المؤمن آية ۲۸
وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ۖ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗۤ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّىَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاۤءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ۗ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ ۗ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِىْ يَعِدُكُمْ ۚ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِىْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ
طاہر القادری:
اور ملّتِ فرعون میں سے ایک مردِ مومن نے کہا جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا: کیا تم ایک شخص کو قتل کرتے ہو (صرف) اس لئے کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آیا ہے، اور اگر (بالفرض) وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا بوجھ اسی پر ہوگا اور اگر وہ سچا ہے تو جس قدر عذاب کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے تمہیں پہنچ کر رہے گا، بے شک اﷲ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرنے والا سراسر جھوٹا ہو،
English Sahih:
And a believing man from the family of Pharaoh who concealed his faith said, "Do you kill a man [merely] because he says, 'My Lord is Allah' while he has brought you clear proofs from your Lord? And if he should be lying, then upon him is [the consequence of] his lie; but if he should be truthful, there will strike you some of what he promises you. Indeed, Allah does not guide one who is a transgressor and a liar.
1 Abul A'ala Maududi
اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا: "کیا تم ایک شخص کو صرف اِس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے آیا اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے اللہ کسی شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب ہو
2 Ahmed Raza Khan
اور بولا فرعون والوں میں سے ایک مرد مسلمان کہ اپنے ایمان کو چھپاتا تھا کیا ایک مرد کو اس پر مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور بیشک وہ روشن نشانیاں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے لائے اور اگر بالفرض وہ غلط کہتے ہیں تو ان کی غلط گوئی کا وبال ان پر، اور اگر وہ سچے ہیں تو تمہیں پہنچ جائے گا کچھ وہ جس کا تمہیں وعدہ دیتے ہیں بیشک اللہ راہ نہیں دیتا اسے جو حد سے بڑھنے والا بڑا جھوٹا ہو
3 Ahmed Ali
اور فرعون کی قوم میں سے ایک ایمان دار آدمی نے کہا جو اپنا ایمان چھپاتا تھا کیاتم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب الله ہے اوروہ تمہارے پاس وہ روشن دلیلیں تمہارے رب کی طرف سے لایا ہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اسی پر ا س کے جھوٹ کا وبال ہے اور اگر وہ سچا ہے تو تمہیں کچھ نہ کچھ وہ (عذاب) جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے پہنچے گا اور الله اس کو راہ پر نہیں لاتا جو حد سے بڑھنے والا بڑا جھوٹا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے (١) اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، (۲) اللہ تعالٰی اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (۳)
٢٨۔١ یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ ٢٨۔ یہ اس نے بطور تنزل کے کہا کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اس سے تعرض نہ کیا جائے اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالٰی خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقینا وہ نمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے تم پر ان میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔
٢٨۔۳ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہوتا جیسا کہ تم باور کراتے ہو تو اللہ تعالٰی اسے دلائل معجزات سے نہ نوازتا جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالٰی خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا تھا کہنے لگا کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے اور وہ تمہارے پروردگار (کی طرف) سے نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا۔ اور اگر سچا ہوگا تو کوئی سا عذاب جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے تم پر واقع ہو کر رہے گا۔ بےشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو بےلحاظ جھوٹا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ کیا تم ایک شحض کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وه کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے، اگر وه جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وه سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وه تم سے وعده کر رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تو تم پر آ پڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور فرعون کے خاندان میں سے ایک مردِ مؤمن نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے رکھتا تھا۔ کیا تم ایک شخص کو صرف اس بات پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس بیّنات (معجزات) لے کر آیا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کی وہ تمہیں دھمکی دیتا ہے تو اس کا کچھ حصہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گا۔ بیشک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور بڑا جھوٹا ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو حُھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا تھا کہنے لگا کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار (کی طرف) سے نشانیاں بھی لے کر آیا ہے ؟ اور اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا، اور اگر وہ سچا ہوگا تو کوئی سا عذاب جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے تم پر واقع ہو کر رہے گا، بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو بےلحاظ جھوٹا ہو
آیت نمبر 28 تا 37
ترجمہ : اور ایک مومن شخص نے جو فرعون کے خاندان میں سے تھا کہا گیا ہے کہ وہ اس کا چچا زاد بھائی تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی جانب سے دلیلیں یعنی کھلے ہوئے معجزے لے کر آیا ہے اور اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کے جھوٹ کا (وبال) اسی پر ہے، اور اگر وہ سچا ہو تو جس دنیوی عذاب کا وہ تم سے وعدہ کررہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تم پر آپڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتے جو (شرک کرکے) حد سے تجاوز کرنے والا ہو، جھوٹا ہو، اے میری قوم کے لوگو ! آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ تم ملک مصر پر غالب ہو، خدا کے عذاب میں ہماری کون مدد کرے گا اگر ان کے قتل کی وجہ سے ہمارے اوپر آپڑا یعنی ہمارا کوئی مددگار نہ ہوگا، فرعون نے کہا میں تو تم کو وہی رائے دے رہا ہوں جس کو میں (بہتر) سمجھ رہا ہوں، یعنی میں تم کو وہی مشورہ دے رہا ہوں کو میرے دل میں ہے اور وہ یہ کہ موسیٰ کو قتل کرنا ہی مناسب ہے میں تم کو وہی رائے دے رہا ہوں جو صحیح ہے، اس شخص نے کہا کو مومن تھا، اے میری قوم کے لوگو ! مجھے تو تمہارے بارے میں دوسری قوموں کے جیسے روز (بد) کا اندیشہ ہے یعنی یکے بعد دیگرے قوموں کے دنوں کا جیسا کہ قوم نوح اور عاد وثمود اور ان کے بعد والوں کا (حال ہوا) بعد کا مثل، پہلے، مثل سے بدل ہے یعنی دنیا میں ان لوگوں جیسی عذاب کی سزا جنہوں نے تم سے پہلے کفر کیا، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا اور اے میری قوم (کے لوگو ! ) مجھے تم پر ہانک پکار کے دن کا بھی ڈر ہے (تناد) میں یا کے حذف و اثبات کے ساتھ، مراد قیامت کا دن ہے، اس لئے کہ اس روز جنتیوں کی دوزخیوں کو اور دوزخیوں کی جنتیوں کو کثرت سے ہانک ہوگی، اور سعادت مندوں کی اور شقیوں کو شقاوت وغیرہ کی (ہانک پکار بکثرت ہوگی) جس دن (موقف حساب سے) دوزخ کی طرف تم پیٹھ پھیر کر لوٹو گے، تم کو خدا کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف ( (علیہ السلام) ) دلیلیں کھلے معجزے لے کر آئے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اور وہ قول میں یوسف بن یعقوب ہیں، ان کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک طویل عمر عطا کی گئی، یا ایک قول میں یوسف بن ابراہیم بن یوسف بن یعقوب ہیں پھر بھی تم ان کی لائی ہوئی دلیلوں کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی تو بغیر دلیل کے کہنے لگے اب اس کے بعد ہرگز اللہ کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجے گا، یعنی ہمیشہ یوسف (علیہ السلام) اور دیگر (رسولوں) کے منکر رہے، اسی طرح یعنی جیسا کہ تم کو گمراہ کیا، اللہ ہر اس شخص کو گمراہ کرتا ہے جو شرک کرکے حد سے تجاوز کرنے والا ہے اور اس بات میں شک کرنے والا ہو جس کی دلائل شہادت دیتے ہیں جو لوگ اللہ کی آیتوں معجزات میں کسی دلیل کے کہ جو ان کے پاس آئی جھگڑتے ہیں (الذین) مبتداء ہے، کبُرَ جدالھم اس کی خبر ہے، اللہ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی ناراضگی کی چیز ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر مغرور سرکش کے قلب پر گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے، قلب، تنوین اور بغیر تنوین کے درست ہے اور جب قلب تکبر کرتا ہے تو صاحب قلب بھی تکبر کرتا ہے اور اس کا عکس بھی اور کُلّ دونوں قراءتوں کی صورت میں، پورے قلب کی گمراہی کو بیان کرنے کے لئے ہے نہ کہ تمام قلوب کی