انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا اور اگر اسے برائی پہنچ جاتی ہے تو بہت ہی مایوس، آس و امید توڑ بیٹھنے والا ہو جاتا ہے،
English Sahih:
Man is not weary of supplication for good [things], but if evil touches him, he is hopeless and despairing.
1 Abul A'ala Maududi
انسان کبھی بھلائی کی دعا مانگتے نہیں تھکتا، اور جب کوئی آفت اِس پر آ جاتی ہے تو مایوس و دل شکستہ ہو جاتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اُکتاتا اور کوئی برائی پہنچے تو ناامید آس ٹوٹا
3 Ahmed Ali
انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے
4 Ahsanul Bayan
بھلائی کے مانگنے سے انسان تھکتا نہیں اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے (١)۔
٤٩۔١ یعنی دنیا کا مال واسباب، صحت وقوت، عزت و رفعت اور دیگر دنیاوی نعمتوں کے مانگنے سے انسان نہیں تھکتا، بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے۔ انسان سے مراد انسانوں کی غالب اکثریت ہے۔ ٤٩۔۲یعنی تکلیف پہنچنے پر فوراً مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے جب کہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے، وہ ایک تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے، ان کے سامنے ہر وقت آخرت ہی ہوتی ہے، دوسرے تکلیف پہنچنے پر بھی اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں ہوتے، بلکہ آزمائشوں کو بھی کفارہ سیأت اور رفع درجات کا باعث گردانتے ہیں، گویا مایوسی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہوجاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
بھلائی کے مانگنے سے انسان تھکتا نہیں اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
انسان بھلائی کی دعا کرتے ہوئے نہیں تھکتا اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو ایکدم بالکل مایوس و ناامید ہو جاتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
انسان بھلائی کی رَعا کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا ہے اور جب کوئی تکلیف اسے چھو بھی لیتی ہے تو بالکل مایوس اور بے آس ہوجاتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ میں انسان کی فطرت و طبیعت کا بیان ہے کہ وہ خیر پر صبر کرسکتا ہے نہ شر پر، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ اس حالت سے نکال کر حالت کمال میں منتقل کر دے۔ فرمایا : ﴿ لَّا يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ ﴾ یعنی انسان اللہ تعالیٰ سے اپنی فوز و فلاح، مال، اولاد اور دیگر دنیاوی مطالب و مقاصد کے لئے دعا کرتے ہوئے کبھی نہیں اکتاتا اور اس پر ہمیشہ عمل پیرا رہتا ہے۔ وہ قلیل یا کثیر کسی چیز پر قناعت نہیں کرتا، اگر اسے دنیا کی ہر چیز مل جائے تب بھی وہ مزید دنیا طلب کرتا رہے گا۔ ﴿ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ ﴾ ” اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچے۔“ یعنی بیماری، فقر اور مختلف مصائب وغیرہ اسے لاحق ہوں ﴿ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ ﴾ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ مصیبت اسے ہلاک کر ڈالے گی اور ایسے اسباب اختیار کرنے کی فکر کرتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ اس رویے سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے، ان لوگوں کو اگر بھلائی، نعمت اور کوئی محبوب چیز عطا ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور وہ اس چیز سے بھی ڈرتے ہیں کہ یہ نعمتیں کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج اور مہلت نہ ہوں۔ اگر انہیں اپنی جان، مال اور اولاد میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو صبر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔
11 Mufti Taqi Usmani
insan ka haal yeh hai kay woh bhalai maangney say nahi thakta , aur agar ussay koi burai choo jaye to aisa mayyus hojata hai kay her umeed chorr bethta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
انسان کی سرکشی کا حال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مال صحت وغیرہ بھلائیوں کی دعاؤں سے تو انسان تھکتا ہی نہیں اور اگر اس پر کوئی بلا آپڑے یا فقر و فاقہ کا موقعہ آجائے تو اس قدر ہراساں اور مایوس ہوجاتا ہے کہ گویا اب کسی بھلائی کا منہ نہیں دیکھے گا، اور اگر کسی برائی یا سختی کے بعد اسے کوئی بھلائی اور راحت مل جائے تو کہنے بیٹھ جاتا ہے کہ اللہ پر یہ تو میرا حق تھا، میں اسی کے لائق تھا، اب اس نعمت پر پھولتا ہے، اللہ کو بھول جاتا ہے اور صاف منکر بن جاتا ہے۔ قیامت کے آنے کا صاف انکار کرجاتا ہے۔ مال و دولت راحت آرام اس کے کفر کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے ( كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى ۙ ) 96 ۔ العلق :6) یعنی انسان نے جہاں آسائش و آرام پایا وہیں اس نے سر اٹھایا اور سرکشی کی۔ پھر فرماتا ہے کہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بد اعمالی پر بھلی امیدیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بالفرض اگر قیامت آئی بھی اور میں وہاں اکٹھا بھی کیا گیا تو جس طرح یہاں سکھ چین میں ہوں وہاں بھی ہوں گا۔ غرض انکار قیامت بھی کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مانتا بھی نہیں اور پھر امیدیں لمبی باندھتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ویسے ہی وہاں بھی رہوں گا۔ پھر ان لوگوں کو ڈراتا ہے کہ جن کے یہ اعمال و عقائد ہوں انہیں ہم سخت سزا دیں گے پھر فرماتا ہے کہ جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے جیسے فرمایا آیت ( فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 39) 51 ۔ الذاریات :39) اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے عریض کلام اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے وجیز کلام کہتے ہیں۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 12 ) 10 ۔ یونس :12) ، جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کردیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