Skip to main content

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَقَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَاۤءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۗ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًاۖ

Then because of
فَبِمَا
پس بوجہ
their breaking
نَقْضِهِم
ان کے توڑنے کے
(of) their covenant
مِّيثَٰقَهُمْ
اپنے عہد کو
and their disbelief
وَكُفْرِهِم
اور ان کے کفر کے
in (the) Signs
بِـَٔايَٰتِ
ساتھ آیات کے
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کی
and their killing
وَقَتْلِهِمُ
اور ان کے قتل کرنے کے
(of) the Prophets
ٱلْأَنۢبِيَآءَ
انبیاء کو
without
بِغَيْرِ
نا
any right
حَقٍّ
حق
and their saying
وَقَوْلِهِمْ
اور ان کے کہنے کے
"Our hearts
قُلُوبُنَا
دل ہمارے
(are) wrapped"
غُلْفٌۢۚ
غلاف میں ہیں
Nay
بَلْ
بلکہ
(has) set a seal
طَبَعَ
مہر لگا دی
Allah
ٱللَّهُ
اللہ نے
on their (hearts)
عَلَيْهَا
ان پر
for their disbelief
بِكُفْرِهِمْ
بوجہ ان کے کفر کے
so not
فَلَا
پس نہیں
they believe
يُؤْمِنُونَ
وہ ایمان لائیں گے
except
إِلَّا
مگر
a few
قَلِيلًا
تھوڑے سے۔ مگر تھوڑا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

آخر کا ر اِن کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو نا حق قتل کیا، اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں حالانکہ در حقیقت اِن کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے اِن کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں

English Sahih:

And [We cursed them] for their breaking of the covenant and their disbelief in the signs of Allah and their killing of the prophets without right and their saying, "Our hearts are wrapped" [i.e., sealed against reception]. Rather, Allah has sealed them because of their disbelief, so they believe not, except for a few.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

آخر کا ر اِن کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو نا حق قتل کیا، اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں حالانکہ در حقیقت اِن کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے اِن کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو ان کی کیسی بدعہدیوں کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور اس لئے کہ وہ آیات الٰہی کے منکر ہوئے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے اور ان کے اس کہنے پر کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے تو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے،

احمد علی Ahmed Ali

پھر ان کی عہد شکنی پر اور الله کی آیتوں سے منکر ہونے پر اور پیغمبروں کا ناحق خون کرنے پر اور اس کہنے پرکہ ہمارے دلوں پرپر دے رہے ہیں انہیں سزا ملی پردے نہیں بلکہ الله نے ان کے دلوں پر کفر کے سبب سے مہر کر دی ہے سو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

(یہ سزا تھی) یہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے (١) اور اس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ تعالٰی نے مہر لگا دی ہے۔ اس لئے یہ قدر قلیل ہی ایمان لاتے ہیں۔

