النساء آية ۹۷
اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰٮهُمُ الْمَلٰۤٮِٕكَةُ ظَالِمِىْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْۗ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِىْ الْاَرْضِۗ قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَاۗ فَاُولٰۤٮِٕكَ مَأْوٰٮهُمْ جَهَـنَّمُۗ وَسَاۤءَتْ مَصِيْرًا ۙ
طاہر القادری:
بیشک جن لوگوں کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (اسلام دشمن ماحول میں رہ کر) اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں (تو) وہ ان سے دریافت کرتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے (تم نے اِقامتِ دین کی جد و جہد کی نہ سرزمینِ کُفر کو چھوڑا)؟ وہ (معذرۃً) کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور و بے بس تھے، فرشتے (جواباً) کہتے ہیں: کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں (کہیں) ہجرت کر جاتے، سو یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے،
English Sahih:
Indeed, those whom the angels take [in death] while wronging themselves – [the angels] will say, "In what [condition] were you?" They will say, "We were oppressed in the land." They [the angels] will say, "Was not the earth of Allah spacious [enough] for you to emigrate therein?" For those, their refuge is Hell – and evil it is as a destination.
1 Abul A'ala Maududi
جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے
2 Ahmed Raza Khan
وہ لوگ جنکی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے انسے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اسمیں ہجرت کرتے، تو ایسوں کا ٹھکانا جہنم ہے، اور بہت بری جگہ پلٹنے کی
3 Ahmed Ali
بے شک جو لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں توان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے انہوں نے جواب دیا ہم اس ملک میں بے بس تھے فرتشوں نے کہا کیا الله کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتےسو ایسوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہے
4 Ahsanul Bayan
جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ (١) یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے (٢) فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالٰی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔
٩٧۔١ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمانوں کو دیا جا چکا تھا اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم بتلایا گیا جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔
٩٧۔٢ یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب و جوار ہے اور آگے ارض اللہ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز وناتواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے
6 Muhammad Junagarhi
جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک وہ لوگ جو اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔ جب فرشتوں نے ان کی روحوں کو قبض کیا، تو ان سے کہا تم کس حال میں تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں کمزور و بے بس تھے۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بُری جائے بازگشت ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جن لوگوں کو ملائکہ نے اس حال میں اٹھایا کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے- انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں کمزور بنادئے گئے تھے. ملائکہ نے کہا کہ کیا زمین هخدا وسیع نہیں تھی کہ تم ہجرت کرجاتے- ان لوگوں کا ٹھکاناجہّنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے
آیت نمبر ٩٧ تا ١٠٠
ترجمہ : (آئندہ آیت) ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جس نے اسلام قبول کیا مگر ہجرت نہیں کی، اور کفار کے ساتھ بدر میں قتل کردیئے گئے، بیشک ان لوگوں کی روح جنہوں نے کفار کے ساتھ قیام کرکے اور ترک ہجرت کرکے اپنے اوپر ظلم کیا فرشتہ جب (روح) قبض کرتا ہے تو ان سے تو بیخاً پوچھتا ہے تم اپنے دین کے معاملہ میں کس حال میں تھے ؟ تو وہ عذر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم دین کے قائم کرنے کے معاملہ میں مکہ کی سر زمین میں ہم کمزور تھے تو (فرشتے) ان سے تو بیخاً کہیں گے کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی ؟ کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے یعنی کافروں کی سر زمین سے دوسرے شہر کی طرف ہجرت کر جاتے جیسا کہ دوسروں نے کی اللہ تعالیٰ فرمائیگا، یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے سوائے ان لوگوں کے جو مردوں اور عورتوں اور بچوں میں سے کمزور ہوں کہ جو نہ کوئی یدبیر ہی کرسکتے ہوں اور نہ ہجرت کی کوئی صورت ہی پاتے ہوں تو یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ ان کو معاف کردے گا اور اللہ ہے ہی بڑا معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا اور جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا تو وہ زمین میں بہت سی ہجرت گاہیں اور رزق میں وسعت پائیگا، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرتے ہوئے نکلے پھر راستہ میں اسے موت آجائے جیسا کہ جندع بن ضمرہ لیثی کو پیش آیا تھا، تو اس کے لئے اللہ پر اجر ثابت ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بڑا بخشنے والا بڑا مہربان۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : قَالُو الَھُمْ مُؤَبِخِیْنَ.