گمراہی کے عموم کو بیان کرنے کے لئے فرعون نے کہا اے ہامان تو میرے لئے ایک بلند عمارت بنا شاید کہ راہوں پر پہنچ جاؤں یعنی آسمان کی راہوں پر جو آسمان تک پہنچانے والی ہوں، اور موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اَطّلعُ کے رفع کے ساتھ ابلغ پر عطف کرے، اور نصب کے ساتھ، ابن امر کا جواب ہونے کی وجہ سے اور میں تو موسیٰ کو اس بات میں یقیناً جھوٹا سمجھتا ہوں کہ اس کا میرے علاوہ کوئی معبود ہے، یہ بات فرعون نے تلبیس کے طور پر کہی (یعنی لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے) اور اسی طرح فرعون کی بد اعمالیاں اس کو بھلی دکھائی گئیں، اور اس کو راہ ہدایت سے روک دیا گیا صُدَّ میں صاد کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ اور فرعون کا ہر حیلہ ناکام ہی رہا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : قَالَ رَجُلٌ مَؤمِنٌ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمٰنَہٗ (الآیۃ) یہ کلام مستانف ہے، اگر رجلٌ سے آل فرعون کا رجل قبطی مراد ہو جیسا کہ مفسر کی رائے ہے تو رَجُلٌ مومِنٌ صفت اول مِنْ آل فرعون صفت ثانی اور یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ صفت ثالث ہوگی، موصوف اپنی تینوں صفات سے مل کر قال کا فاعل ہو کر قول اَتَقْتُلُوْنَ رجُلاً الخ مقو کہ یَقُولَ رَبِّی اللہ جملہ ہو کر اَتَقْتُلُوْنَ کا مفعول لہ ہے، اور رجل مومن سے مراد اسرائیلی ہو جیسا کہ بعض مفسریں کی رائے ہے تو من آل فرعون، یکْتُمُ کے مفعول ثانی کے قائم مقام ہوگا، ترجمہ یہ ہوگا وہ رجل مومن اپنے ایمان کو آل فرعون سے مخفی رکھے ہوئے تھا، (اول قول روجح ہے) ۔
قولہ : ربّی اللہ، ربی مبتداء اللہ اس کی خبر اوعلی العکس۔
قولہ : وَقَدْ جَاءَ کُمْ بِالبَیِّنٰتِ واؤ حالیہ قَدْ حرف تحقیق الخ جملہ ہو کر رجلاً سے یا یقول کی ضمیر سے حال ہے، مگر رجلاً سے حال قرار دینے میں اعتراض ہے۔ (روح المعانی)
قولہ : یَکُ ، کون مصدر سے واحد مذکر غائب مضارع مجزوم، علامت جزم نون محذوفہ مقدر اصل میں یکُنْ تھا، نون کو تخفیفاً حذف کردیا گیا، یَکُ کے اندر ھو ضمیر اس کا اسم کا ذِبًا اس کی خبر۔
قولہ : اِنّ اللہَ لا یَھْدِی ھُوَ مُسرِف کذَّابٌ اس کلام کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ہوسکتا ہے اور فرعون علیہ اللعنتہ سے بھی، اگر موسیٰ (علیہ السلام) سے تعلق ہو تو مطلب یہ ہوگا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات ظاہر کرنے کی توفیق و ہدایت عطا فرمائی اور جس کا یہ حال ہو تو وہ مسرف وکذّاب نہیں ہوسکتا، لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) مسرف و کذاب نہیں ہیں، ورنہ تو اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت معجزات وبنیات نہ دیتے، اور اگر اس کا تعلق فرعون سے ہو تو مطلب یہ ہوگا فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے ارادہ میں مسرف ہے اور دعوائے الوہتہ میں کذاب ہے اور جب کی یہ صفت ہو اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نصیب نہیں کرتے۔ (صاوی) قولہ : ظاھرین یہ لَکُمْ کی ضمیر حال ہے۔
قولہ : مَااُشِیْرُ عَلَیْکُم اِلاَّ بِمَا اُشیرُ بہٖ عَلیٰ نَفْسِی یہ اللہ تعالیٰ کے قول مَا اُرِیکُمْ اِلاَّ مِااَرٰی کی حاصل معنی کے ذریعہ تفسیر ہے، ورنہ تو الفاظ کی رعایت سے یہ تفسیر ہوگی مَا اعلمکم اِلاَّ مَا عَلِمْتُ من الصواب۔
قولہ : یوم حِزْبٍ بعد یہ یوم الْاحزاب کی تفسیر ہے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یوم الْاحزاب سے مراد اَیَّام الْاحْزَاب ہے،
اس لئے کہ گذشتہ امتوں پر عذاب ایک ہی روز واقع نہیں ہوا بلکہ ایام و مختلف زمان میں نازل ہوا۔
قولہ : مِثْلَ جَزاء عَادَۃِ کَفَرَ قبلکم لفظ جزاء محذوف مان کر حذف مضاف کی طرف اشارہ کردیا۔
قولہ : عادۃِ ، ذٰلک ای مثل نداء بالویل والثبور ونداء المؤمن ھاؤمُ اقرَءُ وْا کِتَابِیَہْ و یُنَادِی الکافرُ یا لَیْتَنِی لَمْ اُوْتَ کِتَابِیَہْ ۔
قولہ : یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ مَالَکُمْ مِنَ اللہِ مِنْ عَاصِم . یومَ تُوَلُّوْنَ ، یَوْمَ التنادِ سے بدل ہے۔
قولہ : مَالَکُمْ مِنَ اللہِ مِنْ عاصمٍ مانا فیہ حجازیہ ہے لکُمْ خبر مقدم، مِنَ اللہِ جار مجرور عاصم سے متعلق ہے من عاصِمٍ میں مِن زائدہ عاصمٍ ، مَا کا اسم مؤخر، جملہ ہو کر تُوَلَّوْنَ کی ضمیر سے حال ہے۔ قولہ : اَلَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ یہ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ سے بدل ہے۔
سوال : اَلَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ جمع ہے اور مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ واحد ہے، جمع کا واحد سے بدل واقع ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ سے مسرف واحد مراد نہیں ہے، بلکہ کل واحد یعنی ہر مسرف مراد ہے لہٰذا جمع کا بدل واقع ہونا درست ہے۔
