النساء آية ۶۰
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ ۗ وَيُرِيْدُ الشَّيْـطٰنُ اَنْ يُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًاۢ بَعِيْدًا
طاہر القادری:
کیا آپ نے اِن (منافقوں) کو نہیں دیکھا جو (زبان سے) دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب یعنی قرآن) پر ایمان لائے جوآپ کی طرف اتارا گیا اور ان (آسمانی کتابوں) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئیں (مگر) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمات (فیصلے کے لئے) شیطان (یعنی احکامِ الٰہی سے سرکشی پر مبنی قانون) کی طرف لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا جا چکا ہے کہ اس کا (کھلا) انکار کر دیں، اور شیطان تویہی چاہتا ہے کہ انہیں دور دراز گمراہی میں بھٹکاتا رہے،
English Sahih:
Have you not seen those who claim to have believed in what was revealed to you, [O Muhammad], and what was revealed before you? They wish to refer legislation to Taghut, while they were commanded to reject it; and Satan wishes to lead them far astray.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور ان کو تو حکم یہ تھا کہ اسے اصلاً نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور بہکاوے
3 Ahmed Ali
کیا تم لوگوں نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور جو چیز تم سےپہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ شیطان سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دو رجا ڈالے
4 Ahsanul Bayan
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے بہکا کر دور ڈال دے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے
6 Muhammad Junagarhi
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وه اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حاﻻنکہ انہین حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔ (اس کے باوجود) وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کی طرف رجوع کریں۔ (غیر شرعی عدالت میں مقدمہ لے جائیں) حالانکہ انہیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر گمراہی میں بہت دور لے جائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا خیال یہ ہے کہ وہ آپ پر اور آپ کے پہلے نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لے آئے ہیں اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک کھینچ کر لے جائے
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب ہر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لیجا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر راستے سے دور ڈال دے
آیت نمبر ٦٠ تا ٧٠
ترجمہ : (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جب ایک یہودی اور منافق کے درمیان ایک مقتول کے معاملہ میں نزاع پیدا ہوگیا، منافق نے کعب بن اشرف کے پاس جانے کے لئے کہا تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، اور یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانے کے لئے کہا، چناچہ جب یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ یہودی کے حق میں فرمایا، مگر منافق اس پر راضی نہ ہوا، اور دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس آئے، اور یہودی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کا تذکرہ حضرت عمر (رض) کے روبرو کردیا، (حضرت عمر نے) منافق سے کہا کیا بات ایسی ہی ہے ؟ منافق نے اقرار کیا چناچہ حضرت عمر نے منافق کو قتل کردیا، کیا آپ نے ان معاملہ میں غور کیا کہ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اپنے فیصلے غیر اللہ کے پاس لیجانا چاہتے ہیں (طاغوت) کثیر الطغیان کو کہتے ہیں، اور وہ کعب بن اشرف ہے، حالانکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کے سامنے گردن نہ جھکائیں، اور اس کا اقتدار تسلیم نہ کریں، شیطان تو چاہتا یہ ہے کہ ان کو حق سے بھٹکا کر دوردراز لے جائے، اور ان سے کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی طرف آؤ کہ جس کو قرآن میں اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف آؤ تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو آپ ان منافقین کو دیکھیں گے کہ آپ سے بڑی بےرخی کر کے دوسروں کی طرف رخ کرنے والے ہیں تو اس وقت کیا کریں گے جب ان کے کرتوتوں کی بدولت کہ وہ کفر و معاصی ہیں ان پر مصیبت (عقوبت) آئیگی یعنی کیا یہ لوگ اس سے اعراض اور فرار پر قادر ہوں گے ؟ نہیں، پھر یہ (منافق) اللہ کی قسم کھاتے ہوئے آپ کے پاس آتے ہیں اس کا عطف یَصُدُّوْنَ پر ہے، کہ غیر کے پاس مقدمہ لیجانے سے ہمارا مقصد حکم میں اعتدال پیدا کرکے فریقین کے درمیان صلح اور میل ملاپ کرانا تھا نہ کہ تلخ حق پر آمادہ کرنا یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں کا راز اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے اور وہ نفاق اور ان کا عذر میں کذب بیانی کرنا ہے، لہٰذا آپ ان سے چشم پوشی کیجئے (یعنی) ان کو خدا کے خوف سے ڈرایئے، اور ان کے معاملہ میں ان سے مؤثربات کہتے رہئے یعنی زیادہ رکنے والی تاکہ اس وہ اپنے کفر سے باز آجائیں، اور ہم نے رسول بھی بھیجا ہے وہ اسلئے بھیجا ہے کہ جس چیز کا وہ حکم کرے اس میں اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی اور مخالفت نہ کی جائے اور کاش کہ جس وقت یہ لوگ طاغوت کے پاس مقدمہ لیجا کر اپنے اوپر زیادتی کر بیٹھے تھے توبہ کرتے ہوئے آپ کے پاس آجاتے اور معافی طلب کرتے اور رسول بھی ان کیلئے استغفار کرتے اس میں سے (غیبت) کی جانب (التفات ہے) آپ کی عظمت شان کے اظہار کے لئے تو یہ ضرور اللہ کو ان کی توبہ کا قبول کرنے والا اور مہربان پاتے سو قسم ہے تیرے ہر وردگار کی \& لا \& زائدہ ہے، یہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے درمیان اختلافی معاملہ میں آپ کو حَکُم تسلیم نہ کریں، پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس میں اپنے دل میں کوئی تنگی نہ پائیں، اور آپ کے حکم کو بغیر کسی معارضہ کے پورا پورا تسلیم کرلیں، اور اگر ہم ان پر یہ فرض کردیتے کہ اپنی جانوں کا قتل کو ڈالو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ جیسا کہ ہم نے بنی اسرائیل پر فرض کیا تھا (ان) مفسرہ ہے، تو اس فرض کو بہت کم لوگ ادا کرتے، قلیل، رفع کے ساتھ ہے بدلیت کی وجہ سے اور نصب کے ساتھ ہے استثناء کی وجہ سے، اور اگر یہ لوگ وہ کام کر ڈالتے جس کا ان کو حکم دیا گیا ہے اور وہ طاعت رسول ہے تو یہ ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا اور ان کے ایمان کو بہت زیادہ مضبوط رکھنے والا بھی اور اس وقت ہم انھیں اپنے پاس سے ضرور اجر عظیم دیتے اور وہ جنت ہے، اور ہم انھیں سیدھی شاہراہ دکھاتے بعض صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم جنت میں آپ کا کیسے دیدار کریں گے ؟ اسلئے کہ آپ اعلی درجوں میں ہوں گے اور ہم آپ سے نیچے درجوں میں، تو یہ آیت نازل ہوئی، اور جو بھی اللہ کی اور اسکے رسول کی مامور بہ میں فرمانبرداری کرے وہ لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے، جیسے نبی اور صدیق اصحاب انبیاء میں وہ لوگ ہیں جو افضل ترین ہیں، اور شہداء یعنی راہ خدا میں مقتول، اور مذکورین کے علاوہ دیگر صالحین، یہ بہترین رفیق ہیں جنت میں رفقاء ہیں، اس طور پر کہ ان کے دیدار سے اور ان کی زیارت سے اور ان کے ساتھ حاضری سے مستفید ہوں گے، اگرچہ ان کے ٹھکانے دوسروں کی نسبت اونچے درجوں میں ہوں گے یہ فضل یعنی انکا مذکورین کے ساتھ ہونا اللہ کی جانب سے ہے، (ذلک) مبتداء ہے اور (الفضل) اس کی خبر ہے، جس کا اللہ نے ان پر فضل کیا ہے، نہ یہ کہ انہوں نے اپنی طاعت کے ذریعہ حاصل کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کا علم کافی ہے آخرت کے ثواب کو جاننے کے اعتبار سے لہذا جس کی وہ تم کو خبر دے اس پر اعتماد کرو تم کو اس کے جیسی کوئی خبر دینے والا خبر نہیں دے سکتا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یَصُدُّونَ صَدّ (ن) سے مضارع جمع مذکر غائب، وہ اعراض کرتے ہیں اور روکتے ہیں، یَصُدُّونَ کی تفسیر یُعْرضُوْنَ سے بیان معنی کے لئے ہے، اگر رَأیْتَ سے بصری مراد ہو تو یصدون جملہ حالیہ ہوگا، اور اگر رویت قلبیہ مراد ہو تو یَصُدُّونَ مفعول ثانی ہوگا، اور منافقین مفعول اول، اور صدوداً مفعول مطلق۔
قولہ : معطوف علیٰ یصدون، یعنی ابتداء میں آپ سے اعراض کرتے ہیں اور بعد اعراض کے معافی مانگتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد طرفین کی اصلاح تھا نہ کہ آپ کی مخالفت۔
قولہ : جَائُ وْکَ ، کا عطف یصدون پر ہے اور درمیان میں جملہ معترضہ ہے، یحلفون جملہ حالیہ ہے۔
قولہ : بِالتَّقْرِیْبِ فی الحُکْمِ یعنی خصمین کو ان کی مراد کے قریب کرکے صلح کرانا ہے نہ کہ حق کے مطابق فیصلہ کرکے الحق مرُّکے قبول کرنے پر مجبور کرنا۔
قولہ : اِلْتِفَات عَنِ الْخِطَابِ یہ جَاءوک میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور استغفرَ لَھُمْ الرسولُ میں رسول اسم ظاہر ہونے کی وجہ سے غائب ہے۔
قولہ : تَفْخِیْماً لِشَانِہ، یعنی خطاب سے اعراض کرکے آپ کے وصف خاص (رسالت) کی طرف التفات فرمایا۔
قولہ : بِہ، مِمّا قضیتَ ، میں ماموصولہ ہے اسلئے کہ صلہ جب جملہ ہوتا ہے عائد کی ضرورت ہوتی ہے۔
قولہ : اَفاضِلِ ، اَصْحَابِ الْاَ نْبِیَائِ ، یہ صدّیق کی چند تعریفوں میں سے ایک کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : غَیْرِمَنْ ذُکِرَ ، اس میں تکرار سے اجتناب کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : لَا انَّھُمْ نَالُوْہ \& بِطَاعَتِھِمْ ، اس میں معتزلہ پر رد ہے۔
تفسیر ویشریح
ربط آیات : پہلی آیات میں تمام معاملات میں اللہ اور اس کے طرف رجوع کرنیکا حکم تھا ان آیات میں شرع قوانین کی طرف رجوع کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
شان نزول : مذکورہ آیات کے شان نزول کے سلسلہ میں متعدد واقعات مذکور ہوئے ہیں۔
(١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بشر نامی ایک منافق اور ایک یہودی کا کسی معاملہ میں نزاع ہوگیا، فیصلے کے لئے یہودی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم گرامی پیش کیا کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر کسی رو رعایت اور رشوت و سفارش کے حق فیصلہ فرمائیں گے، اور بشر نامی منافق نے فیصلہ کے لئے یہودیوں کے مشہور عالم اور سردار کعب بن اشرف کا نام پیش کیا اسلئے کہ وہ جانتا تھا کہ کعب بن اشرف سے رشوت و سفارش کے ذریعہ اپنے حق میں فیصلہ کرالے گا، آخر کار یہودی کعب بن اشرف کے پاس مقدمہ لیجانے کیلئے تیارنہ ہوا مجبوراً منافق بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مقدمہ لیجانے کے لئے رضامند ہوگیا، آپ نے پورا واقعہ سماعت فرمانے کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ فرمادیا، اسلئے کہ یہودی حق پر تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ سن کر منافق سخت دل گیر ہوا اور اس نے یہودی کو مجبور کیا کہ وہ دوبارہ فیصلہ حضرت عمر (رض) کے پاس لیجائے منافق کا خیال تھا کہ عمر (رض) چونکہ کفار کے معاملہ میں نہایت سخت ہیں لہذا عین ممکن ہے کہ وہ میرے کلمہ گو ہونے کی وجہ سے (گوبظاہر ہی سہی) میرے حق میں رعایت کریں، جب یہ دونوں حضرات حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پہنچے تو یہودی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کرانے اور منافق کے قبول نہ کرنے کی پوری سرگذشت سنائی، حضرت عمر (رض) نے منافق سے معاملہ کی تصدیق چاہی منافق نے اقرار کرلیا حضرت عمرنے فرمایا تم یہیں ٹھہرو میں ابھی اندر سے آتا ہوں حضرت عمر (رض) اندر سے تلوار چادر میں لپیٹ کر باہر تشریف لائے اور یہ کہتے ہوئے کہ جو بدبخت انسان، اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر رضامند نہ ہو میرے یہاں اس کا فیصلہ یوں ہوا کرتا ہے، اسی پر آیت نازل ہوئی، اس واقعہ کو ابن کثیر نے سنداً ضعیف کہا ہے ابن لہیعہ اسمیں ضعیف ہے۔