سوال : مُؤَبِّخِیْنَ کے اضافہ سے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : مُؤَبِّخِیْنَ کے اضافہ کا مقصد سوال و جواب میں مطابقت پیدا کرنا ہے اسلئے کہ اگر مُؤَبِّخِیْنَ محذوف نہ مانیں تو۔
سوال : فِیْمَ کُنْتُمْ ؟ اور۔
جواب : کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ ، میں مطابقت نہیں رہتی، اسلئے کہ سوال ہے تم کس چیز میں تھے اور جواب ہے ہم ضعیف اور عاجز تھے یہ جواب سوال کے مطابق نہیں ہے اور مُؤَبِّخِیْنَ محذوف مان لیں تو دراصل سوال نہ رہا بلکہ ہجرت کے لئے نکلنے پر تو بیخ ہوگی، مطلب یہ ہوا کہ تم ہجرت کیلئے کیوں نہیں نکلے ؟ جواب دیا چونکہ ہم کو ضعف کی وجہ سے ہجرت پر قدرت نہیں اسلئے ہم نے ہجرت نہیں کی۔
قولہ : فی اَیِّ شَی، اس میں اشارہ ہے کہ فِیْمَ ، میں مَا، استفہامیہ ہے نہ کہ موصولہ۔
قولہ : مُرَ اغَما، باب مفاعلہ کا ظرف مکان ہے معنی جائے گریز، مقام ہجرت، مُرَا غَماً ، کی تفسیر مھاجراً سے کرنے کا مقصد تعیین معنی ہے۔
قولہ : جُنْدُع بْن ضَمْرَة، معض مفسرین جندب ابن ضمرہ لکھا ہے۔
تفسیر وتشریح
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوْفّٰھُمُ الملا ئکَةُ ظَالِمی انفسِھِمْ قَالو افِیْمَ کنتُم (الآیة) اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے کہ جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بلا مجبوری کے اپنی کافر قوم میں مکہ ہی میں مقیم رہے۔ درآنحالیکہ ایک دارالاسلام مہیا ہوچکا تھا جس کو افرادی قوت کی سخت ضرورت تھی یہی وجہ تھی کہ ہجرت فرض کردی گئی تھی اور عام اعلان کردیا گیا تھا کہ جہاں بھی کوئی اسلام کا فرزند ہو وہ مدینہ پہنچ جائے، اس کے علاوہ مکہ میں رہ کر نیم اسلامی زندگی گذارنے والوں کے لئے کوئی واقعی اور حقیقی مجبوری نہیں تھی، قالو افیمَ کنتم، یعنی دارلکفر میں رہ کر دین کے کن کاموں میں لگے ہوئے تھے کہ ہجرت کو نہ نکلے ؟ دراصل یہ ہجرت نہ کرنے پر تو بیخ و تعریض ہے۔ (کبیر)
جب اسلامی مرکز کو کافی قوت حاصل ہوگئی اور مخالفین کی قوت کا زور ٹوٹ گیا تو ہجرت بھی واجب نہ رہی، اس کے باوجود جب اور جہاں کہیں ویسے حالات پیدا ہوجائیں تو ہجرت واجب ہوجائے گی \&\& لا ھجرة بعد الفتح \&\& کا یہی مطلب ہے۔
یہاں ایک بات سمجھ لینا ضروری ہے وہ ظہور اسلام کے وقت پورے عرب میں مکہ معظمہ ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا، اہل مکہ کی مخالفت پورے عرب کی مخالف سمجھی جاتی تھی اور ان کی موافقت پورے ملک کی موافقت تصور کی جاتی تھی، اگرچہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ہستی اور ان کا وجود واضح ہوچکا تھا مگر پھر بھی اسلام لانے یا نہ لانے کے معاملہ میں پورے عرب کی نظریں مکہ پر لگی ہوئی تھیں، ایسی صورت میں ضروری تھا کہ کوئی بھی کلمہ گو مکہ میں نہ رہے تاکہ قریش کی اجتماعی قوت جلد از جلد ٹوٹ جائے اور دوسری قوت میں اضافہ کریں تاکہ مسلمانوں کی اجتماعی قوت عرب کے لئے مسلمہ قوت بن جائے مکہ فتح ہوجانے کے بعد پورے عرب کیلئے گویا اسلام کی برتری کا اعلان ہوچکا تھا یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے بعد قبیلے کے قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ کچھ عرصہ میں کفر جزیرة العرب سے جلاوطن ہوگیا۔
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے سخت وعید آئی ہے جو ہجرت کی قدرت رکھنے کے باوجود ہجرت نہیں کرتا اور دارالکفر ہی میں مر جاتا ہے۔ کیونکہ جب فرشتے اس کی روح قبض کریں گے تو اس کو سخت زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گے ﴿فِيمَ كُنتُمْ﴾ ” تم کس حال میں تھے“ اور کیسے تم نے اپنے تشخص کو مشرکین کے درمیان ممیز رکھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ان کی تعداد میں اضافے کا باعث بنے اور بسا اوقات اہل ایمان کے خلاف تم نے کفار کی مدد کی، تم خیر کثیر، اللہ کے رسول کی معیت میں جہاد، مسلمانوں کی رفاقت اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی معاونت کی سعادت سے محروم رہے۔
