النساء آية ۱۳۵
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۤءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ۗ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَاۗ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَاِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے،
English Sahih:
O you who have believed, be persistently standing firm in justice, witnesses for Allah, even if it be against yourselves or parents and relatives. Whether one is rich or poor, Allah is more worthy of both. So follow not [personal] inclination, lest you not be just. And if you distort [your testimony] or refuse [to give it], then indeed Allah is ever, of what you do, Aware.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ اللہ کے لئے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑو اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو الله کی طرف گواہی دو اگرچہ اپنی جانوں پر ہو یا اپنے ماں باپ اور رشہ داروں پر اگر کوئی مالدار ہے یا فقیر ہے تو الله ان کا تم سے زیادہ خیر خوا ہ ہے سو تم انصاف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو اور اگر تم کج بیانی کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بلاشبہ الله تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے (١) وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے (٢) اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا (٣) اور اگر تم نے کج بیانی کی یا پہلو تہی کی (٤) تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالٰی اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
١٣٥۔١ اس میں اللہ تعالٰی اہل ایمان کو عدل و انصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہا ہے چاہے اس کی وجہ سے انہیں یا ان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔ اس لئے کہ حق سب پر حاکم ہے اور سب پر مقدم ہے۔
١٣٥۔٢ یعنی کسی مالدار کی وجہ سے رعایت نہ کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمہیں سچی بات کہنے سے روکے بلکہ اللہ ان دونوں سے تمہارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔
١٣٥۔٣ یعنی خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں انصاف کرنے سے نہ روک دے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا) 5۔ المائدہ;8) ' تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔
١٣٥۔٤تلووا، لیی سے ماخوذ ہے جو تحریف اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو کہا جاتا ہے۔ مطلب شہادت میں تحریف و تغیر ہے اور اعراض سے مراد شہادت کا چھپانا اور اس کا ترک کرنا ہے۔ ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ اس آیت میں عدل و انصاف کی تاکید اور اس کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے۔ ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً ; ہرحال میں عدل کرو اس سے انحراف نہ کرو، کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی اور محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست بازو بنو۔ صرف اللہ کی رضا تمہارے پیش نظر ہو، کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمہارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔ عدل و انصاف کی زد اگر تم پر یا تمہارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے، تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو۔ کسی مال دار کو اس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اور کسی تنگ دست کے فقر سے خوف مت کھاؤ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ ان دونوں کی بہتری کس میں ہے؟ فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہئے۔ بلکہ ان کو نظر انداز کر کے بےلاگ عدل کرو۔ عدل کا یہ اہتمام جس معاشرے میں ہوگا، وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا"اللہ کی قسم میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔ لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔"یہ سن کر انہوں نے کہا"اسی عدل کیوجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے"(تفسیر ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی موﻻ کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! مضبوطی کے ساتھ انصاف کے علمبردار ہو جاؤ۔ اور محض اللہ کے لئے گواہی دینے والے بنو۔ خواہ تمہیں اپنے یا والدین کے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی گواہی دینا پڑے۔ وہ (جس کے خلاف گواہی دی جا رہی ہے) چاہے امیر ہو چاہے فقیر ہو بہرحال اللہ ان دونوں کا تم سے زیادہ خیرخواہ ہے پس اس طرح خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ۔ اور اگر تم نے ہیرپھیر کیا یا (حق سے) منہ موڑا تو بے شک جو کہ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہو- جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولیٰ ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تاکہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے ایمان والو ! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اسمیں) تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا اگر تم پیچ دار شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
آیت نمبر ١٣٥ تا ١٤١
ترجمہ : اے ایمان والو ! انصاف پر خوب قائم رہنے والے اور اللہ کے لئے حق کی گواہی دینے والے رہو چاہے وہ شہادت خود تمہارے خلاف ہی ہو تو اپنے خلاف گواہی دو بایں طور کہ حق کا اقرار کرو اور اس کو چھپاؤ نہیں یا تمہارے والدین کے اور عزیزوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، مشہور علیہ مالدار ہو یا مفلس اللہ ان دونوں سے تمہاری بہ نسبت قریب ہے اور ان دونوں کی مصلحتوں سے واقف ہے، اپنی شہادت نفس کی پیروی نہ کرو بایں طور کہ مالدار کی اس کی رضا جوئی کے لئے رعایت کرو یا فقیر پر رحم کے طور پر اس کی رعایت کرو بایں طور کہ حق سے ہٹ جاؤ، اور یہ کہ شہادت میں تحریف کرو، اور ایک قراءت میں تخفیفاً اول کے حذف کے ساتھ ہے، یا یہ کہ اداء شہادت سے اعراض کرو جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے تو تم کو اس کی جزاء دے گا، اے ایمان والو ! اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کی کتاب پر جو اس نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی ہے اور وہ قرآن ہے اور ان کتابوں پر جو سابق میں رسولوں پر نازل کی ہیں ایمان پر قائم رہو اور کتاب بمعنی کتب ہے اور ایک قراءت میں دونوں فعل معروف کے صیغے کے ساتھ ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کے دن سے کفر کرتا ہے وہ گمراہی میں حق سے بہت دور جاپڑا بیشک جو لوگ موسیٰ پر ایمان لائے اور وہ یہود ہیں، پھر بچھڑے کی پوجا کرکے کافر ہوگئے پھر اس کے بعد ایمان لائے پھر عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے منکر ہوئے پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرکے کفر میں ترقی کرتے گئے اللہ ہرگز ان کی مغفرت نہ کرے گا جب تک وہ کفر پر قائم رہیں گے اور نہ ان کو حق کی طرف سیدھا راستہ دکھائیگا، اے محمد منافقوں کو بتادو کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے اور وہ آگ کا عذاب ہے وہ لوگ جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنائے ہوئے ہیں، اسلئے کہ ان میں قوت خیال کرتے ہیں، (الذین) منا یقین سے بدل یا صفت واقع ہے کیا ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں ؟ استفہام انکاری ہے، یعنی ان عزت نہ پائیں گے، اس لئے کہ دنیا اور آخرت میں تمام تر عزت اللہ کے پاس ہے اس کو خدا کے دوست ہی حاصل کرسکتے ہیں اور اللہ تمہارے پاس اپنی کتاب قرآن میں (نَزّل) معروف اور مجہول دونوں ہے سورة انعام میں یہ حکم نازل کرچکا ہے (اَنْ ) مخففہ ہے اس کا اسم محذوف ہے، ای اَنَّہ \&، کہ جب تم (کسی مجلس میں) لوگوں کو اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے سنو تو تم ان کے پاس نہ بیٹھو، یعنی استہزاء کرنے والے کافروں کے پاس، تاکہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں، ورنہ تو یعنی اگر ان کے پاس بیٹھے تو تم بھی گناہ میں ان کے مثل ہوجاؤ گے اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں جمع کرے گا جیسا کہ وہ دنیا میں کفر و استہزاء پر جمع ہوئے تھے (یہ) وہ (لوگ) ہیں کہ جو تمہارے لئے مصیبتوں کے منتظر ہیں تو اگر تمہیں اللہ کی جانب سے فتح اور (مال) غنیمت حاصل ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ دین اور جہاد میں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ لہذا ہم کو بھی مال غنیمت سے حصہ دو اور اگر کافروں کو تمہارے اوپر فتح نصیب ہوتی ہے تو ان سے کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں آنے لگے تھے ؟ اور کیا ہم تمہاری گرفت اور قتل پر قادر نہیں ہوچکے تھے، مگر ہم نے تم پر رحم کیا، اور کیا یہ بات نہیں کہ ہم مسلمانوں کو پست ہمت کرکے اور ان کی خبریں تم کو پہنچا کر تمہارے اوپر مسلمانوں کو غالب آنے سے بچایا لہٰذا ہمارا تم پر احسان ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ ہی تمہارے اور ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کردے گا اس طریقہ پر کہ تم کو جنت میں اور ان کو دوزخ میں داخل کرے گا، اور اللہ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہ دے گا، یعنی ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر غلبہ نہ دے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فَاشْھَدُوْا عَلَیْھَا، یہ لَوْ کا جواب ہے، دلالتِ ماقبل کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔
قولہ : باِنْ تُقِرّوا، اس میں اشارہ ہے کہ اپنے نفس کے خلاف گواہی دینے کا مطلب ہے اقرار کرنا۔
قولہ : المَشْھُوْدُ عَلَیْہ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ یکن کے اندر جو ضمیر ہے وہ والدین اور اقربین کی طرف راجع ہے جو کہ جمع ہے اور یکن کے اندر ضمیر واحد ہے لہٰذا ضمیر اور مرجع میں اتحاد نہیں ہے جو کہ ضروری ہے۔
جواب : یہ ہے کہ یکن کی ضمیر کا مرجع مشھود علیہ ہے جو کہ جنس ہونے کی وجہ سے معنی میں جمع کے ہے۔
قولہ : منکم، اس میں اشارہ ہے کہ مفضل علیہ محذوف ہے۔
قولہ : لاَنْ تَعْدِلُوْا، تتبعُوا الھدیٰ . تَتَّبِعُوْا متعدی بیک مفعول ہے اور وہ ھویٰ ہے اب یہ دوسرے مفعول کی طرف بغیر حرف کے متعدی نہیں ہوسکتا، اسی لئے لام مقدر مانا ہے تاکہ دوسرے مفعول کی طرف متعدی ہوجائے۔
قولہ : بعدہ، ای بعد عودموسیٰ ،
قولہ : اَلذَّیْنَ ، عَنیٰ محذوف کی وجہ سے منصوب بھی ہوسکتا ہے۔
تفسیر وتشریح
یٰا یُّھَا الَّذین آمنوا کونواقوّامینَ بالقسطِ شُھَدَاء لِلّٰہ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل و انصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہے ہیں نہ صرف یہ کہ حق و انصاف کی روش پر چلنے کے لئے کہا جا رہا ہے بلکہ فرمایا جارہا ہے کہ حق و انصاف کے علمبردار بنو تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں بلکہ حق و انصاف کا جھنڈا لیکر اٹھانا ہے تمہیں اس بات ہر کمر بستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل وراستی قائم ہو حق و انصاف کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف و شہادت کی زد خود تمہاری ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑے۔
یعنی تمہاری گواہی محض خدا کے لئے ہونی چاہیے نہ اس میں کسی کی روعایت ہو نہ کوئی ذاتی مفاد یا خدا کے سوا کسی کی خوشنودی تمہارے مد نظر نہ ہو، یعنی نہ مالدار کی مالداری کی وجہ سے رعایت کی جائے اور نہ کسی فقیر کے فقر کی وجہ سے سچی بات کہنے سے تم کو باز رہنا چایئے اسلئے کہ اللہ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے لہٰذا تمہاری خیر خواہی کی ضرورت نہیں ہے لہذا خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو، جس معاشرہ میں عدل کا اہتمام ہوگا وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا صحابہ کرام (رض) نے اس نکتہ کو خوب سمجھ لیا تھا، چناچہ عبداللہ ابن رواحہ (رض) کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیش کش کی تاکہ کچھ رعایت و نرمی سے کام لیں تو آپ نے فرمایا \&\& میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو، لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے معاملہ میں انصاف نہ کروں \&\& یہ سنکر یہود نے کہا اسی عدل کی وجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے۔ (ابن کثیر)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے گواہی دینے والے بن جائیں۔ (اَلْقَوَّام) مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی اپنے تمام احوال میں عدل پر قائم رہو (قِسْطٌ) سے مراد حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں عدل و انصاف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے حقوق میں انصاف یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں استعمال نہ کیا جائے، بلکہ ان کو اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کیا جائے اور حقوق العباد میں عدل و انصاف یہ ہے کہ بندوں کے وہ تمام حقوق ادا کئے جائیں جو تجھ پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح تیرے حقوق ان پر واجب ہیں اور تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے پس تو نفقات واجبہ اور قرض وغیرہ ادا کر اور تو لوگوں سے اسی اخلاق و حسن صلہ کے ساتھ معاملہ کر، جو تو اپنے بارے میں ان سے چاہتا ہے۔