(٢) دوسراواقعہ : حضرت زبیربن عوام جو رشتہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے، ان کا ایک انصاری کے ساتھ پہاڑی پانی کی ایک گول (نالی) کے بارے میں جس سے دونوں اپنے باغ سیراب کیا کرتے تھے نزاع ہوگیا معاملہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر (رض) سے فرمایا کہ جب تمہارا کھیت سیراب ہوجایا کرے تو گول چھوڑ دیا کرو تاکہ تمہارے بعد یہ شخص اپنا کھیت سیراب کرسکے، اس فیصلہ پر وہ شخص بھڑک اٹھا اور کہا یہ فیصلہ آپ نے اسلئے کیا ہے کہ زبیر (رض) آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں، اس پر آپ کے روئے انور کا رنگ متغیر ہوگیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا زبیر اپنا کھیت سیراب کرو اور اس وقت تک گول روکے رکھو جب تک کھیت میں پانی خوب نہ بھر جائے، جب یہ دونوں حضرات واپس ہوئے تو حضرت مقداد نے پوچھا کہ کس کے حق میں فیصلہ ہوا ؟ انصاری فوراً بولا پھوپھی زاد بھائی کے حق میں، جواب کا یہ انداز ظاہر کر رہا تھا کہ یہ شخص آپ کے فیصلہ سے خوش نہیں ہے، اتفاق سے وہاں ایک یہودی موجود تھا وہ بولا خدا انھیں سمجھے ایک طرف کہتے ہیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں دوسری طرف ان کے فیصلہ سے ناراض بھی ہوتے ہیں۔ (اخرجہ البخاری ومسلم واھل السنن وغیرھم)
(٣) تیسراواقعہ : ابن ابی حاتم و طبرانی نے سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس کو سیوطی نے صحیحٌ عن ابن عباس کہا ہے، فرمایا ابو برزۃ الاسلمی ایک کاہن تھا یہود کے تنازع کا فیصلہ کیا کرتا تھا، بعض مسلمان بھی اس کے پاس فیصلے کے لئے پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ (فتح القدیر)
وَلواَنّا کتبنا علیھم ان اقتلوا، (الآیة) یعنی یہ منافقین ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ہماری جان ومال سب کچھ خدا کے لئے ہے دوسری طرف یہ حالت ہے کہ اگر ہم براہ راست جان ومال کی قربانی مانگ لیتے تو شاہد دو چار کے سوا کوئی بھی نہ کرتا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ منافقین کی حالت کے بارے میں اپنے بندوں پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ ﴿ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا ﴾” جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں۔“ یعنی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس چیز پر ایمان لائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھا۔ بایں ہمہ ﴿ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ ﴾ ” وہ چاہتے ہیں کہ وہ فیصلے طاغوت کی طرف لے جائیں۔“ ہر وہ شخص جو شریعت الٰہی کے بغیر فیصلے کرتا ہے طاغوت ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ ﴿وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ ﴾” انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔“ ان کا یہ رویہ اور ایمان کیسے اکٹھے ہوسکتے ہیں کیونکہ ایمان اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پیروی کی جائے اور اس کی تحکیم کو قبول کیا جائے۔ پس جو کوئی مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو چھوڑ کر طاغوت کے فیصلے کو قبول کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ شیطان نے ان کو گمراہ کردیا ہے ﴿ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴾ ” اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر راستے سے دور کر دے۔“ یعنی شیطان چاہتا ہے کہ وہ انہیں حق سے دور کر دے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) kiya tum ney unn logon ko nahi dekha jo dawa yeh kertay hain kay woh uss kalam per bhi emaan ley aaye hain jo tum per nazil kiya gaya hai aur uss per bhi jo tum say pehlay nazil kiya gaya tha , ( lekin ) unn ki halat yeh hai kay woh apna muqadma faislay kay liye taghoot kay paas ley jana chahtay hain-? halankay unn ko hukum yeh diya gaya tha kay woh uss ka khul ker inkar keren . aur shetan chahta hai kay unhen bhatka ker perlay darjay ki gumrahi mein mubtala kerday .