دوسرا جواب : مَن سے باعتبار کے بدل ہے نہ کہ باعتبار لفط کے۔ سوال : کبُرَ کا فاعل کون ہے ؟
جواب : کبُرَ کے اندر ضمیر ھُوَ جو کہ باعتبار لفظ کے مَنْ مسرف کی طرف راجع ہے۔
قولہ : اَلَّذِنْنَ یُجَادِلُوْنَ الخ الَّذِینَ حذف مضاف کے ساتھ مبتداء، اور کَبُرَ اس کی خبر اسکے اندر ضمیر جو مضاف محذوف کی طرف راجع ہے، جو یجادلون سے مفہوم ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی، جِدالُ الَّذِینَ یُجادِلُوْنَ کبُرَ مَقْتًا، مقتًا تمیز ہے، جو فاعل سے منقول ہے، ای کبُرَ مقْتُ جدالِھِمْ ۔ قولہ : وعند الذین آمنوا ای و کَبُرَ مقتًا ایضًا عند الَّذِیْنَ آمنوا۔
قولہ : علیٰ کُلِّ قَلْب مُتّکِبِّرٍ جبَّارٍ قلب میں دو قراءتیں ہیں قَلْبٍ پر تنوین کے ساتھ اور بغیر تنوین کے ابو عمرو اور ذکوان نے تنوین کے ساتھ پڑھا ہے، اور تکبر وتجبر کو قلب کی صفت قرار دیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور سرکش قلب پر مہر کردیتا ہے اور باقیوں نے بغیر تنوین کے اضافت کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی ہر متکبر اور سرکش کے قلب پر مہر لگا دیتا ہے، یعنی تکبر وتجبر کو صاحب قلب کی صفت قرار دیا ہے۔
قولہ : مَتیٰ تَکبّرَ القلبُ تکبّر صاحِبُہٗ و بالعکس اس عبارت کے اضافہ کا مقصد دونوں قراءتوں میں تطبیق دینا ہے، تطبیق کا خلاصہ یہ ہے کہ تکبر و سرکشی کی نسبت خواہ قلب کی طرف کی جائے یا صاحب قلب کی جانب دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے اس لئے کہ قلب کا تکبر صاحب قلب کے لئے اور صاحب قلب کا تکبر قلب کے لئے لازم ہے۔
قولہ : وَکُلٍّ عَلَی القراء تَینِ لعموم الضلال جمیعَ القلب لا لعمومِ القلوب اس عبارت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کُلّ قلبِ متکبرٍ میں کُلّ سے مراد کل مجموعی ہے، نہ کہ کل افرادی، قلب کو تنوین کے ساتھ پڑھا جائے یا بغیر تنوین کے دونوں صورتوں میں کُلِّ مجموعی مراد ہے، کل مجموعی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متکبر اور سرکش کے پورے قلب پر مہر لگا دیتا ہے، قلب کا کوئی جز بغیر مہر لگائے نہیں چھوڑتا، یعنی قلب کے کسی جز میں ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی، اور کُلِّ افرادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ہر قلب پر مہر لگا
دیتا ہے کسی قلب کو مہر لگائے نہیں چھوڑتا، یعنی متکبرین و سرکشوں کے قلوب پر مہر ضلالت ثبت کردیتا ہے۔
مگر مفسر علام کا دونوں صورتوں میں کُلٌّ سے کُلِّ مجموعی مراد قاعدہ معروفہ کے خلاف ہے، اس لئے کہ قاعدہ معروفہ یہ ہے کہ کُلٌّ جب نکرہ پر داخل ہو یا جمع معرفہ پر داخل ہو تو عموم افراد کے لئے ہوتا ہے، مثلاً کُلُّ قلب یا کُلُّ القلوب دونوں کا مطلب ہے تمام قلوب اور جب مفرد معرفہ پر داخل ہو تو عموم اجزاء ہیں سب میٹھے ہیں، اور اگر کہا جائے کُلُّ الرُّمَّانِ حُلُوٌّ پورا انار میٹھا ہے یعنی اس کا کوئی جز کھٹا نہیں ہے۔
قولہ : اَسْبَابَ السمٰوٰتِ تکرار کی حکمت تفصیل بعد الا بہام ہے، جو کہ تفخیم و تعظیم پر دلالت کرتی ہے۔
قولہ : بالرفع اس عبارت کا مقصد فَاطَّلِعُ کے اعراب کی وضاحت کرنا ہے، اگر رفع پڑھا جائے تو اَبْلُغُ پر عطف ہوگا اور اگر نصف پڑھا جائے تو اِبنِ فعل امر کا ان کی تقدیر کے ساتھ جواب ہوگا۔
قولہ : بفتح الصاد و ضَمِّھا اگر صدَّ کے صاد پر فتحہ پڑھا جائے تو فاعل فرعون ہوگا اور اگر صاد کے ضمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو نائب فاعل فرعون ہوگا یعنی فرعون کو راہ حق وصواب سے روک دیا گیا۔
قولہ : اِلاَّ فِی تبابٍ . تبَابٌ تَبَّ یَتِبُّ (ض) کا مصدر ہے بمعنی ہلاکت، نقصان۔
تفسیر وتشریح
وقال۔۔۔ فرعون اوپر مشرکین و متکبرین توحید و رسالت کی وعید کے ضمن میں کفار کا خلاف وعناد مذکورہ تھا جس سے طبعی طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حزن و ملال ہوتا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے تقریباً دو رکوع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ ذکر کیا گیا ہے، اس قصہ میں ایک طویل مکالمہ فرعون اور قوم فرعون کے ساتھ اس بزرگ شخص کا جو خود آل فرعون سے ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر ایمان لے آیا تھا، مگر مصلحتاً چھپائے ہوئے تھا، اس مکالمہ کے وقت اس کے ایمان کا بھی حتمی اعلان ہوگیا۔
رجل مومن کون تھا ؟ ائمہ تفسیر میں سے مقاتل اور سدی نے فرمایا کہ یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا، اور یہی وہ شخص تھا کہ جس نے اس وقت جبکہ قبطی کے قتل کے واقعہ میں فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے مشورہ کی شہر کے کنارے سے آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی تھی، اور یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ آپ فوراً مصر سے باہر چلے جائیں، جس کا واقعہ سورة قصص میں بیان فرمایا وَجَاءَ مِّنْ اَقْصَا المدینَۃِ یَسعٰی۔