سب سے بڑا انصاف، باتوں اور بات کہنے والوں کے بارے میں ہے۔ دو باتوں میں سے کسی ایک بات کے حق میں یا کسی تنازع کے فریقین میں کسی فریق کے حق میں محض اس وجہ سے فیصلہ نہ کرے کہ اسے اس بات سے یافریق سے کوئی نسبت ہے یا اس کی طرف میلان ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان عدم کو مقدم رکھے۔
عدل و انصاف کی ایک قسم یہ ہے کہ تو اس شہادت کو ادا کر جو تیرے ذمہ عائد ہے خواہ وہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو خواہ یہ شہادت تیرے محبوب لوگوں کے خلاف، بلکہ خود تیری اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللّٰهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا﴾ ” اللہ کے لئے سچی گواہی دینے والے اگرچہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین کے یا رشتہ داروں کے وہ شخص اگر امیر ہو یا فقیر، پس اللہ زیادہ حق دار ہے بہ نسبت ان دونوں کے۔“ یعنی کسی دولت مند کی اس کی دولت کی وجہ سے رعایت کرو نہ کسی محتاج پر بزعم خویش ترس کھاتے ہوئے اس کی رعایت کرو، بلکہ صحیح صحیح شہادت دو، خواہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔
عدل و انصاف قائم کرنا عظیم ترین امور میں شمار ہوتا ہے، نیز یہ چیز عدل قائم کرنے والے کے دین، ورع اور اسلام میں اس کے مقام پر دلالت کرتی ہے۔ پس یہ بات متعین ہے کہ جو کوئی اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اور وہ اس کی نجات چاہتا ہے، تو وہ عدل کا پورا پورا اہتمام کرے، اس کو مدنظر رکھے اور اپنے ارادے کا مرکز بنائے رکھے اور نفس سے ہر اس داعیے کو دور کر دے جو عدل کے ارادے سے مانع اور اس پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہو اور انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا﴾ ” تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔“ یعنی تم حق کی مخالفت میں اپنے نفس کی اتباع نہ کرو۔ اگر تم نے اپنے نفس کی پیروی کی تو راہ صواب سے ہٹ جاؤ گے اور تم عدل و انصاف کی توفیق سے محروم ہوجاؤ گے، کیونکہ خواہش نفس یا تو انسان کی بصیرت کو اندھا کردیتی ہے اور اسے حق باطل اور باطل حق دکھائی دیتا ہے۔ یا وہ حق کو پہچان لیتا ہے مگر اپنی خواہش نفس کی خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص خواہش نفس سے محفوظ رہا اسے حق کی توفیق عطا ہوئی ہے اور وہ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی سے نوازا جاتا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح کردیا کہ عدل و انصاف کو قائم کرنا واجب ہے، تو اس نے ہر اس چیز سے بھی روک دیا جو عدل کی ضد ہے۔ یعنی شہادت وغیرہ میں زبان کو حق سے ہٹا دینا اور ہر لحاظ سے یا کسی ایک پہلو سے نطق زبان کو صواب مقصود سے پھیر دینا اور اسی میں، شہادت میں تحریف کرنا، اس کی عدم تکمیل اور شاہد کا شہادت کی تاویل کرتے ہوئے اس کا رخ کسی اور طرف پھیر دینا، بھی شامل ہے۔ اس لئے کہ یہ بھی (لَيُّ) زبان کی کجی میں سے ہے، کیونکہ یہ حق سے انحراف ہے۔
﴿أَوْ تُعْرِضُوا﴾” یا تم اعراض کرو۔“ یعنی اگر تم اس عدل و انصاف کو ترک کر دو جس کا دار و مدار تم پر ہے جیسے شاہد کا شہادت کو ترک کردینا یا حاکم کا اپنے فیصلے کو ترک کردینا جو کہ اس پر واجب تھا۔ ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا﴾” تو (جان رکھو) اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔“ یعنی وہ تمہارے افعال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور تمہارے ظاہر و باطن تمام اعمال کا علم رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت تہدید ہے جو زبان سے کجی اختیار کرتا یا حق سے اعراض کرتا ہے اور وہ شخص اس تہدید کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہے جو باطل فیصلہ کرتا یا جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا جرم سب سے بڑا ہے، کیونکہ پہلے دو اشخاص نے حق کو ترک کیا اور اس نے باطل کو قائم کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! insaf qaeem kernay walay bano , Allah ki khatir gawahi denay walay , chahye woh gawahi tumharay apney khilaf parrti ho , ya walaiden aur qareebi rishta daaron kay khilaf . woh shaks ( jiss kay khilaf gawahi denay ka hukum diya jaa raha hai ) chahye ameer ho ya gharib , Allah dono qisam kay logon ka ( tum say ) ziyada khair khuwa hai , lehaza aesi nafsani khuwaish kay peechay naa chalna jo tumhen insaf kernay say rokti ho . aur agar tum torr maror kero gay ( yani ghalat gawahi do gay ) ya ( sachi gawahi denay say ) pehlo bachao gay to ( yaad rakhna kay ) Allah tumharay tamaam kamon say poori tarah ba-khabar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
انصاف اور سچی گواہی تقوے کی روح ہے
اللہ تعالیٰ ایمانداری کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدل و انصاف پر مضبوطی سے جمے رہیں اس سے ایک انچ ادھر ادھر نہ سرکیں، ایسا نہ ہو کہ ڈر کی وجہ سے یا کسی لالچ کی بنا پر یا کسی خوشامد میں یا کسی پر رحم کھا کر یا کسی سفارش سے عدل و انصاف چھوڑ بیٹھیں۔ سب مل کر عدل کو قائم و جاری کریں ایک دوسری کی اس معاملہ میں مدد کریں اور اللہ کی مخلوق میں عدالت کے سکے جما دیں۔ اللہ کے لئے گواہ بن جائیں جیسے اور جگہ ہے (وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ) 65 ۔ الطلاق :2) یعنی گواہیاں اللہ کی رضا جوئی کے لئے دو جو بالکل صحیح صاف سچی اور بےلاگ ہوں۔ انہیں بدبو نہیں، چھپاؤ نہیں، چبا کر نہ بولو صاف صاف سچی شہادت دو چاہے وہ تمہارے اپنے ہی خلاف ہو تم حق گوئی سے نہ رکو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار غلاموں کی مخلصی کی صورتیں بہت سی نکال دیتا ہے کچھ اسی پر موقوف نہیں کہ جھوٹی شہادت سے ہی اس کا چھٹکارا ہو۔ گو سچی شہادت ماں باپ کے خلاف ہوتی ہو گو اس شہادت سے رشتے داروں کا نقصان پہنچتا ہو، لیکن تم سچ ہاتھ سے نہ جانے دو گواہی سچی دو ، اس لئے کہ حق ہر ایک پر غالب ہے، گواہی کے وقت نہ تونگر کا لحاظ کرو نہ غریب پر رحم کرو، ان کی مصلحتوں کو اللہ اعلیٰ و اکبر تم سے بہت بہتر جانتا ہے، تم ہر صورت اور ہر حالت میں سچی شہادت ادا کرو، دیکھو کسی کے برے میں آ کر خود اپنا برا نہ کرلو، کسی کی دشمنی میں عصبیت اور قومیت میں فنا ہو کر عدل و انصاف ہاتھ سے نہ جانے دو بلکہ ہر حال ہر آن عدل و انصاف کا مجسمہ بنے رہو، جیسے اور جگہ فرمان باری ہے۔ (وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ هُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰى) 5 ۔ المائدہ :8) کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے عدل کرتے رہو یہی تقویٰ کی شان کے قریب تر ہے، حضرت عبداللہ بن رواحہ کو جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر والوں کی کھیتیوں اور باغوں کا اندازہ کرنے کو بھیجا تو انہوں نے آپ کو رشوت دینا چاہی کہ آپ مقدار کم بتائیں تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے تمام مخلوق سے زیادہ عزیز ہیں اور تم میرے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بدتر ہو لیکن باوجود اس کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میں آ کر یا تمہاری عداوت کو سامنے رکھ کر ناممکن ہے کہ میں انصاف سے ہٹ جاؤں اور تم میں عدل نہ کروں۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے بس اسی سے تو زمین و آسمان قائم ہے۔ یہ پوری حدیث سورة مائدہ کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے اگر تم نے شہادت میں تحریف کی یعنی بدل دی غلط گوئی سے کام لیا واقعہ کے خلاف گواہی دی دبی زبان سے پیچیدہ الفاظ کہے واقعات غلط پیش کر دئے یا کچھ چھپالیا کچھ بیان کیا تو یاد رکھو اللہ جیسے باخبر حاکم کے سامنے یہ چال چل نہیں سکتی وہاں جا کر اس کا بدلہ پاؤ گے اور سزا بھگتو گے، حضور رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے بہترین گواہ وہ ہیں جو دریافت کرنے سے پہلے ہی سچی گواہی دے دیں۔