت عائشہ کے ہاں جابیٹھیں جب آپ تشریف لائے تو کہنے لگیں آپ کو اس اللہ تعالیٰ کی قسم ہے جس نے آپ پر اپنا کلام نازل فرمایا اور اپنی مخلوق میں سے آپ کو برگزیدہ اور اپنا پسندیدہ بنایا آپ مجھ سے رجوع کرلیجئے میری عمر بڑی ہوگئی ہے مجھے مرد کی خاص خواہش نہیں رہی لیکن یہ چاہت ہے کہ قیامت کے دن آپ کی بیویوں میں اٹھائی جاؤں چناچہ آپ نے یہ منظور فرمالیا اور رجوع کرلیا پھر یہ کہنے لگیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنی باری کا دن اور رات آپ کی محبوب حضرت عائشہ کو ہبہ کرتی ہوں۔ بخاری شریف میں آتا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ ایک بڑھیا عورت جو اپنے خاوند کو دیکھتی ہے کہ وہ اس سے محبت نہیں کرسکتا بلکہ اسے الگ کرنا چاہتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ میں اپنے حق چھوڑتی ہوں تو مجھے جدانہ کر تو آیت دونوں کی رخصت دیتی ہے یہی صورت اس وقت بھی ہے کہ جب کسی کو دو بیویاں ہوں اور ایک سے اس کی بوجہ اس کے بڑھاپے یا بدصورتی کے محبت نہ ہو اور وہ اسے جدا کرنا چاہتا اور یہ بوجہ اپنے لگاؤ یا بعض اور مصالح کے الگ ہونا پسند نہ کرتی تو اسے حق ہے کہ اپنے بعض یا سب حقوق سے الگ ہوجائے اور خاوند اس کی بات کو منظور کر کے اسے جدا نہ کرے۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر سے ایک سوال (جسے اس کی بیہودگی کی وجہ سے) آپ نے ناپسند فرمایا اور اسے کوڑا ماردیا پھر ایک اور نے اسی آیت کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ باتیں پوچھنے کی ہیں اس سے ایسی صورت مراد ہے کہ مثلاً ایک شخص کی بیوی ہے لیکن وہ بڑھیا ہوگئی ہے اولاد نہیں ہوتی اس نے اولاد کی خاطر کسی جوان عورت سے اور نکاح کیا پھر یہ دونوں جس چیز پر آپس میں اتفاق کرلیں جائز ہے۔ حضرت علی سے جب اس آیت کی نسبت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جو بوجہ اپنے بڑھاپے کے یا بدصورتی کے یا بدخلقی کے یا گندگی کے اپنے خاوند کی نظروں میں گرجائے اور اس کی چاہت یہ ہو کہ خاوند مجھے نہ چھوڑے تو یہ اپنا پورا یا ادھورا مہر معاف کر دے یا اپنی باری معاف کر دے وغیرہ تو اس طرح صلح کرسکتے ہیں سلف اور ائمہ سے برابری اس کی یہی تفسیر مروی ہے بلکہ تقریباً اس پر اتفاق ہے میرے خیال سے تو اس کا کوئی مخالف نہیں واللہ اعلم۔ محمد بن مسلم کی صاحبزادی حضرت رافع بن خدیج کے گھر میں تھیں بوجہ بڑھاپے کے یا کسی اور امر کے یہ انہیں چاہتے نہ تھے یہاں تک کہ طلاق دینے کا ارادہ کرلیا اس پر انہوں نے کہا آپ مجھے طلاق تو نہ دیجئے اور جو آپ چاہیں فیصلہ کریں مجھے منظور ہے۔ اس پر یہ آیت اتری۔ ان دونوں آیتوں میں ذکر ہے اس عورت کا جس سے اس کا خاوند بگڑا ہوا ہو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ اگر وہ چاہے تو اسے طلاق دے دے اور اگر وہ چاہے تو اس بات کو پسند کر کے اس کے گھر میں رہے کہ وہ مال کی تقسیم میں اور باری کی تقسیم میں اس پر دوسری بیوی کو ترجیح دے گا اب اسے اختیار ہے اگر یہ دوسری شق کو منظور کرلے تو شرعاً خاوند کو جائز ہے کہ اسے باری نہ دے اور جو مہر وغیرہ اس نے چھوڑا ہے اسے اپنی ملکیت سمجھے۔ حضرت رافع بن خدیج انصاری (رض) کی بیوی صاحبہ جب سن رسید ہوگئیں تو انہوں نے ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کیا اور پھر اسے زیادہ چاہنے لگے اور اسے پہلی بیوی پر مقدم رکھنے لگے آخر اس سے تنگ آ کر طلاق طلب کی آپ نے دے دی پھر عدت ختم ہونے کے قریب لوٹالی، لیکن پھر وہی حال ہوا کہ جوان بیوی کو زیادہ چاہنے لگے اور اس کی طرف جھک گئے اس نے پھر طلاق مانگی آپ نے دوبارہ طلاق دے دی پھر لوٹالیا لیکن پھر وہی نقشہ پیش آیا پھر اس نے قسم دی کہ مجھے طلاق دے دو تو آپ نے فرمایا دیکھو اب یہ تیسری آخری طلاق ہے اگر تم چاہو تو میں دے دوں اور اگر چاہو تو اسی طرح رہنا منظور کرو اس نے سوچ کر جواب دیا کہ اچھا مجھے اسے طرح منظور ہے چناچہ وہ اپنے حقوق سے دست بردار ہوگئیں اور اسی طرح رہنے سہنے لگیں۔ اس جملے کا کہ صلح خیر ہے ایک معنی تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی کو یہ اختیار دینا کہ اگر تو چاہے تو اسی طرح رہ کر دوسری بیوی کے برابر تیرے حقوق نہ ہوں اور اگر تو چاہے تو طلاق لے لے، یہ بہتر ہے اس سے کہ یونہی دوسری کو اس پر ترجیح دئے ہوئے رہے۔ لیکن اس سے اچھا مطلب یہ ہے کہ بیوی اپنا کچھ چھوڑے دے اور خاوند اسے طلاق نہ دے اور آپس میں مل کر رہیں یہ طلاق دینے اور لینے سے بہتر ہے، جیسے کہ خود نبی اللہ علیہ صلوات اللہ نے حضرت سودہ بنت زمعہ (رض) کو اپنی زوجیت میں رکھا اور انہوں نے اپنا دن حضرت عائشہ (رض) کو ہبہ کردیا۔ آپ کے اس فعل میں بھی آپ کی امت کے لئے بہترین نمونہ ہے کہ ناموافقت کی صورت میں بھی طلاق کی نوبت نہ آئے۔ چونکہ اللہ اعلیٰ و اکبر کے نزدیک صلح افتراق سے بہتر ہے اس لئے یہاں فرما دیا کہ صلح خیر ہے۔ بلکہ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ہے تمام حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسند چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔ پھر فرمایا تمہارا احسان اور تقویٰ کرنا یعنی عورت کی طرف کی ناراضگی سے درگذر کرنا اور اسے باوجود ناپسندیدگی کے اس کا پورا حق دینا باری میں لین دین میں برابری کرنا یہ بہترین فعل ہے جسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور جس پر وہ بہت اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ گو تم چاہو کہ اپنی کئی ایک بیویوں کے درمیان ہر طرح بالکل پورا عدل و انصاف اور برابری کرو تو بھی تم کر نہیں سکتے۔ اس لئے کہ گو ایک ایک رات کی باری باندھ لو لیکن محبت چاہت شہوت جماع وغیرہ میں برابری کیسے کرسکتے ہو ؟ ابن ملکیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں بہت چاہتے تھے، اسی لئے ایک حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کے درمیان صحیح طور پر مساوات رکھتے تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فرماتے تھے الٰہی یہ وہ تقسیم ہے جو میرے بس میں تھی اب جو چیز میرے قبضہ سے باہر ہے یعنی دلی تعلق اس میں تو مجھے ملامت نہ کرنا (ابو داؤد) اس کی اسناد صحیح ہے لیکن امام ترمذی فرماتے ہیں دوسری سند سے یہ مرسلاً مروی ہے اور وہ زیادہ صحیح ہے۔ پھر فرمایا بالکل ہی ایک جانب جھک نہ جاؤ کہ دوسری کو لٹکا دو وہ نہ بےخاوند کی رہے نہ خاوند والی وہ تمہاری زوجیت میں ہو اور تم اس سے بےرخی برتو نہ تو اسے طلاق ہی دو کہ اپنا دوسرا نکاح کرلے نہ اس کے وہ حقوق ادا کرو جو ہر بیوی کے لئے اس کے میاں پر ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جس کی دو بیویاں ہوں پھر وہ بالکل ہی ایک کی طرف جھک جائے تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا جسم ساقط ہوگا (احمد وغیرہ) امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث مرفوع طریق سے سوائے ہمام کی حدیث کے پہچانی نہیں جاتی۔ پھر فرماتا ہے اگر تم اپنے کاموں کی اصلاح کرلو اور جہاں تک تمہارے اختیار میں ہو عورتوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات برتو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو، اس کے باوجود اگر تم کسی وقت کسی ایک کی طرف کچھ مائل ہوگئے ہو اسے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ پھر تیسری حالت بیان فرماتا ہے کہ اگر کوئی صورت بھی نباہ کی نہ و اور دونوں الگ ہوجائیں تو اللہ ایک کو دوسرے سے بےنیاز کر دے گا، اسے اس سے اچھا شوہر اور اسے اس سے اچھی بیوی دے دے گا۔ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے وہ بڑے احسانوں والا ہے اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے تمام افعال ساری تقدیریں اور پوری شریعت حکمت سے سراسر بھرپور ہے۔