حم السجدہ آية ۱۹
وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَاۤءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ
طاہر القادری:
اور جس دن اﷲ کے دشمنوں کو دوزخ کی طرف جمع کر کے لایا جائے گا پھر انہیں روک روک کر (اور ہانک کر) چلایا جائے گا،
English Sahih:
And [mention, O Muhammad], the Day when the enemies of Allah will be gathered to the Fire while they are [driven], assembled in rows,
1 Abul A'ala Maududi
اور ذرا اُس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے اُن کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف ہانکے جائیں گے تو ان کے اگلوں کو روکیں گے،
3 Ahmed Ali
اور جس دن الله کے دشمن دوزخ کی طرف ہانکیں جائیں گے تو وہ روک لیے جائیں گے
4 Ahsanul Bayan
اور جس دن (١) اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان (سب) کو جمع کر دیا جائے گا۔ (۲)
١٩۔١ یہاں اذکر محذوف ہے وہ وقت یاد کرو جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کے فرشتے جمع کریں گے یعنی اول سے آخر تک کے دشمنوں کا اجتماع ہوگا۔
١٩۔١ ای یحبس اولھم علی آخرھم لیلا حقوا (فتح القدیر) یعنی ان کو روک روک کر اول وآخر کو باہم جمع کیا جائے گا اس لفظ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ النمل آیت نمبر ۱۷ (وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ) کا حاشیہ
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کرلیئے جائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف ﻻئے جائیں گے اور ان (سب) کو جمع کر دیا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف جمع کئے جائیں گے اور پھر ترتیب وار کھڑے کئے جائیں گے (یا پھر روکے جائیں گے)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جس دن دشمنانِ خدا کو جہّنم کی طرف ڈھکیلا جائے گا پھر انہیں زجر و توبیخ کی جائے گی
9 Tafsir Jalalayn
اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے
آیت نمبر 19 تا 25
ترجمہ : اور وہ دن یاد کرو کہ جب اللہ کے دشمن جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے (یَحْشُرُ ) میں یاء اور نون مفتوح اور شین کے ضمہ کے
ساتھ اور (اَعْدَاءَ ) کے (آخری) ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ یہاں تک کہ جب وہ جہنم کے قریب آجائیں گے ان کے خلاف ان کے کان اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے یہ (لوگ) اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ وہ جواب دیں گے ہمیں اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہر چیز کو جس کو چاہا بولنے کی طاقت بخشی اسی نے تمہیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے، کہا گیا ہے کہ وہ (یعنی وھو خلَقَکم اول مرّۃ الخ) کھالوں کا کلام ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جیسا کہ آئندہ آنے والا کلام (یعنی وما کنتم تستترون الخ) (اللہ کا ہے) اور اللہ کے کلام کا یہ موقع ماقبل (یعنی اَنْطَقَنَا اللہ الخ) کو قریب (الی الفہم) کرنے کے لئے ہے، بایں طور کہ جو ذات تم کو ابتداءً پیدا کرنے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے وہ تمہاری کھالوں اور اعضاء کو قوت گویائی عطا کرنے پر بھی قادر ہے، اور تم ارتکاب فواحش کے وقت اس وجہ سے پوشیدہ رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے اس لئے کہ تم اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں تمہارے گواہی دیں گے، لیکن تم ارتکاب فواحش کو (لوگوں سے) چھپاتے وقت یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کررہے ہو ان میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بیخبر ہے، تمہاری اسی بدگمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کررکھی تھی تمہیں ہلاک کردیا (ذٰلکم) مبتداء ہے ظَنّکُمْ اس سے بدل ہے، بدل کی صفت اور (مبتداء کی) خبر اَرْدٰکُمْ ہے اَرْدٰکُمْ ای اَھْلَکَکُمْ اور بالآخر تم زیاں کاروں میں ہوگئے، اب اگر یہ عذاب پر صبر کریں تب بھی ان ٹھکانہ جہنم ہی ہے، اور اگر وہ خوشنودی حاصل کرنا چاہیں گے تو