لَّذِيْنَ يَـبْخَلُوْنَ وَيَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۗ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا ۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے
English Sahih:
Who are stingy and enjoin upon [other] people stinginess and conceal what Allah has given them of His bounty – and We have prepared for the disbelievers a humiliating punishment –
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
جو آپ بخل کریں اور اوروں سے بخل کے لئے کہیں اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپائيں اور کافروں کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے،
احمد علی Ahmed Ali
جو لوگ بخل کرتے ہیں اور لوگو ں کو بخل سکھاتے ہیں اور الله نے انہیں اپنے فضل سے جو دیا ہے اسے چھپاتے ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو (مال) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
جو خود کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کرنے کا حکم (ترغیب) دیتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے دیا ہے وہ اسے چھپاتے ہیں ہم نے ایسے ناشکروں کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں اور جو کچھ خدانے اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اس پر پردہ ڈالتے ہیں اور ہم نے کافروں کے واسطے فِسوا کن عذاب مہّیا کر رکھا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
جو لوگ (خود بھی) بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو (بھی) بخل کا حکم دیتے ہیں اور اس (نعمت) کو چھپاتے ہیں جواللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے، اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ سے کترانے والے بخیل لوگ
ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقعہ پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں مثلاً ماں باپ کو دینا قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ نہیں دیتے اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کونسی بیماری بخل کی بیماری سے بڑھ کر ہے ؟ اور حدیث میں ہے لوگو بخیلی سے بچو اسی نے تم سے اگلوں کو تاخت و تاراج کیا اسی کے باعث ان سے قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے برے کام نمایاں ہوئے پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے بھی مرتکب ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کرتے نہ ان کے کھانے پینے میں وہ ظاہر ہوتی ہیں نہ پہننے اوڑھنے میں نہ دینے لینے میں جیسے اور جگہ ہے (اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ ۚ وَاِنَّهٗ عَلٰي ذٰلِكَ لَشَهِيْدٌ ۚ ) 100 ۔ العادیات ;6-7) یعنی انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے پھر (وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ ۭ ) 100 ۔ العادیات ;8) وہ مال کی محبت میں مست ہے، پس یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کے فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے کہ کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھے ہیں، کفر کے معنی ہیں پوشیدہ رکھنا اور چھپالینا پس بخیل بھی اللہ کی نعمتوں کا چھپانے والا ان پر پردہ ڈال رکھنے والا بلکہ ان کا انکار کرنے والے قرار دیا ہے پس وہ نعمتوں کا کافر ہوا، حدیث میں ہے اللہ جب کسی بندے پر اپنی نعمت انعام فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو، دعا نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہے (حدیث واجعلنا شاکرین لنعمتکم (رح) مثنین بھا علیک قابلیھا واتھما علینا) اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا اور ان کی وجہ سے ہمیں اپنا ثنا خوان بنا ان کا قبول کرنے والا بنا اور ان کی نعمتوں کو ہمیں بھرپور عطا فرما، بعض سلف کا قول ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے اس بخل کے بارے میں ہے جو وہ اپنی کتاب میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کے چھپانے میں کرتے تھے اسی لئے اس کے آخر میں ہے کہ کافروں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہم نے تیار کر رکھے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ بظاہر یہاں مال کا بخل بیان ہو رہا ہے گو علم کا بخل بھی اس میں بطور اولیٰ داخل ہے۔ خیال کیجئے کہ بیان آیت اقرباضعفا کو مال دینے کے بارے میں ہے اسی طرح اس کے بعد والی آیت میں ریاکاری کے طور پر فی سبیل اللہ مال دینے کی مذمت بھی بیان کی جا رہی ہے۔ پہلے ان کا بیان ہوا جو ممسک اور بخیل ہیں کوڑی کوڑی کو دانتوں سے تھام رکھتے ہیں پھر ان کا بیان ہوا جو دیتے تو ہیں لیکن بدنیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے کی خاطر دیتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں سے جہنم کی آگ سلگائی جائے گی وہ یہی ریاکار ہوں گے ریاکار عالم ریاکار غازی، ریا کار سخی ایسا سخی کہے گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں میں نے اپنا مال خرچ کیا تو اسے اللہ تعالیٰ کی جناب سے جواب ملے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہوجائے سو وہ ہوچکا یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے تجھے دنیا میں ہی دے چکا پس تیری مراد حاصل ہوچکی اور حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عدی بن حاتم (رض) سے فرمایا کہ تیرے باپ نے اپنی سخاوت سے جو چاہتا تھا وہ اسے مل گیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوتا ہے کہ عبداللہ بن جدعان تو بڑا سخی تھا جس نے مساکین وفقراء کے ساتھ بڑے سلوک کئے اور نام الہ بہت سے غلام آزاد کئے تو کیا اسے ان کا نفع نہ ملے گا ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس سے تو عمر بھر میں ایک دن بھی نہ کہا کہ اے اللہ میرے گناہوں کو قیامت کے دن معاف فرما دینا۔ اسی لئے یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کا ایمان اللہ اور قیامت پر نہیں۔ ورنہ شیطان کے پھندے میں نہ پھنس جاتے اور بد کو بھلا نہ سمجھ بیٹھتے یہ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان ان کا ساتھی ہے ساتھی کی برائی پر ان کی برائی بھی سوچ لو عرب شاعر کہتا ہے
عن المرء لا تسال وسل عن قرینہ
فکل قرین بالمقارن یقتدی
انسان کے بارے میں نہ پوچھ اس کے ساتھیوں کا حال دریافت کرلے۔ ہر ساتھی اپنے ساتھی کا ہی پیرو کار ہوتا ہے پھر ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں اللہ پر ایمان لانے اور صحیح راہ پر چلنے اور ریاکاری کو چھوڑ دینے اور اخلاص و یقین پر قائم ہوجانے سے کونسی چیز مانع ہے ؟ ان کا اس میں کیا نقصان ہے ؟ بلکہ سرا سر فائدہ ہے کہ ان کی عاقبت سنور جائے گی یہ کیوں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے تنگ دلی کر رہے ہیں اللہ کی محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ اللہ انہیں خوب جانتا ہے ان کی بھلی اور بری نیتوں کا اسے علم ہے اہل توفیق اور غیر اہل توفیق سب اس پر ظاہر ہیں وہ بھلوں کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما کر اپنی خوشنودی کے کام ان سے لے کر اپنی قربت انہیں عطا فرماتا ہے اور بروں کو اپنی عالی جناب اور زبردست سرکاری سے دھکیل دیتا ہے جس سے ان کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہے، عیاذ باللہ من ذالک