اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم (ایک مسلمان کو کافر کہہ کر مارنے کے بعد مالِ غنیمت کی صورت میں) دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو (یقین کرو) اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے،
English Sahih:
O you who have believed, when you go forth [to fight] in the cause of Allah, investigate; and do not say to one who gives you [a greeting of] peace, "You are not a believer," aspiring for the goods of worldly life; for with Allah are many acquisitions. You [yourselves] were like that before; then Allah conferred His favor [i.e., guidance] upon you, so investigate. Indeed Allah is ever, of what you do, Aware.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایما ن لائے ہو، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرو اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اُسے فوراً نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں آخر اسی حالت میں تم خود بھی تو اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تحقیق سے کام لو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! جب تم جہاد کو چلو تو تحقیق کرلو اور جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں تم جیتی دنیا کا اسباب چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہتری غنیمتیں ہیں پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا تو تم پر تحقیق کرنا لازم ہے بیشک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! جب الله کی راہ میں سفر کرو تو تحقیق کر لیا کرو او جو تم پر سلام کہے اس کو مت کہو کہ مسلمان نہیں ہے تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو سو الله کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں تم بھی تو اس سے پہلے ایسے ہی تھے پھر الله نے تم پر احسان کیا لہذا تحقیق سے کام لیا کرو بے شک الله تمہارے کاموں سے باخبر ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں (١) تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالٰی کے پاس بہت سی غنیمتیں (۲) ہیں پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ تعالٰی نے تم پر احسان کیا لہذا تم ضرور تحقیق اور تفتیش کر لیا کرو، بیشک اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
٩٤۔١ احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کسی علاقے سے گزر رہے تھے جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، مسلمان کو دیکھ کر چروا ہے نے سلام کیا۔ بعض صحابہ نے سمجھا کہ شاید وہ جان بچانے کے لئے اپنے کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بغیر تحقیق کئے اسے قتل کر ڈالا اور بکریاں (بطور مال غنیمت) لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی، بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مکہ میں پہلے تم بھی چرواہے کی طرح ایمان چھپانے پر مجبور تھے، مطلب یہ تھا کہ قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ٩٤۔۲ یعنی تمہیں چند بکریاں اس مقتول سے حاصل ہوگیئں، یہ کچھ بھی نہیں، اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر نعمتیں ہیں جو اللہ رسول کی اطاعت کی وجہ سے تمہیں دنیا میں مل سکتی ہیں اور آخرت میں تو ان کا ملنا یقینی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلو کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے نزدیک بہت سے غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راه میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تو اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان واﻻ نہیں۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہٰذا تم ضرور تحقیق وتفتیش کر لیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! جب خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو پہلے خوب تحقیق کر لیا کرو۔ اور جو تمہیں سلام کرے تم اسے نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے۔ تم دنیاوی زندگی کا سازوسامان حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بڑی غنیمتیں ہیں۔ اس سے پہلے تم خود ایسے (کافر) ہی تھے۔ پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (کہ تم مسلمان ہوگئے) پس خوب تحقیق کر لیا کرو۔ یقینا اللہ اس سے باخبر ہے۔ جو کچھ تم کرتے ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو جب تم راسِ خدا میں جہاد کے لئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں- آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی کافر تھے- خدا نے تم پر احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قبول کرلیا(اور دل چیرنے کی شرط نہیں لگائی) تو اب تم بھی اقدام سے پہلے تحقیق کرو کہ خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے شان نزول : یایّھا الذین آمنوا اِذَاضَرَبْتم فی سبِیْل اللہ فَتَبَیَّنُوْا (الآیة) اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم سے سلام کرے تم اسے یہ نہ کہ دو کہ وہ تو ایمان والا نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت کسی علاقہ سے گذری جہاں ایک چرواہا بکریاں چرارہا تھا مسلمانوں کو دیکھ کر چرواہے نے سلام کیا بعض صحابہ نے سمجھا شاید یہ جان بچانے کیلئے خود کو مسلمان ظاہر کرنے کے لئے سلام کررہا ہے، چناچہ انہوں نے اسے بغیر تحقیق کے قتل کر ڈالا، اور بکریاں لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے جس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، ترمذی) روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں تم بھی اس چرواہے کی طرح ایمان چھپانے کے پر مجبور تھے، مطلب یہ کہ اس کے قتل کا کوئی جواز نہیں تھا، تمہیں چند بکریاں اس مقتول سے حاصل ہوگئیں یہ کچھ بھی نہیں اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر غنیمتیں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے دنیا میں بھی مل سکتی ہیں اور آخرت میں ان کا ملنا تو یقینی ہے۔ عبرتناک واقعہ : ابن جریر کے حوالہ سے اسی نوعیت کا ایک واقعہ حضرت ابن عمر (رض) سے منقول ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگی ضرورت سے صحابہ کی ایک جماعت روانہ فرمائی ان میں ایک شخص محلم بن جثامہ بھی تھا ان لوگوں کی راستہ میں ایک شخص عامر بن اضبط سے ملاقات ہوگئی، عامر نے باقاعدہ اسلامی طریقہ سے ان لوگوں کو سلام کیا یعنی اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا، لیکن محلم اور عامر کے درمیان زمانہ جاہلیت سے کچھ کدورت چلی آرہی تھی محلم نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عامر کو قتل کردیا، ابھی عامر کا اسلام مشہور نہ ہوا تھا، واپسی پر محلم نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معافی کی درخواست کی لیکن نہایت سختی سے رد کردی گئی ابھی ایک ساعت بھی نہ گذری تھی کہ محلم نے وفات پائی، محلم دفن کردیا گیا لیکن فوراً ہی لاش قبر سے باہر آگئی حاضرین گھبرائے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا \&\& زمین اگرچہ اس سے بھی زیادہ برے لوگوں کو قبول کرسکتی ہے مگر اللہ تمہیں ایسی حرکتوں پر تنبیہ فرماتا ہے آخر کارلاش پہاڑ پر ڈالدی گئی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جہاد پر نکلیں تو تمام مشتبہ امور میں اچھی طرح تحقیق کرلیا کریں اور جلدی نہ کیا کریں۔ کیونکہ تمام معاملات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ واضح اور غیر واضح۔ جو امور واضح ہوتے ہیں ان میں تحقیق اور جانچ پڑتال کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ چیز تحصیل حاصل کے زمرے میں آتی ہے۔ رہے مشکل اور غیر واضح امور تو انسان ان میں جانچ پڑتال اور تحقیق کا محتاج ہوتا ہے کہ آیا وہ اس میں اقدام کرے یا نہ کرے؟ کیونکہ ان امور میں تحقیق اور جانچ پڑتال سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی برائیوں کا سدباب ہوجاتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بندے کے دین، عقل اور وقار کے بارے میں معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جو معاملات کی ابتدا ہی میں ان کی جانچ پڑتال سے پہلے فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام لیتا ہے۔ اسے اس عجلت سے ایسے نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے جو نہایت غیر مناسب ہوں، جیسا کہ ان مسلمانوں کے ساتھ ہوا جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ جنہوں نے بغیر کسی تحقیق اور جانچ پڑتال کے ایک ایسے شخص کو قتل کردیا جس نے ان کو سلام کیا تھا۔ اس کے پاس کچھ بکریاں یا کوئی اور مال تھا اس کا خیال تھا کہ اس طرح (سلام کرنے سے) قتل ہونے بچ جائے گا اور ان کا یہ فعل (قتل) درحقیقت خطا تھا، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا۔ ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّـهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ ﴾ ” جو تمہیں سلام کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں“ یعنی فانی دنیا کا یہ قلیل اور فانی مال و متاع تمہیں کسی ایسے کام کے ارتکاب پر آمادہ نہ کرے جو مناسب نہ ہو اور اس کے نتیجے میں تم اس بے پایاں ثواب سے محروم ہوجاؤ جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ پس جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ جب وہ دیکھے کہ اس کے نفس کے داعیے کسی ایسے حال کی طرف مائل ہیں جس میں خواہشات نفس کا شائبہ ہے اور یہ اس کے لیے ضرر رساں ہیں تو وہ اس ثواب اور نعمتوں کو یاد کرے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں جنہوں نے خواہشات نفس کو روکا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنے نفس کی خواہش پر مقدم رکھا کیونکہ اس میں نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی ترغیب ہے خواہ اس میں اس کے لیے مشقت ہی کیوں نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اسلام سے قبل ان کی حالت یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿كَذٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ ﴾ ” پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہیں تمہاری گمراہی کے بعد ہدایت سے نوازا ہے۔ اسی طرح وہ دوسروں کو بھی راہ ہدایت دکھاتا ہے اور جس طرح تمہیں بتدریج آہستہ آہستہ ہدایت حاصل ہوئی ہے اسی طرح تمہارے علاوہ بھی آہستہ آہستہ راہ ہدایت پر گامزن ہوجائیں گے۔ پس کامل شخص کا اپنے پہلے اور ناقص حال پر نظر رکھنا اور اس ناقص شخص کے ساتھ، جس کی مانند کبھی وہ بھی ناقص تھا، اس کے مقتضائے حال کے مطابق معاملہ کرنا اور اس کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بھلائی کی طرف دعوت دینا اس کے لیے فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے تحقیق حال کے حکم کا ان الفاظ میں اعادہ کیا ﴿فَتَبَیَّنُوْا﴾” تحقیق کرلیا کرو۔“ یعنی خوب تحقیق کرلیا کرو۔ جب کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف قسم کی تیاری کرتا ہے، تو وہ اس بات پر مامور ہے کہ جو کوئی اس کو سلام کرے، اس کی تحقیق کرلے حالانکہ بہت ہی قوی قرینہ موجود تھا کہ اس نے جان کے خوف سے اور جان بچانے کے لیے سلام کیا ہو۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان تمام احوال کے بارے میں، جن میں کسی قسم کا اشتباہ واقع ہوگیا ہو تحقیق اور جانچ پڑتال کی جائے۔ پس بندہ حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کرے حتیٰ کہ اس کے سامنے معاملہ واضح ہوجائے اور رشد و صواب متحقق ہو کر سامنے آجائے۔ فرمایا : ﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴾” اور جو عمل تم کرتے ہو، اللہ کو سب کی خبر ہے۔“ اللہ اپنے بندوں کے احوال اور ان کی نیتوں کو جانتا ہے اس لیے وہ ہر ایک کو اس کے عمل اور نیت کے مطابق جزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jab tum Allah kay raastay mein safar kero to tehqeeq say kaam liya kero , aur jo shaks tum ko salam keray to dunyawi zindagi ka saman hasil kernay ki khuwaish mein uss ko yeh naa kaho kay tum momin nahi ho kiyonkay Allah kay paas maal-e-ghaneemat kay baray zakheeray hain . tum bhi to pehlay aesay hi thay . phir Allah ney tum per fazal kiya . lehaza tehqeeq say kaam lo . bey shak jo kuch tum kertay ho Allah uss sabb say poori tarah ba-khabar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل ناقابل معافی جرم ہے ترمذوی وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ بنو سلیم کا ایک شخص بکریاں چراتا ہوا صحابہ کی ایک جمات کے پاس سے گذرا اور سلام کیا تو صحابہ آپس میں کہنے لگے یہ مسلمان تو ہے نہیں صرف اپنی جان بچانے کے لئے سلام کرتا ہے چناچہ اسے قتل کردیا اور بکریاں لے کر چلے آئے، اس پر یہ آیت اتری، یہ حدیث تو صحیح ہے لیکن بعض نے اس میں علتیں نکالی ہیں کہ سماک راوی کے سوائے اس طریقے کا اور کوئی مخرج ہی اس کا نہیں، اور یہ کہ عکرمہ سے اس کے روایت کرنے کے بھی قائل ہے، اور یہ کہ اس آیت کے شان نزول میں اور واقعات بھی مروی ہیں، بعض کہتے ہیں محکم بن جثامہ کے بارے میں اتری ہے بعض کہتے ہیں اسامہ بن زید کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں، لیکن میرے خیال میں یہ سب ناقابل تسلیم ہے سماک سے اسے بہت سے ائمہ کبار نے روایت کیا ہے، عکرمہ سے صحیح دلیل لی گئی ہے، یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت ابن عباس سے صحیح بخاری میں مروی ہے، سعید بن منصور میں یہی مروی ہے، ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص کو اس کے والد اور اس کی قوم نے اپنے اسلام کی خبر پہنچانے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا، راستے میں اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھیجے ہوئے ایک لشکر سے رات کے وقت ملاقات ہوئی اس نے ان سے کہا کہ میں مسلمان ہوں لیکن انہیں یقین نہ آیا اور اسے دشمن سمجھ کر قتل کر ڈالا ان کے والد کو جب یہ علم ہوا تو یہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا چناچہ آپ نے انہیں ایک ہزار دینار دئیے اور دیت دی اور انہیں عزت کے ساتھ رخصت کیا، اس پر یہ آیت اتری، محکم بن جثامہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ایک چھوٹا سا لشکر اخسم کی طرف بھیجا جب یہ لشکر بطل اخسم میں پہنچا تو عامر بن اضبط