النساء آية ۷۱
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِيْعًا
طاہر القادری:
اے ایمان والو! اپنی حفاظت کا سامان لے لیا کرو پھر (جہاد کے لئے) متفرق جماعتیں ہو کر نکلو یا سب اکٹھے ہو کر کوچ کرو،
English Sahih:
O you who have believed, take your precaution and [either] go forth in companies or go forth all together.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو پھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! اپنے ہتھیار لے لو پھر جدا جدا فوج ہو کر نکلویا سب اکھٹے ہوکر نکلو
4 Ahsanul Bayan
اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو (١) پھر گروہ گروہ بن کر کوچ کرو یا سب کے سب اکھٹے ہو کر نکلو۔
٧١۔١ حِذْرَکُمْ (اپنا بچاؤ اختیار کرو) اسلحہ اور سامان جنگ اور دیگر ذرائع سے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! (جہاد کے لئے) ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکھٹے کوچ کیا کرو
6 Muhammad Junagarhi
اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو پھر گروه گروه بن کر کوچ کرو یا سب کے سب اکٹھے ہو کر نکل کھڑے ہو!
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! اپنی حفاظت کا سامان مکمل رکھو۔ ہر وقت تیار رہو پھر (موقع کی مناسبت سے) دستہ دستہ ہوکر نکلو یا اکھٹے ہوکر نکلو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو اپنے تحفظ کا سامان سنبھال لو اور جماعت جماعت یا اکٹھا جیسا موقع ہو سب نکل پڑو
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! (جہاد کے لئے) ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو
آیت نمبر ٧١ تا ٧٦
ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے دشمنوں سے محتاط رہو یعنی ان سے احتیاطی تدابیر اختیار کرو اور ان سے بیدار مغز رہو پھر دشمن سے لڑنے کے لئے جماعتوں کی شکل میں یکے بعد دیگرے نکلویا اجتماعی طور پر نکلو اور یقیناً تم میں بعض وہ بھی ہیں جو نکلنے میں پس وپیش کرتے ہیں، یعنی لڑائی سے پیچھے رہنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ عبداللہ بن ابیّ اور اس کے ساتھی، اور اس کو مومن ظاہر کے اعتبار سے کہا گیا ہے، اور لام، فعل پر قسمیہ ہے، اور پھر اگر تم کو کوئی مصیبت (نقصان) پہنچتی ہے مثلاً قتل اور شکست تو کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ کا بڑا فضل ہوا کہ میں ان کے ساتھ (لڑائی) میں حاضر نہ ہو اور نہ تو میں مصیبت میں پھنس جاتا، اور اگر تم کو اللہ کا فضل پہنچتا ہے جیسا کہ فتح اور مال غنیمت تو شرمندگی سے کہنے لگتا ہے کہ گویا کہ اور اس کے درمیان کوئی جان پہچان اور دوستی کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے (کَاَنْ ) مخففہ ہے اور اس کا اسم مخدوف ہے، ای کانّہ \&، (تکن) یاء اور تاء کے ساتھ ہے اور اس جملہ کا تعلق، قد انعم اللہ عَلَیَّ ، سے ہے اور یہ جملہ قول ( یعنی، لَیَقُولَنَّ ) اور مقولہ (یعنی یا لَیْتَنِیْ ) کے درمیان جملہ معترضہ ہے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کرتا یعنی مال غنیمت سے بڑا حصہ پاتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو لوگ دینوی زندگی کو آخرت کے عوض فروخت کرچکے ہیں تو ان کو اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پائے یا اپنے دشمن پر غالب آجائے تو ہم اس کو اجرعظیم عطا فرمائیں گے اور عورتوں اور بچوں کو چھڑانے میں جن کافروں نے ہجرت سے روک رکھا ہے ان کو اذیت پہنچاتے ہیں، ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میں اور میری والدہ بھی ان ہی میں تھے، جہاد نہیں کرتے جو دعاء کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تو ہم کو اس بستی سے یعنی مکہ سے کہ جس کے باشندوں نے کفر کرکے ظلم کیا ہے اور اپنے پاس سے ہمارا کوئی والی مقرر فرما جو ہمارے معاملات کی تولیت کرے اور ہمارے لئے اپنے پاس سے مددگار متعین فرما کہ ہم کو ان سے بچائے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء قبول فرمائی کہ ان کے لئے ( مکہ) سے نکلنا آسان فرمادیا، اور کچھ لوگ فتح مکہ میں رہ گئے، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا متولی عَتّاب بن اَسِیْد کو بنادیا جس نے مظلوموں سے انصاف دلایا، جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں سو وہ شیطان کے راستہ میں قتال کرتے ہیں لہٰذا تم شیطان کے دوستوں سے جہاد کرو یعنی شیطان کے دین کے مدگاروں سے جہاد کرو خدادادقوت کی وجہ سے تم ہی غالب رہو گے، یقین مانو مومنین کے ساتھ شیطان کا مکر نہایت بودا (کمزور) ہے کافروں کے ساتھ اللہ کی تدبیر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : حِذْر، حاء کے کسرہ اور ذال کے سکون اور دونوں کے فتحہ کے ساتھ، احتیاط، بیدارمغزی، خطرناک چیز سے احتراز یقال اَخَذَ حذرہ \& اذا تیقظ واحترزمن المخوف، اس میں استعارہ بالکنایہ ہے، حذر کو سلاخ کے ساتھ دل ہی دل میں تشبیہ دی ہے مشبہ مذکورہ اور مشبہ بہ محذوف (فارسی ترجمہ) اے مسلمانان بگیرید سلاح خود پس بیروں یعنی بقتال دشمنان گروہ درگر وہ در جہات مختلف، یاسر کنید برائے جہاد جمع شدہ با یکدگر۔
قولہ : ثُبِات جمع ثُبَةٍ ، دس سے زیادہ لوگوں کی جماعت۔
قولہ : یُبَطِئَنّ مضارع واحد مذکر غائب بانوں تاکید ثقیلہ (تفعیل) تَبْطِیْئی، دیر لگانا، سستی کرنا، پیچھے رہنا، مادہ بطوئ .