وہ خوشنودی حاصل کرنے والوں میں نہ ہوں گے (یعنی خوشنودی حاصل نہ کرسکیں گے) اور شیاطین میں سے ہم نے ان کے کچھ مصاحب مقرر کر رکھے تھے جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال یعنی امور دنیا اور اتباع شہوات اور امر آخرت یعنی ان کا قول (عقیدہ) لاَ بَعْثَ وَلَا بَعْثَ وَلَا حِسَابَ کو ان کی نظر میں مستحسن بنا رکھا تھا، ان لوگوں کے حق میں اللہ کا قول (یعنی) وعدۂ عذاب اور وہ لَأمْلَئنّ جھنّم (لآیۃ) ہے پورا ہو کر رہا، حال یہ ہے جو ان سے پہلے جن وانس میں سے ہلاک ہوچکے ہیں بلاشبہ وہ بھی خسارے میں رہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : نَحْشُرُجمع متکلم، نون کے فتحہ اور شین کے ضمہ کے ساتھ، اس صورت میں اَعْدَاءَ کا آخری ہمزہ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا، دوسری قراءت جس کو مفسر علام نے مشہور ہونے کی وجہ سے ترک کردیا ہے وہ یُحْشَرُ یاء کے ضمہ اور شین کے فتحہ کے ساتھ مضارع واحد مذکر غائب مجہول، اس صورت میں اعداءُ کا آخری ہمزہ نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوگا۔
قولہ : الی النار ای الیٰ موقَف الحساب۔
قولہ : یُسَاقُوْنَ قاضی بیضاوی نے یُوْزَعُوْنَ کی تفسیر یُحْبَسُ اَوَّلُّھُمْ علیٰ آخِرِھم سے کی ہے مگر مقصد دونوں کا ایک ہی ہے۔
قولہ : یُوْزَعُوْنَ ، وَزْعٌ (ن) سے جمع مذکر غائب مضارع مجہول ان کو جمع کیا جائے گا، یعنی آگے والوں کو روک کو رکھا جائے گا تاکہ سب ایک ساتھ جمع ہو کر چلیں، اس سے کثرت کی طرف بھی اشارہ ہے۔
قولہ : یَسْتَعْتَبُوْا جمع مذکر غائب مضارع مجزوم، استعتاب (استفعال) سے صاحب کشاف کی تفسیر زیادہ واضح ہے، علامہ محلی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے یعنی اگر وہ اللہ کے رضا مند ہونے کی طلب کریں گے یعنی اس جگہ استعتاب عُتْبیٰ سے بنا ہے نہ کہ اعتاب سے، اِعتاب سے، اس لئے کہ وہ لوگ اللہ کو رضا مند کرنے کی طلب کسی اور سے نہیں بلکہ خود اللہ ہی سے کریں گے۔
قولہ : قَیَّضْنَا ای ھَیَّأنا وقدّرنا ماضی جمع متکلم معروف، مصدر تَقْیِیْضُ (تفعیل) مادہ قَیْضٌ، قَیٌضٌ کے معنی ہیں انڈے کا چھلکا، انڈے کا چھلکا چونکہ انڈے سے متصل، چمٹا ہوا ہوتا ہے، اسی مناسبت سے تَقْیِیْض کے معنی ہوئے ساتھ لگا دینا، مسلط کردینا۔
قولہ : فِی اممٍ ، فی بمعنی مع بھی ہوسکتا ہے عَلَیْھِمْ کی ضمیر مجرور سے حال ہے ای کائنین مع جملۃ اممٍ ۔
قولہ : من اَنْ یَشْھَدَ عَلَیْکم یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یَشْھَدَ نزع خافض کی وجہ سے منصوب ہے، اور وہ خافض مِنْ ہے، اس لئے کہ تَسْتَتِرُوْنَ متعدی بنفسہ نہیں ہے۔
قولہ : عند اِسْتَتَارِکُمْ ای من الناس ای مع عَدَمِ استتار کم مِنْ اَعْضَاءِ کم اعضاء سے استتار کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اس فعل ہی کو ترک کردیا جائے۔ قولہ : فَاِنْ یَصْبِرُوْا۔
سوال : جب مشرکین کے لئے خلود فی النار ہرحال میں دائمی اور لازمی ہے، خواہ صبر کریں یا نہ کریں تو پھر اِنْ یَصْبِرُوْا کے ساتھ مقید کرنے کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : آیت میں حذف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے کہ فَاِنْ یَصْبِرُوْا اَوْلاَ یَصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًی لَّھُمْ علم اور شہرت کی وجہ سے مقابل کو
حذف کردیا گیا ہے، اس لئے کہ جب صبر کی صورت میں جہنم ٹھکانہ ہوگا تو عدم صبر کی صورت میں بطریق اولیٰ ہوگا۔
قولہ : وَقَیَّضْنَا لَھُمْ ای للقریش لہٰذا فی اممٍ کہنا درست ہوگیا۔
تفسیر وتشریح
یوم۔۔ اللہ . یہاں اذکر فعل محذوف ہے، جیسا کہ شارح نے ظاہر کردیا ہے یعنی وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے کہ جب
اللہ کے تمام دشمنوں کو جہنم کے فرشتے جمع کریں گے حَتّٰی اِذَا مَا جَاءُ وْھَا (الآیۃ) یعنی مشرکین جب شرک کرنے کا انکار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگادیں گے۔