اشجعی اپنی سواری پر سوار مع اسباب کے آرہے تھے پاس پہنچ کر سلام کیا سب تو رک گئے لیکن محکم بن جثامہ نے آپس کی پرانی عداوت کی بنا پر اس پر جھپٹ کر حملہ کردیا، انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا اسباب قبضہ میں کرلیا پھر ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے اور آپ یہ واقعہ بیان کیا اس پر یہ آیت اتری۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عامر نے اسلامی طریقہ کے مطابق سلام کیا تھا لیکن جاہلیت کی پہلی عداوت کے باعث محکم نے اسے تیر مار کر مار ڈالا یہ خبر پا کر عامر کے لوگوں سے محکم بن جثامہ نے مصالحانہ گفتگو کی لیکن عینیہ نے کہا نہیں نہیں اللہ کی قسم جب تک اس کی عورتوں پر بھی وہی مصیبت نہ آئے جو میری عورتوں پر آئی۔ چناچہ محکم اپنی دونوں چادریں اوڑھے ہوئے آئے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھ گئے اس امید پر کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لئے استغفار کریں لیکن آپ نے فرمایا اللہ تجھے معاف نہ کرے یہ یہاں سے سخت نادم شرمسار روتے ہوئے اٹھے اپنی چادروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے سات روز بھی نہ گذرنے پائے تھے انتقال کر گئے۔ لوگوں نے انہیں دفن کیا لیکن زمین نے ان کی نعش اگل دی، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی سے نہایت بدتر لوگوں کو زمین سنبھال لیتی ہے لیکن اللہ کا ارادہ ہے کہ وہ تمہیں مسلمان کی حرمت دکھائے چناچہ ان کے لاشے کو پہاڑ پر ڈال دیا گیا اور اوپر سے پتھر رکھ دئے گئے اور یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقداد سے فرمایا جبکہ انہوں نے قوم کفار کے ساتھ جو مسلمان مخفی ایمان والا تھا اسے قتل کردیا تھا باوجودیکہ اس نے اپنے سلام کا اظہار کردیا تھا کہ تم بھی مکہ میں اسی طرح ایمان چھپائے ہوئے تھے۔ بزار میں یہ واقعہ پورا اس طرح مرودی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا جس میں حضرت مقداد بھی تھے جب دشمنوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ سب تو ادھر ادھر ہوگئے ہیں ایک شخص مالدار وہاں رہ گیا ہے اس نے انہیں دیکھتے ہی اشھد ان لا اللہ الا اللّٰہ کہا۔ تاہم انہوں نے حملہ کردیا اور اسے قتل کر ڈالا، ایک شخص جس نے یہ واقعہ دیکھا تھا وہ سخت برہم ہوا اور کہنے لگا مقداد نے اسے قتل کر ڈالا جس نے کلمہ پڑھا تھا ؟ میں اس کا ذکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کروں گا، جب یہ لشکر واپس پہنچا تو اس شخص نے یہ واقعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا آپ نے حضرت مقداد کو بلوایا اور فرمایا تم نے یہ کیا کیا ؟ کل قیات کے دن تم لا الٰہ الا اللّٰہ کے سامنے کیا جواب دو گے ؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور آپ نے فرمایا کہ اے مقداد وہ شخص مسلمان تھا جس طرح تو مکہ میں اپنے ایمان کو مخفی رکھتا تھا پھر تو نے اس کے اسلام ظاہر کرنے کے باوجود اسے مارا ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس غنیمت کے لالچ میں تم غفلت برتتے ہو اور سلام کرنے والوں کے ایمان میں شک وشبہ کرکے انہیں قتل کر ڈالتے ہو یاد رکھو وہ غنیمت اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس بہت سے غنیمتیں ہیں جو وہ تمہیں حلال ذرائع سے دے گا اور وہ تمہارے لئے اس مال سے بہت بہتر ہوں گے۔ تم بھی اپنا وہ وقت یاد کرو کہ تم بھی ایسے ہی لاچار تھے اپنے ضعف اور اپنی کمزوری کی وجہ سے ایمان ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے قوم میں چھپے لگے پھرتے تھے آج اللہ خالق کل نے تم پر احسان کیا تمہیں قوت دی اور تم کھلے بندوں اپنے اسلام کا اظہار کر رہے ہو، تو جو بےاسباب اب تک دشمنوں کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایمان کا اعلان کھلے طور پر نہیں کرسکے جب وہ اپنا ایمان ظاہر کریں تمہیں تسلیم کرلینا چاہئے اور آیت میں ہے (وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) 8 ۔ الانفال :26) یاد کرو جبکہ تم کم تھے کمزور تھے۔ الغرض ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ بکری کا چرواہا اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا اسی طرح اس سے پہلے جبکہ بےسرو سامانی اور قلت کی حالت میں تم مشرکوں کے درمیان تھے ایمان چھپائے پھرتے تھے، یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم بھی پہلے اسلام والے نہ تھے اللہ نے تم پر احسان کیا اور تمہیں اسلام نصیب فرمایا، حضرت اسامہ نے قسم کھائی تھی کہ اس کے بعد بھی کسی لا الہ الا اللّٰہ کہنے والے کو قتل نہ کروں گا کیونکہ انہیں بھی اس بارے میں پوری سرزنش ہوئی تھی۔ پھر تاکیداً دوبارہ فرمایا کہ بخوبی تحقیق کرلیا کرو، پھر دھمکی دی جاتی ہے کہ اللہ جل شانہ کو اپنے اعمال سے غافل نہ سمجھو، جو تم کر رہے، وہ سب کی پوری طرح خبر رکھتا ہے۔