قولہ : والّلام لِلْقَسَمِ اس سے مراد لَیُبَطِّئَنَّ کالام ہے۔ اور لَمَنْ ، میں لام ابتدائیہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے، وَاِنّ منکم لَمَنْ اقسم باللہ لَیُبَطِئن .
قولہ : فَاَصَابَ ، ای اَصَابنی ما اَصَابَھُمْ.
سوال : لَیَقُولَنّ ، جزائِ شرط ہے، اور قاعدہ ہے کہ جزاء جب فعل مضارع واقع ہو تو اس پر فاء لازم ہوتی ہے حالانکہ یہاں فاء نہیں ہے۔
جواب : لَئِنْ اَصَابَکُمْ ، میں قسم اور شرط دونوں جمع ہیں اور قسم مقدم محذوف ہے، اور قاعدہ ہے کہ قسم اور شرط دونوں جمع ہوجائیں تو آنیوالا جملہ اول کی جزاء ہوتی ہے لہذا الیَقُوْلَنّ جواب قسم ہے نہ کہ جواب شرط۔
قولہ : نَادِماً ، ای نادماً لفواة الغنیمة لا لِطَلَبِ الثو ّاب .
قولہ : وھٰذارَاجِع اِلیٰ قَوْلِہ قَدْ اَنْعَمَ اللہ \& عَلَیَّ الخ یَعْنِی کَاَنْ لَمْ یَکُنْ الخ کا تعلق با عتبار معنی کے سابق جملہ قدانعم اللہ عَلَیَّ سے ہے، تقدیر عبارت ہے، قال قد انعم اللہ عَلَیَّ الخ کان لم یکن الخ پھر اس جملہ کو بطور جملہ معترضہ کے مؤخر کردیا۔
قولہ : لَیَقُوْلَنَّ قول ہے اور یالیتنی کتب معھم الخ مقولہ ہے اور کان لم یکن بینکم وبینہ \& موَدة جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : فَاَفُوْزَ ، جواب تمینی کی وجہ سے منصوب ہے۔
تفسیر وتشریح
یٰایَّھا الذین آمنواخذوا حذر کم (الآیة) ان آیتوں کا مضمون پوری طرح سمجھنے کے لئے ان کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے، غزوہ احد میں مسلمانوں کو ابھی حال ہی میں عارضی شکست ہوئی تھی اس سے قدرة مشرکین کی ٹوٹی ہوئی ہمتیں بڑھ گئی تھیں، آئے دن یہ خبریں آتی رہتی تھی کہ فلاں قبیلہ حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے، فلاں قبیلہ کے تیور بگڑے ہوئے ہیں، فلاں قبیلہ دشمنی پر آمادہ ہے، مسلمانوں کے ساتھ پے درپے غداریاں کی جارہی تھیں مسلمان مبلغین کو فریب سے دعوت دی جاتی تھی اور قتل کردیا جاتا تھا، مدینہ سے باہر مسلمانوں کے جان ومال کی سلامتی باقی نہیں رہی تھی غرضیکہ مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے تھے، ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ایک زبردست سعی وجہد اور سخت جانفشانی کی ضرورت تھی، ایسے حالات میں مسلمانوں کو ثبات و استقامت کا درس دیا جارہا ہے کہ اے ایمان والو مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلویا اکھٹے ہو کر۔
خذعا حذر کم، کا مفہوم بہت وسیع اور جامع ہے، ہر وہ چیز جو دشمن سے دفاع کے کام آسکے اس میں شامل ہے خواہ ہتھیار ہوں یا تدبیر۔ مطلب یہ کہ دشمن کے مقابلہ میں ہر طرح کیل کانٹے سے درست و آمادہ رہو، حِذْرَ کم، ای مافیہ الحذر من السلاح وغیرہ . (راغب)
فائدہ عظیمہ : یایھا الذین آمنو خذوا حذر کم الخ اس آیت کے پہلے حصہ میں جہاد کرنے کے لئے اسلحہ کی فراہمی کا حکم دیا گیا ہے اور دوسرے حصہ میں اقدام علی الجہاد کا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپن مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے کفار دشمنوں سے چوکنے رہو۔ یہ حکم ان تمام اسباب کو شامل ہے جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتے ہیں۔ جن کے ذریعے سے دشمن کی چالوں اور سازشوں کو ناکام بنایا جاتا اور اس کی قوت کو توڑا جاتا ہے۔ مثلاً قلعہ بندیوں اور خندقوں کا استعمال، تیر اندازی اور گھوڑ سواری سیکھنا اور ان تمام صنعتوں کا علم حاصل کرنا جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتا ہے، وہ علوم سیکھنا جن کے ذریعے سے دشمن کے داخلی اور خارجی حالات اور ان کی سازشوں سے باخبر رہا جا سکے اور اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَانفِرُوا ثُبَاتٍ﴾ ” جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو۔