انسان کے اعضاء کی محشر میں گواہی : صحیح مسلم میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ کو ہنسی آگئی، پھر آپ نے فرمایا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہوں ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں، آپ نے فرمایا مجھے ہنسی اس کلام پر آگئی جو میدان حشر اور موقف حساب میں بندہ اپنے رب سے کرے گا، بندہ عرض کرے گا، اے میرے پروردگار ! کیا آپ نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بیشک دی ہے، اس پر بندہ کہے گا اگر یہ بات ہے تو میں اپنے حساب و کتاب کے معاملہ میں اور کسی کی گواہی پر مطمئن نہیں ہوں گا، بجز اس کے کہ میرے وجود ہی میں سے کوئی گواہ کھڑا ہو، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، کَفیٰ بِنَفْسِکَ الیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبَا اچھا تو تم اپنا حساب خود ہی کرلو، اس کے بعد اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی، اور اعضاء وجوارح سے کہا جائے گا کہ تم اس کے اعمال بتلاؤ، ہر عضو بول اٹھے گا اور سچی گواہی پیش کردے گا، اس کے بعد اس کی زبان کھول دی جائے گی، تو یہ خود اپنے اعضاء پر نازاض ہو کر کہے گا، بُعْدًا لَکُنَّ وسُحْقًا فَعَنْکُنَّ اُنا ضِلُ تمہارا ناس ہو، میں نے دنیا میں جو کچھ کیا وہ تم کو آرام و راحت پہنچانے کے لئے تھا، اب تم ہی میرے خلاف گواہی دینے لگے۔
سوال : شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاَبْصَارُھُمْ وَجُلُوْ دُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ اس آیت میں تین حواس کے گواہی دینے کا ذکر ہے، اس کی کیا وجہ ہے ؟ جبکہ بدن انسانی میں حواس ظاہرہ پانچ ہیں، (١) قوۃ سامعہ (٢) قوۃ باصرہ (٣) قوۃ ذائقہ (٤) قوۃ شامہ (٥) قوۃ لامسہ۔
جواب : باقی حواس یعنی قوۃ ذائقہ اور قوۃ شامہ کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ یہ دونوں قوۃ لامسہ میں داخل ہیں، اس لئے کہ چکھنا اس تک ممکن نہیں جب کہ شئ کو زبان پر نہ رکھا جائے اور زبان کی جلد سے لمس نہ کرے، اسی طرح سونگھنا، اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ شئ ہوا میں تحلیل ہو کو ناک کی اس جلد سے مس نہ کرے، جس میں قدرت نے قوت شامہ رکھی ہے، اس طریقہ سے ” جلود “ کے لفظ میں تین حواس آجاتے ہیں۔
وما۔۔ تستترون (الآیۃ) اس کا مطلب یہ ہے کہ تم گناہ کا کام کرتے ہوئے لوگوں سے تو چھپنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس بات کا تمہیں کوئی خوف نہیں کہ تمہارے خلاف خود تمہارے اعضاء بھی گواہی دیں گے، کہ جن سے تم چھپنے کی ضرورت محسوس کرتے، اس کی وجہ سے ان کا بعث و نشور سے انکار اور اس پر عدم یقین تھا، اسی لئے تم اللہ کی حدود توڑنے اور اس کی نافرمانی کرنے میں بےباک اور جری تھے۔
ذلکم۔۔ الذی (الآیۃ) اور تمہارے اسی اعتقاد فاسد اور گمان نے کہ اللہ کو تمہارے عملوں کا علم نہیں ہوتا، تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا، کیونکہ اسی عقیدے اور گمان فاسد کی وجہ سے تم ہر قسم کا گناہ کرنے میں دلیر اور بےخوف ہوگئے تھے۔
شان نزول : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قریشی جمع ہوئے، فربہ بدن قلیل الفہم، ان میں سے ایک نے کہا کیا تم سمجھتے ہو کہ ہماری باتیں اللہ سنتا ہے ؟ دوسرے نے کہا ہماری جہری باتیں سنتا ہے، سری باتیں نہیں سنتا، تیسرے نے کہا اگر وہ ہماری جہری باتیں سنتا ہے تو ہماری سری (پوشیدہ) باتیں بھی ضرور سنتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة حٰمٓ السجدہ)
وقیضنا۔۔ قرناء . یہاں قُرَناء سے مراد شیاطین انس وجن ہیں، جو باطل پر اصراد کرنے والوں کے ساتھ لگ جاتے ہیں، جو ان کے سامنے کفر و معاصی کو خوبصورت کرکے پیش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ گمراہی کی دلدل میں پھنسے رہتے ہیں حتی کہ انہیں موت آجاتی ہے، اور وہ خسارۂ ابدی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