اس رجل مومن کا کیا نام تھا ؟ اس رجل مومن کے نام میں اختلاف ہے، مفسرین نے اس کا نام حبیب بتایا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ حبیب اس شخص کا نام ہے جس کا قصہ سورة یٰسین میں آیا ہے اور بعض حضرات نے اس کا نام یشمعان بتایا ہے، سہیلی نے اس نام کو کو اصح قرار دیا ہے، اور دیگر حضرات نے اس کا نام حزقیل بتایا ہے، ثعلبی نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہی قول نقل کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدیقین چند ہیں، ایک حبیب نجار جس کا قصہ سورة یٰسین میں ہے دوسرا مومن آل فرعون، تیسرے ابوبکر صدیق اور یہ ان میں افضل ہیں (قرطبی، معارف) خلاصہ التفاسیر جلد چہارم میں فتح محمد تائب (رح) تعالیٰ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اس مرد مومن کا نام حزقیل تھا، ان کا پیشہ نجاری تھا، ان ہی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے صندوق بنایا تھا، جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے ان کو بند کرکے دریا میں ڈالدیا تھا، اور یہ شخص آل فرعون سے تھا، مصلحتاً اپنے ایمان کو مخفی رکھتا تھا، ان کو بھی جادو گروں کے ساتھ سولی دیدی گئی تھی۔
شبہ : رجل مومن کا یہ کہنا کہ ان یکُ کاذِبًا فعلَیْہِ کِذِبُہٗ یعنی اگر موسیٰ جھوٹا ہے تو اسکے کذب کا وبال خود اسی پر پڑے گا، دوست نہیں معلوم ہوتا اسلئے کہ کاذب کا کذب اسی پر محصور نہیں رہتا، بلکہ اغوائے عوام اور افشاء فساد میں اس کے نہایت دور دس اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور خاص طور پر جبکہ کذب دعوائے نبوت کے بارے میں ہو، ورنہ تو مدعیان نبوت کا ذبہ کا دعوائے نبوت کیوں قابل تعزیر جرم قرار پائے ؟ اور کیوں ان کے ساتھ جنگ و جہاد کیا جائے ؟ ان کو بھی ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے، وہ جانیں، ان کا کام حالانکہ ایسا نہیں ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسیلمنہ الکذاب کے ساتھ جنگ کی تھی۔
دفع : قتل و جہاد کا حکم اس وقت ہے جبکہ کاذب کا کذب یقینی ہو اور اس کذب کی تاثیر یقینی اور دور رس ہو، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا کاذب ہونا متیقن نہیں تھا، درصورت احتمال کذب اسے اسکے حال پر چھوڑ دینکے سوا اور تدبیر نہیں لہٰذا انکو قتل کا حکم کرنا ظلم اور ناانصافی تھی (ایسر التفاسیر، ملخصًا، الا نموذج للشیخ محمد بن ابی بکر رازی)
شبہ : اِنْ تَّکُ صَادِقًا یُصِبْکُم بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ رجل مومن کا یہ کہنا کہ اگر موسیٰ سچے ہوئے تو اس عذاب کا کچھ حصہ تم کو ضرور پہنچے گا، حالانکہ انبیاء کے تمام وعدے مکمل سچے ہوتے ہیں، بعض کا صادق ہونا اور بعض کا صادق نہ ہونا، چہ معنی دارد ؟
دفع : اس شبہ کے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں اول یہ کہ یہاں بعض کل کے معنی میں ہے اور لبید کے اس شعر سے استدلال کیا ہے :؎
تراک امکنۃ اذا لم ارضھا اویر تبط بعض النفوس حمامھا
وقد یدرک المتأنی بعض حاجتہٖ وقد یکون مع المستعجل الزلل (روح المعانی)
اور بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ یہاں دنیا کا عذاب مراد ہے نہ آخرت کا اور دنیا کا عذاب آخرت کے مقابلہ میں بعض ہے اور بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ بعض کا ذکر تلطف اور نرمی کے طور پر ہے تاکہ مخاطب وحشت زدہ ہو کر عناد و فساد پر نہ اتر آئے
یَوْمَ التنادِ ، تنَادِ اصل میں تَنَادِیُّ تھا، یوم کی اضافت کی وجہ سے آخر سے حرف علت (ی) ساقط ہوگئی، فریاد کرنا، پکارنا روز قیامت کو یوم التناد اس لئے کہا گیا ہے کہ اس روز بیشمار ندائیں اور آوازیں ہوں گی، جیسا کہ مروی ہے کہ جنتی دوزخیوں کو اور دوزخی جنتیوں کو پکاریں گے، اور ہر شخص اپنے پیشوا کے ساتھ پکارا جائے گا، اور ملائکہ پکاریں گے اے فلاں بن فلاں تو ایسا سعید ہوا کہ جس کے بعد کبھی شقاوت نہیں اور اے فلاں بن فلاں تو ایسا شقی ہوا کہ کبھی سعادت کا منہ نہ دیکھے گا۔ رواہ بن ابی عاصم فی السنتہ۔ (ایسر التفاسیر، تائب)
کذلک۔۔۔ جبار یعنی جس طرح فرعون وہامان کے قلب نے موسیٰ (علیہ السلام) اور مومن آل فرعون کی نصیحتوں
سے کوئی اثر نہیں لیا، اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر ایسے قلب پر مہر لگا دیتے ہیں جو متکبر اور جبار ہو، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس میں نور