“ یعنی متفرق ہو کر جہاد کے لیے نکلو اور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک جماعت یا لشکر جہاد کے لیے نکلے اور دیگر لوگ مقیم رہیں ﴿ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا ﴾ ” یا تمام کے تمام جہاد کے لیے نکلو۔“ یہ سب کچھ مصلحت، دشمن پر غلبہ حاصل کرنے اور دین میں مسلمانوں کی راحت کے تابع ہے۔ اس آیت کریمہ کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ ﴾ (الانفال :8؍60) ” جہاں تک ہو سکے دشمن کے مقابلہ کے لیے فوجی قوت تیار کرو۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! ( dushman say muqablay kay waqt ) apney bachao ka saman sath rakho , phir alag alag daston ki shakal mein ( jihad kay liye ) niklo , ya sabb log ikatthay ho ker nikal jao
12 Tafsir Ibn Kathir
طاقتور اور متحد ہو کر زندہ رہو
اللہ رب العزت مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بچاؤ کے اسباب تیار رکھیں ہر وقت ہتھیار بند رہیں تاکہ دشمن ان پر با آسانی کامیاب نہ ہوجائے۔ ضرورت کے ہتھیار تیار رکھیں اپنی تعداد بڑھاتے رہیں قوت مضبوط کرتے رہیں منظم مردانہ وار جہاد کے لئے بیک آواز اٹھ کھڑے ہوں چھوٹے چھوٹے لشکروں میں بٹ کر یا متحدہ فوج کی صورت میں جیسا موقعہ ہو آواز سنتے ہی ہوشیار رہیں کہ منافقین کی خصلت ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے جی چرائیں اور دوسروں کو بھی بزدل بنائیں، جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول سردار منافقین کا فعل تھا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے اس کا کردار یہ تھا کہ اگر حکمت الہیہ سے مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی نہ ہوتی دشمن ان پر چھا جاتا انہیں نقصان پہنچاتا ان کے آدمی شہید ہوتے تو یہ گھر بیٹھا خوشیاں مناتا اور اپنی دانائی پر اکڑتا اور اپنا اس جہاد میں شریک نہ ہونا اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیتا لیکن بیخبر یہ نہیں سمجھتا کہ جو اجر وثواب ان مجاہدین کو ملا اس سب سے یہ بدنصیب یک لخت محروم رہا اگر یہ بھی ان میں شامل ہو یا تو غازی کا درجہ پاتا اپنے صبر کے ثواب سمیٹتا یا شہادت کے بلند مرتبے تک پہنچ جاتا، اور اگر مسلمان مجاہدین کا اللہ کا فضل معاون ہوتا یعنی یہ دشمنوں پر غالب آجاتے ان کی فتح ہوتی دشمنوں کو انہوں نے پامال کیا اور مال غنیمت لونڈی غلام لے کر خیر عافیت ظفر اور نصرت کے ساتھ لوٹتے تو یہ انگاروں پر لوٹتا اور ایسے لمبے لمبے سانس لے کر ہائے وائے کرتا ہے اور اس طرح پچھتاتا ہے اور ایسے کلمات زبان سے نکالتا ہے گویا یہ دین تمہارا نہیں بلکہ اس کا دین ہے اور کہتا افسوس میں ان کے ساتھ نہ ہوا ورنہ مجھے بھی حصہ ملتا اور میں بھی لونڈی، غلام، مال، متاع والا بن جاتا الغرض دنیا پر ریجھا ہوا اور اسی پر مٹا ہوا ہے۔ پس اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے والے مومنوں کو چاہیے کہ ان سے جہاد کریں جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر رہے ہیں اپنے کفر اور عدم ایمان کے باعث اپنی آخرت کو برباد کر کے دنیا بناتے ہیں۔ سنو ! اللہ کی راہ کا مجاہد کبھی نقصان نہیں اٹھاتا اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں قتل کیا گیا تو اجر موجود غالب رہا تو ثواب حاضر۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اللہ کی راہ کے مجاہد کا ضامن خود اللہ عزوجل ہے یا تو اس فوت کر کے جنت میں پہنچائے گا جس جگہ سے وہ چلا ہے وہیں اجر و غنیمت کے ساتھ صیح سالم واپس لائے گا فالحمد اللہ۔