۱ ۔ ۱۵۵تقدیری عبارت یوں ہوگی فبنقضھم میثاقھم لعناھم۔ یعنی ہم نے ان کے نقض میثاق، کفربآیات اللہ اور قتل انبیاء وغیرہ کی وجہ سے ان پر لعنت کی یا سزا دی۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

(لیکن انہوں نے عہد کو توڑ ڈالا) تو ان کے عہد توڑ دینے اور خدا کی آیتوں سے کفر کرنے اور انبیاء کو ناحق مار ڈالنے اور یہ کہنے کے سبب کہ ہمارے دلوں پر پردے (پڑے ہوئے) ہیں۔ (خدا نے ان کو مردود کردیا اور ان کے دلوں پر پردے نہیں ہیں) بلکہ ان کے کفر کے سبب خدا نے ان پر مہر کردی ہے تو یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

(یہ سزا تھی) بہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے، اور اس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حاﻻنکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، اس لئے یہ قدر قلیل ہی ایمان ﻻتے ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

سو (ان کو جو سزا ملی وہ) ان کے عہد شکنی کرنے، آیاتِ الٰہیہ کا انکار کرنے، نبیوں کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے (دلوں) پر مہر لگا دی ہے۔ اس لیے وہ بہت کم ایمان لائیں گے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

پس ان کے عہد کو توڑ دینے ,آیات هخدا کے انکار کرنے اور انبیائ کو ناحق قتل کر دینے اور یہ کہنے کی بنا پر کہ ہمارے دلوں پر فطرتا غلاف چڑھے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ خدا نے ان کے کفر کی بنا پر ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے اور اب چند ایک کے علاوہ کوئی ایمان نہ لائے گا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پس (انہیں جو سزائیں ملیں وہ) ان کی اپنی عہد شکنی پر اور آیاتِ الٰہی سے انکار (کے سبب) اور انبیاء کو ان کے ناحق قتل کر ڈالنے (کے باعث)، نیز ان کی اس بات (کے سبب) سے کہ ہمارے دلوں پر غلاف (چڑھے ہوئے) ہیں، (حقیقت میں ایسا نہ تھا) بلکہ اﷲ نے ان کے کفر کے باعث ان کے دلوں پر مُہر لگا دی ہے، سو وہ چند ایک کے سوا ایمان نہیں لائیں گے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اہل کتاب، قاتلان انبیاء، عیسیٰ (علیہ السلام) کی روداد اور مراحل قیامت
اہل کتاب کے ان گناہوں کا بیان ہو رہا ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمتوں سے دور ڈال دیئے گئے اور ملعون و جلا وطن کردیئے گئے اولاً ان کی عہد شکنییہ تھی کہ جو وعدے انہوں نے اللہ سے کئے ان پر قائم نہ رہے، دوسرے اللہ کی آیتوں یعنی حجت و دلیل اور نبیوں کے معجزوں سے انکار اور کفر، تیر سے بلا وجہ، ناحق انبیاء کرام کا قتل۔ ان کے رسولوں کی ایک بڑی جماعت ان کے ہاتھوں قتل ہوئی۔ چوتھی ان کا یہ خیال اور قول کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں یعنی پردے میں ہیں، جیسے مشرکین نے کہا تھا آیت (وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ) 41 ۔ فصلت ;5) یعنی " اے نبی تیری دعوت سے ہمارے دل پردے میں ہیں " اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ " ہمارے دل علم کے ظروف ہیں وہ علم و عرفان سے پُر ہیں۔ " سورة بقرہ میں بھی اس کی نظیر گذر چکی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے اس قول کی تردید کرتا ہے کہ یوں نہیں بلکہ ان پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے کیونکہ یہ کفر میں پختہ ہوچکے تھے۔ پس پہلی تفسیر کی بنا پر یہ مطلب ہوا کہ وہ عذر کرتے تھے کہ ہمارے دل بوجہ ان پر غلاف ہونے کے نبی کی باتوں کو یاد نہیں کرسکتے تو انہیں جواب دیا گیا کہ ایسا نہیں بلکہ تمہارے کفر کی وجہ سے تمہارے دل مسخ ہوگئے ہیں اور دوسری تفسیر کی بنا پر تو جواب ہر طرح ظاہر ہے۔ سورة بقرہ کی تفسیر میں اس کی پوری تفصیل و تشریح گذر چکی ہے۔ پس بطور نتیجے کے فرما دیا کہ اب ان کے دل کفر و سرکشی اور کمی ایمان پر ہی رہیں گے، پھر ان کا پانچواں جرم عظیم بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے سیدہ مریم (علیہا السلام) پر زنا کاری جیسی بدترین اور شرمناک تہمت لگائی اور اسی زنا کاری کے حمل سے حضرت عیسیٰ کو پیدا شدہ بتایا، بعض نے اس سے بھی ایک قدم آگے رکھا اور کہا کہ یہ بدکاری حیض کی حالت میں ہوئی تھی۔ اللہ کی ان پر پھٹکار ہو کہ ان کی بد زبانی سے اللہ کے مقبول بندے بھی نہ بچ سکے۔ پھر ان کا چھٹا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ بطور تمسخر اور اپنی بڑائی کے یہ ہانک بھی لگاتے ہیں کہ " ہم نے حضرت عیسیٰ کو مار ڈالا " جیسے کہ بطور تمسخر کے مشرکین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے تو تو مجنون ہے۔ پورا واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت دے کر بھیجا اور آپ کے ہاتھ پر بڑے بڑے معجزے دکھائے مثلاً بچپن کے اندھوں کو بینا کرنا، کوڑھیوں کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے پرند بنا کر پھونک مارنا اور ان کا جاندار ہو کر اڑ جانا وغیرہ تو یہودیوں کو سخت طیش آیا اور مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور ہر طرح سے ایذاء رسانی شروع کردی، آپ کی زندگی تنگ کردی، کسی بستی میں چند دن آرام کرنا بھی آپ کو نصیب نہ ہوا، ساری عمر جنگلوں اور بیابانوں میں اپنی والدہ کے ساتھ سیاحت میں گذاری، پھر بھی انہیں چین نہ لینے دیا، یہ دمشق کے بادشاہ کے پاس گئے جو ستارہ پرست مشرک شخص تھا (اس مذہب والوں کے ملک کو اس وقت یونان کہا جاتا تھا) یہ بہت روئے پیٹے اور بدشاہ کو حضرت عیسیٰ کے خلاف اکسایا اور کہا کہ یہ شخص بڑا مفسد ہے۔ لوگوں کو بہکا رہا ہے، روز نئے فتنے کھڑے کرتا ہے، امن میں خلل ڈالتا ہے۔ لوگوں کو بغاوت پہ اکساتا ہے وغیرہ۔ بادشاہ نے اپنے گورنر کو جو بیت المقدس میں تھا، ایک فرمان لکھا کہ وہ حضرت عیسیٰ کو گرفتار کرلے اور سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ کر لوگوں کو اس دکھ سے نجات دلوائے۔ اس نے فرمان شاہی پڑھ کر یہودیوں کے ایک گروہ کو اپنے ساتھ لے کر اس مکان کا محاصرہ کرلیا جس میں روح اللہ تھے، آپ کے ساتھ اس وقت بارہ تیرہ یا زیادہ سے زیادہ ستر آدمی تھے، جمعہ کے دن عصر کے بعد اس نے محاصرہ کیا اور ہفتہ کی رات تک مکان کو گھیرے میں لئے رہا جب حضرت عیسیٰ نے یہ محسوس کرلیا کہ اب وہ مکان میں گھس کر آپ کو گرفتار کرلیں گے یا آپ کو خود باہر نکلنا پڑے گا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈال دی جائے یعنی اس کی صورت اللہ مجھ جیسی بنا دے اور وہ ان کے ہاتھوں گرفتار ہو اور مجھے اللہ مخلصی دے ؟ میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔ " اس پر ایک نوجوان نے کہا مجھے یہ منظور ہے لیکن حضرت عیسیٰ نے انہیں اس قابل نہ جان کر دوبارہ یہی کہا، تیسری دفعہ بھی کہا مگر ہر مرتبہ صرف یہی تیار ہوئے (رض) ۔ اب آپ نے یہی منظور فرما لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی صورت قدرتاً بدل گئی بالکل یہ معلوم ہونے لگا کہ حضرت عیسیٰ یہی ہیں اور چھت کی طرف ایک روزن نمودار ہوگیا اور حضرت عیسیٰ کی اونگھ کی حالت ہوگئی اور اسی طرح وہ آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ جیسے قرآن کریم میں ہے آیت (اِذْ قَال اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ) 3 ۔ آل عمران ;55) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا " اے عیسیٰ میں تم سے مکمل تعاون کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ " حضرت روح اللہ کے سوئے ہوئے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد یہ لوگ اس گھر سے باہر نکلے، یہودیوں کی جماعت نے اس بزرگ صحابی کو جس پر جناب مسیح (علیہ السلام) کی شباہت ڈال دی گئی تھی، عیسیٰ سمجھ کر پکڑ لیا اور راتوں رات اسے سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ دیا۔ اب یہود خوشیاں منانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا اور لطف تو یہ ہے کہ عیسائیوں کی کم عقل اور جاہل جماعت نے بھی یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی اور ہاں صرف وہ لوگ جو مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ اس مکان میں تھے اور جنہیں یقینی طور پر معلوم تھا کہ مسیح آسمان پر چڑھا لئے گئے اور یہ فلاں شخص ہے جو دھوکے میں ان کی جگہ کام آیا۔ باقی عیسائی بھی یہودیوں کا سا راگ الاپنے لگے، یہاں تک کہ پھر یہ بھی گھڑ لیا کہ عیسیٰ کی والدہ سولی تلے بیٹھ کر روتی چلاتی رہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے کچھ باتیں بھی کیں، واللہ اعلم۔ دراصل یہ سب باتیں اللہ کی طرف سے اپنے بزرگ بندوں کا امتحان ہیں جو اس کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہے، پس اس غلطی کو اللہ تعالیٰ نے واضح اور ظاہر کر کے حقیقت حال سے اپنے بندوں کو مطلع فرما دیا اور اپنے سب سے بہتر رسول اور بڑے مرتبے والے پیغمبر کی زبانی اپنے پاک، سچے اور بہترین کلام میں صاف فرما دیا کہ " حقیقتاً نہ کسی نے حضرت عیسیٰ کو قتل کیا، نہ سولی دی بلکہ ان کی شبیہ جس پر ڈالی گئی تھی، اسے عیسیٰ ہی سمجھ بیٹھے، جو یہود و نصاریٰ آپ کے قتل کے قائل ہوگئے وہ سب کے سب شک و شبہ میں حیرت و ضلالت میں مبتلا ہیں۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں نہ انہیں خود کچھ علم ہے صرف سنی سنائی باتوں پہ یقین کے سوا کوئی ان کے پاس دلیل نہیں۔ اسی لئے پھر اسی کے متصل فرما دیا کہ " یہ یقینی امر ہے کہ روح اللہ کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ جناب باری عزاسمہ نے جو غالب تر ہے اور جس کی قدرتیں بندوں کے فہم میں بھی نہیں آسکتیں اور جس کی حکمتوں کی تہ تک اور کاموں کی لم تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، اپنے خاص بندے کو جنہیں اپنی روح کہا تھا اپنے پاس اٹھا لیا " حضرت ابن عباس (رض) ما فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھانا چاہا تھا، آپ گھر میں آئے اور گھر میں بارہ حواری تھے، آپ کے بالوں سے اپنی کے قطرے ٹپک رہے تھے، آپ نے فرمایا ! تم میں بعض ایسے ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں مگر کچھ مجھ سے کفر کریں گے۔ پھر آپ نے فرمایا " تم میں سے کون شخص اسے پسند کرتا ہے کہ اس پر میری شبیہ ڈالی جائے اور میری جگہ وہ قتل کردیا جائے اور جنت میں میرا رفیق بنے۔ " اس روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت روح اللہ کی پیش گوئی کے مطابق بعض نے آپ سے بارہ بارہ بار کفر کیا۔ پھر ان کے تین گروہ ہوگئے، یعقوبیہ، نسطوریہ اور مسلمان، یعقوبیہ تو کہنے لگے خود اللہ ہم میں تھا، جب تک چاہا رہا، پھر آسمان پر چڑھ گیا، نسطوریہ کا خیال ہوگیا کہ اللہ کا لڑکا ہم میں تھا، جسے ایک زمانے تک ہم میں رکھ کر پھر اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا کہ اللہ کا بندہ اور رسول ہم میں تھا جب تک اللہ نے چاہا وہ ہم میں رہا اور پھر اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔ ان پہلے دو گمراہ فرقوں کا زور ہوگیا اور انہوں نے تیسرے سچے اور اچھے فرقے کو کچلنا اور دبانا شروع کیا، چناچہ یہ کمزور ہوتے گئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرما کر اسلام کو غالب کیا۔ اس کی اسناد بالکل صحیح ہے اور نسائی میں حضرت ابو معاویہ سے بھی یہی منقول ہے اسی طرح سلف میں سے بہت سے بزرگوں کا قول ہے، حضرت وہب بن منبہ (رح) فرماتے ہیں جس وقت شاہی سپاہی اور یہودی حضرت عیسیٰ پر چڑھ دوڑے اور گھیرا ڈال دیا اس وقت آپ کے ساتھ سترہ آدمی تھے۔ ان لوگوں نے جب دروازے کھول کر دیکھا تو دیکھا کہ سب کے سب حضرت عیسیٰ کی صورت میں ہیں تو کہنے لگے تم لوگوں نے ہم پر جادو کردیا ہے، اب یا تو تم اسے جو حقیقی عیسیٰ ہوں ہمیں سونپ دو یا اسے منظور کرلو کہ ہم تم سب کو قتل کر ڈالیں۔ یہ سن کر روح اللہ نے فرمایا " کوئی ہے جو جنت میں میرا رفیق بنے اور یہاں میرے بدلے سولی پر چڑھنا منظور کرے " ایک صحابی اس کے لئے تیار ہوگئے اور کہنے لگے عیسیٰ میں تیار ہوں، چناچہ دشمنان دین نے انہیں گرفتار کیا قتل کیا اور سولی چڑھایا اور بغلیں بجانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا، حالانکہ دراصل ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ دھوکے میں پڑگئے اور اللہ نے اپنے رسول کو اسی وقت اپنے پاس چڑھا لیا۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ وحی کردیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں تو آپ پر بہت گراں گذرا اور موت کی گھبراہٹ بڑھ گئی تو آپ نے حواریوں کی دعوت کی، کھانا تیار کیا اور سب سے کہہ دیا کہ آج رات کو میرے پاس تم سب ضرور آنا، مجھے ایک ضروری کام ہے۔ جب وہ آئے تو خود کھانا کھلایا سب کام کاج اپنے ہاتھوں کرتے رہے، جب وہ کھاچکے تو خود ان کے ہاتھ دھلائے اور اپنے کپڑوں سے کے ہاتھ پونچھے یہ ان پر بھاری پڑا اور برا بھی لگا لیکن آپ نے فرمایا " اس رات میں جو کچھ کر رہا ہوں، اگر تم میں سے کسی نے مجھے اس سے روکا تو میرا اس کا کچھ واسطہ نہیں نہ وہ میرا نہ میں اس کا۔ " چناچہ وہ سب خاموش رہے۔ جب آپ ان تمام کاموں سے فارغ ہوگئے تو فرمایا دیکھو ! تمہارے نزدیک میں تم سب سے بڑے مرتبے والا ہوں اور میں نے تمہاری خدمت خود کی ہے، یہ اس لئے کہ تم میری اس سنت کے عامل بن جاؤ، خبردار تم میں سے کوئی اپنے آپ کو اپنے بھائیوں سے بڑا نہ سمجھے، بلکہ ہر بڑا چھوٹے کی خدمت کرے، جس طرح خود میں نے تمہاری خدمت کی ہے۔ اب تم سے میرا جو خاص کام تھا جس کی وجہ سے آج میں نے تمہیں بلایا ہے وہ بھی سن لو کہ " تم سب مل کر آج رات بھر خشوع و خضوع سے میرے لئے دعائیں کرو کہ اللہ میری اجل کو مؤخر کر دے۔ " چناچہ سب نے دعائیں شروع کیں لیکن خشوع و خضوع سے میرے لئے دعائیں کرو کہ اللہ میری اجل کو مؤخر کر دے۔ " چناچہ سب نے دعائیں شروع کیں لیکن خشوع و خضوع کا وقت آنے سے پہلے ہی اس طرح انہیں نیند آنے لگی کہ زبان سے ایک لفظ نکالنا مشکل ہوگیا، آپ نے انہیں بیدار کی کوشش میں ایک ایک کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہا تمہیں کیا ہوگا ؟ ایک رات بھی جاگ نہیں سکتے ؟ میری مدد نہیں کرتے ؟ لیکن سب نے جواب دیا اے رسول اللہ ہم خود حیران ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ ایک چھوڑ کئی کئی راتیں جاگتے تھے، جاگنے کے عادی ہیں لیکن اللہ جانے، آج کیا بات ہے کہ بری طرح نیند نے گھیر رکھا ہے، دعا کے اور ہمارے درمیان کوئی قدرتی رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے تو آپ نے فرمایا ! اچھا پھر چرواہا رہے گا اور بکریاں تین تیرہ ہوجائیں گی، غرض اشاروں کنایوں میں اپنا مطلب ظاہر کرتے رہے، پھر فرمایا " دیکھو تم میں سے ایک شخص صبح کا مرغ بولنے سے پہلے تین مرتبہ میرے ساتھ کفر کرے گا اور تم میں سے ایک چندہ درہموں کے بدلے مجھے بیچ دے گا اور میری قیمت کھائے گا۔ " اب یہ لوگ یہاں سے باہر نکلے ادھر ادھر چلے گئے، یہود جو اپنی جستجو میں تھے، انہوں نے شمعون حواری کو پہچان کر اسے پکڑا اور کہا یہ بھی اس کا ساتھی ہے، مگر شمعون نے کہا " غلط ہے میں اس کا ساتھی نہیں ہوں۔ انہوں نے یہ باور کر کے اسے چھوڑ دیا لیکن کچھ آگے جا کر یہ دوسری جماعت کے ہاتھ لگ گیا، وہاں سے بھی اسی طرح انکار کر کے اپنا آپ چھڑایا۔ اتنے میں مرغ نے بانگ دی اب یہ پچھتانے لگے اور سخت غمگین ہوئے۔ صبح ایک حواری یہودیوں کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں تمہیں عیسیٰ کا پتہ بتادوں تو تم مجھے کیا دلواؤ گے ؟ انہوں نے کہا تیس درہم، چانچہ اس نے وہ رقم لے لی، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا پتہ بتادیا۔ اس سے پہلے وہ شبہ میں تھے، اب انہوں نے گرفتار کرلیا اور رسیوں میں جکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے چلے اور بطور طعنہ زنی کے کہتے جاتے تھے کہ آپ تو مردوں کو زندہ کرتے تھے، جنات کو بھگا دیا کرتے تھی، مجنون کو اچھا کردیا کرتے تھے، اب کیا بات ہے کہ خود اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے ان رسیوں کو بھی نہیں توڑ سکتے، تھو ہے تمہارے منہ پر ! یہ کہتے جاتے تھے اور کانٹے ان کے اوپر ڈالتے جاتے تھے۔ اسی طرح بےدردی سے گھسیتے ہوئے جب اس لکڑی کے پاس لائے جہاں سولی دینا تھی اور ارادہ کیا کہ سولی پر چڑھا دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنی طرف چڑھا لیا اور انہوں نے دوسرے شخص کو جو آپ کے مشابہ تھا سولی پر چڑھا دیا۔ " پھر سات دن کے بعد حضرت مریم اور وہ عورت جس کو حضرت عیسیٰ نے جن سے نجات دلوائی تھی۔ وہاں آئیں اور رونے پیٹنے لگیں تو ان کے پاس حضرت عیسیٰ آئے اور ان سے کہا کہ " کیوں روتی ہو ؟ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بلند کرلیا ہے اور مجھے ان کی اذیتیں نہیں پہنچیں، ان پر تو شبہ ڈال دیا گیا ہے میرے حواریوں سے کہو کہ مجھ سے فلاں جگہ ملیں " چناچہ یہ بشارت جب حواریوں کو ملی تو وہ سب کے سب گیارہ آدمی اس جگہ پہنچے، جس حواری نے آپ کو بیچا تھا، اسے انہوں نے وہاں نہ پایا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے اپنا گلا گھونٹ کر آپ ہی مرگیا، اس نے خودکشی کرلی۔ آپ نے فرمایا " اگر وہ توبہ کرتا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا۔ " پھر پوچھا کہ یہ بچہ جو تمہارے ساتھ ہے، اس کا نام یحییٰ ہے، اب یہ تمہارا ساتھی ہے سنو صبح کو تمہاری زبانیں بدل دی جائیں گی، ہر شخص اپنی اپنی قوم کی زبان بولنے لگے گا، اسے چاہئے کہ اسی قوم میں جا کر اسے میری دعوت پہنچائے اور اللہ سے ڈرائے۔ یہ واقعہ نہایت ہی غریب ہے، ابن اسحاق کا قول ہے کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ جس نے حضرت عیسیٰ کے قتل کے لئے اپنی فوج بھیجی تھی اس کا نام داؤد تھا۔ حضرت عیسیٰ اس وقت سخت گھبراہٹ میں تھے، کوئی شخص اپنی موت سے اس قدر پریشان حواس باختہ اور اس قدر واویلا کرنے والا نہ ہوگا، جس قدر آپ نے اس وقت کیا۔ یہاں تک کہ فرمایا یا اللہ اگر تو موت کے پیالے کو کسی سے بھی ٹالنے والا ہے تو مجھ سے ٹال دے اور یہاں تک کہ گھبراہٹ اور خوف کے مارے ان کے بدن سے خون پھوٹ کر بہنے لگا، اس وقت اس مکان میں آپ کے ساتھ بارہ حواری تھے، جن کے نام یہ ہیں فرطوس، یعقوبس، ربداء، یبخس، (یعقوب کا بھائی) اندارا ابلیس، فیلبس، ابن یلما، منتا طوم اس، یعقوب بن حلقایا، نداوسیس، قتابیا، لیودس وکریا یوطا۔ بعض کہتے ہیں تیرہ آدمی تھے اور ایک کا نام سرجس تھا۔ اسی نے اپنا آپ سولی پر چڑھایا جانا حضرت عیسیٰ کی بشارت پر منظور کیا تھا۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر چڑھا لئے گئے اور بقیہ لوگ یہودیوں کے ہاتھوں میں اسیر ہوگئے، اب جو گنتی گنتے ہیں تو ایک کم نکلا۔ اس کے بارے میں ان میں آپس میں اختلاف ہوا۔ یہ لوگ جب اس جماعت پر چھاپہ مارتے ہیں اور انہیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو حضرت عیسیٰ کو چونکہ پہچانتے نہ تھے تو لیودس وکریا یوطا نے تیس درہم لے کر ان سے کہا تھا کہ میں سب سے پہلے جاتا ہوں جسے میں جا کر بوسہ دوں تم سمجھ لینا کہ عیسیٰ وہی ہے، جب یہ اندر پہنچتے ہیں، اس وقت حضرت عیسیٰ اٹھا لئے گئے تھے اور حضرت سرجس آپ کی صورت میں بنا دیئے گئے تھے، اس نے جا کر حسب قرار داد انہی کا بوسہ لیا اور یہ گرفتار کر لئے گئے پھر تو یہ بہت نادم ہوا اور اپنے گلے میں رسی ڈال کر پھانسی پر لٹک گیا اور نصرانیوں میں ملعون بنا۔ بعض کہتے ہیں اس کا نام یودس رکریا بوطا تھا، یہ جیسے ہی حضرت عیسیٰ کی پہچان کرانے کے لئے اس گھر میں داخل ہوا، حضرت عیسیٰ تو اٹھا لئے گئے اور خود اس کی صورت حضرت عیسیٰ جیسی ہوگئی اور اسی کو لوگوں نے پکڑ لیا، یہ ہزار چیختا چلاتا رہا کہ میں عیسیٰ نہیں ہوں، میں تو تمہارا ساتھی ہوں، میں نے ہی تو تمہیں عیسیٰ کا پتہ دیا تھا لیکن کون سنتا ؟ آخر اسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا، اب اللہ ہی کو علم ہے کہ یہی تھا یا وہ تھا، جس کا ذکر پہلے ہوا۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت روح اللہ کی مشابہت جس پر ڈال دی گئی تھی اسے صلیب پر چڑھایا اور حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں " حضرت عیسیٰ کی شبیہ آپ کے ان تمام ساتھیوں پر ڈال دی گی تھی۔ " اس کے بعد ذکر ہوتا ہے کہ جناب روح اللہ کی موت سے پہلے جملہ اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے اور قیامت تک آپ ان کے گواہ ہوں گے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں اس کی تفسیر میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ عیسیٰ موت سے پہلے یعنی جب آپ دجال کو قتل کرنے کے لئے دوبارہ زمین پر آئیں گے اس وقت تمام مذاہب ختم ہوچکے ہوں گے اور صرف ملت اسلامیہ جو دراصل ابراہیم حنیف کی ملت ہے رہ جائے گی۔ ابن عباس فرماتے ہیں (موتہ) سے مراد موت عیسیٰ ہے ابو مالک فرماتے ہیں جب جناب مسیح اتریں گے، اس وقت کل اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے۔ ابن عباس سے اور روایت میں ہے خصوصاً یہودی ایک بھی باقی نہیں رہے گا۔ حسن بصری فرماتے ہیں یعنی نجاشی اور ان کے ساتھی آپ سے مروی ہے کہ قسم اللہ کی حضرت عیسیٰ اللہ کے پاس اب زندہ موجود ہیں۔ جب آپ زمین پر نازل ہوں گے، اس وقت اہل کتاب میں سے ایک بھی ایسا نہ ہوگا جو آپ پر ایمان نہ لائے۔ آپ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ہے تو آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنے پاس اٹھا لیا ہے اور قیامت سے پہلے آپ کو دوبارہ زمین پر اس حیثیت سے بھیجے گا کہ ہر نیک و بد آپ پر ایمان لائے گا۔ حضرت قتادہ، حضرت عبدالرحمٰن وغیرہ بہت سے مفسرین کا یہی فیصلہ ہے اور یہی قول حق ہے اور یہی تفسیر بالکل ٹھیک ہے، انشاء اللہ العظیم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق سے ہم اسے بادلائل ثابت کریں گے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہر اہل کتاب آپ پر اپنی موت سے پہلے ایمان لاتا ہے۔ اس لئے کہ موت کے وقت حق و باطل سب کھل جاتا ہے تو ہر کتابی حضرت عیسیٰ کی حقانیت کو زمین سے سدھارنے سے پہلے یاد کرلیتا ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کوئی یہودی نہیں مرتا جب تک کہ وہ حضرت روح اللہ پر ایمان نہ لائے۔ حضرت مجاہد کا یہی قول ہے۔ بلکہ ابن عباس سے تو یہاں تک مروی ہے کہ اگر کسی اہل کتاب کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے تو اس کی روح نہیں نکلتی جب تک کہ وہ حضرت عیسیٰ پر ایمان نہ لائے اور یہ نہ کہہ دے کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ حضرت ابی کی تو قرأت میں (قبل موتھم) ہے۔ ابن عباس سے پوچھا جاتا ہے کہ فرض کرو کوئی دیوار سے گر کر مرجائے ؟ فرمایا پھر بھی اس درمیانی فاصلے میں وہ ایمان لا چکتا ہے۔ عکرمہ، محمد بن سیرین، محمد ضحاک، سعید بن جبیر سے بھی یہی مروی ہے۔ ایک قول امام حسن سے ایسا بھی مروی ہے کہ جس کا مطلب پہلے قول کا سا بھی ہوسکتا ہے اور حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے کا بھی ہوسکتا ہے۔