نکتہ : اصحاب ملا ہی اور اسباب مناہی بھی ” قرین سوء “ میں شامل ہیں، نیز ایسے اشغال جو خیر سے خالی اور اللہ سے بےپرواہ کرنے والے ہوں یہ بھی قرین سوء میں داخل ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے دشمنوں کے بارے میں خبر دیتا ہے، جنہوں نے اس کے ساتھ اور اس کی آیات کے ساتھ کفر کیا، اس کے رسولوں کی تکذیب اور ان کے خلاف جنگ کی کہ قیامت کے روز ان کا کتنا برا حال ہوگا۔ ان کو اکٹھا کیا جائے گا ﴿إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴾ ” آگ کی طرف، پس وہ روکے جائیں گے۔‘‘ ان کے پہلے شخص کو آخری شخص کے آنے تک روکے رکھا جائے گا اور آخری شخص پہلے شخص کی پیروی کرے گا، پھر نہایت سختی کے ساتھ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ وہ جہنم سے بچ نہیں سکیں گے۔ وہ اپنی مدد خود کرسکیں گے نہ ان کی مدد کی جا سکے گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss din ka dhiyan rakho jab Allah kay dushmanon ko jama ker kay aag ki taraf ley jaya jaye ga , chunacheh unhen toliyon mein baant diya jaye ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
انسان اپنا دشمن آپ ہے۔
یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہوگا اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے جیسے فرمان ہے ( وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا 86ۘ) 19 ۔ مریم :86) یعنی گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔ انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کردیا جائے گا۔ اور ان کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا، اس وقت یہ اپنے اعضا کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کریں گے۔ کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی حکم بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا۔ وہی تو تمہارا ابتداء پیدا کرنے والا ہے اسی نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کرسکتا ہے ؟ بزار میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دیئے پھر فرمایا تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے ؟ صحابہ نے کہا فرمایئے کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا۔ کہے گا کہ اے اللہ کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا۔ اللہ فرمائے گا کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے ؟ لیکن پھر بھی وہ بار بار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا۔ پس اتمام حجت کیلئے اس کی زبان بند کردی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو ۔ جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ میں تو تمہارے ہی بچاؤ کیلئے لڑ جھگڑ رہا تھا۔ (مسلم نسائی وغیرہ) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کافر و منافق کو حساب کیلئے بلایا جائے گا اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے تو قسمیں کھا کھا کر انکار کرے گا اور کہے گا اے اللہ تیرے فرشتوں نے وہ لکھ لیا ہے جو میں نے ہرگز نہیں کیا فرشتے کہیں گے فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں عمل نہیں کیا ؟ یہ کہے گا اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے ہرگز نہیں کیا۔ اب منہ پر مہر مار دی جائے گی اور اعضا بدن گواہی دیں گے سب سے پہلے اس کی داہنی ران بولے گی، (ابن ابی حاتم) ابو یعلی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں قیامت کے دن کافر کے سامنے اس کی بداعمالیاں لائی جائیں گی تو وہ انکار کرے گا اور جھگڑنے لگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ہیں تیرے پڑوسی جو شاہد ہیں۔ یہ کہے گا سب جھوٹے ہیں۔ فرمائے گا یہ ہیں تیرے کنبے قبیلے والے جو گواہ ہیں کہے گا یہ بھی سب جھوٹے ہیں۔ اللہ ان سے قسم دلوائے گا، وہ قسم کھائیں گے لیکن یہ انکار ہی کرے گا۔ سب کو اللہ چپ کرا دے گا اور خود ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی پھر انہیں جہنم واصل کردیا جائے گا۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک وقت تو وہ ہوگا کہ نہ کسی کو بولنے کی اجازت ہوگی نہ عذر معذرت کرنے کی۔ پھر جب اجازت دی جائے گی تو بولنے لگیں گے اور جھگڑے کریں گے اور انکار کریں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے۔ پھر گواہوں کو لایا جائے گا آخر زبانیں بند ہوجائیں گی اور خود اعضاء بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دیں گے۔ پھر زبانیں کھول دی جائیں گی تو اپنے اعضاء بدن کو ملامت کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوت گویائی دی اور ہم نے صحیح صحیح کہا پس زبانی اقرار بھی ہوجائے گا۔ ابن ابی حاتم میں رافع ابو الحسن سے مروی ہے کہ اپنے کرتوت کے انکار پر زبان اتنی موٹی ہوجائے گی کہ بولا نہ جائے گا۔ پھر جسم کے اعضاء کو حکم ہوگا تم بولو تو ہر ایک اپنا اپنا عمل بتادے گا کان، آنکھ، کھال، شرم گاہ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ۔ اور بھی اسی طرح کی بہت سی روایتیں سورة یٰسین کی آیت ( اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 65) 36 ۔ يس :65) ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ جنہیں دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں جب ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن ہم سے پوچھا تم نے حبشہ کی سرزمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے علماء کی ایک بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لئے ہوئے آرہی تھی انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا۔ وہ اٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی مکار تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے۔ اور ایک ایک عمل کھل جائے گا اس وقت تیرا اور میرا فیصلہ بھی ہوجائے گا۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے اس نے سچ کہا اس نے سچ کہا اس قوم کو اللہ تعالیٰ کس طرح پاک کرے جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے ؟ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ ابن ابی الدنیا میں یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے، جب یہ اپنے اعضا کو ملامت کریں گے تو اعضاء جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے اعمال دراصل کچھ پوشیدہ نہ تھے اللہ کے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے تم کفر و معاصی میں مستغرق رہتے تھے اور کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ تم سمجھے ہوئے تھے کہ ہمارے بہت سے اعمال اس سے مخفی ہیں، اسی فاسد خیال نے تمہیں تلف اور برباد کردیا اور آج کے دن تم برباد ہوگئے۔ مسلم ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ میں کعبتہ اللہ کے پردے میں چھپا ہوا تھا جو تین شخص آئے بڑے پیٹ اور کم عقل والے ایک نے کہا کیوں جی ہم جو بولتے چالتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا اگر اونچی آواز سے بولیں تو تو سنتا ہے اور آہستہ آواز سے باتیں کریں تو نہیں سنتا۔ دوسرے نے کہا اگر کچھ سنتا ہے تو سب سنتا ہوگا میں نے آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر آیت ( وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ 22) 41 ۔ فصلت :22) ، نازل ہوئی۔ عبد الرزق میں ہے منہ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے پاؤں اور ہاتھ بولیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ہے کہ میرے ساتھ میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ حضرت حسن اتنا فرما کر کچھ تامل کرکے فرمانے لگے جس کا جیسا گمان اللہ کے ساتھ ہوتا نیک ظن ہوتا ہے وہ اعمال بھی اچھے کرتا ہے اور کافر و منافق چونکہ اللہ کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں وہ اعمال بھی بد کرتے ہیں۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ نیک ظن ہو۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ برے خیالات رکھے اللہ نے انہیں تہ وبالا کردیا۔ پھر یہی آیت آپ نے پڑھی، آگ جہنم میں صبر سے پڑے رہنا اور بےصبری کرنا ان کیلئے یکساں ہے۔ نہ ان کی عذر معذرت مقبول نہ ان کے گناہ معاف۔ یہ دنیا کی طرف اگر لوٹنا چاہیں تو وہ راہ بھی بند جیسے اور جگہ ہے جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم پر ہماری بدبختی چھا گئی۔ یقینا ہم بےراہ تھے۔ اے اللہ اب تو یہاں سے نجات دے۔ اگر ایسا کریں تو پھر ہمیں ہمارے ظلم کی سزا دینا۔ لیکن جناب باری کی طرف سے جواب آئے گا کہ اب یہ منصوبے بےسود ہیں۔ دھتکارے ہوئے یہیں پڑے رہو خبردار جو مجھ سے بات کی۔