﴿قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ﴾ وہ کہیں گے کہ ہم کمزور، مجبور اور مظلوم تھے اور ہجرت کی قدرت نہ رکھتے تھے۔ حالانکہ وہ اپنے اس قول میں سچے نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کی ہے اور ان کو وعید سنائی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے حقیقی مستضعفین کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس لیے فرشتے ان سے کہیں گے : ﴿أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ ﴾” کیا اللہ کی زمین وسیع و فراخ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے“ یہ استفہام تقریری ہے یعنی ہر ایک کے ہاں یہ چیز متحقق ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ بندہ مومن جہاں کہیں بھی ہو اگر وہاں اپنے دین کا اظہار نہیں کرسکتا تو زمین اس کے لیے بہت وسیع ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ ﴾(العنکبوت :29؍56) ” اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو بے شک میری زمین بہت وسیع ہے پس میری ہی عبادت کرو۔ “
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں جن کے پاس کوئی عذر نہیں، فرمایا : ﴿ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴾ ” یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے“ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ اس میں سبب موجب کا بیان ہے جس پر، اس کی شرائط کے جمع ہونے اور موانع کے نہ ہونے کے ساتھ، مقتضا مرتب ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی مانع اس مقتضا کو روک دیتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ney apni janon per zulm kiya tha . aur ussi halat mein farishtay unn ki rooh qabz kernay aaye to bolay tum kiss halat mein thay ? woh kehney lagay kay hum to zameen mein bey bus bana diye gaye thay . farishton ney kaha kiya Allah ki zameen kushada naa thi kay tum uss mein hijrat ker-jatay-? lehaza aesay logon ka thikana jahannum hai , aur woh nihayat bura anjam hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
بےمعنی عذر مسترد ہوں گے ہجرت اور نیت
محمد بن عبدالرحمن ابو الا سود فرماتے ہیں اہل مدینہ سے جنگ کرنے کے لئے جو لشکر تیار کیا گیا اس میں میرا نام بھی تھا۔ میں حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ سے ملا اور اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس میں شمولیت کرنے سے بہت سختی سے روکا۔ اور کہا سنو حضرت ابن عباس سے میں نے سنا ہے کہ بعض مسلمان لوگ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مشرکوں کے ساتھ تھے اور ان کی تعداد بڑھاتے تھے بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ان میں سے کوئی تیر سے ہلاک کردیا جاتا یا مسلمانوں کی تلواروں سے قتل کردیا جاتا، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یعنی موت کے وقت ان کا اپنی بےطاقتی کا حیلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا اور روایت میں ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے جب وہ بدر کی لڑائی میں کافروں کے ساتھ آگئے تو مسلمانوں کے ہاتھوں ان میں سے بھی بعض مارے گئے جس پر مسلمان غمگین ہوئے کہ افسوس یہ تو ہمارے ہی بھائی تھے، اور ہمارے ہی ہاتھوں مارے گئے ان کے لئے استغفار کرنے لگے اس پر یہ آیت اتری۔ پس باقی ماندہ مسلمانوں کی طرف یہ آیت لکھی کہ ان کا کوئی عذر نہ تھا کہا یہ نکلے اور ان سے مشرکین ملے اور انہوں نے تقیہ کیا پس یہ آیت اتری (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :8) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے اور تھے مکہ میں ہی ان میں علی ابن امیہ بن خلف اور ابو قیس بن ولید بن مغیرہ اور ابو منصور بن حجاج اور حارث بن زمعہ تھے ضحاک کہتے ہیں یہ ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد مکہ میں رہ گئے پھر بدر کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ آئے ان میں سے بعض میدان جنگ میں کام بھی آگئے۔ مقصد یہ ہے کہ آیت کا حکم عام ہے ہر اس شخص کا جو ہجرت پر قادر ہو پھر بھی مشرکوں میں پڑا رہے اور دین پر مضبوط نہ رہے اوہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہے اور اس آیت کی رو سے اور مسلمانوں کے اجماع سے وہ حرام کام کا مرتکب ہے اس آیت میں ہجرت سے گریز کرنے کو ظلم کہا گیا ہے، ایسے لوگوں سے ان کے نزع کے عالم میں فرشتے کہتے ہیں کہ تم یہاں کیوں ٹھہرے رہے ؟ کیوں ہجرت نہ کی ؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنے شہر سے دوسرے شہر کہیں نہیں جاسکتے تھے، جس کے جواب میں فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین میں کشادگی نہ تھی ؟ ابو داؤد میں ہے جو شخص مشرکین میں ملا جلا رہے انہی کے ساتھ رہے سہے وہ بھی انہی جیسا ہے۔ سدی فرماتے ہیں جبکہ حضرت عباس عقیل اور نوفل گرفتار کئے گئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے کا بھی، حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم آپ کے قبلے کی طرف نمازیں نہیں پڑھتے تھے ؟ کیا ہم کلمہ شہادت ادا نہیں کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا عباس تم نے بحث تو چھیڑی لیکن اس میں تم ہار جاؤ گے سنو اللہ جل شانہ فرماتا ہے پھر آپ نے یہی تلاوت فرمائی یعنی تم نے ہجرت کیوں نہ کی ؟ پھر جن لوگوں کو ہجرت کے چھوڑ دینے پر ملامت نہ ہوگی ان کا ذکر فرماتا ہے کہ جو لوگ مشرکین کے ہاتھوں سے نہ چھوٹ سکیں اور اگر کبھی چھوٹ بھی جائیں تو راستے کا علم انہیں نہیں ان سے اللہ تعالیٰ درگذر فرمائے گا، " عسی " کلمہ اللہ کے کلام میں وجوب اور یقین کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ درگذر کرنے والا اور بہت ہی معافی دینے والا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد سجدے میں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی اے اللہ عیاش ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو ولید بن ولید کو اور تمام بےبس ناطاقت مسلمانوں کو کفار کے پنجے سے رہائی دے اے اللہ اپنا سخت عذاب قبیلہ مضر پر ڈال اے اللہ ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی حضرت یوسف کے زمانے میں آئی تھی۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے اللہ ولید بن ولید کو عیاش بن ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں بےطاقت مسلمانوں کو اور جو بےحیلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ راہ پانے کی کافروں کے ہاتھوں سے نجات دے۔ ابن جریر میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اس حدیث کے شواہد صحیح میں بھی اس سند کے سوا اور سندوں میں بھی ہیں کہ جیسے کہ پہلے گذرا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں اور میری والدہ ان ضعیف عورتوں اور بچوں میں تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ ہمیں اللہ نے معذور رکھا۔ ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے اور مشرکوں سے الگ ہونے کی ہدایات کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا ہراساں نہ ہو وہ جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسباب پناہ تیار کر دے گا اور وہ بہ آرام وہاں اقامت کرسکے گا مراغم کے ایک معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے بھی ہیں، مجاہد فرماتے ہیں وہ اپنے دکھ سے بچاؤ کی بہت سی صورتیں پالے گا، امن کے بہت سے اسباب اسے مل جائیں گے، دشمنوں کے شر سے بچ جائے گا اور وہ روزی بھی پائے گا گمراہی کی جگہ ہدایت اسے ملے گی اس کی فقیری تونگری سے بدل جائے ارشاد ہوتا ہے جو شخص بہ نیت ہجرت اپنے گھر سے نکلا پھر ہجرت گاہ پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسے موت آگئی اسے بھی ہجرت کا کامل ثواب مل گیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی پس جس کی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ کی رضامندی اور رسول کی خوشنودی کا باعث ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسے اصل ہجرت کا ثواب نہ ملے گا بلکہ اس کی ہجرت اس کے بارے میں ہے جس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر ایک عابد کو قتل کرکے سو پورے کئے پھر ایک عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اس نے کہا تیری توبہ کے اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تو اپنی بستی سے ہجرت کرکے فلاں شہر چلا جا جہاں اللہ کے عابد بندے رہتے ہیں چناچہ یہ ہجرت کرکے اس طرف چلا راستہ میں ہی تھا جو موت آگئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اس