اور اگر ہم اس (کتاب) کو عجمی زبان کا قرآن بنا دیتے تو یقیناً یہ کہتے کہ اِس کی آیتیں واضح طور پر بیان کیوں نہیں کی گئیں، کیا کتاب عجمی ہے اور رسول عربی ہے (اِس لئے اے محبوبِ مکرّم! ہم نے قرآن بھی آپ ہی کی زبان میں اتار دیا ہے۔) فرما دیجئے: وہ (قرآن) ایمان والوں کے لئے ہدایت (بھی) ہے اور شفا (بھی) ہے اور جو لوگ ایمان نہیں رکھتے اُن کے کانوں میں بہرے پن کا بوجھ ہے وہ اُن کے حق میں نابینا پن (بھی) ہے (گویا) وہ لوگ کسی دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں،
English Sahih:
And if We had made it a foreign [i.e., non-Arabic] Quran, they would have said, "Why are its verses not explained in detail [in our language]? Is it a foreign [recitation] and an Arab [messenger]?" Say, "It is, for those who believe, a guidance and cure." And those who do not believe – in their ears is deafness, and it is upon them blindness. Those are being called from a distant place.
1 Abul A'ala Maududi
اگر ہم اِس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے "کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی" اِن سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے اُن کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے اُن کا حال تو ایسا ہے جیسے اُن کو دور سے پکارا جا رہا ہو
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن کرتے تو ضرور کہتے کہ اس کی آیتیں کیوں نہ کھولی گئیں کیا کتاب عجمی اور نبی عربی تم فرماؤ وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور وہ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ٹینٹ (روئی) ہے اور وہ ان پر اندھا پن ہے گویا وہ دور جگہ سے پکارے جاتے ہیں
3 Ahmed Ali
اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بنا دیتے توکہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی گئیں کیا عجمی کتاب اور عربی رسول کہہ دو یہ ایمان داروں کے لیے ہدایت اور شفا ہے او رجو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کان بہرے ہیں اور وہ قرآن ان کے حق میں نابینائی ہے وہ لوگ (گو یاکہ) دور جگہ سے پکارے جا رہے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بناتے تو کہتے (۱) کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی گئیں؟ (۲) یہ کیا کہ عجمی کتاب اور آپ عربی رسول؟ (۳) آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں (٤)
٤٤۔۱ یعنی عربی کے بجائے کسی اور زبان میں قرآن نازل کرتے۔ ٤٤۔۲ یعنی ہماری زبان میں اسے بیان کیوں نہیں کیا گیا جسے ہم سمجھ سکتے کیونکہ ہم تو عرب ہیں عجمی زبان نہیں سمجھتے ٤٤۔۳ یہ بھی کافروں ہی کا قول ہے کہ وہ تعجب کرتے کہ رسول تو عربی ہے اور قرآن اس پر عجمی زبان میں نازل ہوا ہے مطلب یہ ہے کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل فرما کر اس کے اولین مخاطب عربوں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا ہے اگر یہ غیر عربی زبان میں ہوتا تو وہ عذر کر سکتے تھے ٤٤۔٤ یعنی جس طرح دور کا شخص، دوری کی وجہ سے پکارنے والے کی آواز سننے سے قاصر رہتا ہے، اسی طرح ان لوگوں کی عقل و فہم میں قرآن نہیں آتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر ہم اس قرآن کو غیر زبان عرب میں (نازل) کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں (ہماری زبان میں) کیوں کھول کر بیان نہیں کی گئیں۔ کیا (خوب کہ قرآن تو) عجمی اور (مخاطب) عربی۔ کہہ دو کہ جو ایمان لاتے ہیں ان کے لئے (یہ) ہدایت اور شفا ہے۔ اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی (یعنی بہراپن) ہے اور یہ ان کے حق میں (موجب) نابینائی ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بناتے تو کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی گئیں؟ یہ کیا کہ عجمی کتاب اور آپ عربی رسول؟ آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں ﻻتے ان کے کانوں میں تو (بہراپن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھاپن ہے، یہ وه لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اگر ہم اس (قرآن) کو عجمی زبان میں بنا کر نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف (کھول کر) کیوں بیان نہیں کی گئیں؟ آپ(ص) کہہ دیجئے کہ یہ ایمان لانے والوں کیلئے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی (بہرہ پن) ہے اور وہ ان کے حق میں نابینائی ہے اور یہ لوگ (بہرہ پن کی وجہ سے گویا) بہت دور راستہ کی جگہ سے پکارے جا رہے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں نازل کردیتے تو یہ کہتے کہ اس کی آیتیں واضح کیوں نہیں ہیں اور یہ عجمی کتاب اور عربی انسان کا ربط کیا ہے. تو آپ کہہ دیجئے کہ یہ کتاب صاحبان ه ایمان کے لئے شفا اور ہدایت ہے اور جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے کانوں میں بہرا پن ہے اور وہ ان کو نظر بھی نہیں آرہا ہے اور ان لوگوں کو بہت دور سے پکارا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر ہم اس قرآن کو غیر زبان عرب میں (نازل) کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اسکی آیتیں (ہماری زبان میں) کیوں کھول کر بیان نہیں کی گئیں کیا (خوب کہ قرآن تو عجمی) اور (مخاطب) عربی کہہ دو کہ جو ایمان لاتے ہیں ان کے لئے (یہ) ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی (یعنی بہراپن) ہے اور یہ ان کے حق میں (موجب) نابینائی ہے گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے اپنی کتاب رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر، آپ کی قوم کی زبان، عربی میں نازل کی تاکہ اس سے ان پر راہ ہدایت واضح ہوجائے۔ اس کتاب کریم کا یہ وصف زیادہ اعتنا کا موجب ہے اور اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ سرتسلیم خم کر کے اسے قبول کیا جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب عظیم کو کسی عجمی زبان میں بھیجا ہوتا تو اس کی تکذیب کرنے والے کہتے: ﴿ لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ﴾ اس کی آیات کو واضح کیوں نہ کیا گیا، اس کی تفسیر کیوں نہ بیا ن کی گئی ﴿ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ﴾ ” یہ کیا بات ہے کہ کتاب عجمی زبان میں اور مخاطب عربی؟“ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربی ہیں اور کتاب عجمی ہو؟ یہ نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے اپنی کتاب سے ہر امر کی نفی کردی جس میں اہل باطل کے لئے کوئی شبہ ہوسکتا ہے اور اسے ایسے اوصاف سے موصوف فرمایا جو ان پر اطاعت کو واجب ٹھہراتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اہل ایمان جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق سے نوازا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بلند درجے پاتے ہیں اور دیگر لوگوں کے احوال اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ﴾” کہہ دیجیے کہ جو ایمان لاتے ہیں، ان کے لئے یہ ہدایت اور شفا ہے۔“ یعنی یہ کتاب انہیں رشد و ہدایت اور راہ راست دکھاتی ہے اور انہیں علوم نافعہ کی تعلیم دیتی ہے جس سے ہدایت کامل حاصل ہوتی ہے۔ اس کتاب عظیم میں ان کے جسمانی اور روحانی امراض کی شفا ہے کیونکہ کتاب، برے اخلاق اور برے اعمال پر ان کی زجر و توبیخ کرتی ہے اور انہیں ایسی خالص توبہ پر آمادہ کرتی ہے جو گناہوں کو دھوکر قلوب کو شفا بخشتی ہے۔ ﴿ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾ ” اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے“ قرآن پر ﴿ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ ﴾ ” ان کے کانوں میں بوجھ ہے۔“ یعنی وہ اس کو سننے سے محروم اور اس سے روگردانی کا شکار ہیں۔ ﴿ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ﴾ ” یہ ان کے حق میں اندھا پن ہے“ جس کی وجہ سے انہیں رشد و ہدایت نظر آتی ہے نہ راہ راست ملتی ہے۔ یہ کتاب ان کی گمراہی میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ جب یہ لوگ حق کو ٹھکرا دیتے ہیں تو ان کے اندھے پن میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ان پر ایک اور تہہ چڑھ جاتی ہے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ﴾ ” یہ وہ ہیں جنہیں دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔“ یعنی جنہیں ایمان کے لئے پکارا اور اس کی طرف بلایا جا رہا ہو اور وہ جواب نہ دے سکتے ہوں ایسے لوگ اس شخص کی مانند ہیں جسے بہت دور سے پکارا جا رہا ہو، جسے پکارنے والے کی آواز سنتی ہو نہ وہ جواب دے سکتا ہو۔ مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جو قرآن پر ایمان نہیں لاتے وہ اس کی راہنمائی اور اس کی روشنی سے مستفید ہوسکتے ہیں نہ انہیں اس عظیم کتاب سے کوئی بھلائی حاصل ہوسکتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اعراض اور کفر کے سبب سے خود اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے بند کر لئے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar hum iss ( Quran ) ko ajmi Quran banatay to yeh log kehtay kay : iss ki aayaten khol khol ker kiyon nahi biyan ki gaeen-? yeh kiya baat hai kay Quran ajmi hai , aur payghumber arbi-? keh do kay : jo log emaan layen , unn kay liye yeh hidayat aur shifa ka saman hai , aur jo emaan nahi latay , unn kay kanon mein daat lagi hoi hai , aur yeh ( Quran ) unn kay liye andheray mein bhatakney ka saman hai . aesay logon ko kissi door daraz jagah say pukara jaa raha hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اس کے حکم احکام اس کے لفظی و معنوی فوائد کا بیان کر کے اس پر ایمان نہ لانے والوں کی سرکشی ضد اور عداوت کا بیان فرما رہا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے مطلب یہ ہے کہ نہ ماننے کے بیسیوں حیلے ہیں نہ یوں چین نہ ووں چین۔ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اترتا تو بہانہ کرتے کہ ہم تو اسے صاف صاف سمجھ نہیں سکتے۔ مخاطب جب عربی زبان کے ہیں تو ان پر جو کتاب اترتی ہے وہ غیر عربی زبان میں کیوں اتر رہی ہے ؟ اور اگر کچھ عربی میں ہوتی اور کچھ دوسری زبان میں تو بھی ان کا یہی اعتراض ہوتا کہ اس کی کیا وجہ ؟ حضرت حسن بصری کی قرأت ! عجمی ہے۔ سعید بن جبیر بھی یہی مطلب بیان کرتے ہیں۔ اس سے ان کی سرکشی معلوم ہوتی ہے۔ پھر فرمان ہے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے دل کی ہدایت اور ان کے سینوں کی شفا ہے۔ ان کے تمام شک اس سے زائل ہوجاتے ہیں اور جنہیں اس پر ایمان نہیں وہ تو اسے سمجھ ہی نہیں سکتے جیسے کوئی بہرا ہو۔ نہ اس کے بیان کی طرف انہیں ہدایت ہو جیسے کوئی اندھا ہو اور آیت میں ہے ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا 82) 17 ۔ الإسراء :82) ہمارا نازل کردہ یہ قرآن ایمان داروں کے لئے شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو تو ان کا نقصان ہی بڑھاتا ہے۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی دور سے کسی سے کچھ کہہ رہا ہو کہ نہ اس کے کانوں تک صحیح الفاظ پہنچتے ہیں نہ وہ ٹھیک طرح مطلب سمجھتا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً ۭ ۻ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ\017\01 ) 2 ۔ البقرة :171) یعنی، کافروں کی مثال اس کی طرح ہے جو پکارتا ہے مگر آواز اور پکار کے سوا کچھ اور اس کے کان میں نہیں پڑتا۔ بہرے گونگے اندھے ہیں پھر کیسے سمجھ لیں گے ؟ حضرت ضحاک نے یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کے بدترین ناموں سے پکارا جائے گا۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) ایک مسلمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جس کا آخری وقت تھا اس نے یکایک لبیک پکارا آپ نے فرمایا کیا تجھے کوئی دیکھ رہا ہے یا کوئی پکار رہا ہے ؟ اس نے کہا ہاں سمندر کے اس کنارے سے کوئی بلا رہا ہے تو آپ نے یہی جملہ پڑھا (اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 44 ) 41 ۔ فصلت :44) (ابن ابی حاتم) پھر فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب دی لیکن اس میں بھی اختلاف کیا گیا۔ انہیں بھی جھٹلایا اور ستایا گیا۔ پس جیسے انہوں نے صبر کیا آپ کو بھی صبر کرنا چاہئے چونکہ پہلے ہی سے تیرے رب نے اس بات کا فیصلہ کرلیا ہے کہ ایک وقت مقرر یعنی قیامت تک عذاب رکے رہیں گے۔ اس لئے یہ مہلت مقررہ ہے ورنہ ان کے کرتوت تو ایسے نہ تھے کہ یہ چھوڑ دیئے جائیں اور کھاتے پیتے رہیں۔ ابھی ہی ہلاک کردیئے جاتے۔ یہ اپنی تکذیب میں بھی کسی یقین پر نہیں بلکہ شک میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ لرز رہے ہیں ادھر ادھر ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں۔ واللہ اعلم۔