ایمان داخل نہیں ہوتا، اور اس سے اچھے برے کی تمیز سلب کرلی جاتی ہے، اس آیت میں متکبر اور جبار کو قلب کی صفت قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اخلاق و اعمال کا منبع اور سرچشمہ قلب ہی ہے، برے عمل کا تعلق قلب ہی سے ہے، عالم اصغر میں قلب کا مقام بادشاہ کا ہے اور دماغ کا وزیر اعضاء کا مقام خدام و کارندوں کا ہے، حکم کا صدور قلب سے ہوتا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی تدبیر اور منصوبہ بندی کرتا ہے، اور اعضاء اس منصوبہ کو روبعمل لاکر پایۂ تکمیل کو پہنچاتے ہیں، حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ انسان کے بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا (یعنی دل) ایسا ہے جس کے درست ہونے سے سارا بدن درست ہوجاتا ہے اور خراب ہونے سے سارا بدن خراب ہوجاتا ہے۔ (قرطبی)
چند اہم فائدے : اس مقام پر چند فائدے قابل غور ہیں :
(١) وعظ و نصیحت میں جہاں تک ہوسکے وہ عنوان اختیار کرنا چاہیے کہ جس سے سامعین کو وحشت ونفرت نہ ہو، اور ناصح کو چاہیے کہ فریق و مدعی کے قائم مقام نہ بنے، جیسا کہ اس مرد خدا نے غیر جانبدار رہ کر جس تلطف اور نرمی سے وہ تمام مضامین جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بیان فرمائے ادا کردیئے۔
(٢) ترتیب و تدریج اور لحاظ تاثیر پیش نظر رہے، دیکھو اس مرد مومن نے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حقانئت و حقیقت بڑی خوبی سے بیان کی، پھر ایک عقلی حصر سے فرعون کو قائل کیا کہ ایسی بےجا مزاحمت روا نہیں۔
(٣) پھر اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور گذشتہ امتوں کی ہلاکت کی نظیر پیش کی تاکہ ان کو تنبہ ہو۔
(٤) اس کے بعد قیامت کا ذکر کرکے آخرت کا خوف دلایا، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خاص طور پر ذکر اس لئے کیا کہ انسان اس بات سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جو اسکے حالات اور سرگذشت سے مناسب تر ہو، پھر انکی تکذیب و انکار سے روکا۔
وقال۔۔۔ صرحاً ، صرحٌ کے معنی بلند اور نمایاں عمارت کے ہیں، اس کا پس منظریہ ہے جہ فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ ایسی عمارت تعمیر کرو جو آسمان کے قریب تک چلی جائے، جس پر چڑھ کر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو جھانک کر دیکھ لوں، یہ احمقانہ خیال تو کوئی ادنیٰ سمجھ کا آدمی بھی نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ بادشاہ مصر کے مالک فرعون کا خیال اگر واقعی تھا کہ میں بلند عمارت پر چڑھ کر خدا کو دیکھ سکتا ہوں تو یہ اس کی انتہائی بےوقوفی اور دماغ کی خرابی کی دلیل ہے، اور اگر وزیر نے فرعون کے مذکورہ حکم کی تعمیل کی تو پھر ” وزیرے چنیں شہریار چناں “ ، کا مصداق ہے، کسی والی بلکہ ادنیٰ سمجھ کے شخص سے بھی ایسی امید نہیں کی جاسکتی، اس لئے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ تو وہ بھی جانتا تھا کہ کتنی ہی بلندعمارت تعمیر کرے وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتا، مگر اپنے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ حرکت کی تھی، پھر کسی صحیح اور قوی روایت سے یہ ثابت نہیں کہ ایسا کوئی محل تعمیر ہوا یا نہیں، قرطبی نے نقل کیا ہے کہ یہ تعمیر کرائی گئی تھی جو بلندی پر پہنچتے ہی منہدم ہوگئی۔
10 Tafsir as-Saadi
اس توفیق یافتہ، عقل مند اور دانا مومن نے اپنی قوم کے فعل کی قباحت واضح کرتے ہوئے کہا : ﴿ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللّٰـهُ ﴾ ” کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔“ یعنی تم اس کے قتل کو کیونکر جائز سمجھتے ہو اس کا گناہ صرف یہی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور اس کا قول دلائل سے خالی بھی نہیں، اس لئے صاحب ایمان نے کہا : ﴿ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ﴾ ”اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف نشانیاں بھی لے کر آیا ہے“ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات اتنے مشہور ہوگئے کہ چھوٹے بڑے سب جانتے تھے، اس لئے یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی موجب نہیں بن سکتی۔ تم نے اسے سے پہلے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس حق لے کر آئے، اس کا دلیل کے ذریعے سے ابطال کیوں نہیں کیا کہ دلیل کا مقابلہ دلیل سے کیا ہوتا، پھر اس کے بعد غور کرتے کہ آیا اس پر دلیل میں غالب آنے کے بعد، اس کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اب جبکہ حجت اور دلیل میں وہ تمہیں نیچا دکھا چکا ہے۔ تمہارے درمیان اور اس کے قتل کے جواز کے درمیان بہت فاصلہ حائل ہے جسے طے نہیں کیا جاسکتا، ان سے عقل کی بات کہی جو ہر حال میں ہر عقل مند کو مطمئن کردیتی ہے۔ ﴿ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ﴾ ” اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا اور اگر سچا ہوگا تو اس عذاب کا بعض حصہ تم پر واقع ہو کر رہے گا، جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے۔“ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ دو امور میں سے کسی ایک پر معلق ہے یا تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں یا وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا وبال انہی پر ہے اور اس کا ضرر بھی انہی کے ساتھ مختص ہے تمہیں اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ تم نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی اور اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں اور انہوں نے تمہارے سامنے اپنی صداقت کے دلائل بھی پیش کئے ہیں اور تمہیں وعید بھی سنائی ہے کہ اگر تم نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا تو اللہ تمہیں اس دنیا میں عذاب دے گا اور آخرت میں بھی تمہیں جہنم میں داخل کرے گا، لہٰذا ان کی وعید کے مطابق تم دنیا میں بھی اس عذاب کا ضرور سامنا کرو گے۔ یہ اس صاحب ایمان شخص اور اس کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدافعت کا نہایت لطیف پیرا یہ ہے کہ اس نے ان لوگوں کو ایسا جواب دیا جو ان کے لئے کسی تشویش کا باعث نہ تھا۔ پس اس نے معاملے کا دار و مدار ان مذکورہ دو حالتوں پر رکھا اور دونوں لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قتل ان کی سفاہت اور جہالت تھی۔
پھر وہ صاحب ایمان شخص اس بارے میں، ایک ایسے معاملے کی طرف منتقل ہوا جو اس سے بہتر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق کے قریب ہونے کو زیادہ واضح کرتا ہے، چنانچہ اس نے کہا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ﴾ ” بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھا ہوا ہو“ یعنی جو حق کو ترک اور باطل کی طرف متوجہ ہو کر تمام حدیں پھلانگ جاتا ہے۔ ﴿ كَذَّابٌ ﴾ ” جھوٹا ہو۔“ جو حدود سے تجاوز پر مبنی اپنے موقف کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ راہ صواب نہیں دکھاتا، نہ اس کے مدلول میں اور نہ اس کی دلیل میں اور نہ اسے راہ راست کی توفیق ہی سے بہرہ مند کرتا ہے۔
تم نے دیکھ لیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے حق کی طرف دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کی اور انہوں نے عقلی دلائل و براہین اور آسمانی معجزات کے ذریعے سے اس حق کو واضح کردیا۔ جسے یہ راستہ مل جائے، ممکن نہیں کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والا اور کذاب ہو، یہ اس کے کامل علم و عقل اور اس کی معرفت الٰہی کی دلیل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur firon kay khandan mein say aik momin shaks jo abhi tak apna emaan chupaye huye tha , bol utha kay : kiya tum aik shaks ko sirf iss liye qatal ker rahey ho kay woh kehta hai mera perwerdigar Allah hai-? halankay woh tumharay paas tumharay perwerdigar ki taraf say roshan daleelen ley ker aaya hai . aur agar woh jhoota hi ho to uss ka jhoot ussi per parray ga , aur agar sacha ho to jiss cheez say woh tumhen dara raha hai , uss mein say kuch to tum per aa hi parray gi . Allah kissi aesay shaks ko hidayat nahi deta jo hadd say guzar janey wala ( aur ) jhoot bolney ka aadi ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایک مرد مومن کی فرعون کو نصیحت۔
مشہور تو یہی ہے کہ یہ مومن قبطی تھے ( (رح) تعالیٰ ) اور فرعون کے خاندان کے تھے۔ بلکہ سدی فرماتے ہیں فرعون کے یہ چچا زاد بھائی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کے ساتھ نجات پائی تھی۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں۔ بلکہ جن لوگوں کا قول ہے کہ یہ مومن بھی اسرائیلی تھے۔ آپ نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ اسرائیلی ہوتے تو نہ فرعون اس طرح صبر سے ان کی نصیحت سنتا نہ حضرت موسیٰ کے قتل کے ارادے سے باز آتا۔ بلکہ انہیں ایذاء پہنچاتا۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے آل فرعون میں سے ایک تو یہ مرد ایمان دار تھا اور دوسرے فرعون کی بیوی ایمان لائی تھیں۔ تیسرا وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ کو خبر دی تھی کہ سرداروں کا مشورہ تمہیں قتل کرنے کا ہو رہا ہے۔ یہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہتے تھے لیکن قتل موسیٰ کی سن کر ضبط نہ ہوسکی اور یہی درحقیقت سب سے بہتر اور افضل جہاد ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انسان کلمہ حق کہہ دے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے، اور فرعون کے سامنے اس سے زیادہ بڑا کلمہ کوئی نہ تھا۔ پس یہ شخص بہت بلند مرتبے کے مجاہد تھے۔ جن کے مقابلے کا کوئی نظر نہیں آتا۔ البتہ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ایک واقعہ کئی روایتوں سے مروی ہے جس کا ماحاصل یہ ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے ایک مرتبہ پوچھا کہ سب سے بڑی ایذاء مشرکوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا پہنچائی ہے ؟ آپ نے فرمایا سنو ایک روز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کو پکڑ لیا اور اپنی چادر میں بل دے کر آپ کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنے لگا جس سے آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ اسی وقت حضرت صدیق اکبر (رض) دوڑے دوڑے آئے اور اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ قریشیوں کا مجمع جمع تھا جب آپ وہاں سے گذرے تو انہوں نے کہا کیا تو ہی ہے ؟ جو ہمیں ہمارے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں میں ہی ہوں۔ اس پر وہ سب آپ کو چمٹ گئے اور کپڑے گھسیٹنے لگے۔ حضرت ابوبکر نے آ کر آپ کو چھڑایا اور پوری آیت اتقتلون کی تلاوت کی۔ پس اس مومن نے بھی یہی کہا کہ اس کا قصور تو صرف اتنا ہی ہے کہ یہ اپنا رب اللہ کو بتاتا ہے اور جو کہتا ہے اس پر سند اور دلیل پیش کرتا ہے۔ اچھا مان لو بالفرض یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ستایا دکھ دیا تو یقینا تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا جیسے کہ وہ کہہ رہا ہے۔ پس عقلاً لازم ہے کہ تم اسے چھوڑ دو جو اس کی مان رہے ہیں مانیں۔ تم کیوں اس کے درپے آزار ہو رہے ہیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی فرعون اور قوم فرعون سے یہی چاہا تھا۔ جیسے کہ آیت ( وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌ 17ۙ ) 44 ۔ الدخان :17) تک ہے یعنی ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول کریم کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سونپ دو ۔ میں تمہاری طرف رب کا رسول امین ہوں۔ تم اللہ سے بغاوت نہ کرو۔ دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیلیں اور زبردست معجزے لایا ہوں۔ تم مجھے سنگسار کردو گے اس سے میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں، اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھے چھوڑ دو ، یہی جناب رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف مجھے پکارنے دو تم میری ایذاء رسانی سے باز رہو۔ اور میری قرابت داری کو خیال کرتے ہوئے مجھے دکھ نہ دو ۔ صلح حدیبیہ بھی دراصل یہی چیز تھی جو کھلی فتح کہلائی۔ وہ مومن کہتا ہے کہ سنو مسرف اور جھوٹے آدمی راہ یافتہ نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی۔ ان کے اقوال و افعال بہت جلد ان کی خباثت کو ظاہر کردیتے ہیں۔ برخلاف اس کے یہ نبی اللہ اختلاف و اضطراب سے پاک ہیں۔ صحیح سچی اور اچھی راہ پر ہیں۔ زبان کے سچے عمل کے پکے ہیں۔ اگر یہ حد سے گذر جانے والے اور جھوٹے ہوتے تو یہ راستی اور عمدگی ان میں ہرگز نہ ہوتی، پھر قوم کو نصیحت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں بھائیو ! تمہیں اللہ نے اس ملک کی سلطنت عطا فرمائی ہے۔ بڑی عزت دی ہے۔ تمہارا حکم جاری کر رکھا ہے۔ اللہ کی اس نعمت پر تمہیں اس کا شکر کرنا چائے اور اس کے رسولوں کو سچا ماننا چاہئے۔ یاد رکھو اگر تم نے ناشکری کی اور رسول کی طرف بری نظریں ڈالیں۔ تو یقیناً عذاب اللہ تم پر آجائے گا۔ بتاؤ اس وقت کسے لاؤ گے۔ جو تمہاری مدد پر کھڑا ہو اور اللہ کے عذاب کو روکے یا ٹالے ؟ یہ لاؤ لشکر یہ جان و مال کچھ کام نہ آئیں گے۔ فرعون سے اور تو کوئی معقول جواب بن نہ پڑا کھسایانہ بن کر قوم میں اپنی خیر خواہی جتانے لگا کہ میں دھوکا نہیں دے رہا جو میر اخیال ہے اور میرے ذہن میں ہے وہی تم پر ظاہر کر رہا ہوں۔ حالانکہ دراصل یہ بھی اس کی خیانت تھی۔ وہ بھی جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جیسے فرمان باری ہے (لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا\010\02 ) 17 ۔ الإسراء :102) یعنی حضرت موسیٰ نے فرمایا اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان و زمین کے پروردگار نے بھیجے ہیں۔ جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں اور آیت میں ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14ۧ) 27 ۔ النمل :14) ، یعنی انہوں نے باوجود دلی یقین کے از راہ ظلم و زیادتی انکار کردیا۔ اسی طرح اس کا یہ کہنا بھی سراسر غلط تھا کہ میں تمہیں حق کی سچائی کی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہوں۔ اس میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا اور رعیت کی خیانت کر رہا تھا۔ لیکن اس کی قوم اس کے دھوے میں آگئی اور فرعون کی بات مان لی۔ فرعون نے انہیں کسی بھلائی کی راہ نہ ڈالا۔ اس کا عمل ہی ٹھیک نہیں تھا اور جگہ اللہ عزوجل فرماتا ہے فرعون نے اپنی قوم کو بہا دیا اور انہیں صحیح راہ تک نہ پہنچنے دیا نہ پہنچایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو امام اپنی رعایا سے خیانت کر رہا ہو وہ مر کر جنت کی خوشبو بھی نہیں پاتا۔ حالانکہ وہ خوشبو پانچ سو سال کی راہ پر آتی ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموفق للصواب