کے بارے میں اختلاف ہوا بحث یہ تھی کہ یہ شخص توبہ کرکے ہجرت کرکے مگر چلا تو سہی یہ وہاں پہنچا تو نہیں پھر انہیں حکم کیا گیا کہ وہ اس طرف کی اور اس طرف کی زمین ناپیں جس بستی سے یہ شخص قریب ہو اس کے رہنے والوں میں اسے ملا دیا جائے پھر زمین کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بری بستی کی جانب سے دور ہوجا اور نیک بستی والوں کی طرف قریب ہوجا، جب زمین ناپی گئی تو توحید والوں کی بستی سے ایک بالشت برابر قریب نکلی اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ موت کے وقت یہ اپنے سینے کے بل نیک لوگوں کی بستی کی طرف گھسیٹتا ہوا گیا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے نکلا پھر آپ نے اپنی تینوں انگلیوں یعنی کلمہ کی انگلی بیچ کی انگلی اور انگھوٹھے کو ملا کر کہا۔ پھر فرمایا کہاں ہیں مجاہد ؟ پھر وہ اپنی سواری پر سے گرپڑا یا اسے کسی جانور نے کاٹ لیا یا اپنی موت مرگیا تو اس کا ہجرت کا ثواب اللہ کے ذمے ثابت ہوگیا (راوی کہتے ہیں اپنی موت مرنے کے لئے جو کلمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استعمال کیا) واللہ میں نے اس کلمہ کو آپ سے پہلے کسی عربی کی زبانی نہیں سنا اور جو شخص غضب کی حالت میں قتل کیا گیا وہ جگہ کا مستحق ہوگیا، حضرت خالد بن خرام ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلے لیکن راہ میں ہی انہیں ایک سانب نے ڈس لیا اور اسی میں ان کی روح قبض ہوگئی ان کے بارے میں یہ آیت اتری۔ حضرت زبیر فرماتے ہیں میں چونکہ ہجرت کرکے حبشہ پہنچ گیا اور مجھے ان کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بھی ہجرت کرکے آرہے ہیں اور میں جانتا تھا کہ قبیلہ بنو اسد سے ان کے سوا اور کوئی ہجرت کرکے آنے کا نہیں اور کم وبیش جتنے مہاجر تھے ان کے ساتھ رشتے کنبے کے لوگ تھے لیکن میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں ان کا یعنی حضرت خالد کا بےچینی سے انتظار کر رہا تھا جو مجھے ان کی اس طرح کی اچانک شہادت کی خبر ملی تو مجھے بہت ہی رنج ہوا۔ یہ اثر بہت ہی غریب ہے، یہ بھی وجہ ہے کہ یہ قصہ مکہ کا ہے اور آیت مدینے میں اتری ہے۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ راوی کا مقصود یہ ہو کہ آیت کا حکم عام ہے گوشان نزول یہ نہ ہو واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت صمرہ بن جندب ہجرت کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلے لیکن آپ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں انتقال کر گئے ان کے بارے میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی اور روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی ضمرہ جن کو آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا جب وہ (اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا) 4 ۔ النسآء :98) سنتے ہیں تو کہتے ہیں میں مالدار ہوں اور چارہ کار بھی رکھتا ہوں مجھے ہجرت کرنی چاہئے چناچہ سامان سفر تیار کرلیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل کھڑے ہوئے لیکن ابھی تنعیم میں ہی تھے جو موت آگئی ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخض میری راہ میں غزوہ کرنے کے لئے نکلا صرف میرے وعدوں کو سچا جان کر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھ کر بس وہ اللہ کی ضمانت میں ہے یا تو وہ لشکر کے ساتھ فوت ہو کر جنت میں پہنچے گا یا اللہ کی ضمانت میں واپس لوٹے گا اجر و غنیمت اور فضل رب لے کر۔ اگر وہ اپنی موت مرجائے یا مار ڈالا جائے یا گھوڑے سے گرجائے یا اونٹ پر سے گرپڑے یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے یا اپنے بستر پر کسی طرح فوت ہوجائے وہ شہید ہے۔ ابو داؤد میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ وہ جتنی ہے بعض الفاظ ابو داؤد میں نہیں ہیں۔ ابو یعلیٰ میں ہے جو شخص حج کے لئے نکلا پھر مرگیا قیامت تک اس کے لئے حج کا ثواب لکھا جاتا ہے، جو عمرے کے لئے نکلا اور راستے میں فوت ہوگیا اس کے لئے قیامت تک عمرے کا اجر لکھا جاتا ہے۔ جو جہاد کے لئے نکلا اور فوت ہوگیا اس کے لئے قیامت تک کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ یہ حدیث بھی غریب ہے۔