اور اگر تمہیں اللہ کی جانب سے کوئی نعمت نصیب ہو جائے تو (پھر) یہی (منافق افسوس کرتے ہوئے) ضرور (یوں) کہے گا گویا تمہارے اور اس کے درمیان کچھ دوستی ہی نہ تھی کہ اے کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا،
English Sahih:
But if bounty comes to you from Allah, he will surely say, as if [i.e., showing that] there had never been between you and him any affection, "Oh, I wish I had been with them so I could have attained a great attainment."
1 Abul A'ala Maududi
اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر تمہیں اللہ کا فضل ملے تو ضرو ر کہے گویا تم اس میں کوئی دوستی نہ تھی اے کاش میں ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی مراد پاتا،
3 Ahmed Ali
اور اگر الله کی طرف سے تم پر فضل ہو تو اس طرح کہنے لگتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان دوستی کا کوئی تعلق ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی مراد پاتا
4 Ahsanul Bayan
اور اگر تمہیں اللہ تعالٰی کا کوئی فضل (١) مل جائے تو اس طرح کہ گویا تم میں ان میں دوستی تھی ہی نہیں (٢) کہتے ہیں کاش! میں بھی ان کے ہمراہ ہوتا تو بڑی کامیابی کو پہنچتا (٣)۔
٧٣۔١ یعنی جنگ میں فتح و غلبہ اور غنیمت۔ ٧٣۔٢ یعنی گویا وہ تمہارے اہل دین میں سے ہی نہیں بلکہ اجنبی ہیں۔ ٧٣۔٣ یعنی مال غنیمت سے حصہ حاصل کرنا جو اہل دنیا کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر خدا تم پر فضل کرے تو اس طرح سے کہ گویا تم میں اس میں دوستی تھی ہی نہیں (کہ افسوس کرتا اور) کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل کرتا
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کا کوئی فضل مل جائے تو اس طرح کہ گویا تم میں ان میں دوستی تھی ہی نہیں، کہتے ہیں کاش! میں بھی ان کے ہمراه ہوتا تو بڑی کامیابی کو پہنچتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر تم پر اللہ کا فضل و کرم ہو (فتح ہو اور مالِ غنیمت مل جائے) تو کہتا ہے جیسے اس کے اور تمہارے درمیان کبھی محبت اور دوستی تھی ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کرتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر تمہیں خدائی فضل و کرم مل گیا تو اس طرح جیسے تمہارے ان کے درمیان کبھی دوستی ہی نہیں تھی کہنے لگیں گے کہ کاش ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے اور کامیابی کی عظیم منزل پر فائز ہوجاتے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر خدا تم پر فضل کرے تو اس طرح سے کہ گویا تم میں اس میں دوستی تھی ہی نہیں (افسوس کرتا اور) کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل کرتا وَلَئِنَ اَصَابَکم فضل الخ اس آیت میں منافقین کے قلبی اضطراب کا ذکر ہے، یعنی اگر مسلمان کو کوئی مصیبت پیش آجائے منافق کہتے ہیں کہ مجھ پر خدا کا احسان و انعام ہے کہ میں ان کے ساتھ بروقت موجود نہ تھا ورنہ میں بھی مارا جاتا، اور میرا بھی وہی حال ہوتا جو ان کا ہوا، یہ ایک بدترین جذبہ ہے کہ ایک انسان خود کو ایک جماعت کا فرد بھی تسلیم کرے اور اس پر مصیبت پڑے تو اپنی سلامتی پر یوں خوش بھی ہو۔ اور اگر مسلمانوں کو اللہ کا فضل یعنی مال غنیمت حاصل ہو تو حسرت وپشیمانی کا اظہار کرے کہ معلوم ہو کہ مال و دولت ہی سب کچھ ہے اور اسی کی خاطر ربط وتعلق ہے اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں مصیبت سے دامن بچانا اور دولت کے ساتھ ہولینا یہ ہر دور کے منافقوں کی عادت رہی ہے یہ اتنی واضح علامت ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور علامت کی ضرورت ہی نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