12 Tafsir Ibn Kathir
حسن سلوک اور دوغلے لوگ
اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دعوے کو جھٹلایا ہے جو زبانی تو اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام اگلی کتابوں پر اور اس قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ کسی اور طرف لے جاتے ہیں، چناچہ یہ آیت ان دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی جن میں کچھ اختلاف تھا ایک تو یہودی تھا دوسرا انصاری، یہودی تو کہتا تھا کہ چل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کرالیں اور انصاری کہتا تھا کعب بن اشرف کے پاس چلو یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن درپردہ احکام جاہلیت کی طرف جھکنا چاہتے تھے، اس کے سوا اوراقوال بھی ہیں، آیت اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے ان تمام واقعات پر مشتمل ہے ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے جو کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جائے اور یہی مراد یہاں طاغوت سے ہے (یعنی قرآن و حدیث کے سوا کی چیز یا شخص) صدور سے مراد تکبر سے منہ موڑ لینا، جیسے اور آیت میں ہے (وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا) 2 ۔ البقرۃ :170) یعنی جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی فرمانبرداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی پیروی پر ہی اڑے رہیں گے، ایمان والوں کو جواب یہ نہیں ہوتا بلکہ ان کا جواب دوسری آیت میں اس طرح مذکور ہے (اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 24 ۔ النور :51) یعنی ایمان والوں کو جب اللہ رسول کے فیصلے اور حکم کی طرف بلایا جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے تہ دل سے قبول کیا، پھر منافقوں کی مذمت میں بیان ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں کے باعث جب تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تیری ضرورت محسوس ہوتی ہے تو دوڑے بھاگے آتے ہیں اور تمہیں خوش کرنے کے لئے عذر معذرت کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور قسمیں کھا کر اپنی نیکی اور صلاحیت کا یقین دلانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے سوا دوسروں کی طرف ان مقدمات کے لے جانے سے ہمارا مقصود صرف یہی تھا کہ ذرا دوسروں کا دل رکھا جائے آپس میں میل جول نبھ جائے ورنہ دل سے کچھ ہم ان کی اچھائی کے معتقد نہیں، جیسے اور آیت میں (فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭفَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ :52) تک بیان ہوا ہے، یعنی تو دیکھے گا کہ بیمار دل یعنی منافق یہود و نصاریٰ کی باہم دوستی کی تمام تر کوششیں کرتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے اختلاف کی وجہ سے آفت میں پھنس جانے کا خطرہ ہے بہت ممکن ہے ان سے دوستی کے بعد اللہ تعالیٰ فتح دیں یا اپنا کوئی حکم نازل فرمائیں اور یہ لوگ ان ارادوں پر پشیمان ہونے لگیں جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہیں، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ابو برزہ اسلمی ایک کاہن شخص تھا، یہود اپنے بعض فیصلے اس سے کراتے تھے ایک واقعہ میں مشرکین بھی اس کی طرف دوڑے اس میں یہ آیتیں (آیت الم تر سے ترفیقا) تک نازل ہوئیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ یعنی منافقین کے دلوں میں جو کچھ ہے ؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو کامل ہے اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مخفی نہیں وہ ان کے ظاہر وباطن کا اسے علم ہے تو ان سے چشم پوشی کر ان کے باطنی ارادوں پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کر ہاں انہیں نفاق اور دوسروں سے شر و فساد وابستہ رہنے سے باز رہنے کی نصیحت کر اور دل میں اترنے والی باتیں ان سے کہ بلکہ ان کے لئے دعا بھی کر۔