(اے موت کے ڈر سے جہاد سے گریز کرنے والو!) تم جہاں کہیں (بھی) ہوگے موت تمہیں (وہیں) آپکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں (ہی) ہو، اور (ان کی ذہنیت یہ ہے کہ) اگر انہیں کوئی بھلائی (فائدہ) پہنچے توکہتے ہیں کہ یہ (تو) اللہ کی طرف سے ہے (اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت اور واسطے کا کوئی دخل نہیں)، اور اگر انہیں کوئی برائی (نقصان) پہنچے تو کہتے ہیں: (اے رسول!) یہ آپ کی طرف سے (یعنی آپ کی وجہ سے) ہے۔ آپ فرما دیں: (حقیقۃً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے،
English Sahih:
Wherever you may be, death will overtake you, even if you should be within towers of lofty construction. But if good comes to them, they say, "This is from Allah"; and if evil befalls them, they say, "This is from you." Say, "All [things] are from Allah." So what is [the matter] with those people that they can hardly understand any statement?
1 Abul A'ala Maududi
رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی
2 Ahmed Raza Khan
تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آلے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو اور اُنہیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہیں یہ حضور کی طرف آئی تم فرمادو سب اللہ کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے،
3 Ahmed Ali
تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں آ ہی پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو اور اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ الله کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی
4 Ahsanul Bayan
تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ کر پکڑے گی گو تم مضبوط قلعوں میں ہو (١) اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے (٢) انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں (٣)
٧٨۔١ ایسے کمزور مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ دنیا فانی ہے اور اس کا فائدہ عارضی ہے جس کے لئے تم کچھ مہلت طلب کر رہے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے جس کے اطاعت الٰہی کے صلے میں تم سزاوار ہوگے۔ دوسرے یہ جہاد کرو یا نہ کرو، موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ؟ مضبوط برجوں سے مراد مضبوط اور بلند و بالا فصیلوں والے قلعے ہیں۔ ٧٨۔٢ یہاں سے پھر منافقین کی باتوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ سابقہ امت کے منکرین کی طرح انہوں نے بھی کہا کہ بھلائی (خوش حالی، غلے کی پیداوار، مال اولاد کی فروانی وغیرہ) اللہ کی طرف سے ہے اور برائی (قحط سالی، مال و دولت میں کمی وغیرہ) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیری طرف سے ہے یعنی تیرے دین اختیار کرنے کے نتیجے میں آئی ہے۔ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قوم فرعون کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ' جب انہیں بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے ہے، یعنی ہم اس کے مستحق ہیں اور جب کوئی برائی پہنچتی ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں سے بدشگوفی پکڑتے ہیں یعنی نعوز باللہ ان کی نحوست کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ (الاعراف۔١٣١) ٧٨۔٣ یعنی بھلائی اور برائی دونوں اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہ لوگ قلت فہم و علم اور کثرت جہل اور ظلم کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے جہاد سے ڈرنے والو) تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہے گی خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے تو (اے محمدﷺ تم سے) کہتے ہیں کہ یہ گزند آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچا) ہے کہہ دو کہ (رنج وراحت) سب الله ہی کی طرف سے ہے ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے
6 Muhammad Junagarhi
تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو، اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے۔ انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
تم جہاں کہیں بھی ہوگے، موت تمہیں آئے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ ہو اور جب انہیں بھلائی پہنچتی ہے۔ تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جب کوئی برائی اور تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کی وجہ سے ہے۔ کہہ دیجیے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھتے ہی نہیں ہیں؟ ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پالے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہوجاؤ- ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اچھے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف سے ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ سب خدا کی طرف سے ہے پھر آخر اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھتی ہی نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے جہاد سے ڈرنے والو ! ) تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہیں گی خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو اور اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو (اے محمد تم سے) کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے تو (اے محمد تم سے) کہتے ہیں کہ یہ (گزند) آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچا) ہے کہہ دو کہ (رنج و راحت) سب اللہ ہی کی طرف سے ہے ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ؟ اَیْنَ ما تکونوایُدْرِکْکم الموتُ ، مذکورہ ضعیف الایمان لوگوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ دنیا اور اس کا آرام و راحت فانی اور عارضی ہے جس کے لئے تم مہلت طلب کررہے ہو، اس کے مقابلہ میں آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے جس کے اطاعت الہٰی کے صلہ میں تم سزا وار ہوگے، دوسرے یہ کہ جہاد کرویا نہ کرو موت تو اپنے وقت پر آکر ہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بندہو کر ہی کیوں نہ بیٹھ جاؤ، پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ بچاؤ کی تدبیر تقدیر کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آسکتی اور گھر میں بیٹھ رہنے والے کا بیٹھنا، اللہ کی تقدیر کو ہٹا نہیں سکتا۔ ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ﴾ ” تم جہاں کہیں بھی رہو موت تمہیں آ پکڑے گی“ یعنی تم کسی زمانے میں اور کسی بھی جگہ پر ہو ﴿وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ﴾ ” خواہ تم مضبوط قلعوں اور اونچے محلوں میں ہی پناہ کیوں نہ لے لو (موت تمہیں پا لے گی۔ “ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کی ترغیب کے لیے ہے اللہ تعالیٰ کبھی تو جہاد کی فضیلت اور اس کا ثواب بیان کر کے اس کی ترغیب دیتا ہے اور کبھی جہاد کو ترک کرنے کی سزا سے ڈرا کر جہاد پر آمادہ کرتا ہے۔ کبھی اس بارے میں آگاہ کر کے جہاد کے لیے ابھارتا ہے کہ جہاد سے جی چرا کر گھروں میں بیٹھ رہنے والوں کا بیٹھنا کسی کام نہیں آتا اور کبھی کبھی اللہ تعالیٰ جہاد کے راستے کو ان کے لیے آسان کردیتا ہے۔ ﴿وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ﴾ ” اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے“ اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو علم نہیں رکھتے، انبیاء و رسل کی تعلیمات سے روگردانی اور ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ جب انہیں کوئی بھلائی مثلاً شادابی، کثرت مال، کثرت اولاد اور صحت وغیرہ حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں ﴿هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ﴾ ” یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔“ جب انہیں کسی تکلیف مثلاً قحط، فقر و فاقہ، احباب و اولاد کی موت اور مرض وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے تو پکار اٹھتے ہیں ﴿هَـٰذِهِ مِنْ عِندِكَ﴾ ” یہ (تکلیف) آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچی) ہے۔“ یعنی اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمام مصیبت اس کے سبب سے آن پڑی ہے جو آپ لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے بدشگونی لی، جیسا کہ ان سے پہلے کفار اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے براشگون لیتے رہے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی قوم کے بارے میں خبر دی ہے : ﴿فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ) (الاعراف :7؍131) ” جب ان کو کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو موسیٰ اور ان کے اصحاب کی بدشگونی قرار دیتے ہیں“ اور جیسا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے کہا : ﴿اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ﴾ (النمل:27؍47) ” تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لیے بدشگونی کا باعث ہیں“ اور جیسے سورۃ یٰسین میں مذکور قوم نے اپنے رسولوں سے کہا : ﴿إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ ﴾ (یٰسین :36؍18) ” ہم تمہیں بدشگون سمجھتے ہیں اگر تم باز نہیں آؤ گے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ “ چونکہ کفر کی وجہ سے ان کے دل باہم مشابہ ہیں اس لیے ان کے اقوال و افعال میں بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو برائی کے حصول اور بھلائی کے زوال کو انبیائے کرام کی تعلیمات یا بعض تعلیمات سے منسوب کرتے ہیں وہ اس مذمت میں داخل ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے : ﴿ ﴿قُلْ كُلٌّ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ سب“ یعنی نیکی اور برائی خیر اور شر ﴿مِّنْ عِندِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ ہی کی طرف سے ہے۔“ ” یعنی سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے اور اسی کی تخلیق ہے۔ ﴿فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ﴾” انہیں کیا ہوگیا ہے؟“ یعنی جن لوگوں سے یہ باطل قول صادر ہوا ہے۔ ﴿ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ ” کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔“ یعنی یہ لوگ بات کو بالکل ہی نہیں سمجھ پاتے اور نہ یہ لوگ سمجھنے کے قریب جاتے ہیں یا یہ لوگ بات کو بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔ مذکورہ تمام معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ ان کے عدم فہم اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں عدم تفقہ پر زجر و توبیخ ہے اور اس کا سبب ان کا کفر اور روگردانی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ضمناً ان لوگوں کی مدح کا پہلو نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ ٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا فہم رکھتے ہیں، نیز اس میں فہم اور اس کے اسباب کے حصول کی ترغیب ہے۔ یہ فہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے کلام میں تدبر و تفکر اور اس منزل تک پہنچانے والے راستوں پر گامزن ہونے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھا ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ نیکی اور برائی اور خیر و شر سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے کوئی چیز باہر نہیں، نیز انبیاء و رسل اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کبھی شر کا باعث نہیں ہوتیں کیونکہ وہ تو دین و دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے مبعوث کئے جاتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
tum jahan bhi hogay ( aik naa aik din ) moat tumhen ja-pakray gi , chahye tum mazboot qalon mein kiyon naa reh rahey ho . aur agar inn ( munafiqon ) ko koi bhalai phonchti hai to woh kehtay hain kay yeh Allah ki taraf say hai , aur agar inn ko koi bura waqiaa paish aajata hai to ( aey payghumber ! ) woh ( tum say ) kehtay hain kay yeh bura waqiaa aap ki wajeh say huwa hai . keh do kay her waqiaa Allah ki taraf say hota hai . inn logon ko kiya hogaya hai kay yeh koi baat samajhney kay nazdeek tak nahi aatay-?