ثانی : آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ ﴾ ” گویا کہ تمہارے اور اس کے درمیان کوئی دوستی نہ تھی“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار، مشرکین، منافقین اور اہل ایمان کے مابین محبت اور مودت کو منقطع کردیا، نیز یہ فی الواقع ایسے ہی ہے، اس لیے کہ اہل ایمان کی دو قسمیں ہیں۔ (١) وہ لوگ جو اپنے ایمان میں سچے ہیں، یہ صدق ایمان ان کے لیے کامل تصدیق اور جہاد کا موجب ہوتا ہے۔ (٢) وہ کمزور لوگ جو اسلام میں داخل ہوتے ہیں مگر وہ کمزور ایمان کے مالک ہوتے ہیں جہاد پر نکلنے کے لیے قوت سے محروم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا ۔۔۔﴾ (الحجرات :49؍14) ” عرب دیہاتی کہتے ہیں: ہم ایمان لائے۔ کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے جہاد میں نہ نکلنے والوں کی غرض و غایت اور ان کے مقاصد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کا سب سے بڑا مقصد دنیا اور اس کے چند ٹکڑے ہیں۔ ﴿ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ ﴾ ” پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے“ یعنی اگر تمہیں ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے، اہل ایمان قتل ہوتے ہیں اور بعض حالات میں دشمن ظفریاب ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کچھ حکمت ہوتی ہے ﴿قَالَ ﴾ یعنی جہاد سے جی چرا کر بیٹھ رہنے والا کہتا ہے : ﴿قَدْ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا ﴾” اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہیں تھا“ وہ اپنی ضعف عقل اور ضعف ایمان کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا نعمت ہے حالانکہ یہی تو مصیبت ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ حقیقی نعمت تو اس بڑی نیکی کی توفیق ہے جس کے ذریعے سے ایمان قوی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذاب اور خسران سے محفوظ ہوتا ہے اور اس جہاد میں ثواب اور رب کریم و وہاب کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ رہا جہاد چھوڑ کر بیٹھ رہنا تو اگرچہ پیچھے بیٹھ رہنے والا تھوڑا سا آرام تو کرلیتا ہے مگر اس آرام کے بعد طویل دکھ اور بہت بڑی تکالیف کا سامنا کرناپڑتا ہے اور وہ اس عظیم اجر و ثواب سے بھی محروم ہوجاتا ہے جو مجاہدین کو حاصل ہوتا ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ” اور اگر تمہیں اللہ کا کوئی فضل مل جائے“ یعنی فتح و نصرت اور مال غنیمت ﴿لَيَقُولَنَّ كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾” تو اس طرح ہے کہ گویا تم میں، اس میں دوستی تھی ہی نہیں، (افسوس کرتا اور) کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل کرلیتا۔“ یعنی وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ بھی جہاد میں شریک ہوتا تاکہ وہ بھی مال غنیمت حاصل کرسکتا۔ مال غنیمت کے سوا اس کا کوئی مقصد ہے، نہ اس کے سوا کسی اور چیز میں رغبت ہے۔ اے مسلمانوں کے گروہ ! وہ گویا تم میں سے نہیں ہیں اور نہ ان کے درمیان اور تمہارے درمیان رشتہ ایمان کی مودت و محبت ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مومنین اپنے مفادات و مصالح اور دفع ضرر میں مشترک ہیں۔ وہ اس کے حصول پر خوش ہوتے ہیں خواہ یہ مفاد و مصلحت مومن بھائیوں میں سے کسی کے ذریعے سے حاصل ہوئے ہوں اس سے محرومی پر دکھ محسوس کرتے ہیں اور جس میں ان کے دین اور دنیا کی اصلاح ہو، اس کے حصول کے لیے سب مل کر کوشش کرتے ہیں اور یہ فقط دنیا کی تمنا کرتا ہے اور مذکورہ روح ایمانی سے تہی دست ہوتا ہے۔ یہ بندوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ ان پر اپنی رحمت کا سلسلہ منقطع کرتا ہے، نہ اپنی رحمت کے دروازے ان پر بند کرتا ہے بلکہ اگر کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے جو اس کے حکم کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ اسے اپنے نقصان کی تلافی کرنے اور اپنے نفس کی تکمیل کی دعوت دیتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اخلاص اور اللہ کی راہ میں نکلنے کا حکم دیا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar Allah ki taraf say koi fazal ( yani fatah aur maal-e-ghaneemat ) tumharay haath aaye to woh kahey ga goya tumharay aur uss kay darmiyan kabhi koi dosti to thi hi nahi kay kaash mein bhi inn logon kay sath hota to boht kuch meray bhi haath lagg jata !